السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض حضرات کہتے ہیں کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے، لہٰذا یہ ضعیف حدیث قابل عمل ہو سکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ۔ امام بخاری رحمہ اللہ۔ امام مسلم رحمہ اللہ۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ۔ ابو بکر ابن العربی رحمہ اللہ کے نزدیک مطلقا احکام کے بارہ میں ہو یا فضائل میں ضعیف حدیث قابل عمل نہیں ہے، قواعد التحدیث صفحہ نمبر ۱۱۳۔
((وقد اخطاء من قال انہ یجوز التساھل فی الاحادیث الواردة فی فضائل الاعمال، وذلك لان الاحکام الشرعیة متساویة الاقدام، لا فرق بین واجبھاد محرمھا ومسنونھا ومکروہھا ومندوبہا فلا یحل اثبات شئی منھا الا بما تقوم به الحجة، والا فھو م التقول علی اللّٰہ بما لم یقل ومن التجریٔ علی الشریعة المطھرة بادخال ما لم یکن منھا فیھا وقد صح تواتراً ان النبی ﷺ قال من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ فھذا الکذاب الذی کذب علی رسول اللّٰہ ﷺ محتسبا للناس بحصول الثواب لم یربح الا کونه من اھل النار مقدمة تفسیر فتح البیان ص ۱۷))
’’یعنی جو شخص فضائل اعمال میں وارد شدہ احادیث کے بارہ میں تساہل کو جائز سمجھتا ہے، اس نے غلطی کی ہے، کیونکہ شرعی احکام برابر ہیں۔ واجب، محرم، مسنون و مکروہ اور مندوب میں سے کسی کو بھی، جس کے ساتھ حجت و دلیل قائم ہو سکتی ہے، اس کے بغیر کے ساتھ ثابت کرنا حلال نہیں ہے، ورنہ یہ اللہ تعالیٰ پر افتراء اور شریعت مطہرہ میں اس چیز کو داخل کرنے کی جسارت ہو گی۔ جو اس میں نہیں ہے، اور رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہو چکا ہے، کہ آپ نے فرمایا: جس شخص نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا۔ وہ اپنی جگہ دوزخ میں بنا لے، پس یہ جھوٹا آدمی جس نے رسول اللہ ﷺ پر ثواب حاصل کرنے کی خاطر جھوٹ بولا ہے، دوزخ والوں میں ہونے کے سوا کسی نفع کو حاصل نہ کر سکا۔‘‘
بعض ائمہ کے نزدیک چند شروط کے پائے جانے کے بعد ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے،(احدھا) ان یکون الضعف غیر شدید فیخرج من انفرد من الکذا بین والمتھمین بالکذب ومن فحش غلطه نقل العلائی الاتفاق علیه۔ (الثانی) ان یندرج تحت اصل معمول به (الثالث) ان لا یعتقد عند العمل به ثبوته بل یعتقد الاحتیاط قواع التحدیث ص ۱۱۶ (الرابع) ولسی ھناك ما یعارضه ویرجحه علیه)) (ظفر الامانی ص ۱۰۵)
پہلی شرط یہ ہے کہ اس حدیث کا ضعف سخت نہ ہو۔ اس شرط کے لحاظ سے اُس حدیث پر عمل نہ ہو گا۔ جس کا راوی کذب یا مہتمم بالکذب یا بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا ہو۔
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ ضعیف حدیث (رسول اللہ ﷺ کے) کسی معمول بہ اصل کے تحت آ سکے۔
تیسری شرط یہ ہے کہ اس ضعیف حدیث پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ ہو۔ بلکہ اس میں احتیاط ملحوظ خاطر ہو۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ کوئی صحیح حدیث اس کے مخالف و معارض نہ ہو۔
ان شروط کو مدنظر رکھ کر ابو شیبہ کی حدیث کوملاحظہ کیجئے۔ تو معلوم ہو جائے گا کہ اصولاً یہ حدیث فضائل اعمال میں بھی مقبول نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس کا راوی ابو شیبہ جھوٹا یا مہتمم بالکذب ہے جیسا کہ امام شعبہ کے کلام سے پہلے معلوم ہو چکا۔
اور یہ حدیث نہایت ضعیف اور کمزور ہے، ابن حجر ہیثمی اور دیگر ائمہ کے کلام سے صاف ظاہر ہو چکا ہے۔ ((وقد صرح السبکی بان شرط العمل بالحدیث الضعیف ان لا یشتد ضعفه)) (الفتاویٰ الکبری للہیثمی ص ۱۹۵ ج۱)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ رسو ل اللہ ﷺ رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ (تراویح) نہیںپڑھا کرتے تھے۔ بخاری و مسلم۔ اس کے مخالف و معارض موجود ہے، حافظ بن حجر عسقلانی۔ ابن ہمام حنفی۔ امام زیلعی حنفی۔ علامہ محمد طاہر حنفی مولانا احمد علی حنفی وغیرہم نے اس مخالفت و معارضت کا واضح طور پر ذکر کیا ہے، ایک شرط یہ تھی کہ عمل کے وقت ثبوت کا اعتقاد نہ ہو۔ یہاں تو معاملہ بالکل برعکس ہے،عدم ثبوت کا اعتقاد کو کجا۔ بیس رکعت تراویح کو سنت ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور بیس رکعت کو سنت نہ سمجھنے والے کو طرح طرح کے برے القاب سے پکارا جاتا ہے، بلکہ تبدع، ضال اور مردود الشہادۃ تک کہنے سے نہیںشرماتے۔
((الفوائد السمیة فی شرح النظم المسمی بالفوائد السنیة فی فروع الفقه علی مذہب الامام ابی حنیفة النعمان ص ۱۱۲ ج۱)) میں ہے۔ ((فمنکرھا مبتدعی ضال مردود الشھادة)) (العیاذ باللّٰہ)یہ کتاب المجلس کراچی میں موجود ہے۔
اس ضعیف حدیث سے احناف کے دعویٰ کا کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ ان کا دعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے، کیونکہ اس حدیث میں فی غیر جماعت کا لفظ بھی موجود ہے، ملاحظہ ہو، السنن الکبری بیہقی صفحہ ۲۹۶ جلد ۲۔ یعنی تنہا پڑھا کرتے تھے، اس لفظ کے ہوتے ہوئے مقلدین احناف کا دعویٰ کہ بیس رکعت تراویح باجماعت سنت موکدہ ہے، کیسے صحیح ہو سکتا ہے، اس ضعیف حدیث کے بھی عملاً حنفی خلاف ہیں۔ بیس رکعت تراویح باجماعت کو سنت نبویہ قرار دینا باطل اور غلط ہے، کیونکہ آج تک تمام احناف صحیح سند سے یہ ثابت نہیں کر سکے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود بیس رکعت باجماعت ادا کی ہو یا حکم دیا ہو۔
اسوۂ مصطفی و سنت رسول اللہ ﷺ کی پیروی و اتباع میں خلیفہ راشد ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق رضی اللہ عنہ نے ۱۴ ھ میں اسلامی حکومت کے تمام شہروں میں قیام رمضان اور گیارہ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم نافذ فرمایا۔
((وھو اول من سن قیام رمضان وجمع الناس علی ذلك کتب به الی البلدان وذلك فی شھر رمضان سنة الرابع عشرة۔ الطبقات الکبری لابن سعد ص ۲۸۱ ج۳))
((عن السائب بن یزید انه قال امر عمر بن الخطاب، ابی بن کعب وتمیم الداری ان یقوما للناس باحدی عشرة رکعة))(مؤطا امام مالك ص ۴۰)
’’یعنی سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔‘‘
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم کیوں دیا تھا۔
((قال الباجی لعل عمر رضی اللہ عنه اخذ ذلك من صلوٰة النبی ﷺ))
(شرح زرقانی صفحہ ۲۳۸۔ جلد ۱۔ تنویر الحوالک صفحہ ۱۳۸۔ جلد ۱)
’’یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حکم رسول اللہ ﷺ کی نماز (تراویح) سے اخذ کیا تھا۔‘‘
اسی وجہ سے امام مالک رحمہ اللہ نے اسی گیارہ رکعت کو اختیارکیا ہے، چنانچہ ابو بکر محمد بن الولید الطرطوشی لکھتے ہیں۔
((وقال مالك والذی اخذ به فی نفسی فی قیام شھر رمضان الذی جمع عمر علیه الناس، احدی عشرة رکعة بالوتر وھی صلوة النبی ﷺ))(کتاب الحوادث والبدع ص ۵۶)
ابن العربی مالکی لکھتے ہیں۔ ((فانه کان یصلی احدی عشرة رکعة وھی کانت وظیفته الدائمة)) (احکام القرآن ص ۱۸۶۶ ج ۴)
((والصحیح ان یصلی احدی عشرة رکعة صلوة النبی علیه السلام وقیامه، فاما غیر ذلك من الاعداد فلا اصل له))(عارضة الاحوذی شرح ترمذی ص ۱۹ ج ۴)
’’یعنی صحیح یہ ہے کہ تراویح گیارہ رکعت پڑھی جائے، جو کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز تھی اس کے علاوہ تعداد (رکعات) کا کوئی اصل و ثبوت نہیں ہے۔‘‘
فقط والسلام۔ ۱۳ شعبان ۱۳۹۶ھ (کرم الدین السلفی، مدرس دارالحدیث رحمانیہ سولجر بازار کراچی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب