سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(146) تراویح آٹھ ہیں نہ کہ بیس

  • 4149
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4995

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بریلوی حنفیوں کی ایک کتاب ’’وجا الحق‘‘ میں بیس رکعت تراویح کے ثبوت میں ۲۳ دلائل لکھے ہیں۔ دیکھئے صفحات ۴۴۴ تا ۴۴۶۔ براہ کرم ان کی حقیقت بتائیے کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دلیل نمبر ۱:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک رکعت میں جتنا قرآن پڑھتے تھے، اس کا نام رکوع ہے، چونکہ یہ دونوں صحابی ۲۷ رمضان کو قرآن ختم کرتے تھے، اور قرآن کے تمام رکوع ۵۵۷ ہیں۔ اگر تراویح بیس رکعت پڑھی جائیں۔ اور ایک رکعت میں ایک رکوع پڑھا جائے۔ اور آخری رات میں فی رکعت متعدد رکوع پڑھ لیے جائیں۔ تو قرآن ۳۷ دنوں میں ختم ہو جاتا ہے، غیر مقلدوں کی آٹھ رکعت کے لحاظ سے قرآن کے کل رکوع ۲۱۶ ہونے چاہیں۔ (جاء الحق صفحہ ۴۴۴)

جواب:… حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان کے اس ’’عمل‘‘ کے لیے حوالہ کوئی نہیں، معلوم نہیں یہ ’’کہانی‘‘ کہاں سے لی جاتی ہے، اگر ہو بھی تو صحابی کا عمل دلیل نہیں ہوتا۔ کیونکہ اصول فقہ میں دلائل کتاب، سنت، اجماعت اور قیاس شمار کیے گئے ہیں۔ اور بس پھر رکوعات قرآنی کی تعیین و تحدید قاریوں کی اختراع ہے، اور اجماع وہ دلیل بنتا ہے، جو ثابت بھی ہو۔

دلیل نمبر ۲:

تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور جمع کم از کم تین پر بولی جاتی ہے، اور آٹھ رکعت میں دو ترویح ہوتے ہیں۔

جواب:… کسی صحیح مرفوع حدیث میں تراویح کا لفظ نہیں ملتا۔ حدیث میں قیام رمضان ہے۔ چنانچہ محدثین قیام شہر رمضان کا باب باندھتے ہیں۔ خوط مؤطا امام محمد میں بھی قیام شہر رمضان کا عنوان ہے، صحیح بخاری کے ایک نسخے میں کتاب الصلوۃ ’’التراویح‘‘ عنوان ملتا ہے، باقی نسخوں میں وہ بھی نہیں۔ شائد شہرت کی وجہ سے کسی ناسخ نے لکھ دیا ہو گا۔

اس کے علاوہ دو بھی جمع ہیں۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب باندھا ہے۔ ((الاثنان فما فوقہما جماعة)) اور مالک بن حریرث کی حدیث ((ولیؤلکھا اکبر کما)) سے استدلال کیا ہے، اور دو دفعہ چار چار پڑھنا ’’تراویح‘‘ ہو جاتے ہیں۔ پس صحیح بخاری کے باب اور حدیث کے مطابق دو کا جمع ہونا صحیح ہو گیا۔

دلیل نمبر ۳:

ہر روز بیس رکعت نماز یعنی ۱۲ فرض اور تین وتر ضروری ہیں۔ اور رمضان میں ان بیس کی تکمیل کے لیے بیس رکعت نماز تراویح اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائیں۔

جواب:… نماز فرض پانچ ہیں۔ وتر فرض نہیں۔ وتر سنت ہیں۔ ((عن ابن عباس ان النبی ﷺ بعث معاذاً الی الیمن فقال ادعھم الی شہادة ان لا الٰه الا اللّٰہ وانی رسول اللّٰہ فان ھم اطاعوا لذالك فاعلمھم ان اللّٰہ افترض علیھم خمس صلوات فی کل یوم ولیلة)) (بخاری باب وجوب الزکوٰۃ ص ۱۸۷ ج۱)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نمازیں پانچ ہیں۔ چھ نہیں تو پھر وتر سنت ہوئے نہ کہ فرض۔

امام شوکانی رحمہ فرماتے ہیں۔ ((ھذا من احسن ما یستدل به لان بعث معاذ بن جبل کان قبل وفات رسول اللّٰہ بییر)) (نیل ص ۳۶ ج ۳)

’’یہ حدیث وتر کے فرض نہ ہونے کی بہترین دلیل ہے۔ کیونکہ حضرت معاذ کے تھوری دیر یمن جانے کے بعد آنحضرت ﷺ وفات پا گئے تھے۔‘‘

اس لیے جمہور علماء کا مذہب بھی یہی ہے کہ وتر سنت ہیں۔ ((وقد ذھب الجمہور الی ان الوتر غیر واجب بل سنة)) (نیل ص ۳۵ ج۳) ((باب الوتر علی الدَّابة)) (بخاری شریف صفحہ ۱۳۶ جلد۱) میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے رویات ہے کہ آنحضرت ﷺ وتر اور نفل سواری پر پڑھ لیتے تھے۔ لیکن فرض ساری پر نہیں پڑھتے تھے۔ بلکہ وتر میں جہت قبلہ بھی ضروری نہ ہو تی تھی۔

جواب نمبر ۲:… وتر صرف تین ہی نہیں بلکہ ۹،۷،۱۵ اور ایک بھی ہے، چنانچہ بخاری شریف میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ((قال قال رسول اللّٰہ ﷺ صلٰوة اللیل مثنیٰ مثنیٰ فاذا اردت ان تنصرف فارکع رکعة توتر لك ما صلیت الخ)) (صحیح بخاری ص ۱۳۵ ج ۱ ابواب الوتر) ’’رات کی نماز دو دو رکعت ہے، جب تم نماز سے فارغ ہو جانا چاہو تو ایک رکعت پڑھ لو۔ کیونکہ ایک رکعت تمہاری نماز کو وتر بنا دے گی۔‘‘ امام ترمذی نے تو باب ہی یں باندھا ہے، ((باب ما جاء فی الوتر برکعة)) اور یہ حدیث لکھی ہے۔ ((کان رسول اللّٰہ ﷺ یصلی من اللیل مثنیٰ ومثنیٰ وهووتر برکعة)) ’’آپ رات کو دو دو رکعت پڑھے تھے اور پھر ایک وتر پڑھتے۔‘‘

دلیل نمبر ۴:

’’چونکہ آنحضرت ﷺ نہ تو آٹھ رکعت کا حکم دیا۔ اور نہ اس پر پابندی فرمائی، بلکہ حق یہ ہے کہ آپ ﷺ کا آٹھ رکعت تراویح پڑھنا صریحاً ثابت نہیں۔‘‘(جاء الحق صفحہ ۴۴۵، جلد ۱)، یہ دعویٰ بالکل غلط ہے، صحیح حدیث سے آٹھ رکعت تراویح صریحۃً ثابت ہیں۔ اور آپ ہمیشہ آٹھ ہی پڑھتے تھے۔

احادیث صحیحہ:

((ابو سلمة بن عبد الرحمٰن انه سال عائشة کیف کانت صلوة رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان فقالت ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہٖ علی احدی عشرة رکعة یصلی اربعاً ولا تسئل عن حسنھن وطولھن ثم یصلی ثلاثا))

(بخاری باب قیام النبی ص ۱۵۴ ج۱ کتاب الصوم ص ۲۶۹ ج۱۔ مسلم باب صلوۃ الیل وعدد الرکعات ص ۲۵۴ ج۱)

’’حضرت ابو سلمہ رحمہ اللہ کے ایک سوال کے واب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ قیام نہیں فرماتے تھے۔ نہایت عمدگی سے لمبی چار رکعت ادا فرماتے اسی طرح کی چار رکعت اور پڑھتے۔ ازاں بعد وتر پڑھتے۔‘‘

((عن جابر رضی اللہ عنه قال صلی بنا رسول اللّٰہ ﷺ فی شھر رمضان ثمان رکعات واوتر فلما کانت القابلة اجتمعنا فی المسجد ورجونا ان یخرج فلم نزل فیه حتی اصبحنا ثم دخلنا فقلنا یا رسول اللّّٰہ اجتمعنا فی المسجد ورجونا ان تصلی بنا فقال انی خشیت ان یکتب علیکم رواہ الطبرانی فی الصغیر ص ۱۰۸ و محمد بن المروزی ص ۹۰ وابن خزیمۃ و ابن حبان فی صحیحما قال الحافظ الذھبی بعد ذکر ھذا الحدیث اسنادہ وسط))(میزان الاعتدال ص ۳۱۱ ج۲)

وذکر الحافظ ذھبی بعد ذکر ھذا الحدیث فی بیان عدد الرکعات(فتح الباری ص ۵۹۷ ج۱)

’’یعنی حضرت جابر سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے رمضان میں ایک رات میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے۔ ہم نے دوسری رات بھی آپ کا انتظار کیا۔ مگر صبح کو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس خدشہ سے میں نے ناغہ کیا ہے کہ قیام رمضان تم پر ضروری نہ ہوجائے۔‘‘

(اعتراض) اس کی سند میں عیسیٰ بن جاریہ راوی متکلم فیہ ہے۔

جواب:… اس حدیث کی سند کو وسط (یعنی حسن) کہنے والے حافظ ذہبی پڑے پایہ کے محدث ہیں۔ چنانچہ حافظ شرح نخبہ میں لکھتے ہیں۔ ((الذھبی من اھل الاسقتراء التام فی نقد الرجال)) ’’رجال کی جانچ پرکھ اور نقد و جرح میں حافظ ذہبی کو یدطولیٰ حاصل ہے)‘‘علاوہ ازیں حافظ ابن خزیمہ اور حافظ ابن حبان کا اس حدیث کو اپنی اپنی صحیح میں درج کرنا حافظ ذہبی کی بھرپور تائید ہے۔ مزید برآں یہ حدیث دراصل ابو سلمہ رضی اللہ عنہ (بخاری) کی تفصیل ہے۔

((کما اشار الیه الحافظ والعینی فافھم ولا تکن من القاصرین))

(۲) ((عن جابر بن عبد اللّٰہ قال جاء ابی بن کعب الی رسول اللّٰہ ﷺ فقال یا رسول اللّٰہ ﷺ ان ہکان منی اللیلة شئی یعنی فی رمضان قال وما ذاك یا ابی قال نسوة فی داری قلن انا لا نقرأ القراٰن فنصلی بصلوٰتك قال فصلیت بھن ثمان رکعات واوترت فکانت شبه الرضا ولم یقل شیئاً رواہ ابو یعلیٰ والطبرانی فی الاوسط وقال الھیثمی فی مجمع الزوائد ص ۷۴ ج۲۔ اسنادہ حسن و اخرجه ایضاً محمد بن نصر المروزی فی قیام اللیل))(ص ۹۰)

’’جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور کہا کہ آج کی رات مجھ سے ایک کام ہو گیا ہے، فرمایا وہ کیا ہے؟ کہا عورتیں میرے گھر میں جمع ہو گئیں۔ اور میں نے ان کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھا دئیے۔ آپ ﷺ نے ابی بن کعب کے اس عمل پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا۔ کہ آپ ﷺ نے اس عمل کو پسند فرمایا۔‘‘

وضاحت:

ابو سلمہ والی حدیث (صحیح بخاری) کو خود امام محمد ﷺ نے اپنی کتاب مؤطا میں نقل فرمایا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ مجتہد حنفیہ امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ حدیث قیام رمضان کے بیان میں ہے، نہ کہ تہجد کے بیان میں جیسا کہ بعض حنفی فقہاء او راکابر۔ ابوسلمہ کی حدیث نہ مانتے ہوئے یہ بہانہ تراشتے ہیں۔

بہرحال ان تینوں صحیح اور صریح احادیث میں آٹھ رکعت قیام رمضان تراویح کا صراحتہً ثبوت موجود ہے، او ر آٹھ رکعت تراویح ہی دراصل سنت نبویہ ﷺ ہیں۔ پورے اعتماد کے ساتھ ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اور آپ نے زمانہ میں کسی صحابی نے آٹھ رکعت اور وتر سے زیادہ قیام رمضان نہیں کیا۔ چنانچہ امام مالک کا فرمان یہ ہے کہ ((الذی جمع علیه الناس عمر بن خطاب احب الی وھی احدیٰ عشرة رکعة وھی صلوٰة رسول اللّّٰہ ﷺ … ولا ادری من این احدث ھٰذا الرکوع الکثیر)) (مصابیح فی صلوٰۃ التراویح للسیوطی)’’گیارہ رکعت رسول اللہ ﷺ کی نماز ہے۔ اور یہی مجھے پسند ہیں۔ گیارہ اور تیرہ کے علاوہ کثرت نماز کا مجھے علم نہیں کہ وہ کہاں سے پیدا ہو گئیں۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ امام مالک کے نزدیک بھی بیس رکعات تراویح سنت نبوی نہیں۔ ((وم یدّعی فعلیه البیان باالبرھان))

دلیل نمبر ۵:

لہٰذا صحابہ کرام کا بیس پر اتفاق کران سنت کی مخالفت نہیں ہے، ہمیں حکم ہے۔ ((علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین))

جواب نمبر ۱:… اولاً پیش کردہ حدیث میں پہلا لفظ ’’سنتی‘‘ کا ہے، سنت خلفاء راشدین رضی اللہ عنہ دوسرے نمبر پر ہے، چونکہ دلیل نمبر ۴ کے جواب میں مذکورہ حدیثوں سے ثابت ہو چکا ہے کہ سنت نبوی صرف آٹھ اور تین ہیں، لہٰذا آپ کی سنت کے ہوئے ہوئے خلفاء کے عمل کی ضرورت نہیں رہتی۔

جواب نمبر ۲:… سنت خلفاء راشدین سے اُن کا طریقہ نظام حکومت مراد ہے، علامہ امیر الیمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ((فانه لیس المراد بسنة الخلفاء الراشدین الا طریقہم الموافقة لطریقتة ﷺ من جہاد الاعدآء وقتویة شعائر الدین ونحوھا)) (سبل السلام ص ۱۱ ج ۲ باب صلوۃ التطوع)

خلفاء کی سنت سے ان کا وہ سیاسی طریق کار مراد ہے، جو آنحضرت ﷺ کے طریق کے موافق ہو۔ اور پھر اس طریق کار کا اعدائے اسلام کے خلاف جہاد اور دوسری دینی شعائر کی سربلندی اور تقویت سے تعلق ہو۔

دلیل: حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ ہم عہد عمر میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔

جواب:… یہ اثر قابل استدلال نہیں ہے اولاً اس لیے کہ اس کی سند میں ایک راوی ابو عثمان ہے، جس کے متعلق خود مولانا شوق نیموی حنفی فرماتے ہیں۔ ((لم اقف علی من)) (تعلیق آثار السنن ص ۵۷) سو جب تک اس کے ثقہ ہونے کا پتہ نہ چلے۔ اس وقت تک اس روایت سے استدلال درست نہ ہو گا۔ ثانیاً اس جگہ سائب کے راوی یزید بن خصیفہ ہیں۔ جن کو ثقہ کہا گیا ہے، لیکن امام احمد نے سن کر حدیث بھی کہا ہے۔ دوسرا راوی محمد بن یوسف ہے، جو اس سے اوثق ہے، وہ اپنے دادا سائب بن یزید سے گیارہ رکعت روایت کرتا ہے۔ ((یقول کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب باحدی عشرة رکعة، رواہ سعید بن منصور فی سنه وقال الحافظ السیوطی فی رسالة المصابیح اسنادہ فی غایة الصحة)) (تحفۃ الاحوذی صفحہ ۷۵۔ جلد ۲) (باب قیام شہر رمضان فتح الباری صفحہ ۲۰۴ جلد ۴) ’’ہم عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔‘‘لہٰذا اس کی روایت کو ترجیح ہے، اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ابن خصیضہ کی روایتوں میں اضطراب ہے علاوہ ازیں پوتے کو دادا کی بات کا زیادہ علم ہو سکتا ہے۔

جواب نمبر ۲:… تمیم داری رضی اللہ عنہ۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت باجماعت پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ ((مالك عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید انه کان امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب وتمیما الداری ان یقوما اللناس باحدیٰ عشرة رکعة)) (مؤطا امام مالک ص ۹۸ باب قیام شہر رمضان)

اعتراض:

اس اثر کو نقل کرنے میں امام مالک متفرد ہیں۔

جواب:… یہ غلط ہے، کیونکہ یحییٰ بن سعید اور یحییٰ قطان نے امام مالک کی متابعت کی ہے یعنی وہ دونوں بھی امام مالک رحمہ اللہ کی طرح محمد بن یوسف سے گیارہ رکعت کا حکم نقل کرتے ہیں اور اسے متابعت تامہ کہتے ہیں۔

اعتراض نمبر ۲:

امام عبد الرزاق ۲۱ کعت میں متفرد ہونے کے ساتھ ساتھ آخری عمر میں حافظہ اور بینائی کھو بیٹھے تھے۔ ((ثقة حافظ مصنف شھیر عمی فی اٰخرہ وتغیر کان یتشیع)) (تقریب صفحہ ۲۱۳) لیکن برخلاف اس کے امام یحییٰ بن سعید قطان ثقہ اور متقن ہیں۔ یحییٰ بن سعید ثقہ متقن حافظ قدرۃ من کبار (تقریب صفحہ ۳۷۵)

جواب نمبر ۲:… یہ اثر اوپر کی تین حدیثوں کے خلاف ہے۔

جواب نمبر ۳:… حنفیہ ۲۳ رکعتوں کے قائل ہیں۔ نہ کہ ۲۱ رکعتوں کے لہٰذا حنفیوں کو یہ اثر مفید نہیں ہے۔ ورنہ ایک وتر اور بیس تراویح یا پھر تین وتر اور ۱۸ تراویح ماننی پڑے گی۔ اور یہ دونوں حنفیہ کے خلاف چیزیں ہیں۔

دلیل نمبر ۷:

ابن منیع نے حضرت ابی بن کعب سے روایت کی ہے، ((نصلی بھم عشرین رکعة)) ’’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوںکو بیس رکعت تراویح پڑھائیں۔‘‘(جاء الحق صفحہ ۴۴۵)

جواب:… اس اثر کا مصنف جاء الحق نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔ اور نہ کوئی سند ذکر کی ہے، لہٰذا یہ معرض استدلال میں پیش نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں دلیل نمبر ۴ کے جواب کے سلسلے کی تیسری حدیث میں ہے کہ حضرت ابی نے عورتوں کوگیارہ رکعات تراویح پڑھائیں۔ اور آنحضرت ﷺ نے اسے پسند بھی فرمایا۔ پھر دلیل نمبر ۶ میں گزر چکا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ اور تمیم داری کی گیارہ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا۔

جواب نمبر ۲:… بشرط صحت ممکن ہے کہ حضرت ابی ۸ رکعات کو سنت سمجھتے ہوں اور باقی بطور نفل پڑھتے ہوں۔

دلیل نمبر۸:

((عن ابی الحسنات ان علی بن ابی طالب ارم رجلا یصلی بالناس خمس ترویحات عشرین رکعة))(جائر الحق صفحه ۴۴۵ بحواله بیهقی)

’’کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ بیس رکعات پڑھائیں۔‘‘

جواب:… یہ راوی ابو الحسنات نہیں۔ بلکہ ابو الحسنا ء ہے، جو مجہول راوی ہے، لہٰذا یہ اثر ضعیف ہے، ثوق نیموی کہتے ہیں۔ ((مدار ھذا الاثر علی ابی الحسناء وھو لا یعرف و قال الذھبی لایعرف)) (تحفۃ الاحوذی صفحہ ۷۴) ابو الحسناء مجہول ہے، قال الحافظ مجہول (تقریب صفحہ ۴۰۱)

دلیل نمبر ۹:

((عن ابن عباس ان النبی ﷺ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة سوی الوتر))(بیہقی، طبرانی)

’’ابن ابی شیبہ وغیرہ (حضور ﷺ وتروں کے سوا بیس تراویح پڑھاتے تھے)‘‘

جواب:… یہ روایت نہایت درجہ کی کمزور ہے۔ امام احمد، امام ابو داؤد، امام نسائی، یحییٰ بن معین، ابن عدی، وولابی اور حافظ منری ایسے کبار محدثین کے علاوہ اکبر حنفیہ مثلاً بدر الدین عینی (عمدۃ القاری صفحہ ۱۲۸ جلد ۱۱) علامہ زیلعی (نصب الرایہ صفحہ ۱۵۳ جلد ۲)، ابن ہمام (فتح القدیر صفحہ ۱۹۸ جلد ۱) اور ملا علی قاری عثوق نیموی کے علاوہ حافظ ابن حجر نے (فتح الباری صفحہ ۲۰۵ جلد ۴ تقریب صفحہ ۲۳) اور خود امام بیہقی (صفحہ ۲۹۶ جلد۲) اور مالکیہ میں سے امام زرقانی مالکی اپنی شرح مؤطا ہیں اس حدیث کے راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کو ضعیف اور متروک قرار دیا ہے، یعنی یہ حدیث حنفیہ، شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک ضعیف ہے۔ ((فَاعْتَبِرُوْا یَا اولی الاَبْصَار))

دلیل نمبر ۱۰:

((عن شترین بن شکل وکان من اصحاب علی انہ کان یؤمھم فی رمضان یصلی خمس ترویحات عشرین رکعة))(جاء الحق صفحہ ۴۴۵ بحوالہ بیہقی) حضرت علی کے تلمیذ شتیر بن شکل رمضان میں لوگوں کو پانچ ترویح بیس رکعات پڑھاتے تھے۔

جواب:… یہ اثر بھی موضوع ہے، اور صحیح حدیثوں کے خلاف ہے، جیسا کہ دوسری مختلف تعداد کے خلاف مرفوع ہیں۔ کیونکہ صحیح حدیثوں میں صرف آٹھ رکعات تراویح ثابت ہیں۔ جیسا کہ دلیل نمبر ۴ کے جواب میں تین مرفوع حدیثیں لکھی جا چکی ہیں۔ حافظ ابن حجر باب جمعۃ فی القریٰ (فتح الباری انصاری پارہ ۴ صفحہ ۴۸۶) میں فرماتے ہیں۔ ((فلما اختلف الصحابة وجب الرجوع الی المرفوع))

 دلیل نمبر ۱۱:

((عن ابی عبد الرحمٰن السلمی ان علیا دعا القراء فی رمضان فامر رجلا یصلی بالناس عشرین رکعة وکان علی یوتربھم))(بیہقی، جاء الحق صفحہ ۴۴۸)

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قاریوں کو بلایا۔ اور ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے، اور وتر خود حضرت علی رضی اللہ عنہ پڑھاتے۔‘‘

جواب:… امر رجلاً نہیں بلکہ امر منہم رجلاً ہے، بہر کیف یہ اثر بھی ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی حماد بن شعیب ہے، جو ضعیف ہے۔

((قال النیموی بعد ذکر ھذا الاثر حماد بن شعیب ضعیف قال الذہبی فی المیزان ضعفہ… ابن معین وغیرہ قال یحییٰ بن معین لا یکتب حدیثه وقال البخاری وفیه نظر وقال النسائی ضعیف وقال ابن عدی اکثرا احادیثہٖ عما لا یتابع علیه))(تحفۃ الاحوذی صفحہ ۷۵ جلد ۲) کہ ’’امام بخاری۔ یحییٰ۔ ذہبی۔ نسائی۔ ابن عدی نے حماد بن شعیب کی وجہ سے اس کو ضعیف کہا ہے۔

دلیل نمبر ۱۲:

((عن السائب بن یزید قال کانوا یقومون علی عہد عمر فی شھر رمضان بعشرین رکعة باسنادہ صحیح))(جاء الحق صفحہ ۴۴۵) ’’لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت پرھتے تھے۔‘‘

جواب:… یہ بھی یزید بن خصیفہ کی روایت ہے، جو دوسری سند سے ہے، جو ابھی گذر چکا ہے، کہ محمد بن یوسف کی روایت کو سائب بن یزید سے، بوجوہ یزید بن خصیفہ کی روایت راجح ہے۔

دلیل نمبر ۱۳:

ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ بیس تراویح پڑھتے تھے۔

جواب:… ان سب کی حقیقت پر تحقیق ابھی ابھی گذر چکی ہے، خلاصہ جس کا یہ ہے کہ کوئی روایت صحیح نہیں تاہم اگر کوئی ثابت بھی ہو۔ تو یہ ثابت ہو گا۔ کہ فلاں صحابی یا تابعی بیس رکعت پڑھتا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ کسی کا پڑھنا یا اس کا عمل حضور کی سنت نہیں کہلا سکتا۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کہ آپ بیس تراویح پڑھا کرتے تھے، آنحضرت ﷺ پر بہتان قرار پائے گا۔ حدیث میں ہے۔ ((من کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار العیاذ باللّٰہ)) ہاں صحیح حدیث سے سلف میں ۸ تراویح ثابت ہو چکی ہیں۔ خدا حدیثویں پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔

دلیل نمبر ۱۴:

عہد فاروقی میں بیس پر عمل جاری ہوگیا تھا۔ (جاء الحق صفحہ ۴۴۵)

جواب:… یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ محمد بن یوسف اپنے داد اسائب نب یزید سے مرفوع اور صحیح سند کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم داری کو گیارہ رکعات تراویح پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ آپ قارئین اور خود فیصلہ کر لیں کہ ترجیح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی ہے، یا لوگوں کے پڑھنے کی (اگر وہ ثابت بھی ہو)۔

دلیل نمبر ۱۵:

عبد اللہ بن عباس۔ ابی بن کعب۔ سائب بن یزید وغیرہ صحابہ کا یہی معمول تھا۔ (جاء الحق)

جواب نمبر۱:… یہ دعویٰ بھی بالکل غلط ہے، کسی صحابی سے بھی صحیح مرفوع متصل السند سے بیس رکعات کا پڑھنا ثابت نہیں۔ اگر کوئی مدعی ہے، تو اسے ہمارے طرح کوئی صحیح السند مرفوع اثر ثابت کرنا چاہیے، تب ان شخصیتوں کا معمول ثابت ہو گا۔ ((ودونه خرط القتاد))

جواب نمبر ۲:… اگر مطلوبہ شروط کے ساتھ کوئی ثابت بھی ہو جائے۔ تو دلیل نمبر ۱۱ کے جواب میں گذر چکا ہے، کہ صحابہ کے اختلاف کے وقت فیصلہ مرفوع حدیث پر ہو گا۔ (ملاحظہ ہو فتح الباری صفحہ ۴۸۶ جلد ۴)

دلیل نمبر ۱۶:

((واکثر اھل العلم علی ما روی عن علی و عمر وغیرھما من اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ عشرین رکعة وھو قول سفیان الثوری وابن المبارك والشافعی وقال الشافعی ھٰکذا ادرکت ببلد مکة یصلون عشرین رکعة))(ترمذی باب قیام شہر رمضان جاء الحق صفحہ ۴۴۵)

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام سفیان ثوری رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن مبارک اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مکہ کے لوگ بیس پڑھتے تھے۔‘‘

جواب نمبر ۱:… حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کل دو اثر مروی ہیں۔ ایک میں ابو الحسناء مجہول راوی ہے، جیسے کہ ’’دلیل نمبر ۸‘‘ کے جواب میں گزر چکا ہے، اور دوسرے اثر میں حماد بن شعیب راوی ہے جو سخت ضعیف ہے، چنانچہ دلیل نمبر ۱ کے جواب میں مفصل بحث گزر چکی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اثر یہ ہے۔ ((یحیٰ بن سعید ان عمر بن الخطاب امر رجلا یصلی بھم عشرین رکعة رواہ ابن ابی شیبة)) (تحفۃ الاحوذی ص ۷۵ ج۲)’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائیں۔‘‘ مگر یہ اثر منقطع ہے، کیونکہ یحییٰ بن سعید انصاری نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔علامہ ثوق نیموی حنفی لکھتے ہیں۔ ((رجاله ثقات لکن یحییٰ بن سعید الانصاری لم یدرك عمر)) (تعلیق آثار السنن ص ۵۸) ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں۔ کہ آئمہ کا قول حجت نہیں ہوتا۔ اور ترمذی میں روی کا مجہول صیغہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ امام ترمذی بیس کے قول کے ضعف کی طرف اشارہ روی مجہول صیغہ کے ساتھ کر رہے ہیں۔

جواب نمبر ۲:… حدیث صحیح کی حجیت آئمہ اور فقہاء کی تائید کی محتاج نہیں ہوتی۔ وہ فی نفسہٖ حجت ہے۔ لہٰذا آئمہ کی اکثرت کی صحیح حدیث کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہیے۔ چنانچہ ملا معین رحمہ اللہ دراسات اللبیب میں لکھتے ہیں۔

((علمت انه کما یجب ترك قول امام واحد مخالف بالحدیث کذالك یجب ترك مائة امام مثلاً اذا کان مخالفاً بالحدیث الصحیح فلو وجدنا حدیثاً صحیحا خالفه الائمة الاربعة رحمھم اللّٰہ وجب علینا ترك اقوالھم فوراً))(مقدمہ تحفة الاحوذی ص ۲۰۲)

’’ہمارے مضبوط دلائل کی روشنی میں تجھے علم ہو چکا ہے،کہ صحیح حدیث کے مقابلے میں جیسے ایک امام کے قول کو ترک کرنا واجب ہے، اسی طرح سو اماموں کا قول بھی ترک کرنا واجب ہے، اگر ہم آئمہ اربعہ کو بھی کسی حدیث کے خلاف ہیں۔ تو ہم پر واجب ہے کہ ہم فوراً ان کے اقوال کو ترک کر دیں۔‘‘

بنا بریں احادیث کے مقابلے میں اکثر اہل علم یا مکہ والوں کے عمل کی دھونس بے فائدہ ہے۔

دلیل نمبر ۱۷:

((روی محمد بن نصر من طریق عطاء قال ادرکتھم یصلون عشرین رکعة وثلث رکعات الوتر وفی الباب اٰثار کثیرة اٰخرجھا ابن ابی شیبة فتح المعلھم)) (شرح مسلم صفحہ ۲۹۱ ج ۲ جاء الحق ص ۴۴۶)

’’حضرت عطاء کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کوبیس رکعت پڑھتے ہوئے پایا۔‘‘

جواب:… ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ کہ اختلاف کی صورت میں لوگوں کے اقوال افعال سند نہیں ہوتے۔ اور لوگوں کا بیس رکعات تراویح پڑھنا شرعی دلیل نہیں ہے، ہاں اگر کسی کے پاس مرفوع صحیح حدیث موجود ہو تو وہ پیش کرے۔ ﴿ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ﴾

اصل دین آمد کلام اللہ معظم واشتن

پس حدیث مصطفی بر جان مسلم واشتن

دلیل نمبر ۱۸:

((روی الحارث بن عبد الرحمٰن بن ابی ذباب عن السائب بن یزید قال کان القیام علی عہد عمر بثلث و عشرین رکعة))(جاء الحق ص ۴۴۶ عمدۃ القاری ص ۳۰۷ ج ۵) کہ ’’سائب بن یزید کہتے ہیں کہ لوگ عہد عمر رضی اللہ عنہ میں ۲۳ رکعات قیام کرتے تھے۔‘‘

جواب:… ہم دلیل نمبر ۱۶، ۱۷ کے جواب میں مدلل وضاحت کر چکے ہیں۔ کہ صحیح حدیث کے سامنے کسی کا قول و فعل دلیل نہیں بن سکتا۔ حارث بن عبد الرحمان بن الجاذ باب درجہ خامسہ کا راوی ہے، تقریب میں اس کے متعلق لکھا ہے، صدوق یہم ص ۶۰ صدوق تو ہے، مگر اس کا وہم ہو جاتا تھا۔

دلیل نمبر ۱۹:

((کان عبد اللّٰہ بن مسعود یصلی بنا فی شھر رمضان فینصرف وعلیه لیل قال الاعمش کان یصلی یصلی عشرین رکعة)) (عمدۃ القاری ص ۳۰۷ ج ۵) کہ ’’عبد اللہ بن مسعود ہم کو تراویح پڑھاتے اور سحری سے پہلے ختم کر دیتے۔ اعمش کہتے ہیں کہ بیس رکعت پڑھاتے تھے۔‘‘

جواب:… یہ اثر بھی منقطع ہے، کیونکہ سلیمان اعمش کا حضرت عبد اللہ بن مسعود سے سماع ثابت نہیں ہے، تقریب میں ہے۔ ((الطبقة الصغریٰ منھم الذین راؤ الواحد والاثنین ولم یثبت لبعضھم السماع من الصحابة کا الاعمش)) (تقریب ص ۱۰) ’’پانچواں طبقہ ان تابعین کا ہے، جو ایک دو صحابہ کو دیکھ چکا ہے، ان میں سے بعض کا کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں ہے، جیسے اعمش۔‘‘لہٰذا یہ اثر کسی صحیح حدیث کا معارض نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ منقطع اصل میں ضعیف ہے، اور ضعیف صحیح کی معاون کیسے؟

دلیل نمبر ۲۰:

((قال ابن عبد البر وھو قول جمہور العلماء وبہ قال الکوفیون والشافعی واکثر الفقہاء وھو الصحیح عن ابی بن کعب من غیر خلاف من الصحابة)) (عمدۃ القاری صفحہ ۳۵۵ جلد ۵، جاء الحق صفحہ ۴۴۶)

’’ابن عبد البر کا کہنا ہے کہ جمہور علمائ، اہل کوفہ، شافعی، اکثر فقہاء کا یہی قول ہے، صحابہ کے کسی اختلاف کے بغیر حضرت ابی بن کعب سے یہی صحیح ہے۔‘‘

جواب:… جمہور علماء کوئی دلیل نہیں ہے۔ فقہ کے نزدیک کل چار دلیلیں ہیں۔ کتاب و سنت، اجماع، قیاس مگر اہل حدیث قیاس کو تنقیع کے بعد مانتے ہیں، اور بعض محققین کے نزدیک اجماع بلا سند بھی محل نظر ہے، پس جمہور علماء کا محل بیس پر ہونا کوئی شرعی حجت نہیں۔ اور ہم دلیل نمبر ۱۶ کے جواب میں مفصل بحث کر چکے ہیں، اور یہ کہنا کہ اس میں کسی صحابی کا اختلاف نہیں ہے، ابن عبد البر کا سہو ہے۔ (اگر انہوں نے کہا ہے) کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا تھا۔

دلیل نمبر ۲۱:

ملا علی قاری نے شرح نقایہ میں فرمایا ہے کہ ((فصار الاجماع لما روی البیہقی باسناد صحیح انھم کانوا یقمون علی عھد عمر رضی اللہ عنه بعشرین رکعة وعلی عہد عثمان رضی اله عنہ وعلی رضی اللہ عنه)) (جاء الحق صفحہ ۴۴۶) ’’عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ بیس رکعت پڑھتے تھے۔ گویا بیس پر اجماع ہو یگا۔‘‘

جواب:… ملا علی قاری کا یہ کہنا کہ بیس پر اجماع ہو چکا خلاف واقعہ ہے، کیونکہ خود حافظ عینی نے اس اجماع کو طشت از بام کیا ہے، چنانچہ لکھتے یں۔ ((قد اختلف العلماء فی العدد المستحب فی قیام رمضان علی اقوال کثیرة الخ)) ’’قیام رمضان ی مستحب تعداد میں چند اقوال پر علماء کا اختلاف ہے۔‘‘ (۱) بعض ۴۷ کے قائل ہیں۔ (۲) بعض ۴۱ کے اہل مدینہ کا اسی پر عمل ہے۔ (۳) بعض ۲۹ کے ۳۶ تراویح اور تین وتر یا ۳۸ تراویح ایک وتر یہ بھی اہل مدینہ کا عمل ہے۔ (۴) بعض ۳۴ کے اور (۵) بعض ۲۸ (۶) بعض ۲۴ (۷) بعض ۲۰ (۸) بعض ۱۴ (۹) اور بعض ۱۳ (۱۰) بعض گیارہ کے امام مالک اور ابن العربی اسی کے قائل ہیں۔ (عمدۃ القاری صٖحہ ۱۲۶ جلد ۱۱) اور آخری قول میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ابو سلمہ کی حدیث اس عدد میں صریح ہے، علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں۔ اصل سنت تو آٹھ ہی ہیں۔ باقی زائد نفل (فتح القدیر ص ۱۹۸ ج۱)۔ یہی عبارت مرقات باب قیام رمضان میں بھی موجود ہے۔ اور فتح الباری میں امام مالک سے ۴۶ نفل اور ۳ وتر اور ۴۰ نفل اور ۷ وتر بھی منقول ہیں، (دعویٰ ص ۲۰۵، ۲۰۴ ج ۴) اور امام احمد سے کچھ مروی ہی نہیں۔ ایسے شدید اختلاف میں ۲۰ پر اجماع کا کرنا علماء کی شان سے فروتر ہے۔

وضاحت:

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد کی طرف ۲۰ رکعت کو منسوب کرنا مدرج قول ہے، تصانیف بیہقی میں اس کا کچھ ذکر نہیں ہے، آثار السنن میں ہے، ((فقوله علی عہد عثمان رضی اللہ عنه و علی رضی اللہ عنه مثله قول مدرج لا یوجد فی تصانیف البیہقی)) (تعلیق آثار السنن)

دلیل نمبر ۲۲:

شتیر بن شکل ابن ابی ملکیہ۔ حارث۔ مطاء ابو البختری۔ سعید عبد الرحمان بن ابی بکر بھی ۲۰ کے قائل ہیں۔ (عمدۃ القاری ص ۵۷ ج ۵)

جواب:… دلیل نمبر ۲۱ کے جواب میں گزر چکا ہے کہ عدد مستحب ہیں۔ ۱۰ اقوال ہیں۔ ایسی صورت میں چند شخصیتوں کا ۱۰ کو پسند فرمانا کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ دلیل نمبر ۱۶ کے جواب میں لکھا جا چکا ہے کہ یک آئمہ کا مخالف عمل بھی حدیث صحیح کی حجیت پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ ((کذالك یجب ترك قول مائة)) امام اور آٹھ رکعت تراویح کے مسنون ہونے کے متعلق ہم دلیل نمبر ۴ کے جواب میں ابو سلمہ کے متفق علیہ اور جابر اور ابی ابن کعب کی صحیح حدیثیں نقل کر چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حدیث صحیح پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین۔(الاعتصام جلد نمبر ۲۷ شمارہ نمبر ۱۳، نمبر ۱۴، نمبر ۱۵)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 372-387

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ