سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(149) اگر کوئی حافظ اہل حدیث بیس رکعت تراویح پڑھاوے..الخ

  • 4152
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1255

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی حافظ اہل حدیث بیس رکعت تراویح پڑھاوے۔ اور بیس رکعت میں آٹھ رکعت کو سنت نبوی سمجھے اور بقیہ رکعات کو نوافل خیال کرلے تو درست ہے یا نہیں۔ کیا بیس رکعت تراویح پڑھنا پڑھانا بدعت فاروقی ہے، حالانکہ ایک روایت مرفوع ضعیف بروات ابن عباس سنن بیہقی وطبرانی و ابن ابی شیبہ میں آئی ہے۔ ((ان النبی ﷺ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة سوی الوتر)) (نصب الرایۃ ج ۲ ص ۱۵۳)

ونیز بیس رکعت تراویح پر تعامل صحابہ و تابعین بھی ہے۔ ((عن السائب ابن یزید قال کنا نقوم فی زمن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنه بعشرین رکعة والوتر رواہ البیہقی فی المعرفة قال النووی فی الخلاصة وفی شرح المھذب ایضاً اسنادہ صحیح)) (نصب الرایة ج ۲ ص ۱۵۴)

((وقال العلامة الفاضل الکھنوی عبد الحی الحنفی فی عمدة الرعایة حاشیة شرح الوقایة نعم ثبت اھتمام الصحابة علی عشرین فی عہد عمر و عثمان وعلی فمن بعد ھم اخرجه مالك وابن سعد والبیھقی وغیرھم وما واظبت علیه الخلفاء فعلا او تشریعا ایضاً سنة لحدیث علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین اخرجه ابو داؤد و ابن ماجة والترمذی ایضاً))

اور مقلدین ائمہ اربعہ کا تعامل بھی آج کل اسی پر ہے، حرمین وغیرہ میں پس دریافت طلب امر یہ ہے کہ بیس رکعات تراویح پڑھنا یا پڑھانا آٹھ رکعت کو مسنون سمجھتے ہوئے درست ہے یا نہیں۔ اور اس کو بدعت عمری کہنا کیسا ہے، اور اثر حضرت عمر بن الخطاب صحیح قابل استدلال ہے یا نہیں۔ مدلل اس پر خامد فرسائی کریں۔ یہ مسئلہ اختلافیہ ہے انصاف کو ملحوظ فرما دیں۔ (سائل عبد الحق محب السنۃ بہاولپوری)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

((وهو اللہ الملہم بالصدق والصواب)) از قلم حقیقت رقم حضرت الفاضل مولانا عبد الجلیل صاحب سامرودی سلمہ ربہ۔

جواب:… ﴿لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوة حسنة لم کان یرجوا اللّٰہ والیوم الاٰخر﴾ رسول اللہ ﷺ سے تراویح آٹھ رکعت سے زائد بالاتفاق موافق و مخالف ثابت نہیں بلکہ بیس کی روایت صحیح کے معارض ہے، فاضل لکھنوی تعلیق المجد ص ۱۱۰ میں رقم طراز ہیں۔

((قال جماعة من العلماء منھم الزیلعی وابن الھمام والسیوطی والزرقانی ان ھذا الحدیث مع ضعفہ معارض لحدیث عائشة الصحیح فی عدم الزیادة علی احدی عشرة رکعة فیقبل الصحیح ویطرح غرہ ثم قال لا شك فی صحة حدیث عائشة وضعف حدیث ابن عباس وقال فتحصل من ھذا کله ان قیام رمضان لسنته احدی عشرة رکعة بالوتر فعله علیہ السلام ثم ترکه لعذر به صرح ابن الھمام فی شرحه ج ۱ ص ۲۰۵ وقال صاحب بحر الرائق ایجاً لا شك فی تحقق الامر من بعد وفاته ﷺ))

شیخ عبد الحق شارح مشکوٰۃ اپنی کتاب فتح سراج الدین فی تائید مذہب النعمان قلمی ص ۳۲۷ میں فرماتے ہیں۔

((ولم یثبت روایة عشرین کما ھو المتعارف الاٰن الا فی روایة ابن ابی شیبة من حدیث ابن عباس کان رسول اللّٰہ ﷺ وذکر الحدیث ثم قال و قالوا اسنادہ ضعیف وقد عارضه حدیث عائشة وھو حدیث صحیح وکانت عائشة رضی اللہ عنہا اعلم بحال النبی ﷺ وکان الامر علیٰ ذلك بامرہ))

نصب الرایہ زیلعی طبع ہند ج ۱ ص ۲۹۳ فتح القدیر جلد ۱ ص ۲۰۵ میں بعد ذکر یہ روایت ابن عباس ((متفق علیه ضعفه مع مخالفة الصحیح)) اوجز المسالک میں زکریا کاندھلوی ابناء عصر سے تحریر کرتے ہیں۔ ((لا شك ان تحدید التراویح فی عشرین لم یثبت مرفوعاً عن النبی ﷺ بطریق صحیح علی طریق اصول المحدثین وَمَا ورد فیه من روایة ابن عباس متکلم فیہا علی اصولھم)) انور شاہ کشمیری فیض الباری ج ۲ ص ۴۲۰ باب قیام النبی میں لکھتے ہیں۔ ((ثم ان التراویح لم یثبت مرفوعاً زید من ثلاث عشرة رکعة الا بطریق ضعیف وقال الثابت منه ثلاث عشرة رکعة)) لطائف قاسمیہ مکتوب سوم ص ۱۸ میں نانوتوی لکھتے ہیں۔ ویازدہ از فعل سرور ﷺ آکد از بست ست مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں فاضل ہلہم من اللہ شر بنلالی حنفی لکھتے ہیں۔ ((ولافاض من تسلیم ان تراویحہ علیہ السلام کانت ثمانی رکعات ص ۳۳۰)) میں لکھتے ہیں ((واما النبی ﷺ فصح عنه ثمان رکعات واما عشرون رکعة عنه علیہ السلام بسند ضعیف وعلیٰ ضعفه اتفاق))

امام محمد تلمیذ الامام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی موطا میں باب قیام شہر رمضان قائم کر کے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ ہی کو پیش کیا جس میں ((ماکان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة)) جو اس امر پر صریح اور واجح طور پر دال ہے، کہ قیام رمضان حنفیہ کے نزدیک بھی وہی گیارہ مع الوتر ہیں، زائد نہیں، اور اسی کو ابن الہمام اور ابن نجیم صاحب بحر و دیگرمحققین احناف نے قرر فرمایا بلکہ فاضل طحطاوی شرح در مختار ج ۱ ص ۳۹۶ طبع مصر میں اور ابو السعود شارح کنز ص ۶۶۰ طبع مصر میں فاضل …سے نقل کرتے ہیں۔ ((لان النبی ﷺ لم یصلہا عشرین بل ثمانیا ولم یواظب علٰی ذلك)) البتہ ایک بات لکھی تھی وہ یہ تھی کہ بیس متعاہدہ میں سنت نبوی ﷺ تو صرف آٹھ ہی ہیں، اور بارہ بحسب فعل خلفاء کی بناء پر۔ مگر میں کہتا ہوں۔ اس میں فاضل ابن ہمام سے تساہل ہوا ہے، خدا درگزر کرے وہ یہ ہے کہ قول خلفاء سے آج تک کسی نے ثابت نہیں کیا۔ اور نہ کرنے کی کسی میں جرأت ہے، صحیح سند سے، ایک روایت سنن کبریٰ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہے، مگر ثابت نہیں، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، وہ دو طریق پر ہے، ایک ان کے زمانہ کی اطلاع اور ثانی امر فاروق رضی اللہ عنہ۔ ان کے زمانہ کی اطلاع ایک تو بطریق منقطع ہے، چنانچہ مؤطا میں بروائت یزید بن رومان وارد ہے، اور یہی سنن کبریٰ وغیرہ میں ہے۔ فاضل سیوطی المصابیح میں لکھتے ہیں۔

((لکن فی المؤطا ومصنف سعید بن منصور بسند فی غایة الصحة عن السائب بن یزید احدیٰ عشرة رکعة))

ص ۷۷ جلد نمبر ۲ میں فاضل سیوطی لکھتے ہیں۔

((قال الجوزی من اصحابنا عن مالك انه قال الذی جمع علیه الناس عمر بن الخطاب اھب الی وھو احدی عشرة رکعة وھی صلوة رسول اللہ ﷺ قیل لہ احدی عشرة رکعة بالوتر قال نعم وثلث عشرة قریب قال ولا ادری من این اھدث ھذ ا الرکوع الکثیر))

میں کہتا ہوں گیارہ رکعت بحکم عمر رضی اللہ عنہ یہ طحاوی شرح معانی الاثار میں بھی ہے، اس میں صاف اور واضح ہے کہ ((امر عمر ابن الخطاب ابی بن کعب وتمیم الداری ان یقوما الناس للناس باحدیٰ عشرة رکعة))

قیام اللیل مروزی میں بھی ہے، امر بالاتفاق اقویٰ ہوا کرتا ہے، اور لوگوں کا فعل اس سے نفس خلیفہ کو کیا۔ واسطہ لوگوں کا کرنا یہ قابل حجت بالاتفاق نہیں ان کا تعامل ان کا حکم البتہ قابل سماعت ہے، اور ((علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین)) ان کے فعل سے تعلق رکھتا ہے، یا تعامل عہد خلفاء سے سوچنے کی بات ہے، یہ اہل تحقیق حنفیہ کا بھی کلام نہیں۔ البتہ ضعفاء الناس کا ضرور خیال ہے، ورنہ آئیے ہم بتاتے ہیں کہ خلفاء کا امر اور فعل بھی ان کے ہاں اس قابل نہیں کہ ان کے مقابل امام کی بات ترک کی جاے دیکھو۔ زکوٰۃ الجنین۔ اخراج النساء الی المصلی۔ حکم بالشاہد والیمین۔ وتر برکعۃ واحدۃ۔ وقطع الید فی دراہم۔ مسئلہ غلس۔ سجود تلاوت قرن۔ قطع النباش۔ وجوب وتر۔ تکبیرات رکوع۔ نکاح بلا ولی۔ طلاق المکرہ۔ مسح العمامہ۔ زکوٰۃ مال الیتیم۔ ایمان کی کمی بیشی۔ مسح جوابین۔ جلد وطن زانی وغیرہ وغیرہ اپنے اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں ان مقامات میں تو ان کے اقوال و اعمال تک موجود ہیں۔ یہاں علیکم بسنتی حدیث غالباً مننسوخ ہو گئی ہو گی۔ اور جہاں نہ فعل خلیفہ اور نہ ہی امر وہاں علیکم بسنتی وارد۔ فیاء اللہ العجب وضعیفۃ العلم والادب

بعض لوگ تہجد و تراویح کو جداگانہ قرار دے کر زیادت علی الثمانیہ پر بھی استدلال کرتے ہیں العرف الشذی ص ۳۲۹ میں ہے۔ ((ولم یثبت فی روایات انه علیه السَّلام صلی التراویح والتہجد علی حدة فی رمضان)) فیض الباری ص ۴۲۰ میں لکھا ہے۔ ((قال عامة العلماء ان التراویح وصلوة الللیل نوعان مختلفان والمختار عندی انھما واحد وان اختلف صفتھما)) رہا بیس کو سنت عمری بدعت عمری کہنا اصلاً غلط ناقابل مسموع۔ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ بیس رکعت نہ ہی فعل عمر سے وارد اور نہ ہی امر فاروق سے ثابت۔ پھر زبردستی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متھے تھوپنا کیا انصاف مراحل دور نہیں اور نہ ہی رسو اللہ ﷺ سے فاضل سیوطی حاولی ص ۷۵ جلد ۲ میں لکھتے ہیں۔

((ولو فعل العشرین ولو مرة لم یترکہا ابداً ولو وقع ذلك لم یخف علی عائشة رضی اللہ عنه حیث قالت ما تقدم فالحاصل ان العشرین لم تثبت من فعله ﷺ والکلام فیه اکثر ما تری وھذا القدر کاف لمن اراد التذکر والھدیٰ وھو ولی الھدایة واعلم بمن اھتدیٰ))

(فتاویٰ ستاریہ جلد ۳ ص ۱۶، ۲۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 413-416

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ