السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل رواج ہے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ایک حافظ یا متعدد حفاظ قرآن مجید یکے بعد دیگر عشاء سے سحری تک ایک ہی رات میں پور سناتے ہیں، چونکہ سحری تک قرآن مجید ختم کرنا ہوتا ہے، اس لیے وہ قدر تیز پڑھتے ہیں کہ عام حالات میں لفظ سمجھ میں نہیں آتے۔ بعض مساجد میں اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے، لوگ اس کو شبینہ کہتے ہیں۔ شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شبینہ مروجہ منع ہے۔ حدیث میں ہے جو شخص تین دن سے کم میں قرآن مجید پڑھے۔ اس نے قرآن مجیو کو نہیں سمجھا۔ قیام اللیل مروزی وغیرہ میں عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے، کہ ان کے شاگرد نے رات کی نماز میں قرآن مجید کچھ زیادہ پڑھنے کا ذکر کیا۔ تو عبد اللہ بن مسعود نے ڈانٹا۔ اور فرمایا: ((ھذا کھذا الشعر)) ’’یعنی اشعار کی طرح جلدی جلدی پڑھتا ہے‘‘اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ ((لا اعلم النبی ﷺ قرأ القراٰن فی لیلة ولا قام لیلة حتی اصبح)) ’’یعنی مجھے علم نہیں کہ نبی ﷺ نے کبھی ایک رات میں مکمل قرآن مجید پڑھا ہو یا ساری رت تک طلوع فجر تک قیام فرمایا ہو۔‘‘جب ایک رات میں قرآن مجید کا ختم کرنا منع ہو تو اس کا اہتمام کرنا تو اس سے بھی برا ہوا۔ پس مسنون طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اور بدعی طریقوں سے پرہیز رکھنا چاہیے۔ کیونکہ مقصد اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے اور بدعی طریقوں میں بجائے رضامندی کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ تکلیف بھی اٹھانا اور خواہ مخواہ گناہ گار بھی ہونا۔ یہ مسلمان کا کام نہیں۔
(فتاویٰ اہل حدیث جلد ۲ صفحہ ۵۶۷: ۲۹ رمضان ۱۲۸۳ھ) (عبد اللہ امر تسری روپڑی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب