سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(112) ایک شخص پہلے ایک جگہ نماز تراویح پڑھاتا ہے، پھر وہی دوسری جگہ..الخ

  • 4115
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1098

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین اگرایک شخص پہلے ایک جگہ نماز تراویح پڑھاتا ہے، پھر وہی دوسری جگہ دوسرے لوگوں کو بھی پڑھا دے یہ جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل حدیث کے نزدیک اگر فرض نماز بھی ایک شخص دو دفعہ پڑھا دے تو اس میں مضائقہ نہیں۔ یہ تو یعنی نماز تراویح تطوع ہے، (حررہ عبد الجبار الغزنوی عفی عنہٗ۔ فتاویٰ غزنویہ جلد اول صفحہ نمبر ۱۰۵)

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی

آٹھ رکعت تراویح اور تین رکعت وتر یا دس رکعت تراویح اور تین وتر رسول اللہ ﷺ سے بھی ثابت ہیں، اور امیر المؤمنین خلیفہ ثانی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اسی گیارہ یا تیرہ کا حکم دیا ہے۔ صحیح ابن حبان اور قیام اللیل مروزی میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔

((صلی بنا رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان ثمان رکعت والوتر فلمّا کان من القابلة اجتمعنا فی المسجد ورجونا ان یخرج الینا فلم نزل فیه حتی اصبحنا قال انی کرھت وخشیت ان یکتب علیکم الوتر))

’’ہم کو رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں آٹھ رکعت نماز اور وتر پڑھائے، پس جس وقت دوسری رات ہوئی، ہم مسجد میں جمع ہو گئے، اور ہم نے اس بات کی خواہش کی کہ آج رات بھی آپ (نماز پڑھانے کے واسطے) ہماری طرف نکلیں گے، ہم اسی جگہ ٹھہرے رہے،یہاں تک کہ صبح ہو گئی، آپ نے فرمایا کہ میں اس بات سے ڈرا اور میں نے اس کو مکروہ جانا کہ کہیں تمہارے اوپر فرض نہ ہو جاوے۔‘‘

((وعن جابر رضی اللّٰہ عنه قال جاء ابی بن کعب فی رمضان فقال یا رسول اللّٰہ ﷺ کان منی اللیلة شئی قال وما ذاك یا ابی قال نسوة داری قلن انا لا نقرأ القراٰن فنصلی خلفك بصلاتك وصلیت بھن ثمان رکعات والوتر فسکت عنه وکان شبه الرضا اخرجه المروزی فی کتاب قیام رمضان))

’’اور جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس نے کہا کہ آپ کے پاس رمضان میں ابی بن کعب آیا۔ اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ مجھ سے آج رات کچھ ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: بیان کر تو کہا میرے محلہ کی عورتوں نے کہا کہ ہم قرآن شریف نہیں پڑھ سکتیں ہم تیرے پیچھے نماز پڑھیں، اور تیری نماز کی اقتدا کریں۔ تو میں نے ان کو آٹھ رکعت نماز پڑھائی۔ اور وتر بھی (پڑھائے) آپ (یہ سن کر) چپ ہو رہے اور آپ کا سکوت مشابہ رضا کے ہے، اس حدیث کو مروزی نے کتاب قیام رمضان میں اخراج کیا ہے۔ ۱۲۔‘‘

اور موطا امام مالک میں سائب بن یزید سے روایت ہے۔

((امر عمررضی اللہ عنه ابی بن کعب وتمیما الداری ان یقوما للناس فی رمضان باحدی عشرة رکعة وفی روائت کنا نصلی فی رمضان زمن عمر رضی اللہ عنه بن الخطاب فی رمضان ثلث عشرة رکعة کذا فی کتاب قیام اللیل وقیام رمضان))

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم کیا یہ کہ لوگوں کو گیارہ رکعت نماز پڑھایا کریں اور ایک روایت میں ہے کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے زمانہ میں تیرہ رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، قیام اللیل اور قیام رمضان میں اسی طرح ہے۔۱۲۔‘‘

جابر رضی اللہ عنہ کی دونوں حدیثوں سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو رمضان میں تراویح جماعت کے ساتھ پڑھائی، وہ گیارہ رکعت تھی۔ اور رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ابی بن کعب نے بھی عورتوں کو گیارہ رکعت تراویح پڑھائی، اور امیر المومنین خلیفہ ثانی نے بھی اماموں کو گیارہ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا، جیسا کہ سائب بن یزید کی حدیث کو جو مذکور ہوئی ہے، سب سے اصح و اثبت جانتے ہیں، جیسا کہ ابن اسحاق نے لکھا ہے۔

((ما سمعت فی ذلك حدیثا ھو اثبت عندی والحریٰ من حدیث السائب بن یزید وذٰلك ان صلوة رسول اللّٰہ کانت من اللیل ثلث عشرة رکعة کذا فی کتاب قیام اللیل وقیام رمضان للمروزی))

’’کہ میں نے اس بارے میں کوئی حدیث نہیں سنی کہ وہ سائب بن یزید کی روایت ہے، بہت صحیح اور عمدہ ہو، اور یہ اس واسطے ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز بھی تیرہ رکعت ہوتی تھی۔ قیام اللیل اور قیام رمضان مروزی میں اسی طرح ہے۔۱۲۔‘‘

شیخ عبد الحق دہلوی حنفی محدث ما ثبت بہ السنۃ میں لکھتے ہیں۔

((والصحیح ماروته عائشة انه صلی احدیٰ عشرة رکعة کما ھو عادته فی قیام اللیل وروی انه کان بعض السلف فی عہد عمر بن عبد العزیز یصلون عشرة رکعة قصد التشبیہ برسول اللّٰہ))

’’اس بارے میں صحیح وہ روایت ہے، جس کو عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے۔ کہ آپ نے گیارہ رکعت نماز پڑھی۔ جیسا کہ آپ کی قیام اللیل میں عاد ت تھی۔ اور نقل کیا گیا ہے، کہ بعض سلف عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ کے زمانہ میں گیارہ رکعت نماز پڑھتے تھے، تاکہ ان کی نماز رسول اللہ ﷺ کے مشابہ ہو جاوے۔ ۱۲۔‘‘ (علوی لودھیانوی)

الغرض گیارہ رکعت تراویح رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام اور تابعین اعلام سے ثابت ہے، پس جو کوئی اس سے انکار کرے یا براجانے وہ بلا ریب علم حدیث سے جاہل اور بے خبر ہے سنت مؤکدہ یہی گیارہ رکعت ہیں، باقی نفل ہیں بیس پڑھے یا چھتیس یا چالیس اختیار ہے، ممانعت شرعی کوئی نہیں۔ فقط حررہ عبد الجبار بن عبد اللہ الغزنوی عفی اللہ عنہما۔(فتاویٰ غزنویہ صفحہ ۸۹، ۹۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 343

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ