السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید عرصہ چھ سال سے ایک مسجد میں نماز تراویح میں قرآن مجید سناتا ہے۔ ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ)) زید نماز روزہ کا پابند ہے، قرآن مجید بھی ٹھیک پڑھتا ہے، سامعین اس سے خوش ہیں۔ لیکن مسجد کے ایک متولی صاحب کسی ذاتی رنجش کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ زید آیندہ سے مسجد میں قرآن مجید نہ سنائے۔ بلکہ کوئی دوسرا سنائے۔ کیا شرعاً ان کو زید کو روکنے کا حق ہے، اگر متولی جبراً زید کو روکے تو عند اللہ اس کی پکڑ ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب کہ زید مذکور نماز روزہ کا پابندہ اور حافظ قرآن اور قاری و نیک سیرت اور پابند شرع ہے، اور عرصہ سے یہ نماز پڑھاتا ہے، اور آج تک اس کی امامت کے بارے میں کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ سارے نمازی اس کے تراویح پڑھانے سے خوش ہیں۔ اور سوائے ایک کے تمام متولی اور نگران مسجد راضی ہیں۔ تو یہی زید مذکور تراویح پڑھانے کا مستحق ہے، اور جو ذاتی عناد کی وجہ سے زید کو نماز تراویح پڑھانے سے روکتا ہے وہ آیت کریمہ ﴿وَمَنْ اَظْلَمَ مِمَّنْ مَنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ وَسَعٰٰی فِیْ خَرَابِہَا﴾ میں داخل ہے، ’’یعنی اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے، جو خدا کی مسجدوں میں خدا کا ذکر کرنے سے روکے اور ان کی بربادی کے درپے ہو۔‘‘علامہ شوکانی تفسیر فتح القدیر میں اس آیت کریمہ کی تفسیر یہ فرماتے ہیں۔
((والمراد بمنع المساجد ان یذکرر فیھا اسم اللّٰہ منع من یاتی الیھا للصلوة والتلاوة والذکرو تعلیمه الخ))
یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص مسجدوں میں نماز پڑھنے سے اور قرآن مجید کی تلاوت سے اور ذکر الٰہی سے اور قرآن مجید کے پڑھنے پڑھانے سے لوگوں کو روکے وہ بڑا ہی ظالم ہے، لہٰذا اس آیت کریمہ کی روشنی میں متولی مذکور کو زید کو نماز تراویح پڑھانے سے روکنے کا شرعاً حق نہیں ہے، اور اگر روکے گا تو آیت مذکورہ میں داخل ہو گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
(ترجمان دہلی جلد نمبر ۷ شمارہ نمبر ۶) (عبد السلام بستوی دہلی)
حنفی مذہب کا فتویٰ:
(حررہ مولانا عبد الصمد رحمانی، مفتی۔ خانقاہ رحمانیہ مولگیر)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب