السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر رمضان میں عشاء کے وقت کسی کی موت واقعہ ہو جائے۔ اور میت صبح تک پڑی رہے تو اس احاطہ یا محلہ والے سحری پکا کر کھا سکتے ہیں یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محلہ یا احاطہ والے نہیں بلکہ گھر والے بھی کھا سکتے ہیں۔ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ کھاناپکا کر کھا لینا جائز ہے۔ (اخبار اہل حدیث سوہدرہ ج ۸ ش ۱۹۔ ۵ شوال ۱۳۷۵ھ)
توضیح:… میت کے پاس کھانا اور پکانا بخاری شریف جلد ۱ ص ۱۷۳ کی مندرجہ ذیل حدیث سے جائز ثابت ہوتا ہے۔
((انه سمع انس بن مالك یقول اشتکیٰ ابن لابی طلحة قال فمات وابو طلحة خارج فلام رأت امرأته (ھی ام سلیم ام انس) انه قدمات ھیّات شیئا وَعَظَّتْه فی جانب البیت (ای جعلته) فلما جاء ابو طلحة قال کیف الغلام قالت قدھا نفسه وسکن وارجوان یکون قد استراح وظن ابو طلحة انھا صادقة قال فبات ای فجامع فلما اصبح اغتسل فلما اراد ان یضرج اعلمته انه قدمات فصلی مع النبی ﷺ ثم اخبر لانبی ﷺ بما کان منھا فقال رسول اللّٰہ ﷺ لعل اللّٰہ ان یبارك لھما فی لیلتھا))
’’یعنی حضرت انس فرماتے ہیں کہ میری والدہ ام سلیم نے مصیبت کے وقت بھی غم کو ظاہر نہیں کیا۔ حتی کہ ابو طلحۃ کا بیٹا جو بیما ر تھا وہ فوت ہو گیا تو ام سلیم طلحۃ کی بیوی نے فوت شدہ لڑکے کو مکان کے طرف لیٹا دیا۔ اور کھانا تیار کیا۔ اور اپنے آپ کو زینت سے آراستہ کیا۔ جب ابو طلحۃ باہر سے گھر آئے تو بیٹے کا پوچھا تو مائی نے کہا کہ اب آرام سے سو گیا ہے، ابو طلحۃ نے عورت کو صادقہ تصور کر کے اس کے ساتھ رات گذاری صبح کے وقت غسل کیا۔ جب مسجد کو جانے لگا تو بیٹے کی وفات کی خبر دی نماز کے بعد ابو طلحہ نے نبی ﷺ سے بیان کیا تو آپ نے برکت کی دعا فرمائی، اور کھانے وغیرہ سے منع نہیں فرمایا۔ واللہ اعلم۔‘‘ (الراقم علی محمد سعیدی خانیوال)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب