السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رمضان المبارک میں بعض لوگوں کا یہ طرز عمل ہے کہ وہ اول شب میں تراویح ادا کر لیتے ہیں۔ مگر وتر نہیں پڑھتے۔ پھر آخر شب میں اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں۔ اور اسی کے ساتھ وتر بھی۔ کچھ لوگ اس پر معترض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ
الف: رسو ل اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو جو تین دن تراویح کی نماز پڑھائی تھی۔ اس کے متعلق حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ ((صلی بنا رسول اللّٰہ ﷺ فی شھر رمضان ثمان رکعات فاوتر)) سے ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے، کہ تراویح کے ساتھ ہی آپ نے وتر بھی پڑھ لی تھی۔ لہٰذا یہ طریقہ کہ تراویح پڑھ کر وتر نہ پڑھی جائے۔ بلکہ اس کو تہجد کے ساتھ اخیر رات میں پڑھا جائے، اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔
ب: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے خاص رمضان کے متعلق سوال کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کی کیفیت کیا تھی تو انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کی نماز رمضان ہو یا غیر رمضان۔ عموماً گیارہ رکعت مع وتر سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ معلوم ہوا کہ رمضان میں بھی آپ کے قیام کی کل رکعتیں صرف گیارہ ہوتی تھیں۔ پس مذکورہ بالاطرز عمل اس حدیث کے بھی خلاف ہے۔
ج: جب تہجد اور تراویح درحقیقت دونوں ایک چیز ہیں تو پھر اول شب میں پڑھ لینے کے بعد آخر شب میں دوبارہ پڑھنا گویا ایک ہی نماز کو دو مرتبہ پڑھنا ہے۔ اور یہ بروایت ابن عمر رضی اللہ عنہ ممنوع ہے، ((حیث قال سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول لا تصلوا صلوٰۃ فی یوم مرتین)) (ابو داؤد)
اب سوال یہ ہے کہ کیا معترضین کے یہ استدلالات کی بنا پر مذکورہ بالا طرز عمل کو ناجائز یا خلاف اولیٰ کہنا ٹھیک ہے، اگر ٹھیک ہے، تو پھر اس باب میں افضل صورت کیا ہے؟ (حافظ عبد التواب از کلکتہ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حنفیہ و شافعیہ وغیرہ کے نزدیک تہجد اور تراویح کے درمیان مصداق اور مفہوم دونوں اعتبار سے فرق ہے، العرف الشذی تقریر ترمذی از مولوی انور شاہ مرحوم میں ہے۔
((وبین التراویح والتہجد فی عہد علیہ السلام لم یکن فرق فی الرکعات بل فی الوقت والصفة ای التراویح تکون بالجماعة وفی المسجد بخلاف التھجد وان الشروع فی التراویح یکون فی اول اللیل وفی التھجد فی اٰخر اللیل انتہیٰ))
ہو سکتا ہے کہ جو لوگ اول شب میں تراویح ادا کرتے ہیں۔ اور آخر شب میں تہجد اور اس طرح تراویح اور تہجد کے درمیان جمع کرتے ہیں۔ وہ قائلین فرق کے ہم خیال ہوں، قائلین فرق بین التراویح والتہجد کہتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث مذکورہ فی السوال ضعیف ہے۔
((اٰثار السنن للنیموی وغیر ذلك من کتب الحنفیه)) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تہجد کا بیان ہے نہ تراویح کا بذل المجہود جلد نمبر ۲ صفحہ ۲۹۰ میں ہے۔
((ویشکل ھذا ای حدیث عائشة المشار الیه فی السوال بصلٰوة التراویح فانه ﷺ صلاھا ثلث لیال ترکھا بعذر فرضیتھا والجواب عنه ان ھذا الحدیث لا تعلق له بالتراویح لا نفیا ولا اثباتاً فکانھا صلوة اخری والاستدلال بھذا الحدیث علی ان التراویح ثمان رکعت لغو ھکذا کتب مولانا محمد یحیی المرحوم من تقریر شیخة انتہی یعنی بشیخه الشیخ رشید احمد الگنگوہی۔ وقال القاری قوله فی رمضان ای فی لیالیه وقت التہجد فلا یان فیه زیادة ما صلاھا بعد صلوٰة العشاء من صلوٰة التراویح انتہی ومرقاة۔ قلت حدیث لیس بضعیف بل ھو حسن وقد رد شیخنا فی شرح الترمذی وغیرہ من علماء اھل الحدیث فی تصانیفھم علی من رمیٰ تضعیفه من الحنفیه واما حمل الگنگوہی والقاری حدیث عائشة علی غیر التراویح فھو مخالف لما صرح به وحققه علماء الحنفیة والشافعة ممن معنیٰ قبلہا کما سیاتی فلا یلتفت الی ما قالابه))
اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث مذکور فی السوال ان کے مذہب پر مذکورہ بالا طرز عمل کے مخالف نہیں ہے، ((وھو ظاھر لمن له ادنیٰ تامل)) ہمارے نزدیک تراویح اور تہجد کے درمیان فرق کرنا یعنی دونوں کا مصداق الگ الگ بتانا صحیح نہیں۔ ((لانه مخالف للاحادیث الصحیحة)) اور اگر بالفرض دونوں کے درمیان باعتبار مصداق کے فرق ہو بھی تو رسول اللہ ﷺ او رصحابہ کرام تراویح اور تہجد کے درمیان جمع کرنا کسی ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں۔ خود قائلین فرق کو بھی اس کا اقرار ہے۔ العرف الشذی میں ہے۔
((ولم یثبت فی روایة من الروایات انه علیه السلام صلی التراویح والتہجد علیحدة فی رمضان بل طول التراویح۔ ای ان قال فی بیان معنی قول عمر والتی تنامون عنھا خیر مما تقومون الخ ولا یتوھم ان مراد عمران یاتوا بالتھجد ایضاً فانه لم یثبت عنه علیه السلام ولا عن الصحابة جمعھم بین التراویح والتھجد انتہیٰ))
میرے نزدیک (۱) تہجد۔ صلوۃ اللیل۔ قیام اللیل۔ قیام رمضان۔ تراویح۔ ان پانچوں کا مصداق ایک ہے، غیر رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی جو نماز تہجد ہوتی تھی، وہی رمضان میں آنحضرت ﷺ کا قیام رمضان یعنی تراویح ہو جاتی (۲) آپ نے تہجد رات کے اول۔ اوسط۔ اور آخر تینوں حصوں میں ادا فرمایا ہے۔اور چونکہ تہجد اور قیام رمضان (تراویح) دونوں ایک ہیں۔ اس لیے تراویح بھی رات کے ہر حصہ میں اد کی جا سکتی ہے۔ (۳) آنحضرت ﷺ نے خود تراویح اول شب کے بعد بھی بلکہ وسط شب کے بعد ادا کی ہے۔ (۴) اسی طرح آپ نے تراویح باجماعت اور بغیر جماعت کے دونوں طرح ادا فرمائی ہے۔ (۵) ونیز مسجد میں بھی پڑھی اور گھر میں بھی۔ اور صحابہ کو جماعت کے ساتھ یا انفرادا گھر میں تراویح پڑھنے کی تاکید فرمائی۔ ارشاد ہے۔ ((فصلوا ایھا الناس فی بیوتکم فان افضل صَلٰوة المرء فی بیته)) (۶) غیر رمضان میں تہجد بھی آپ نے باجماعت ادا فرمایا ہے، ان تمام دعووں پر دلائل حدیثیہ معتبرہ قائم اور موجود ہیں۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔ ((لو لا ضیق النطاق لا تینا بھا جمیعا))
اگر کوئی شخص اول شب میں جماعت کے ساتھ یا اکیلا آٹھ رکعت اور کبھی دس رکعت یہ سمجھ کر پڑھے کہ رسول اللہ ﷺ سے رمضان کی راتوں میں وتر کے علاوہ اسی قدر تطوع فعلاً اور عملاً ثابت ہے، اور یہی تراویح بھی ہے، اور تہجد بھی اور اس قدر پڑھنے سے رمضان کی تراویح مسنونہ (قیام رمضان جس پر مخصوص ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے) ادا ہو جائے گی۔ لیکن ثواب موجود مخصوص کے علاوہ محض مزید ثواب حاصل کرنے کی نیت سے آخر شب کو افضل سمجھ کر اس میں بھی کچھ نوافل (جن کے بارے میں اس کو اختیار ہے کہ پڑھے یا نہ پڑھے، او ر جو موکدہ نہیں ہیں) ادا کرے بشرطیکہ اول شب میں پڑھی ہوئی رکعتوں کو تراویح اور ان زوائد نوافل کو تہجد نہ سمجھے تو اس کا یہ طرز عمل نہ ناجائز ہو گا اور نہ مکروہ۔ اس طرز عمل کے ناجائز یا خلاف اولیٰ ہونے پر مذکورہ بالا ہرسرا استدلال مخدوش ہے۔
الف: حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث مذکور فی السوال میں لفظ صلی فاوتر سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے وتر اور تراویح کے بعد بلاتاخیر وتوقف و فرمائی لیکن یہی حدیث قیام اللیل للمروزی صفحہ ۶۰ میں بایں لفظ مروی ہے، ((صلی رسول اللّٰہ فی رمضان ثمان رکعات والوتر)) او رعلامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں صحیح ابن حبان سے باینں لفظ ذکر کیا ہے۔ ((صلی بھم ثمان رکعات ثم اوتر)) اور حافظ زیلعی نے نصب الرایہ فی تخریج ہدایہ میں جلد ۱ صفحہ ۲۷۶، ۲۹۳ بایں لفظ نقل کیا ہے۔ ((فصلی ثمان رکعات واوتر)) ظاہر ہے کہ یہ الفاظ تراویح کی آٹھ رکعتوں کے ساتھ بلا توقف و تاخیر وتر ادا کرنے پر نہیں دلالت کرتے، اور اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ آنحضرت ﷺ نے بلاتاخیر اور کسی شفع کے ذریعہ فعل کیے ہوئے بغیر تراویح کے ساتھ وتر ادا کر لی تھی۔ تو بھی مذکورہ طرز عمل اس حدیث کے خلاف نہیں ہو گا۔ کیونکہ آخر شب کی یہ نوافل بھی تراویح کا ہی حصہ ہیں۔ا ور اس کے حکم میں ہیں۔ مگر اس طرح کہ پڑھنے والا ان کے بارے میں مخیر ہے، گویا یہ نوافل تراویح سے خارج اور اس کے علاوہ نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے اجزا زوائد ہیں۔ پس اس شخص کی وتر بھی تراویح کے ساتھ بغیر توقف کے ادا ہوئی۔ یہ نوافل تراویح سے الگ تہجد نہیں ہیں کہ بجائے تراویح کے تہجد کے ساتھ وتر کا دا کرنا لازم آئے گا کیونکہ رمضان میں تراویح اور تہجد دونوں ایک ہیں یہاں زیادہ سے زیادہ یہ بات پائی گئی کہ اس نے تراویح کا کچھ حصہ کو اول شب میں ادا کیا۔ اور کچھ حصہ کو جو زائد اور نوافل کے درجہ میں اور غیر مؤکدہ ہے۔ آخر شب میں ادا کیا۔ ((وھذا لا باس به)) اس حدیث سے اعتراض تو ان لوگوں پر پڑے گا۔ جو تراویح اور تہجد میں فر ق کریں۔ اور اول شب کی رکعتوں کو ترویح اور آخر شب کی نوافل کو تہجد سمجھیں۔ اور وتر کو تراویح کے بجائے تہجد کے ساتھ ادا کریں۔ ((وھذا لم نقل به فلا یرد علینا)) ونیز حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو طریق عمل مذکور یہ اس شخص کے لیے ہے، جو اول شب میں تراویح یا تہجد پڑھنے پر اکتفا کرے بخلاف اس شخص کے جو تراویح یا تہجد کو کچھ رکعتیں اول شب میں ادا کرنا چاہیے۔ اور کچھ آخر میں تو ایسے شخص کے لیے ((اجعلوا اٰخر صلوٰتکم باللیل وتراً)) کی رو سے وتر مؤخر کر کے آخر شب کی نوافل کے بعد ادا کرنا۔ اولیٰ و افضل ہے۔ ونیز حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وتر جس قدر تطوع آپ کو ادا کرنا تھا۔ اس سے متصل تھی۔ یعنی آپ نے اس کو مؤخر نہیں کیا تھا۔ اب جو شخص آکر رات میں نفل ادا کر کے وتر پڑھے، اس کی وتر بھی تطوع سے مؤخر نہیں ہو گی۔ ((فلا مخلافة بین فعله وما یدل علیه حدیث جابر)) ونیز جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث تراویح کی آٹھ رکعتوں کے ساتھ بغیر توقف و تاخیر کے وتر پڑھنے کے وجوب پر نہیں دلالت کرتی کہ مذکورہ طرز عمل کو ناجائز کہا جائے۔
ب: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہ حدیث میں بلا شک و شبہ تراویح کا ہی بیان ہے۔ ملاحظہ ہو فتح القدیر لابن الھمام الحنفی جلد نمبر۱ ص ۱۹۸ نصب الرایہ للزیلعی الحنفی ج ۱ ص ۲۹۳ مؤطا امام مالک ص ۱۴۱ العرف الشذی للمولوی انور شاہ الحنفی ص ۳۲۹ معرفۃ الشافعی ص ۱۹ فتح الباری للحافظ ابن حجر الشافعی جلد نمبر ۲ ص ۳۱۶، ۳۱۷ عمدۃ القاری للعینی الحنفی پ ۱۱ ص ۱۲۸ عارضہ الاحوذی لابن العربی المالکی ج نمبر ۴ ص ۱۹ فتح سر المنان (مخطوطہ) للمولوی عبد الحق الدھلوی الحنفی
لیکن یہ حدیث مذکورہ طرز عمل کے خلاف نہیں ہے، خلاف اس وقت ہو گی جب گیارہ سے زائد رکعتوں کو جو آخر شب میں ادا کی جائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ معمولہ اور سنت مسلوکہ اور احادیث میں بیان کردہ مخصوص ثواب کا موجب اور باعث سمجھ کر پڑھا جائے۔ اول شب میں معین رکعتوں کو پڑھ چکنے کے بعد آخر شب میں بھی نوافل پڑھنے والا تو یہ سمجھتا ہے کہ تراویح کے بارے میں سنت نبوی ثابتہ پر آٹھ رکعت ادا کرنے سے عمل ہو گیا۔ جو اپنی جگہ پر کامل اور اکمل ہے اور وہ ان کے ادا کرنے سے ثواب مخصوص اور اجر موعود کا مستحق ہو گیا۔ اور اب یہ خیال کر کے کہ رمضان کی راتیں بڑی برکت کی ہیں جس قدر نوافل پڑھے جائیں اسی قدر ثواب زیادہ ملے گا۔ اور گیارہ سے زیادہ کی ممانعت یا کراہت بھی ثابت نہیں ہے۔ محض زیادتی ثواب کے لیے وسط شب یا آخر شب میں کچھ اور نفل بغیر تعین کے چار یا چھ یا آٹھ یا دس یا بارہ علی ہذ القیاس پڑھ لیتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سمجھ کر پڑھنے میں نہ حدیث مذکور کی مخالفت ہے، نہ ارتکاب مکروہ اور ترک اولیٰ اس کی مثال تو ایسی ہے کہ احادیث میں بعض اذکار کے معین اعداد پر مخصوص عظیم ثواب اور اجر مذکور ہے، اب اگر کوئی شخص اس بیان کر دہ ثواب ملنے کا یقین رکھتا ہومحض ثواب کے لیے اس ذکر کو چند بار اور کہہ لے، ظاہر کہ اس طرز عمل کو حدیث کے خلاف نہیں کہا جائے گا۔ نہ مکروہ اور خلاف اولیٰ اسی طرح یہاں بھی مذکورہ طرز عمل حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ کے خلاف نہیں ہو گا۔ و نیزنسائی اور ابو داؤد میں ہے۔
((عن قیس بن طلق قال زار ابی طلق بن علی فی یوم رمضان فامسٰی بنا وقام بنا تلك اللیلة واوتر بنا ثم انحدر الے مسجد فصلی باصحابة حتٰی بقی الوتر ثم قدم رجلا فقال اوتر بھم فانی سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول لا وتران فی لیلة))
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تراویح کی معین (آٹھ۔ رکعت سے زائد نفل پڑھنے کو صحابہ اور تابعین ناجائز اور مکروہ اور خلاف اولیٰ نہیں سمجھتے تھے۔ اور اس حدیث میں یہ احتمال کہ تراویح مسنونہ کی بعض رکعتیں ایک جگہ قبل وتر کے، اور بقیہ رکعتیں بعد وتر کے کسی مسجد میں ادا کیں بعید ہے۔ ((ولا یترك الظاھر بالمحتملات البعیدة))
ج: حدیث ابن عمر بھی مذکورہ طرز عمل کے خلاف نہیں ہے، اس لیے کہ حدیث میں صلوٰۃ سے مرا فریضہ ہے، اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فرض نماز ایک مرتبہ ادا کر لینے کے بعد دوبارہ فرض کی نیت اور جہت نہ دہرائی جائے۔ (نیل جلد ۳ صفحہ ۱۸۹) او ر تراویح یا تہجد سنت ہے، نہ فرض۔ اور اگر صلوٰۃ کو عموم پر محمول کیا جائے۔ تب بھی مخالفت نہیں ہو گی۔ کیونکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی نماز کو دوبارہ نہ پڑھو۔ چنانچہ نسائی میں یہی روایت۔ ((لا تعاد الصلوة فی یوم مرتین)) اور صحیح ابن حبان میں ((نھانی ان نعید صلوة فی یوم مرتین)) (زیلعی جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۲۹۱) کے ساتھ مروی ہے، اور آخری شب می۸ں نوافل پڑھنے والے اول شب میں پڑھی ہوئی رکعتوں کا اعادہ نہیں کرتے۔ بلکہ یہ رکعتیں بھی تراویح کی سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ لیکن نوافل زوائد کے درجہ میں ((وھھنا وجھان اکران للرد علی من یظن المخالفة بین حدیث بن عمر ھذا ولاعمل المذکور واعرضنا عن ذکرھما لم فیھا من التکلف والبعد عن الاصابة))
خلاصہ جواب کا یہ ہے کہ اوپر بیان کردہ قید وشرط کے ساتھ کوئی شخص آخر شب میں بھی نوافل پڑھے۔ اور اس وقت وتر ادا کرے۔ تو یہ طرز عمل ناجائز اور مکروہ نہیں ہو گا، بلکہ بلا کراہت جائز ہو گا۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
(محدث دہلی جلد ۱۰ شمارہ ۵۔بابت ماہ شعبان المعظم ۱۳۶۱ھ)
توضیح۔ ہو الموفق:… معترض کا اعتراض مدلل اور قوی ہے، جب کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے تین یوم تراویح رمضان میں گیارہ رکعت مع وتر پڑھائیں۔ اور رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر مستورات کو گیارہ رکعت مع وتر پڑھائیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو تراویح کے لیے گیارہ رکعت مع وتر مقرر کیا۔
سنن اربعہ میں ہے کہ جب آپ نے تین دن نماز تراویح کی جماعت کرائی تو ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا ((یا رسول اللّٰہ لو نفلتنا قیام ھذا اللیلة فقال ان الرجل اذا صلی مع الامام حتی ینصرف حُسِبَ له قَیام لَیْلَة)) (مشکوٰة ص ۱۱۴) ’’نبی ﷺ نے فرمایا جو مقتدی امام کے تراویح مع وتر سے فارغ ہونے تک ساتھ رہے اس کو اری رات کے قیام کا ثواب ہے۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ وتر کو تراویح کے ساتھ پڑھنا سنت ہے، اور امام کے ساتھ فارغ ہونے سے ساری رات کے قیام کا ثواب حاصل ہوتا ہے، یہ کسی صحابی یا تابعی سے ثابت نہیں ہوا کہ باجماعت آٹھ تراویح پڑھ کر وتروں کو چھوڑ کر چلا گیا ہو۔ بلکہ نسائی اور ابو داؤد کی روایت قیس بن طلق سے جو مفتی صاحب نے نقل کی ہے، اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ وتروں کو پہلی جماعت کے ساتھ پڑھا بعد میں نفلی طور پر مسجد میں جا کر جماعت کرائی۔ اور وتروں کے لیے امام مقرر کیا۔ جو شخص وتروں کے بعد نفل پڑھنا چاہیے۔ پڑھ سکتا ہے، جیسا کہ قیس بن طلق کی روایت سے ثابت ہے۔ اور قیام اللیل مروزی می مندرجہ ذیل آثار اور اقوال بھی اس پر دال ہیں کہ رات کو وتر پڑھ کر سونے والا صبح اٹھ کر نوافل ادا کر سکتا ہے۔
(۱) ابن عمر فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ابو بکر سے دریافت فرمایا: ((مَتٰی توتر قال اوتر ثم انام قال بالحزم اخذت الخ)) (ص ۱۱۶ طبع لاہور ۱۹۲۰ء) ’’یعنی آپ کب وتر پڑھتے تھے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا وتر پڑھ کر سوتا ہوں۔ آپ نے فرمایا یہ محتاط طریقہ ہے۔‘‘
(۲) اور سعید بن مسیب کے اثر سے واضح ہوتا ہے کہ ابو بکر پچھلی رات اٹھ کر نوافل بھی پڑھا کرتے تھے۔ ((کان ابو بکر اذا جآء فراشه اوتر فان قام من اللیل صلی ص ۱۱۷)) ’’یعنی حضرت ابو بکر سونے سے قبل وتر پڑھتے اگر صبح بیدار ہو جاتے تو نوافل پڑھتے۔‘‘
(۳) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آنحضرت نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھے ہیں شروع میں درمیان اور آخر میں بھی، ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں۔
((ربما اوتر قبل ان ینام وربما نام قبل ان یوتر)) ’’یعنی کبھی سونے سے قبل پڑھتے اور کبھی وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے۔‘‘واضح ہے کہ جب آپ وتر پڑھ کر سوتے تھے تو صبح اٹھ کر نوافل بھی ضروری پڑھتے ہوں گے۔
ان احادیث و آثار سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اگر کوئی اول رات وتر پڑھ لے تو آخر رات اسے نوافل ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چونکہ صحابہ کرام اور خود آنحضرت ﷺ کے قول و فعل دونوں سے یہ ثابت ہے، اس لیے اس میں تردد کی ضرورت نہیں ہے۔
ہاں ایک حدیث میں آیا ہے۔ ((عن عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما ان النبی ﷺ قال اجعوا اٰخر صلاتکم باللیل وِتْرا)) (متفق علیه)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے آخری نماز رات کی وتر ہونی چاہیے سبل السلام شرح بلوغ المرام شیخ محمد اسماعیل امیر۔ اور نور الحسن خلف الرشید سید نواب صدیق حسن بھوپالی فتح العلام شرح بلوغ المرام اس حدیث کے تحت فتح الباری شرح صحیح بخاری سے نقل فرماتے ہیں۔ ((وذھب الیه بعض اھل العلم وجعل الامر فی قوله اجعلو الخ مختصاً بمن اوتر اٰخر))۔ یعنی یہ حدیث مخصوص ہے، ساتھ اس شخص کے جو وتروں کو آکر رات میں پڑھے۔ واللہ اعلم۔
(ابو الحسنات علی محمد سعیدی مرتب فتاویٰ عفی اللہ تعالیٰ عنہ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب