سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(157) سحری کی آزان کا کا ثبوت کیا ہے؟

  • 4160
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2356

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان المبارک میں سحری کی آزان کہی جاتی ہے، اس کا ثبوت کیا ہے؟اگر آذان کی بجائے لائوڈ سپیکر پر اعلان کر کے لوگوں کو بیدار کیا جائے تو کیا یہ جائز ہو گا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں تحریر کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی ﷺ کے دو مؤذن تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور ابن مکتوم رضی اللہ عنہما حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آذان کے متعلق علماء کے درمیان اختلاف ہے۔

کہ آیا وہ سحری کے لیے ہے، یا فجر کے لیے، صحیح بات یہی ہے کہ وہ فجر کے لیے تھے، کیونکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آذان سال بھر چلتی تھی۔ لہٰذا خاص سحری کے نام پر اذان کا کوئی ثبوت نہیں۔ لوگوں کو سپیکر کے ذریعہ بیدار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ امر بالمعروف کے ضمن میں آتا ہے۔ (اخبار اہل حدیث لاہور جلد ۱ شمارہ ۴۷۔ ۱۱ شوال المکرم ۱۴۹۰ھ)

(از شیخ الحدیث مولانا ابو البرکات احمد گوجرانوالہ)

توضیح:

مفی صاحب نے فرمایا ہے کہ نبی ﷺ کے دو مؤذن تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور ابن مکتوم رضی اللہ عنہ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے متعلق علماء کے اختلاف کا ذکر کرکے فرمایا ہے کہ سحری کی اذان کا کوئی ثبوت نہیں۔ حالانکہ بلوغ المرام میں حدیث ہے کہ

 ((عن ابن عمر رضی اللہ عنه وعَائشة رضی اللہ عنہا قالا قال رسول اللّٰہ ﷺ ان بلا لا یؤذن بلیل فکلوا واشربوا حتی ینادی ابن مکتوم وکان رجلا اعمٰی لا ینادی حتی یقال له اصبحت اصبحت متفق علیه وفی اٰخرہ ادراج))

’’ابن عمر رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلال رات کو اذان دیتا ہے، پس سحری کھائو پیو، یہاں تک کہ عبد اللہ بن ام مکتوم اذان دے، اور ابن ام مکتوم نابینا آدمی تھا۔ اور اخیرکا کلام وکان رجلا اعمیٰ اخیر تک راوی کا قول ہے۔‘‘

اس حدیث سے صاف اور صریح ثابت ہوتا ہے کہ حضرت بلال کی اذان رات کے کچھ حصہ میں کھانے پینے کے لیے ہوتی تھی۔ بخاری و مسلم کے مقابلہ تمام روایتیں مرجوح ہیں۔ مفتی صاحب نے علماء کرام کے اختلاف کو بلا مرحج ترجیح دیتے ہوئے کہہ دیا کہ سحری کے نام پر اذان کا کوئی ثبوت نہیں۔

سبل السلام صفحہ ۷۷ جلد۱۔ اس حدیث کے تحت لکھا ہے۔

((وفیه شرعیة الاذان قبل الفجر لا لما شرع الاذان کما سلف للاعلام بدخول الوقت ولدعاء السامعین لحضور الصلوٰة وھٰذا الاذان الذی قبل الفجر قد اخبر النبی ﷺ بوجه شرعیة بقوله لیوقظ نائمکم ویرجع قائمکم رواہ الجماعة الا الترمذی والقائم ھو الذی یصلی صلوٰة اللیل ورجوعه عودہ الی نومه او قعودہ عن صلوته اذا سمع الاذان فلیس للاعلام بدخول ولا لحضور الصلوٰة فذکر الاختلاف فی المسئلة والاستدلال للمانع وللمجاز ولا یلتفت الیه من ھمه العمل بما یثبت))

’’اس میں فجر سے پہلے اذان دینے کا ثبوت ہے، مگر یہ اذان اس خاطر نہیں۔ جواذان کی اصل غرض ہے، کیونکہ اصل غرض اذان کی وقت نماز کا اعلان اور سامعین کو حضور نماز کی وحدت ہے، اور اس اذان کی بابت رسول اللہ ﷺ نے خبر دی ہے کہ سوئے ہوئے کو جگانے کی خاطر اور قائم کو لوٹانے کی خاطر ہے۔ اس کو ترمذی کے سوا باقی جماعت نے روایت کیا ہے، اور قائم سے مراد جو رات کو نماز پڑھتا ہے، اور اس کے لوٹانے سے مراد یہ ہے کہ وہ سو جائے یا نماز سے فارغ ہو کر بیٹھ جائے۔ جب کہ اذان سنے۔ پس یہ اذان نہ وقت نماز کی اطلاع کے لیے ہے، نہ حضورنماز کی خاطر ہے، پس اس مسئلہ میں جواب عدم جواز کے جھگڑے میں اور مانع اور مجوز کے استدلال کی بحث میں وہ شخص نہیں پڑ سکتا۔ جس کا مقصد ثابت شدہ شئے پر عمل ہے۔‘‘

 اس بیان سے ایک تو سحری کی اذان ثابت ہوئی۔ دوم یہ معلوم ہوا کہ اس اذان کی عرض وہ نہیں جو عام اذان کی ہے، بلکہ جیسا حدیث کے الفاظ سے واضح ہے، یہ اذان اس خاطر ہے کہ رات کو نماز پڑھنے والا ذرا آرام لے کر نماز فجر کے لیے تیار ہو جائے، او سویا ہوا اٹھ کر نماز کی تیاری کر سکے کیونکہ اکثر انسان رات کی نیند سے بیدار ہوتا ہے۔ تو پہلے نیند کی سستی میں اٹھتے اٹھتے کچھ وقت صرف ہوتا ہے۔ پھر اس کی کئی طرح کی حاجتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً پائخانہ۔پیشاب۔ یا غسل وغیرہ اور صبح کے وضو کے لیے بھی کچھ وقت زیادہ چاہیے۔ بوجہ لمبی نیند۔ منہ، ناک وغیرہ میں جو فضلات جمع ہو جاتے ہیں۔ مسواک وغیرہ سے اُن کی صفائی ان کاموں کے لیے کافی وقت چاہیے۔ اس کا اندازہ تقریباً ایک گھنٹہ ہو سکتا ہے، سحری کے وقت کی اذان اسی طرح کے لیے مقرر کی گئی ہے، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ صرف رمضان کے لیے مخصوص نہیں۔ بلکہ بارہ ماہ کے لیے ہے، اور رمضان کی بجائے دوسرے مہینوں میں زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ کیونکہ رمضان میں لوگ کھانے پکانے کے لیے پہلے ہی بیدار ہوتے ہیں۔ بخلاف غیر رمضان کے۔ ہاں رمضان شریف میں اس کی اہمیت اس لحاظ سے بڑھ جاتی ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کو سحری کے وقت کی اطلاع ہو۔ اور معلوم ہو جائے کہ صبح قریب ہے،کھانے پینے سے جلدی فارغ ہو جائیں۔ اور رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کہ تمہیں بلال کی اذان، کھانے پینے سے نہ روکے، اس سے یہ مقصد نہیں کہ یہ اذان رمضان ہی کے لیے مخصوص ہے، بلکہ اس فرمان کی وجہ یہ ہے کہ رمضان شریف میں اشتباہ کا خطرہ تھا کہ لوگ پہلی اذان سن کر کھانے پینے سے نہ رک جائیں اس لیے آپ نے اس اشتباہ کو دور فرمایا۔

اسی بنا پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں فرماتے ہیں۔ ((وادعی ابن القطن ان ذلك کان فی رمضان خاصة وفِیْه نظر)) (فتح الباری جز ۳ صفحہ ۳۴۶) ابن قطان نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ اذان شریف سے مخصوص ہے۔ لیکن ان کے اس دعویٰ میں کلام ہے۔ نیل الاوطار میں ہے۔ ((وقد اختلف فی اذان بلال بلیل ھل کان فی رمضان فقط ام فی جمعیع الاوقات فارعٰی ابن القطان الاول قال الحافظ فیه نظر نیل الاوطار ج ۱)) ’’بلال رضی اللہ عنہ کی اذان جو رات کو ہوتی تھی۔ اس میں اختلاف ہے کہ رمضان شریف کے لیے خاص تھی۔ یا تمام اوقات میں ہو سکتی ہے، ابن قطا ن رحمہ اللہ نے اول کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ابن قطان کے اس دعویٰ میں کلام ہے، اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دونوں اذانوں میں بہت زیادہ فاصلہ نہ ہو تا تھا۔ اگر پہلی اذان بہت پہلے ہوتی تو نبی ﷺ کو لوگوں پر اشتباہ کا خطرہ نہ ہوتا کہ یہ فجر کی اذان ہے، اور نہ آپ کو اس اعلان کی ضرورت پیش آتی کہ بلال کی اذان تمہیں کھانے پینے سے نہ روکے۔ کیونکہ فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ خود ہی سمجھ جاتے کہ ابھی کافی رات باقی ہے۔ فقط ہذا ما عندی واللہ اعلم وعلمہٗ اتم

(الراقم علی محمد سعیدی جامعہ سعیدیہ خانیوال)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 429-433

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ