سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(148) ایک حافظ صاحب اہل حدیث نے سارے رمضان شریف میں بیس رکعت تراویح..الخ

  • 4151
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1011

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک حافظ صاحب اہل حدیث نے سارے رمضان شریف میں بیس رکعت تراویح ایک مسجد میں پڑھائی اور تاویل یہ کی کہ آٹھ رکعت تو سنت ہیں، باقی نوافل میں محسوب ہو کر سنت عمری ہیں، اس پر احناف صاحبان تو بہت خوش ہوئے مگر بعض اہل حدیث اس پر سخت ناراض ہوئے اس پر صاحب مذکور ایک روایت مرفوع بیس رکعت تراویح کے متعلق جس کے راوی حضرت عبد اللہ بن عباس ہیں بحوالہ بیہقی پیش کرتے ہیں اور ایک اثر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا بحوالہ مؤطا مالک بتاتے ہیں، مگر حافظ صاحب کی اس بات سے اہل حدیثوں کو تسلی نہیں ہوئی، لہٰذا آپ بیس رکعت تراویح کے متعلق خلاصہ تحریر فرما دیں کہ آنحضرت ﷺ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعت نماز تراویح پڑھی ہے یا آٹھ رکعت؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی اکرم ﷺ سے بیس رکعت نماز تراویح کبھی بھی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعت مع وتر پڑھا کرتے تھے و نیز بعض روایات صحیحہ میں یوں بھی ہے کہ نماز تہجد تیرہ رکعت بھی مع وتر پڑھی ہے۔ اس سے زیادہ آپ ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی گیارہ رکعت تراویح کا ثبوت ہے۔ موطأ امام مالک رحمہ اللہ میں ہے۔ ((امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب وتمیم الداری ان یقوما للناس باحدی عشرة رکعة)) ’’یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب وتمیم داری صحابی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو رمضان میں گیارہ رکعت پڑھایا کرو۔‘‘ سوال میں جس حدیث کاذکر بحوالہ بیہقی کیا گیا ہے اور اس سے بیس رکعت پر استدلال کیا جاتا ہے لیکن وہ سخت ضعیف ہے قابل حجت نہیں ہے، علامہ عینی وابن الہمام جسے سخت حنفی بھی اس کے ضعف کو مانتے ہیں ملاحظہ ہو، ہدایہ کی شرح عینی و فتح القدیر، علامہ جما ل الدین زیلعی حنفی نصب الرایہ تخریج الہدایہ میں اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں۔ ((وھو معلوم بابی شیبة ابراھیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن شیبة وھو متفق علی ضعفه)) ’’اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اثر جو بحوالہ موطأ سوال میں ذکر ہے اور اس سے حضرت عمرر ضی اللہ عنہ سے بیس رکعت ثابت کی جاتی ہے وہ بھی سخت ضعیف ہے، علامہ زیلعی اس کے متعلق لکھتے ہیں، اس میں یزید بن رومان جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتا ہے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد پیدا ہوا ہے اس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سرے سے ملاقات ہی نہیں ہے، جو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے بیس رکعت خود پڑھی یا لوگوں کو بیس رکعت پڑھنے کا حکم دیا وہ لوگ حضرت عمررضی اللہ عنہ پر صریح بہتان باندھتے ہیں، حافظ مذکور فی السوال کا استدلال غلط ہے، آٹھ رکعت تو ان کی درست ہے اور باقی خلاف شرع و خلاف رسول اللہ ﷺ ہے۔ اہل حدیث کا ہمیشہ سے ہی یہ شیوہ رہا ہے کہ سنت کو مضبوطی سے پکڑے رہے اور اس کے ماسوا کو جواب نہ دے دے، نہ کہ مثل مقلدین تاویلات رکیکہ سے کام لے۔ (اہل حدیث گزٹ جلد نمبر ۸ شمارہ نمبر ۱۸)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

 

 

جلد 06 ص 411

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ