السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تراویح المؤحدین
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’تراویح المؤحدین‘‘ حضرت قاضی ابو اسمٰعیل یوسف حسین بن قاضی محمد حسن علیہ الرحمہ کی تصنیف ہے، اور غالباً کسی کتاب کے رد میں لکھی گئی ہے، دلائل نہایت عمدہ اور مرتب ہیں۔قاضی صاحب مرحوم ماضی ٔ قریب کے عاظم رجال میں سے ہیں۔ علوم حدیث میں انہیں خاص ورک تھا۔ عربی کے بلند پایۂ شاعر و ادیب تھے۔ مولانا شمس الحق مرحوم ڈیانوی کے ساتھ ’’عون المعبود‘‘ کی تالیف میں ممد رہے تھے۔ ان کی دوسری بھی کئی تصانیف ہیں۔ ۱۳۵۲ھ میں وفات پائی۔
گیارہ تراویح کے لیے کوئی دلیل نہ قول رسول اللہ ﷺ نہ نص آنحضرت ﷺ سے اور نہ قول صحابہ رضی اللہ عنہ و فعل میں پائی، اور نہ کسی اہل اسلام کا میلان گیارہ رکعت کی طرف پایا جاتا ہے، بلکہ قرون اولیٰ سے اب تک بیس پر اجماع رہا۔ او نہ آج تک کوئی اس کا منکر ہوا۔
مؤلف نے یہاں دو دعوے کیے ہیں۔ اول یہ کہ کسی قرن میں گیارہ کا ثبوت نہیں، دوم قرآن اولیٰ سے لے کر اب تک بیس پر اجماع رہا۔ اور یہ دونوں دعوے باطل ہیں۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ اور تابعین اور ائمہ مجتہدین خاص کر علمائے حنفین غرض کہ ان سب قرنوں میں گیارہ تراویح کا ثبوت موجود ہے۔ جس سے دوسرا دعویٰ اجماع باطل ہو جاتا ہے، اب ترتیب اور فضل دار دلائل سنتے جائیے۔
آنحضرت ﷺ سے گیارہ رکعت تراویح کے ثبوت میں ((عن ابی سلمة اَنَّه سأل عائشة رضی اللہ عنھا کیف کان صلوة رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان قالت ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی اخدیٰ عشرة رکعة متفق علیه))
’’ابو سلمۃ تابعی سے روایت ہے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی نماز رمضان یعنی تراویح کا حال پوچھا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیار ہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ یعنی آنحضرت ﷺ کی تراویح کی تعداد بھی گیارہ ہی تھی۔‘‘
اس حدیث کو مؤلف نہیں سمجھا کہتا ہے، حدیث عام ہے، خاص تراویح پر دلالت نہیں کرتی۔ بلکہ تہجد پر دلالت کرتی ہے، جواب اس کا یہ ہے کہ مؤلف نے اول تو حدیث کو ابتداء سے نقل نہیں کیا۔ دوم جتنی ذکر کی اس کا ترجمہ بھی نہیں کیا۔ تاکہ عوام نہ سمجھ جائیں۔ حالانکہ اپنے دعووں کو خود ہی عربی میں گھڑا اور ترجمہ بھی کر دیا۔ اور اس حدیث کا ترجمہ ہی کھا گئے۔ اب ہم سے سنیئے اس حدیث میں ((صلوة رسول اللّٰہ فی رمضان)) اور ((مَا کان یزید فی رَمَضَان)) کے الفاظ موجود ہیں۔ جن کے معنی تراویح کے ہیں۔ اور تراویح جمع ہے، ترویحہ کی اور ترویحہ کے معنی راحت دینے کے ہیں۔ چونکہ لوگ بعد چار رکعتوں کے آرام لیتے تھے اس لیے ان رکعتوں کا نام علماء نے تراویح رکھ دیا۔ ورنہ حدیثوں میں کہیں تراویح کا لفظ نہیں آیا۔ قیام فی رمضان، صلوۃ فی رمضان۔ قیام اللیل فی رمضان تراویح سب کے ایک ہی معنی ہیں۔ چنانچہ محدثین نے اسی طرح کے مختلف الفاظ سے باب باندھے ہیں۔ لیکن حدیثیں وہی ذکر کی ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے کتاب التراویح لکھ کر اس میں یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذکر کی ہے، دیکھو بخاری مع فتح الباری مطبوعہ مصر اور بخاری مطبوعہ مولوی احمد علی صاحب صفحہ نمبر ۲۶۹ بروایت مستملی تراویح کا لفظ موجود ہے، باقی روایتوں میں قیام رمضان کا لفظ ہے، اور اس سے مراد بھی یہاں تراویح ہی ہے، جیسا کہ کرمانی وغیرہ نے لکھا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ امام بخاری نے اسی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے آنحضرت ﷺ کی تراویح گیارہ رکعت ثابت کی ہیں۔ اور یہی ہمارا مطلوب ہے، خلاصہ مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آنحضرت ﷺ کی تراویح کا حال پوچھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ حضرت ﷺ کی نماز شب تراویح اور غیر تراویح گیارہ ہی رکعت ہوتی تھی۔ اگرچہ اہتمام شان اور طول قرأت تراویح میں زیادہ تھا۔ اور تہجد کا لفظ اس حدیث میں مذکور نہیں ہے، جس کا دعویٰ مؤلف نے کیا ہے، علاوہ اس کے تہجد رمضان کا بھی تراویح ہی کہلائے گا، پھر یہ دعویٰ کرنا کہ یہ حدیث تراویح پر دلالت نہیں کرتی کیسا لغو اور پوچ ہے۔ تراویح کا وقت فرض عشاء کے بعد سے لے کر طلوع فجر تک ہے۔ کیونکہ شارع کو مطلق شب رمضان کا قیام منظور ہے اول میں ہو یا آخر میں۔ جیسا کہ خود حنفیہ نے تراویح کا وقت فرض عشاء کے بعد سے لے کر طلوع فجر تک لکھا ہے، بلکہ بعض حنفیہ نے یہ غضب ڈھایا ہے کہ تراویح کو نماز عشاء سے پہلے بھی جائز رکھا ہے چنانچہ ابو السعود حنفی نے کنز کی شرح الشرح فتح المعین میں لکھا ہے، ((وقال جماعۃ من مشائخ بلخ اللیل کلہ وقت لھا قبل العشاء وبعدہ)) یعنی بلخ کی ایک جماعت مشائخ حنفیہ نے کہا ہے کہ تراویح کا وقت ساری رات ہے قبل عشاء کے ہو یا بعد عشاء کے یہ قول بعض حنفیہ کا تعامل نبوی اور صحابہ کے صریغح خلاف ہے، غرضکہ اس میں کسی کو خلاف نہیں کہ قیام رمضان آکر شب میں تراویح ہی کہلائے گا۔ بلکہ افضل وقت تراویح کا وہی ہے، چنانچہ بخاری مسلم میں حضرت عمر سے منقول ہے کہ انہوں نے ان صحابہ کو جو اول وقت قیام کرتے تھے، مخاطب کر کے فرمایا ((والتی تنامون عنھا افضل من الَّتِیْ تقومون)) یعنی آخر رات میں تراویح پڑھنا اول رات میں پڑھنے سے بہتر ہے، غرضکہ اس حدیث سے آنحضرت ﷺ کی تراویح گیارہ رکعت ثابت ہوئی۔ عام اس سے کہ اول رات میں ہوں۔ یا آخر رات میں کیونکہ تراویح کا وقت عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے، نیز خود حنفیہ اس حدیث سے آنحضرت ﷺ کی گیارہ رکعت تراویح ثابت کرتے ہیں۔ اور بیس رکعت کی حدیث مرفوع کو کہتے ہیں علاوہ ضعیف ہونے کے حضرت عائشہ رضٰ اللہ عنہ کی صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے، دیکھو فتح القدیر ابن الہما اور ما ثبت باالسنۃ وغیرہ۔ پس ان کے نزدیک اس حدیث میں گیارہ رکعت تراویح مراد ہیں۔ اول شب میں پڑھی جاویں یا آخر شب میں اور آنحضرت ﷺ نے جو تین رات لوگوں کے ساتھ قیام کیا۔ اس کو تراویح کہا جاوے گا۔ اور وہ قیام پہلی بار اول شب سے لے کر تہائی تک اور دوسری بار اول سے نصف تک اور تیسری دفعہ داری رات واقع ہوا گیارہ ہی رکعت پڑھائیں۔ اس سے زیادہ ثابت نہیں۔ ان ہر دو دعووں پر دلائل ذیل پیش کرتا ہوں۔ دعویٰ اول پر یہ حدیث دلالت کرتی ہے۔
((عن ابی ذر قال صمنا مع رسول اللّٰہ ﷺ فلم یقم بنا شیئا من الشھر حتی بقی سبع فقام بناحتی ذھب ثلث اللیل وفی روایة النسائی الی ثلث اللیل الاول فلما کانت السادسة لم یقم بنا فلما کانت الخامسة قام بناحتی ذھب شطر اللیل فقل لو نقلنا قیام ھذہ اللیلة فقال ان الرجل اذا صلی مع الامام حتی ینصرف حُسِبَ له قیام لیلة فلما کانت الرابعة فلم یقم بناحتی بقی ثلث اللیل فلما کانت الثالثة جمع اھله ونسائه والناس فقام بناحتی خشینا ان یفوتنا الفلاح قلت و ما الفلاح قال السحور)) (رواہ ابو داؤد والترمذی والنسائی)
’’ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ رمضان کے روزے رکھے۔ تو بائیسویں شب تک ہم کو نماز تراویح جماعت سے نہیں پڑھائی، جب تیئسویں شب ہوئی تو ہم کو نماز تراویح پڑھائی پہلی تہائی تک پھر چوبیسویں کو نہیں پڑھائی پچیسویں کو پڑھائی۔ نصف رات تک تو میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ﷺ کاش آپ ہم کو ساری رات تک پڑھاتے تو آپ نے فرمایا کہ جب آدمی امام کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو اس کو تمام رات کا ثواب حاصل ہو جاتا ہے، جب چھبیسویں شب ہوئی تو ہم نے پچھلی تہائی رات تک انتظار کیا۔ لیکن نہ نکلے۔ جب ستائیسویں شب ہوئی تو ہم نے پچھلی تہائی رات تک انتظار کیا۔ لیکن نہ نکلے۔ جب ستائیسویں شب ہوئی تو آل اولاد اور ازواج مطہرات اور لوگوں کو جمع کیا۔ اور نماز پڑھائی یہاں تک کہ ہم کو اندیشہ ہوا کہ کہیں سحری کا وقت نہ جاتا رہے۔‘‘
روایت کیا اس حدیث کو ابو داؤد اور ترمذی اور نسائی نے حاصل یہ کہ تیئسویں شب پہلی تہائی رات تک تراویح پڑھائی۔ اور پچیسویں شب نصف شب تک اور ستائیسویں شب سحری کے وقت تک اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ تراویح کا وقت نماز عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے، دوسری یہ کہ تہجد اکثر نیند لے کر پڑھا جاتا ہے، لیکن سونا لازم اور ضروری نہیں کیونکہ ان راتوں میں سوائے اُن تراویح کے اور کوئی نماز آنحضرت ﷺ سے منقول نہیں ہوئی۔ خصوصاً ستائیسویں تاریح تو آپ تراویح ہی سحری تک پڑھاتے رہے۔ اور ابن فارس تہجد کے معنی مطلق نماز شب کے کرتے ہیں، چنانچہ قسطلانی میں ہے۔
((التہجد وھو ترك الہجود وھو النوم وقال ابن الفارس المتھجد المصلی لیلا))
’’غرض ابن فارس کی یہ ہے کہ تہجد کے معنی ترک نوم کے ہیں۔ اور نیند کا ترک اس پر بھی صادق آتا ہے جو نہیں سوتا، اور نماز پڑھتا ہے۔‘‘
گویا اس نے بھی نیند ترک کی تیسرے اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ تراویح پڑھی۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے ثابت ہو چکا ہے، کہ آنحضرت ﷺ کا قیام کبھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں تھا۔ پس خود اُسی صحیحین کی حدیث سے (جس کو مؤلف نے لکھا ہے ثابت ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ نے جماعت کے ساتھ گیارہ رکعت تراویح پڑھائی تھیں۔ اور یہی ہمارا دعویٰ دوم تھا۔ جس کے اثبات میں ایک تو یہی صحیحن کی حدیث بانضمام حدیث ابی ذر نہایت واضح طور پر دلیل وافی شافی ہے۔ دوسری حدیث سنئے۔
((عن جابر رضی اللہ عنه قال صلی بنا رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر فلما کانت القابلة اجتمعنا فی المسجد ورجونا ان یخرج علینا حتی اصبحنا))(رواہ ابن خزیم وابن حبان فی صحیحھا)
’’جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو رمضان یعنی تراویح جماعت کے ساتھ آٹھ رکعتیں پڑھائیں پھر وتر پڑھائے جب دوسری شب ہوئی تو ہم صبح تک انتظار کرتے رہے، لیکن آپ نے نکلے۔‘‘
روایت کیا اس حدیث کو امام ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اپنی اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے، یہ حدیث صحیح ہے، امام ابن خزیمہ (؎۱) امام ابن حبان اس کو اپنی اپنی کتاب ملتزم بالصحۃ میں لائے ہیں، اور حکم کتاب ملتزم باالصحۃ کا اصول حدیث میں یہ ہے کہ اس کی حدیث پر بغیر تامل عمل کیا جائے۔ جب تک کہ کسی دوسری امام سے خاص اس پر جرح ثابت نہ ہو۔ کیونکہ مصنف نے صحت حدیث کی شرط کر لی ہے، خصوصاً جب کہ ابن خزیمہ جیسا امام عارف بالحدیث صحیح کہے، جس کا لقب امام الائمہ (؎۲) اس کی نقد حدیث میں علو شان پر دلالت کرتا ہے، مقدمہ ابن الصلاح (؎۳) میں ہے۔
(؎۱) نیز امام محمد بن نصر مروزی قیام اللیل میں۔ ۱۲(؎۲) یعنی اماموں کا امام۔ ۱۲ (؎۳) شخ عبد الحق حنفی لمعات کے مقدمہ اصول میں قال الشیخ سے یہی امام ابن الصلاح مراد رکھتے ہیں۔ ۱۲
((ویکفی مجرد کونه موجوداً فی کتب من اشترط منہم الصحیح ککتاب ابن خزیمة))
’’یعنی حدیث کے صحیح ہونے میں اور اس پر عمل کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ ہو حدیث ان محدثین کی کتابوں میں موجود ہو، جنہوں نے اس کتاب میں صحیح لانے کی شرط کر لی ہو، جیسے کتاب ابن خزیمہ کی۔‘‘
اور شیخ عبد الحق حنفی مقدمہ لمعات میں ابن خزیمہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔
((ولقد صنف الاخرون من الائمة صحاحا مثل صحیح ابن خزیم الذی یقال له امام الائمة وھو شیخ ابن حبان وقال ابن حبان فی ملحه ما رایت علی وجه الارض احداً احسن فی ضاعة السنن واحفظ للالفاظ الصحیحة منه کان السنن والاحادیث کلہا نصب عینه))
’’اور بے شک اور اماموں نے بھی صحاح کو تصنیف کیا ہے،جیسے صحیح ابن خزیمہ کی جس کو محدثین امام الائمۃ (؎۱) کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ اور وہ ابن حبان کا استاد ہے، ابن حبان نے کہا کہ میں نے فن حدیث میں ابن خزیمہ سے زیادہ بہتر اور الفاظ کو صحیحہ کو اس سے زیادہ یاد رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ گویا سنن اور احادیث سب اس کی آنکھوں کے سامنے ہے، انتہیٰ‘‘
(؎۱) یعنی اماموں کا امام۔ ۱۲۔
اور شیخ عبد الحق نے شرح سفر السعادت میں بھی ایسا ہی لکھا ہے، تقریر بالا یعنی اصول حدیث سے ثابت ہوا کہ یہ حدیث صحیح ہے، مؤلف کو چاہیے کہ اس حدیث کی جرح کسی محدث سے نقل کرے ورنہ ایسے جھوٹے دعووں سے باز رہے، پس دلائل مذکورہ بالا سے نہایت واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ اول اور آخر رات میں جماعت سے اور اکیلے گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے، یہ تو کتب حدیث سے ثابت ہوا۔ا ب لیجئے خوف فقہ حنفیہ میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جماعت کے ساتھ گیارہ رکعت ہی پڑھائی تھیں۔ چنانکہ کنز کی شرح الشرح فتح المعین میں فتاویٰ شر بنلالیہ سے لکھا ہے:
((وفی شرنبلالیة الذی فعله علیه السلام بالجماعة احدی عشرة بالوتر وما روی انه کان یصلی فی رمضان عشرین سوی الوتر فضعیف))
’’شرنبلالیہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو جماعت کے ساتھ تراویح پڑھائی تھی، وہ گیارہ ہی رکعت تھیں۔ اور وہ جو بیس تراویح پڑھنے کی روایت ہے۔ سو ضعیف ہے، انتہیٰ۔‘‘
ما فی فقہ الحنفیہ دیکھا کیسا ثابت ہوا۔ آپ کے گھر والے ہی کیسے علی الاعلان پکار رہے ہیں کہ آنحضرت نے جماعت کے ساتھ گیارہ رکعت تراویح پڑھائیں۔ اب بھی کچھ شبہ رہ گیا ہو تو فضل پنجم میں چل کر دیکھئے، اس میں وہ عبادات فقہ حنفیہ کی لکھی گئی ہیں۔ جن میں اس بات کی صراحت کر دی گئی ہے کہ بیس رکعت تراویح کو سنت کہنا صحیح نہیں بلکہ آٹھ ہی رکعت سنت ہیں، باقی مستحب بطور نفل کے جیسے عشاء کی دو سنتوں کے بعد دو نفل پڑھے جاتے ہیں، اب صحابہ رضی اللہ عنہم سے گیارہ رکعت تراویح کا ثبوت لیجئے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم سے گیارہ رکعت تراویح کے ثبوت میں:
((عن السائب بن یزید قال امر عمر ابی بن کعب وتمیم الداری ان یقوما للناس فی رمضان باحدی عشرة رواہ مالك فی المؤطا باسناد صحیح))
’’سائب بن یزید (صحابی) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو اس بات پر مامور کیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں۔‘‘
روایت کیا اس کو امام مالک نے مؤطا میں (اسناد صحیح سے) ف : یعنی ابی کو مردوں کا امام بنایا اور تمیم داری کو عورتوں کا جیسا کہ سعید بن منصور نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے، اس حدیث سے دو باتیںمعلوم ہوئیں۔ اول یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت تراویح کا حکم فرمایا۔ دوم صحابہ مردوں اور عورتوں کا گیارہ رکعت تراویح پڑھنا بحکم حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے گیارہ پر اجماع ثابت ہوا۔ اور اس اجماع پر کسی صحابی و تابعی نے انکار نہیں کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم پر اجماع فعلی اور سکوتی ہوا۔ علاوہ سنت نبوی کے سنت خلفاء و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ بھی ثابت ہوئی، اور یہی ہمارا مقصود تھا۔ مؤلف رسالہ نے اس کے مقابلہ میں تیرہ اور اکیس کی روایت پیش کی ہے، سو ہم تیرہ کی روایت مخالف نہیں سمجھتے، کیونکہ تیرہ اور گیارہ قریب قریب ہیں۔ اور حضرت ﷺ سے بھی تیرہ اور گیارہ دونوں مروی ہیں، فتح الباری میں ہے۔
((والعدد الاول موافق لحدیث عائشة المذکور بعد ھذا الحدیث فی الباب والثانی قریب منه))
’’عدد اول یعنی گیارہ رکعت کی تعداد حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ کے موافق ہے، (جس میں آنحضرت ﷺ کی گیارہ تراویح کا ذکر ہے، جو اسی باب میں اس کے بعد مذکور ہے اور عدد ثانی یعنی تیرہ بھی اس کے قریب ہے۔ انتہیٰ‘‘
اور فتح الباری میں ہے۔
((وھو موافق لحدیث عائشة فی صلوٰة النبی ﷺ فی اللیل))
’’یعنی تیرہ کی روایت بھی موافق ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا کی اُس حدیث کے جوآنحضرت ﷺ کی نماز شب کے بارے میں منقول ہے۔‘‘
تقریر بالا سے بسبب قریب ہونے ہر دو تعداد کے اور موافق ہونے حضرت ﷺ کی نماز کے گیارہ اور تیرہ میں کچھ مخالفت نہ رہی۔ اور یوں بھی مخالفت نہیں رہتی کہ آٹھ تراویح پڑھ کر تین وتر پڑھے تو گیارہ رکعت ہوئیں، اور پانچ وتر پڑھے تو تیرہ ہوئیں غرضیکہ ان میں کسی قسم کی مخالفت نہیں۔ باقی رہی اکیس کی روایت سو اول تو وہ مرجوع ہے، اور گیارہ کی راجح ہے، کئی وجہ سے اول یہ کہ مؤطا امام مالک جس میں گیارہ کی روایت ہے، اول درجہ کی کتابوں میں ہے، اور مصنف عبد الرزاق جس میں اکتیس کا حوالہ مؤلف نے دیا ہے، تیسرے درجہ کی ہے، دوم امام مالک کی روایت کے موافق مصنف ابو بکر بن ابی شیبہ اور سنن سعید بن منصور میں بھی ہے، جیسا کہ آگے منقول ہو گا۔ پس یہ متابعت بھی مالک رحمہ اللہ کی روایت کی مرجح ہو گی۔ سوم گیارہ کی روایت موافق ہے، آنحضرت ﷺ کی نماز کے۔چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں گیارہ رکعت کی نسبت لکھتے ہیں۔ ((والعدد الاول موافق لحدیث وائشة المذکور بعد ھذا الحدیث فی الباب)) یعنی گیارہ کی تعداد حضرت کی تراویح کے موافق ہے، لیجئے جناب صاحب فتح الباری جس کی عبارت آپ نے تعارض کے ثبوت میں پیش کی ہے، وہ خود گیارہ رکعت کی روایت کو آنحضرت ﷺ کے فعل کے مطابق بنا کر اسی کو ترجیح کا اشارہ کرتے ہیں، لیکن مؤلف نے اپنے مطلب کی عبارت لے لی۔ اور ﴿لَا تَقْرَبُوْا الصَّلٰوة﴾ کہہ کر ﴿وَاَنْتُمْ سُکٰارٰی﴾ کو چھوڑ دیا۔ یعنی اختلاف روایت کو تو نقل کیا۔ اور گیارہ کی ترجیح کو چھوڑ کر حق کو چھپایا۔ اور یہ نہ جانا کہ اس وقت تو اس ملمع سازی سے عوام کو دھوکہ دے لوں گا۔ لیکن اگر کوئی اصل کتاب کو دیکھ کر اس کی قلعی کھول دے تو کیسی رسوائی ہو گی۔ جھوٹے حوالے دینے اور کنز بیونت کرنی تو آپ لوگوں کا حصہ ہے، لیکن یاد رکھئے!
بہرر لگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من انداز قدرت رامے شنا سم
پہلے بھی اہل حدیث نے آپ لوگوں کو ایسی چالاکیوں کو گرفت کر کے اس کا جواب مانگا ہے۔ اور اب تک کچھ جواب نہیں ملا۔ گذشتہ را صلوات اب اسی بات کا جواب دیجئے کہ آپ نے اختلاف کی تطبیق اور گیارہ کی ترجیح کو کیوں چھوڑ دیا۔ اور بعد تسلیم صحت روایت اکیس کی بھی ان میں کوئی تعارض نہیں۔ کیونکہ اوقات مختلفہ پر حمل کرنے سے کسی کے نزدیک تعارض نہیں رہتا۔ چنانچہ شیخ عبد الحق صحاب اس حدیث گیارہ کو صحیح کہہ کر بیس رکعت کے معارض ہونے کی یوں نفی کرتے ہیں۔ وجاب دادہ اند کہ ایں حدیث (یا زدہ) صحیح است وتواند کہ در بعض اوقات گاہے، بست مے کردہ باشند د گاہے، یا زدہ اور اس کی تفصیل آگے آوے گی۔ پس اگرچہ بوجوہ بالا گیارہ ہی کی روایت راجح ہے، اور بموجب ہمارے مسلک کے ان میں کوئی تعارض نہیں، اور اکیس پر عمل بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن بموجب مسلک حنفیہ رحمہ اللہ کے اکیس کی روایت مرجوع ہے، وہ اس پر عمل نہیں کر سکتے تو اس روایت کا پیش کرنا باوجود مرجوع ہونے کے محض لغو اور الٹا الزام لینا ہے، کیونکہ اکیس میں اگر تراویح بیس رکعت پڑھیں تو وتر ایک رکعت کا قائل ہونا پڑے گا۔ اور یہ حنفیہ کے خلاف ہے، اور اگر وتر کو تین کہیں تو تراویح اٹھارہ ہوں گی۔ اور یہ بھی حنفیہ کے خلاف ہے، اور اگر وتر پانچ کہیں اور تراویح سولہ تو یہ دونوں ہی حنفیہ کے خلاف ہیں غرضیکہ ان سب صورتوں میں حنفیوں کے اس حدیث پر استدلال کرنے سے یہ مثل صادق آتی ہے، اونٹ رے اونٹ تیری کون سی گل سیدھی۔ لا محالہ یہ روایت اکیس کی حنفیہ کے نزدیک بھی مرجوع ہوئی۔ پس روایت گیارہ اور تیرہ ہی صحیح اور راجح ہے، جو علاوہ دیگر وجوہ ترجیح کے آنحضرت ﷺ کی نماز کے بھی موافق ہے، اب دوسری روایتیں سنیئے۔ جو مؤطا مالک کے گیارہ رکعت کی روایت کی مؤید ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔
((عن السائب بن یزید انہ قال قال عمر بن الخطاب لابی بن کعب و سلیمان بن ابی حثمة ان یقوم للناس باحدیٰ عشرة رکعة))
’’سائب بن یزید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور سلیمان بن ابی حثمہ کو فرمایا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت تراویح پڑھایا کریں۔‘‘
اور سنن سعید بن منصور میں ہے۔
((حدثنا عبد اللّٰہ بن محمد حدثنی محمد بن یوسف سمعت السائب بن یزید یقول کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب باحدی عشرة رکعة))
’’حدیث کی ہم کو عبد اللہ بن محمد نے کہا حدیث کی مجھ کو محمد بن یوسف نے کہا کہ میں نے سائب بن یزید سے سنا وہ کہتے تھے، ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔‘‘
اور قیام اللیل محمد بن نصر مروزی میں ہے۔
((حدثنی محمد بن اسحاق حدثنی محمد بن یوسف عن جدہ السائب بن یزید قال کنا نصلی فی زمن عمر رضی اللہ عنه فی رمضان ثلث عشرة رکعة))
’’حدیث کی ہم کو محمد بن اسحاق نے حدیث کی ہم کو محمد بن یوسف نے اپنے دادا سائب بن یزید سے انہوں نے کہا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تیرہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔‘‘
یہ آخر کی دو روایتیں محلی شرح مؤطا تصنیف شیخ سلام اللہ حنفی میںبھی موجود ہیں، یہ روایتیں مع روایت مؤطا مالک کی اس ایک روایت عبد الرزاق کو مرجوع ٹھہرا رہی ہیں، پس ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صحابہ مرد اور عورتیں سب گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے، جس سے بیس پر اجماع کا دعویٰ بھی باطل ہوا۔ بلکہ گیارہ پر اجماع صحابہ ثابت ہوا۔
تابعین کے گیارہ اور تیرہ رکعت تراویح پڑھنے کے بیان میں:
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے۔
((واخرج من طریق محمد بن اسحٰق حدثنی محمد بن یوسف عن جدہ السائب بن یزید قال کنا نصلی فی زمن عمر بن الخطاب فی رمضان ثلث عشرة رکعة قال ابن اسحاق وھذا ثبت ما سمعت فی ذالك وھو موافق لحدیث عائشة رضی اللہ عنہا فی صلوة النبی ﷺ من اللیل))
’’سائب بن یزید صحابی کہتے ہیں ہم حضرت عمر کے زمانہ میں تیرہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔ ابن اسحاق (؎۱) تابعی فرماتے ہیں۔ کہ تراویح کے بارے میں تیرہ رکعت تراویح زیادہ ثبوت کو پہونچی ہیں، اور وہ موافق ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی نماز شب کے۔‘‘ (؎۱) چنانچہ خلاصہ میں ہے۔ ۱۲
اور شیخ عبد الحق حنفی ما ثبت باالسنۃ میں لکھتے ہیں۔
((وروی انه کان بعض السلف فی عہد عمر بن عبد العزیز یصلون باحدی عشرة رکعة قصداً للتشبیه برسول اللّٰہ ﷺ))
’’اور بعض روایت میں ہے، کہ بعض سلف عمر بن عبد العزیز کے زمانہ میں گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے، آنحضرت ﷺ کے ساتھ تعداد میں مشابہت اور پیروی سنت کی غرض سے ہے انتہیٰ‘‘
اس روایت سے ایک تو دعویٰ اجماع بیس کا ٹوٹ گیا۔ کیونکہ عمر بن عبد العزیز کا زمانہ تابعین کا ہے، جس میں کبار تابعین بعض صحابہ بھی موجود تھے۔ دوم یہ ثابت ہوا کہ سلف گیارہ رکعت آنحضرت ﷺ کی مشابہت کی نیت سے پڑھتے تھے، جیسا آج کل اہل حدیث اسی نیت سے پڑھتے ہیں۔اور شیخ عبد الحق (؎۱) نے بھی اشعۃ اللمعات میں دو جگہ تصریح کی ہے، کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ تشبہ کی نیت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کوگیارہ رکعت تراویح پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔ پس اگر حضرت عمر کے زمانہ میں لوگ تخففی قرأۃ کی غرض سے بیس پڑھنے لگے ہوں تو کچھ اس کی منافی نہیں ہم کو اس سے بھی انکار نہیں لیکن جو شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور بعض سلف تابعین کی طرح آنحضرت ﷺ کی تشبہ کی نیت سے گیارہ رکعت تراویح پڑے گا۔ وہ سنت رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین دونوں کا عامل کہلائے گا۔ نہ یہ کہ سنت خلفاء رضوان کا تارک ہو گا۔ (؎۱) دیکھو اشعة اللمعات جدل اول مطبوعہ نوں کشور صفحہ ۵۸۶۔
اس بیان میں کہ چاروں اماموں میں امام مالک اور امام احمد گیارہ رکعت تراویح کے قائل ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی مؤطا مالک میں فرماتے ہیں۔ ((خیر احمد بین احدی عشرة وثلث وعشرین)) ’’امام احمد نے گیارہ اور تیئس میں اختیار دیا ہے، جو چاہو پڑھو۔‘‘ اور بھی شاہ صاحب مصفی شرح فارسی مؤطا میں تحریر فرماتے ہیں۔ امام احمد مخیر داشتہ است دراوائے یا زدہ رکعت وبست دسہ رکعت۔ ترجمہ’’امام احمد نے گیارہ اور تیئس کے پڑھنے میں اختیار دیا ہے۔‘‘اور مؤطا میں بروایت و نسخہ شاہ ولی اللہ صاحب گیارہ رکعت کا باب باندھا ہے، اس باب میں امام مالک نے آنحضرت ﷺ کی سنت سے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد اور صحابہ کے عمل درآمد سے گیارہ رکعت کو اسناد صحیح سے ثابت کیا ہے، اور اس کے بعد بیس رکعت تراویح کا بھی باب ہے، لیکن اس میں حدیث منقطع لائے ہیں۔ اس قرینہ سے معلوم ہوا کہ امام مالک کے نزدیک گیارہ اور بیس مروی ہیں۔ لیکن گیارہ ان کے نزدیک زیادہ ثابت ہیں۔ اور اسی کو محبوب فرماتے ہیں۔ چنانچہ خود عینی حنفی شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں۔ ((وقیل احدی عشر وھو اختارہ مالك لنفسه واختارہ ابو بکر بن العربی)) ’’اور بعض ائمہ کا مذہب گیارہ رتراویح کا ہے، اور اسی کو امام مالک نے اپنے نفس کے لیے پسند فرمایا ہے، اور اسی کو علامہ ابو بکر بن العربی مالکی نے اختیار کیا ہے، اور علامہ سیوطی رسائل تسعہ صفحہ ۲۰ میں لکھتے ہیں۔
((قال ابن الجوزی من اصحابنا عن مالك انه قال الذی جمع علیه الناس عمر بن الخطاب احب الی وھو احدی عشرة رکعة وھی صلوة رسول اللہ ﷺ قیل له احدیٰ عشرة رکعة بالوتر قال نعم وثلث عشرة قریبا منه قال ولا ادری من ابن احدیث ھذا الرکوع الکثیر))
’’یعنی ہمارے بعض اصحاب سے ابن جوزی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں۔ کہ امام مالک نے فرمایا کہ جس پر لوگوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمع فرمایا۔ وہ مجھ کو محبوت تر ہیں۔ اور وہ گیارہ رکعت ہیں۔ اور یہی نماز رسول اللہ ﷺ کی تھی۔ کسی نے امام سے پوچھا کہ گیارہ مع وتر کے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں اور تیرہ بھی اسی کے قریب ہیں۔ اور کہا کہ میں اس کی وجہ اور علت نہیں جانتا کہ یہ زیادہ رکعتیں جو لوگوں میں رائج ہیں کہاں سے اور کیونکر جاری ہوئیں۔‘‘
اگر کوئی کہے کہ امام مالک کا مذہب تو لوگ اکتالیس رکعت کا نقل کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ تعجب نہیں کہ امام کا پہلے مذہب اکتالیس کا ہو۔ اور پیچھے گیارہ ہی کو پسند فرمایا ہو یا پیچھے اکتالیس کی بھی لوگوں کو وسعت دے دی ہو۔ لیکن اپنے نفس کے لیے گیارہ ہی کو پسند رکھا۔ چنانچہ عینی حنفی اور سیوطی شافعی سے ابھی منقول ہوا۔ اور اماموں سے ایک مسئلہ میں کئی کئی روایتیں منقول ہوتی چلی آئی ہیں۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (؎۱) سے ہزاروں مسئلوں میں دو دو تین تین چار چار روایتیں مختلف موجود ہیں۔ ان کے بعد ہر ملک کے مشائخ رحمہم اللہ ان ہی روایتوں کے سبب مختلف ہو گئے۔ پھر مفتی بہ روایت کی تنقیح کی گئی اس کے لیے قواعد مقرر کیے گئے۔ لیکن مشکل یہ آن پڑھی کہ کوئی فقیہ کسی قول کو مفتی بہ ٹھہراتا ہے دوسرا کسی کو تیسرا کسی کو غرضکہ امام ہی کے قول صحیح ہونے میں اختلاف اس قدر ہے کہ تمیز مشکل (؎۲) ہی ہوتی ہے، مگر قرائن سے ایک قول کو ترجیح تو ضرور دی جائے گی۔ اسی طرح امام مالک کے بھی اقوال ہیں۔ لیکن معتبر اور راجح وہی قول ہو گا۔ جو ان کی خاص کتاب مؤطا میں ہو۔ یا کتاب میں نہ ہو تو کتاب کے مخالف بھی نہ ہو تو کتاب کے مخالف بھی نہ ہو۔ چنانچہ کتے کے جھونٹے کی نجاست میں امام مالک کے چار قول ہیں۔ ایک مطلق پاک ہے، دوم مطلب ناپاک ہے، سوم شکاری وغیرہ کا جھونٹا پاک چہارم گنوارون کے لیے پاک اور شہریوں کے لیے ناپاک ہے، مگر معتبر قول دوم ہے۔ یعنی ناپاک ہے۔ جو مؤطا سے مفہوم ہوتا ہے۔ اسی طرح مالکی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔ اور امام کا مذہب نقل کرتے ہیں۔ مگر چونکہ امام مالک نے مؤطا میں ہاتھ باندھنے کا باب باندھا ہے۔ اور اس میں صحیح حدیث مرفوع لکھی ہے۔ اسی لیے علماء محققی نے ان کا مذہب ہاتھ باندھنے کاصحیح قرار دیا ہے، اور مالکیوں کو غلطی پر بتایا ہے۔ مگر چونکہ ان کے ہاتھ سلطنت تو تھی جو ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کو مالکیوں سے چھڑا دیتے، اس لیے مکہ معظمہ میں مالکی مصلی پر اب تک ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی جاتی ہے، اگر کوئی شخص یہاں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھے تو اس کو رافضی بتایا جاتا ہے، مگر وہاں مکہ معظمہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھی درست ہے، کیونکہ چاروں مذہب حق ہیں۔ لیکن یہ بے چارے ی نہیں کہیں توکیا کریں اگر یہ ان کی ایسی ایسی غلطیاں نکالیں تو وہ ان کی ہزاروں غلطیاں نکال کھڑی کریں۔ اس لیے من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو کا مضمون ہو رہا ہے، یارو کچھ تو سمجھ خدا ایک رسول ایک پھر چاروں کے قول مختلف ایسے کہ ایک حلال کہیں دوسرے حرم تیسرے مکروہ چوتھے طیب تو بھلا اس صورت میں قول صحیح ایک ہی ہو گا۔ یا چاروں اسی طرح ایک امام کے چار قول ہیں۔ تو صحیح ایک ہو گا۔ غرضکہ امام مالک کا مذہب و عمل گیارہ رکعت تراویح کا ہی ٹھیک ہے جس کو انہوں نے خود مؤطا میں صحیح حدیث سے ثابت کیا ہے، اور اسی کو انہوں نے اپنے لیے پسند فرمایا ہے، جیسا کہ علامہ عینی حنفی اور علامہ سیوطی سے ابھی منقول ہوا۔
(؎۱) امامنا یعنی ہمارے امام اور اس واسطے کہ وہ اصل میں ہمارے بھی امام ہیں۔ اور مقلدین کے امام نہیں ہیں۔ کیونکہ ہم ان کے قول ((اذا صح الحدیث فھو مذهبی)) پر عمل کرتے ہیں۔ اور مقلدین اس قول کا خلاف کرتے ہیں۔ گویا انہوں نے اُن کو امام نہیں مانا۔ ۱۲
(؎۲) باوجود اُس کے مقلدین اس فقہ کو قرآن و حدیث کا مغز جانتے ہیں۔ اور حدیث پر عمل نہ کرنے کا یہ حیلہ نکالتے ہیں کہ ہم حدیث کونہیں سمجھ سکتے۔ حالانکہ علم حدیث کو محدثین نے نہایت ہی آسان کر دیا ہے، اور ناسخ و منسوخ کی الگ کتابیں بنا دی ہیں۔ بخلاف فقہ کے کہ اس میں امام ہی کے قول قدیم و جدید کی کچھ تمیز نہیں چہ جائیکہ احادیث کی تصحیح و تنقید کا کچھ ذکر بھی ہو۔۱۲
اس بیان میں کہ خود محققین حنفیہ فقط گیارہ رکعت تراویح کو سنت بتاتے ہیں باقی بارہ کو نفل کہتے ہیں۔ جیسے عشاء کی دو سنتوں کے بعد دو نفل اور بیس سنت کہنا صحیح نہیں جانتے۔
ابن ہمام حنفی علیہ الرحمۃ جو حنفی مذہب کے ٹھیکدار اور پورے وکیل ہیں فتح القدیر شرح ہدایۃ میں لکھتے ہیں۔
((فحصل من ھذا کله ان قیام رمضان سنة احدی عشرة رکعة باالوتر فی جماعة فعله علیه السلام وترکه بعذر افاد انه لو لا خشی ذالك لواظبة بکم ولا شك فی تحقیق الا من ذالك بوفاته ﷺ فیکون سنة وکونہا عشرین سنة الخلفاء الراشدین وقوله علیه السلام علیکم بسنتی وسنة خلفاء الراشدین ندب الی سنتھم ولا یستلزم کون ذالك سنة اذا لسنة ما واظبه بنفسه الا بعذر وبتقدیر عدم ذالك العذر انما استفدنا انه کان یواظب علی ما وقع من ھو ما ذکرنا فیکون العشرون مستحبا وذالك القدر منہا ھو السنة کاربع بعد العشاء مستحبة ورکعتان منھا سنة وظاهر کلام المشائخ ان السنة عشرون ویقتض الدیل ما قلنا فالاولی ھو عبارة القدوری من قوله مستحب))
’’تحریر بالا یعنی آنحضرت ﷺ کی حدیث اور صحابہ رضی اللہ عنہ کے آثار سے یہ حاصل ہوا کہ تراویح سنت گیارہ رکعت مع وتر کے ہیں۔ جماعت کے ساتھ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے پڑھائیں، اور عذر فرضیۃ کے سبب سے چھوڑ دیں اس عذر سے یہ افادہ فرمایا کہ اگر فرضیت کا خوف نہ ہوتا۔ تو میں مسجد میں جماعت کے ساتھ تم کو ہمیشہ تراویح پڑھاتا، اور اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ کی وفات کے بعد فرضیت کا خوف جاتا رہا۔ تو تراویح گیارہ سنت ہوئیں۔ اور بیس تراویح خلفاء راشدین کی سنت ہے، اور آنحضرت ﷺ کا ارشاد میرے طریقہ اور خلفاء راشدین کے طریقہ کو لازم پکڑو۔خلفاء کے طریقہ کی طرف بلاتا ہے، اس ارشاد سے بیس تراویح کا سنت ہونا لازم نہیں آتا۔ کیونکہ سنت اسی کو کہتے ہیں جس کو آنحضرت ﷺ نے خود ہمیشہ کیا ہو۔ مگر عذر کے سبب سے اور بالفرض اگر آپ کے بیان کے قطع نظر کی جائے تو بھی ہم نے تراویح کا سنت ہونا اس سے لیا ہے کہ آپ مداومت فرماتے اُس مقدار تراویحپر جو آپ سے واقع ہوئیں اور ان کی تعداد ہم پہلے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کر آئے ہیں۔ یعنی گیارہ رکعت مع وتر کیپس بیس رکعت تراویح مستحب ہوں گی۔ اور ان میں سے فقط گیارہ سنت ہیں۔ اور باقی نفل کے طور پر جس طرح کہ عشاء کے بعد چار رکعت مستحب ہیں۔ کہ سنت اُن میں سے فقط دو رکعت ہیں۔ باقی دو رکعت نفل ہیں۔ اور مشائخ کا ظاہر کلام یہ ہے کہ بیس سنت ہیں۔ لیکن دلیل ہمارے ہی قول کو چاہتی ہے۔ پس اولیٰ یہ ہے کہ بیس رکعت کو مستحب ہی کہا جائے۔ جیسا قدوری میں ہے۔ ختم ہوا ترجمہ عبارت فتح القدیر شرح ہدایۃ کا۔‘‘
بحر الرائق شرح کنز میں ہے۔
((وقولہ عشرون رکعة بیان لکمیتہا وھو قول الجمہور لما فی المؤطا عن یزید بن رومان قلا کان الناس یقومون فی زمن عمر بن الخطاب بثلث وعشرین رکعة علیہ عمل الناس شرقا و غربا لین ذکرا المحقق فی فتح القدیر ما حاصله ان الدلیل یقتضی ان یکون السنة من العشرین ما فعله ﷺ منھا ثم ترکه خشیة ان یکتب علینا و الباقی مستحبا وقد ثبت ان ذالك کان احدیٰ عشر رکعة بالوتر کما ثبت فی الصحیحین من حدیث عائشة فاذا یکون المسنون علی اصول مشائخنا ثمانیة منھا والمستحب اثنا عشر رکعة))
’’بیس رکعت کا لفظ تراویح کی تعداد بیان کرنے کے لیے صاحب کنز نے کہا ہے، اور یہی قول جمہور حنفیہ کا ہے۔ اس لیے کہ مؤطا امام مالک میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تیئس رکعت تراویح پڑھتے تھے، اور اسی پر شرق غرب کے لوگوں کا عمل ہے، لیکن محقق ابن ہمام نے فتح القدیر میں ذکر کیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ دلیل اس بات کو چاہتی ہے کہ ان میں سے سنت اسی قدر ہے جو آپ نے پڑھیں اور فرضیت کے خوف سے جماعت کے ساتھ چھوڑ دیں۔ اور ان کی تعداد گیارہ ہی رکعت مع وتر کے ثابت ہوئی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میںحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہوا۔ تو اس صورت میں ہمارے مشائخ حنفیہ کے قاعدہ اصول کے مطابق آٹھ رکعت ہی سنت ہیں۔ باقی بارہ نفل تمام ہوا۔‘‘
ترجمہ عبارت بحر الرائق شرح کنز کا طحطاوی میں ہے۔
((ذکر فی فتح القدیر یوما حاصله ان الدلیل یقتضی ان یکون السنة من العشرین ما فَعَله ﷺ منھا ثم تکرکه خشیة ان یکتب علینا والباقی مستحبان وقد ثبت ان ذالك کانت احدیٰ عشر رکعة باالوتر کما ثبت فی الصحیحین من حدیث عائشة فاذاً یکون المسنون علی اصول مشائخنا ثمانیة منھا والمستحب اثنی عشر))
’’فتح القدیر میں ذکر کیا ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ دلیل تو اس کو چاہتی ہے کہ بیس میں سے سنت تو اس قدر ہیں جس کو آنحضرت ﷺ نے پڑھا۔ پھر فرضیت کے خوف سے چھوڑ دیا۔ اور باقی نفل ہیں۔ اور تحقیق سے ثابت ہوا کہ وہ مع وتر کے گیارہ ہی رکعت ہیں، جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے تو اس صورت میں ہمارے مشائخ حنفیہ کے قاعدہ اصول کے مطابق آٹھ رکعت ہی سنت ہیں۔ باقی بارہ نفل تمام ہو ترجمہ عبارت تحطاوی کا۔‘‘
فقہ کی ان عبارات سے صاف اور واضح طور پر ثابت ہوا کہ بیس رکعت تراویح سنت نہیں۔ بلکہ گیارہ رکعت ہی سنت ہیں۔ باقی بارہ رکعت مانند اُن نفلوں کے ہیں۔ جو عشاء کی دو سنتوں کے بعد پڑھے جاتے ہیں۔ اور مؤلف کا یہ قول کہ پیغمبر خدا ﷺ اور اصحاب رسول اللہ ﷺ کی سنت میں کچھ فرق نہیں، بموجب فقہ حنفیہ کے باطل ہوا۔ کیونکہ صاحب فتح القدیر حنفی نے اصول حنفیہ کے قاعدے سے یہ ثابت کیا کہ خلفاء کا فعل سنت نہیں ہے۔ فقط مستحب کا درجہ رکھتا ہے۔ اور مؤلف جو حدیث علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین کو پیش کیا ہے۔ اس کا جواب بھی حنفیوں ہی نے دے دیاکہ اس حدیث سے محض خلفاء کا فعل سنت ثابت نہیں ہوتا جبکہ آنحضرت ﷺ سے ثابت نہ ہو۔ بلکہ فقط مندوب یعنی مستحب ہونا ان کے فعل کا ثابت ہوتا ہے، اگرچہ یہ قول فقہ والوں کا مؤلف اور دیگر مقلدین متعصبین کے رد اور الزام دینے کو کافی ہے، کیونکہ وہ اپنی فقہ کو قرآن و حدیث کا مغز (؎۱) جانتے ہیں۔
(؎۱) اگرچہ وہ اختلاف اور خلاف سے پر ہی کیوں نہ ہو۔ ۱۲۔
لیکن بطور تحقیق کے طالبان حق کے لیے چند دلائل اس کے لکھتا ہوں۔
یہ کہ سنت کا اطلاق اسی پر آتا ہے، جو کو آنحضرت ﷺ نے خود کیا ہو جیسا کہ صاحب فتح القدیر نے بیان کیا ہے، اور اس پر کئی شاہد ہیں ازانجملہ ایک یہ ہے کہ جہاں کہیں صحابہ تابعین مطلق سنت کا لفظ بغیر اضافت و قرینہ کے استعمال کرتے تھے۔ وہاں آنحضرت ﷺ ہی کی سنت مراد لیتے تھے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے شرح نخبہ میں صحیح بخاری سے یوں نقل کیا ہے۔
((وقد روی البخاری فی صحیحه فی حدیث ابن شہاب عن سالم بن عبد اللّٰہ بن عمر عن ابیہ فی قصته مع الحجاج حیث قال له ان کنت ترید السنة فھجر بالصلوة قال ابن شہاب فقلت لسالم افعله رسول اللہ ﷺ فقال وھل یعنون بذالك الاسنة فنقل سالم وھو احد الفقہاء السبعة من اھل المدینة واھد الحفاظ من التابعین عن الصحابة انہم اذا اطلقوا السنة لا یریدون بذالك الا سنة النبی ﷺ))
’’یعنی عبد اللہ بن عمر کے بیٹے سالم رضی اللہ عنہ نے حجاج کو کہا کہ اگر تم سنت کی پیروی کرنا چاہتے ہو تو نماز سویرے پڑھ لو۔ تو ابن شہاب نے سالم سے کہا کیا رسول اللہ ﷺ نے اس کو کیا ہے تو سالم نے کہا کہ صحابہ رضی اللہ عنہ سنت سے آنحضرت ﷺ کی ہی سنت مراد رکھتے تھے، حافظ ابن حجر اس پر فرماتے ہیں کہ دیکھو سالم رضی اللہ عنہ جو اہل مدینہ کے فقہا سیعہ اور تابعین میں حفاظ حدیث سے ہیں، وہ صحابہ سے نقل کرتے ہیںکہ صحابہ جب سنت کا لفظ بولتے تھے تونبی ﷺ کی سنت مراد لیتے تھے۔ انتہیٰ‘‘
سنت خلفاء کو خلفاء کے ساتھ مقید اور اضافت کرنے سے ثابت ہوا کہ خلفاء کی سنت کو مطلق سنت سے تعبیر نہیں کرتے، مگر قید اور اضافت کے ساتھ یعنی ان کے فعل کو فقط سنت نہیں کہتے بلکہ سنت کے ساتھ خلفاء کا لفظ بھی بول دیتے ہیں۔ یا ایسا لفظ کہہ دیتے ہیں جس سے آنحضرت ﷺ اور سنت خلفاء کے مرتبہ میں فرق ہو جائے، کیونکہ جو نسبت رسول اللہ ﷺ اور خلفاء میں ہے، وہی نسبت ان کے فعل میں بھی ہے یعنی آنحضرت ﷺ کے فعل کا درجہ اور ثواب زیادہ ہے، خلفاء کے فعل اور ثواب سے، اس بات کو کوئی ادنیٰ مسلمان بھی نہیں کہہ سکتا کہ آنحضرت ﷺ کا فعل اور خلفاء کا فعل درجہ مساوی رکھتا ہے، نہیں معلوم مؤلف کی عقل کہاں گئی کہ برابر درجہ بتلاتا ہے، کس نے کیا اچھا فرمایا ہے، گو فرق مراتب نکنی زندیقی۔
صحابہ رضی اللہ عنہم خلفاء کے فعل کو جہاں کہیں رسول خدا کے فعل سے بڑھا ہوا یا گھٹا ہوا دیکھتے تو فوراً ان پر انکار کر دیتے، اور پیغمبر کے فعل کو اگرچہ تعداد رکعت یا عمل میں قلیل ہی کیوں نہ ہو۔ خلفاء کے فعل پر مقدم رکھتے تھے۔ چنانچہ مشتے نمونہ از خروارے داند کے از بسیائے چند روایتیں لکھتا ہوں۔
اول: جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ صلوٰۃ سفر چار رکعت پڑھنے لگے۔ تو عبد اللہ بن مسعود اگرچہ خلیفہ کی ظاہری مخالفت نہ کرے۔ لیکن فرماتے کاش چار کے بدلے دو ہی رکعتیں پڑھی جاتی جو مقبولیت کے لائق ہیں۔ دیکھو صحیح بخاری صفحہ ۱۴۷
دوم: حضرت عمر و حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمتع، یعنی عمرہ کر کے حلال ہو جانے اور پھر از سر نو حج کے لیے احرام باندھنے کو منع فرماتے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ ان کے مخالف رہے، دیکھو صحیح مسلم صفحہ ۳۹۳، ۴۰۲ بلکہ ترمذی کے صفحہ ۱۲۷ میں ہے کہ عبد اللہ بن عمر اس مسئلہ میں باپ کے مخالف تھے۔ کسی نے عبد اللہ بن عمر سے اسی تمتع کا مسئلہ پوچھا تو آپ نے جائز فرمایا۔ پھر سائل نے کہا کہ تمہارے باپ حضرت عمر تو منع کرتے تھے۔ اس کے جواب میں عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ بھلا اگر ایک کام کو پیغمبر خدا نے کیا ہو۔ میرے باپ نے منع کیا ہو تو کہو رسول اللہ کا اتباع کیا جاوے گا یا میرے باپ کو۔
سوم: حضرت عمر پانی نہ ملنے کی حالت میں بھی جنبی کو تیمم کرنے سے منع کرتے تھے۔ جس میں صحابہ اُن کے مخالف رہے۔ دیکھو صحیح مسلم صفحہ ۱۶۱ بلکہ ان کی اس بات کو ائمہ مذہب سے بھی کسی نے قبول نہیں کیا اور بعض نے خود حضرت عمر کا رجوع اس مسئلہ میں نقل کیا ہے۔
چہارم: علی المرتضیٰ نے ایک قوم مرتدین کو جلا دیا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان پر انکار کیا۔ اور حدیث آنحضرت ﷺ کی بیان کی کہ آپ نے جلانے سے منع فرمایا ہے، دیکھو صحیح بخاری صفحہ ۴۲۳ غرضکہ بہت جگہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت ﷺ کے فعل کو خلفاء کے فعل پر مقدم رکھا ہے، اس سے میری غرض یہ نہیں کہ خلفاء کا ہر فعل کچھ درجہ نہیں رکھتا۔ بلکہ میری غرض یہ ہے کہ مؤلف کے قول باطل کی طرح خلفاء کا فعل آنحضرت ﷺ کے فعل کے ساتھ مساوی درجہ نہیں رکھتا۔ بلکہ بہت فرق ہے، جس کا حاصل یہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ کا فعل سنت ہے، اور خلفاء کا فعل مستحب اور یہی ہمارا مطلوب تھا۔ غرضکہ دلائل مذکورہ بالا سے معلوم ہوا کہ بقول صاحب فتح القدیر حدیث علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین سے خلفاء کا فعل فقط مندوب یعنی مستحب ہی کا درجہ رکھتا ہے نہ سنت کا اور یہ بحث بھی اس تقدیر پر ہے، کہ جب خلفاء سے وہ فعل نبوی نہ منقول ہو۔ اور جہاں فعل نبوی کے ساتھ خلفاء کا فعل بلکہ امر بھی ہو تو بالاولیٰ وہ کام سنت ہو گا اور مقدم ہو گا۔ اس فعل پر جو فقط خلفاء کا فعل ہو۔ چنانچہ گیارہ رکعت تراویح اول او رآخر شب میںآنحضرت ﷺ سے دلائل واضحہ اور صحیحہ کے ساتھ ثابت ہوئیں۔ اور محققین حنفیہ نے بھی فقہ میں درج کر دیا۔ اور اس کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان بھی گیارہ رکعت کے ساتھ صادر ہوا۔ جس کو ہم نے چار روایتوں سے ثابت کیا۔ اور خود حنفیہ نے بھی اس کو صحیح مان لیا۔ تو گیارہ رکعت تراویح سنت نبوی بھی ہو میں اور سنت خلفاء بھی اور بیس رکعت بموجب بعض روایت کے فقط سنت خلفاء ہوئیں، جس سے فقط نفل ہونا ثابت ہوتا ہے، اور ظاہر ہے کہ سنت کا درجہ نفل سے بڑھ کر ہے۔
مؤلف کے اس قول کے ابطال میں کہ بیس ہی رکعت تراویح پر اجماع ہوا۔ جب ہم نے آنحضرت ﷺ اور خلفاء راشدین اور تابعین اور امام مالک اور امام احمد بلکہ خود حنفیہ سے گیارہ رکعت تراویح ثابت کریں تو اجماع کا دعویٰ باطل ہو گیا۔ یا اینہہ ہم کچھ اور بھی لکھتے ہیں،اور پوچھتے ہیں کہ مؤلف نے دعویٰ اجماع کس دلیل پر ثابت کیا۔ اگر فقط لفظ الناس سے لیا ہے، جس کے معنی لوگوں کے ہیں، یعنی خلفاء کے زمانہ میں بیس پڑھتے تھے۔ تو اس میں کلام ہے، کیونکہ الناس یعنی لوگوں کے لفظ سے اجماع ثابت نہیں ہوتا، اور نہ سنت خلفاء بلکہ فقط فعل صحابہ ثابت ہوتا ہے، کیونکہ خلفاء کا فعل بیس رکعت کا بسند صحیح مؤلف نے اب تک ثابت نہیں کیا، بلکہ اس کے خلاف گیارہ رکعت کا حکم خلفاء موجود ہے، اور مؤلف نے جو کہا ہے کہ اگرچہ اجماع قولی ثابت نہیں ہو۔ لیکن اجماع سکوتی اور فعلی تو ثابت ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اجماع کے بقول مؤلف تین درجہ ہیں۔ اول قولی، دوم فعلی، سوم سکوتی، سو مؤلف نے پہلے دو دجوں میں سے قولی کا خود ہی انکار کر دیا۔ کہ خلفاء کے قول سے تو بیس ثابت نہیں ہوئیں، اور ان کے فعل کا دعویٰ تو کیا لیکن کوئی روایت بسند صحیح خلفاء کے قول کی پیش نہ کر سکے، باقی رہا ان کا سکوت سو ہم نے واضح طور سے گیارہ رکعت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول اور صحابہ کے فعل سے ثابت کر دیا۔ جس سے دعویٰ اجماع سکوتی کا باطل ہوا۔ یعنی گیارہ پر حضرت عمر کا حکم بھی ہے، اور صحابہ کا عمل بھی۔ اور بیس پر نہ خلفاء کا عمل ثابت کیا۔ اور نہ ان کا کوئی قول ثابت ہوا کہ خود مؤلف نے اقرار کیا۔ بلکہ سکوت ہے، اور ہر ادنیٰ مسلمان بلکہ ہر عاقل جانتا ہے کہ قول سکوت پر مقدم ہوتا ہے، اور یہی مطلوب ہے، تو بیس پر اجماع کا دعویٰ باطل ہوا، بلکہ ان کے طریق گیارہ پر اجماع ثابت ہوا۔
اس بیان میں کہ علاوہ گیارہ کے بیس سے کم اور زائد سنتالیس تک تراویح سلف صالحین سے مروی ہیں، جس سے بیس پر اجماع کا دعویٰ باطل ہوتا ہے۔
اس بارے میں ہم وہ عبارت فتح الباری کی نقل کرتے ہیں، جس کو خود مؤلف نے ذکر کیا ہے، لیکن چونکہ مؤلف نے دغا بازی او رعوام کو دھوکہ دینے کی غرض سے پوری عبارت نقل نہیں کی، کیونکہ صاحب فتح الباری نے روایت کو بیان کر کے گیارہ اور تیرہ کو اس طور پر ترجیح دی ہے، کہ وہ آنحضرت ﷺ کی سنت کے موافق ہیں۔لہٰذا ہم پوری عبارت نقل کرتے ہیں۔ تاکہ مؤلف کی خیانت بھی لوگوں پر ظاہر ہو بیس سے کم اور زائد تراویح پڑھنا سلف کا ثابت ہو کر بیس پر اجماع کا دعویٰ باطل ہوا۔ اور بیس ہی پر حصر کرنا اور کم زیادہ پر طعن کرنا بھی غلط ثابت ہو۔ چنانچہ فتح الباری جلد رابع کے اسی صفحہ ۲۹۱ میں جس کا خو دمؤلف نے حوالہ دیا ہے یہ لکھا ہے عبارت فتح الباری۔
((لم یقع فی ھذہ الروایة عدد الرکعات التی کان یصلی بہا ابی بن کعب وقد اختلف فی ذالك ففی المؤطا عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید انھا احدی عشرة ورواہ سعید بن منصور من وجد اٰخرو زاد فیه وکانوا یقرؤن بالمائتین (؎۱) ویقومون علی العصی من طول القیام ورواہ محمد بن نصر المروزی من طریق محمد بن اسحاق عن محمد بن یوسف فقال ثلث عشرة ورواہ عبد الرزاق من وجه اٰکر عن محمد بن یوسف فقال احدی وعشرین وروی مالك من طریق زید بن خصیفة عن السائب بن یزید عشرین رکعة وھذا محمول علی غیر الوتر وعن یزید بن رومان قال کان الناس یقومون فی زمان عمر بثلاث وعشرین ورواہ محمد بن نصر من طریق عطاء قال ادرکتھم یصلون عشرین رکعة وثلث رکعات الوتر والجمع بین ھذہ الروایات ممکن باختلاف الاحوال ویحتمل ان ذالك الاختلاف بحسب تطویل القرأة وتخفیفھا فحیث یطیل القرأة تقل الرکعات وبالعکس وبذالك جزم الداؤدی وغیرہ والعدد الاول موافق لحدث عائشة المذکور بعد ھذا الحدیث فی الباب والثانی قریب منه والاختلاف فیما زاد عن العشرین راجح الی الاختلاف فی الوتر وکانه کان تارة ویتر بواحدة وتارة بثلاث و روی محمد بن نصر من طریق داؤد بن قیس قال ادرکت الناس فی امارة ابان بن عثمان و عمر بن عبد العزیز یعنی باالمدینة یقومون بست وثلاثین رکعة ویوترون بثلث وقال مالك ھٰولاء امر القدیم عندنا وعن الزعفرانی عن الشافعی رایت الناس یقومون باالمدینة بتسع وثلاثین وبمکة بثلاث وعشرین ولیس فی شئی من ذالك ضیق وعنه قال ان اطالوا القیام واقلوا السجود فحسن وان اکثر السجود واخفوا القراءة فحسن والاول احب الی وقال الترمذی اکثر ما قیل فیه انھا تصلی احدی واربعین رکعة یعنی باالوتر کذا قال وقد نقل ابن عبد البر عن الاسود بن یزید تصلی اربعین ویوتر بسبع وقیل ثمان وثلاثین ذکرہ محمد بن نصر عن ابن ایمن عن مالك وھذا یمکن ردہ الی الاول بانضمام ثلاث الوتر لکن سرح فی روایة بانه یوتر بواحدة فتکون اربعین الا واحدة قال مالك وعلی ھذا العمل منذ بضع ومائة سنة وعن مالك ست واربعین وثلاث الوتر وھذا ھو المشہور عنه وقد رواہ ابن وھب عن العمری عن نافع قال لم ادرک الناس الا وھم یصلون تسعا وثلاثین ویوترون منھا بثلاث وعن زرارة بن اوفیٰ انه کان یصلی بھم باالبصرة اربع وثلاثین و یوتر عن سعید بن جبیر اربعا وعشرین عقیل ست عشرة غیر الوتر وروی عن ابی مجلز عند محمد بن نصر واخرج من طریق محمد بن اسحاق حدثنی محمد بن یوسف عن جدہ السائب بن یزید قال کنا نصلی زمن عمر فی رمضان ثلاث عشرة قال ابن اسحاق ھذا ثبت ما سمعت فی ذالك وھو موافق لحدیث عائشة فی صلوة النبی ﷺ من اللیل واللّٰہ اعلم انتہیٰ ما فی فتح الباری شرح صحیح بخاری))
(؎۱) کذا فی الاصل ولعلہٗ المئین۔ ۱۲
’’اس بخاری کی روایت میں تراویح کی تعداد مذکور نہیں ہوئی، جو ابی بن کعب پڑھایا کرتے تھے۔ اس میں مختلف روایتیںآئی ہیں۔ مؤطا امام مالک میں محمد بن یوسف سے روایت ہے کہ سائب بن یزید صحابی کہتے ہیں۔ کہ وہ گیارہ رکعت (؎۱) تھیں، اور اسی روایت گیارہ والی کو سعید بن منصور نے بھی دوسرے طریق سے روایت کیا ہے، اور یہ بھی روایت ہے کہ ہو مئین سورتیں (؎۲) پڑھا کرتے تھے، اور طول قرأت کے سبب عصاء پر تکیہ لگا کر کھڑے ہوتے تھے، اور روایت کیا اس کو محمد بن نصر مروزی نے محمد بن اسحاق کے طریق سے وہ محمد بن یوسف سے اور اس میں تیرہ رکعت بیان کی ہیں او رعبد الرزاق نے دوسرے طریق سے اکیس رکعت روایت کی ہیں، اور ملک نے یزید بن خصیفہ کے طریق سے اس نے سائب بن یزید سے بیس رکعت کی روایت ہے، اور یہ سوائے وتر کے محمول ہے، اور یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تیئس پڑھا کرتے تھے، اور محمد بن نصر نے عطاء کے طریق سے روایت کی ہے، کہاعطاء نے کہ میں نے لوگوں کو پایا ہے کہ تیئس رکعت مع الوتر پڑھتے تھے۔ ان (؎۳) روایات میں یوں تطبیق دی جا سکتی ہے کہ سب روایتیں مختلف اوقات پر محمول ہیں، یعنی کبھی گیارہ رکعت اور کبھی تیرہ اور کبھی اکیس اور کبھی تیئس پڑھتے تھے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ رکعتوں کی کمی زیادتی قرأت کے زیادہ اور کم ہونے کے باعث ہے، جب قرأۃ زیادہ پڑھتے تو رکعتیں کم پڑھتے، اور قرأۃ میں تخفیف کرتے تو رکعتیں زیادہ کر دیتے اس تطبیق کے ساتھ داؤدی وغیرہ اہل علم نے جزم کیا ہے، اور پہلا عدد گیارہ رکعت کا آنحضرت ﷺ کے فعل کے موافق ہے، جو اسی باب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ہے، اور دوسرا عدد تیرہ رکعت کا بھی اسی کے قریب ہے، اور بیس سے زیادہ یعنی اکیس اور تیئس میں جو اختلاف ہے، وہ وتر کی کمی زیادتی کی وجہ سے ہے کبھی ایک وتر پڑھتے۔ تو اکیس ہو جاتیں اور تین پڑھتے تو تیئس۔اور محمد بن نصر نے روایت کی ہے کہ داؤد بن قیس کہتے ہیں کہ میں ابان بن عثمان اور عمر بن عبد العزیز کے عہد میں لوگوں کو مدینہ میں چھتیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھتے پایا ہے، مالک نے کہا کہ ہمارے نزدیک یہی قدیم اور راجح ہے، اور زعفرانی سے روایت ہے کہ شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں لوگوں کو مدینہ میں انتالیس اور مکہ میں تیئس رکعت تراویح پڑھتے دیکھا ہے۔ اور ان میں کسی بات پر تنگی نہیں ہے، اور شافعی ہی سے روایت ہے کہ اگر لوگ قیام کو لمبا اور رکعتوں کو کم کریں، تو اچھا ہے، اور اگر رکعتیں زیادہ پڑھیں اور قراء ۃ کو کم کر دیں تو بھی اچھا ہے، لیکن قرا ء ت کو زیادہ کرنا اور رکعتوں کو کم کرنا میرے نزدیک محبوب تر ہے، ترمذی نے کہا زیادہ سے زیادہ اکتالیس رکعت تک مروی ہے، یعنی وتر سمیت ترمذی نے ایسا ہی ذکر کیا ہے، اور تحقیق ابن عبد البر نے نقل کیا ہے کہ اسود بن یزید سنتالیس رکعت پڑھتے اور بعض نے کہا اڑتیس رکعت۔ اس کو محمد بن نصر نے براویت ابن ایمن مالک سے روایت کیا ہے اور اس کے ساتھ تین وتر ملانے سے وہی اکتالیس ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس میں ایک وتر کی تصریح کی ہے، تو انتالیس رکعت ہوئیںمالک نے کہا کئی اوپر سو برس سے اسی پر عمل چلا آیا ہے، اور مالک سے چھتیس رکعت نفل اور تین وتر بھی منقول ہیں، اورمشہور ان سے اسی طرح ہے، اور تحقیق ابن وہب نے عمری سے اور عمری نے نافع سے روایت کی ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے جل لوگوں کا زمانہ پایا ہے، وہ انتالیس رکعت پڑھتے تھے، تین ان میں وتر ہوتے، اور زراہ بن اوفی تابعی سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کو بصرہ میں علاوہ وتر کے چونتیس رکعت پڑھاتے تھے، اور سعید بن جبیر تابعی کبیر سے علاوہ وتر کے چوبیس رکعت کی روایت ہے، اور بعض نے کہا علاوہ وتر سولہ رکعت روایت کیا س کو محمد بن نصر نے ابی مجلز تابعی سے اور محمد بن نصر نے محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے، کہ مجھ کو محمد بن یوسف نے حدیث کی ہے کہ ان کے دادا سائب بن یزید صحابی نے کہا کہ ہم حضرت عمر کے زمانہ میں تیرہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے، ابن اسحاق تابعی کہتے ہیں کہ اساتذہ سے جو ہم نے سنا ہے، اس میں یہی تیرہ رکعت کی روایت زیادہ ثابت ہے، اور وہ آنحضرت ﷺ کی نماز شب کے موافق بھی ہے، جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ہے، تمام ہوا۔ ترجمہ عبارت فتح الباری شرح بخاری کا۔‘‘
(؎۱) پوری روایت یوں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب و تمیم داری کو حکم فرمایا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت تراویح پڑھائیں۔ ۱۲۔
(؎۲) وہ سورتیں جن کی آتیں سو سے زائد ہیں۔ ۱۲۔ واللہ اعلم
(؎۳) ترجمہ کی جس عبارت کو ہم نے جلی قلم سے لکھوایا ہے۔ اس میں اشارہ ہے، اور اس تطبیق اور گیارہ کی ترجیح وغیرہ کو جو مؤلف نے عمداً چھوڑ دیا تھا۔ اور حق کو چھپانا چاہا تھا اس کی قلعی اس سے کھول د ی گئی۔ ۱۲۔
ان روایات مذکورہ بالا نے کل و عادی مؤلف کے باطل کر دیئے۔ یعنی صاحب فتح الباری جس کو مؤلف بھی معتبر سمجھتا ہے، اس نے آنحضرت ﷺ اور خلفاء کی سنت اور دیگر صحابہ ر ضی اللہ عنہ کے فعل سے گیارہ رکعت تراویح ثابت کر دیں۔ اور ۱۳۔ ۱۶۔ ۲۱۔ ۲۳۔ ۲۴۔ ۳۴۔ ۳۹۔ ۴۱۔ ۴۷ تراویح صحابہ و تابعین سے نقل کیں،ا ور گیارہ اور تیرہ تراویح کو آنحضرت ﷺ کی تراویح کے موافق بتا کر ان کی ترجیح کی طرف اشارہ کیا۔ پس اس تعداد تراویح مذکورہ بالا سے بیس ہی پر منحصر ہونے کا دعویٰ اجماع باطل ہوا۔ اور یہی مطلوب تھا۔ (ترویح المؤحدین صفحہ ۳ تا ۲۴)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب