سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(152) زید کہتا ہے کہ نماز تراویح کچھ نہیں بدعت ہے..الخ

  • 4155
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 864

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کہتا ہے کہ نماز تراویح کچھ نہیں بدعت ہے، نہ وہ خود پڑھتا ہے اور نہ کسی کو پڑھنے دیتا ہے، جو آدمی نماز تراویح پڑھنے آتا ہے، اس کو مسجد سے بھگا دیتا ہے، نماز تراویح کو اول رات جماعت سے پڑھنا یہ سب کاموں کو بدعت کہتاہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زید غلط کہتا ہے، تراویح کی نماز سنت ہے، رسول اللہ ﷺ نے پڑھی ہے، جیسا کہ صحاح ستہ کی حدیثوں سے پتہ چلتا ہے، بخاری ومسلم میں ہے۔

((عن ابی سلمة بن عبد الرحمٰن انه سال عن عائشة رضی اللہ عنه کیف کانت صلوٰة رسول اللّٰہ ﷺ فقالت ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ احدی عشرة رکعة الخ))

اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب و تمیم داری کو تراویح کی نماز پڑھانے کے لیے امام مقرر کر دیا تھا۔ چنانچہ مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں ہے۔ ((عن السائب بن یزید انه قال امر عمر بن الخطاب رضی اللہ عن ابی بن کعب وتمیما الداری ان یقوما اللناس باحدی عشرة رکعة)) اور اس نماز کو اول شب و وسط اور آکر شب میں ہر طرح پڑھنا جائز ہے، حضور ﷺ نے اکثر آخر شب میں پڑھی ہے ایک مرتبہ اول شب سے آکر تک بھی پڑھی ہے، اور صحابہ کرام آپ کے پیچھے جماعت سے پڑھتے تھے۔ فرض ہونے کے خوف سے آپ نے منع فرمایا۔ جب آپ کا انتقال ہو گیا (ﷺ) تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جماعت سے نماز پڑھی ہے، پہلے زمانہ میں اس نماز کو قیام اللیل کہتے تھے، بعد میں اس کو تراویح کہنے لگے۔ نام کے بدلنے سے ماہیت نہیں بدلتی اس کی نظیرین بہت سے ہیں، اور تراویح پڑھنے والے کو مسجد سے نکال دینا سخت گناہ ہے، اور نکالنے والا آیت ﴿وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنَْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُه﴾ کا مصداق ٹھہرے گا۔

(اخبار محمدی جلد ۱۸ شمارہ ۲۲) (راقم احقر عبد السلام غفرلہٗ مدرس مدرسہ حاجی علیجان دہلی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 418

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ