سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(94) تعداد رکعات تروایح میں علماء امت کے درمیان کیا اختلافات ہیں

  • 4097
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 3056

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تعداد رکعات تروایح میں علماء امت کے درمیان کیا اختلافات ہیں دلیل کی رو سے راضح قول کون سا ہے۔ جواب بحوالہ کتب محدثین و فقہاء کرام تحریر فرمائیں۔ (حکیم محمد حسن از منڈی عثمانوالہ۔ ضلع لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسائل کو ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی کے مفتی صاحب کے اس جملہ سے دھوکا لگا ہے جو انہوں نے یزید بن رومان کے منقطع السند اثر کو پیش کر کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق کے زمانہ خلافت میں بیس رکعت تراویح پر اجماع اور کثرت صحابہ کے اتفاق کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ یہ دعویٰ بالکل باطل ہے جو ایسے ذمہ دار اور مفتی حضرات کی شایان شان نہیں کما قال صاحب تحفۃ الاحوذی ج نمبر ۲ ص ۷۶ ((قد ادعی بعض الناس انه قد وقع الاجماع علی عشرین رکعة فی عھد عمر رضی اللہ عنه واستقر الامر علی ذالك فی الامصار)) ’’یعنی بعض الناس نے دعویٰ کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح پر اجماع تھا۔ اور دوسرے شہروں میں بھی یہی حکم مقرر تھا۔‘‘مولینا فرماتے ہیں۔ ((دعویٰ الاجماع علی عشرین رکعة)) یعنی بیس رکعت تراویح پر اجماع کا دعویٰ اور پھر ((استقرار االامر علی ذالط فی الامصار باطل جداً)) بالکل باطل ہے ((کما قال العینی فی عمدة القاری فی شرح صحیح بخاری)) عدد رکعات تراویح میں کئی قول ہیں۔

((قد اختلف العلماء فی العدد المستحب فی قیام رمضان علی اقوال کثیرة (۱) فقیل احد واربعون وقال الترمذی رای بعض ھم ان یصلی احد واربعین رکعة مع الوتر وھو قول اھل المدینة والعمل علی ھذا عندھم بالمدینة قال شیخنا رحمه اللہ وھو اکثر ما قیل فیه قلت ذکر ابن عبد البر عن الاسود بن یزید کان یصلی اربعین ویوتر بسبع))

’’علماء نے قیام رمضان کی رکعتوں کے بارے میں کہ اس میں کون عدد مستحب ہے بہت کچھ اختلاف کیا ہے ایک قول یہ ہے کہ اکتالیس رکعت ہے ترمذی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ بعضوں کی رائے یہ ہے کہ اکتالیس رکعت مع وتر پڑھے اور یہ قول اہل مدینہ کا ہے اور اس پر اہل مدینہ کا عمل ہے۔ہمارے شیخ نے فرمایا کہ اکتالیس سے زیادہ کسی کا قول نہیں ہے میں کہتا ہوں کہ عبد البر نے اسود بن یزید سے نقل کیا ہے کہ وہ چالیس رکعت پڑھتے تھے اور سات وتر یعنی مع وتر سنتالیس رکعت پڑھتے تھے۔‘‘

((وقیل ثمان وثلاثون رواہ محمد بن نصر من طریق ابن ایمن عن مالك قال یستجب ان یقوم الناس فی رمضان بثمان وثلثین رکعة ثم یسلم الناس ثم یوتر بعلم بواحدة وقال ھذا العمل بالمدینة قبل الحرة منذ بضع ومائة سنة الی الیوم))

’’اور کہا گیا ہے کہ اڑتیس رکعت ہے۔ امام محمد بن نصر نے ابن ایمن کے طریق سے امام مالک سے روایت کی ہے کہ امام مالک نے کہا کہ مستحب یہ ہے کہ لوگ رمضان میں اڑتیس رکعت پڑھیں۔ پھر امام مالک نے کہا کہ مستحب یہ ہے کہ لوگ رمضان میں اڑتیس رکعت پڑھیں۔ پھر امام مالک نے کہا کہ زمانہ حرہ کے قبل ایک سو کوئی برس سے اب تک اہل مدینہ کا اس پر عمل چلا آتا ہے۔‘‘

((وقیل ست وثلثون وھو الذی علیه عمل اھل مدینة وروی ابن وھب قال سمعت عبد اللّٰہ بن عمر یحدث عن نافع قال ما ادرك الناس الا وھم یصلون تسعا و ثلثین رکعة ویوترون منھا بثلٰث))

’’کہا گیا ہے کہ چھتیس رکعت ہے اور اس پر اہل مدینہ کا عمل ہے۔ بن وہب نے کہا کہ میںنے عبد اللہ بن عمر سے سنا ہے وہ کہتے تھے نافع نے کہا کہ میں لوگوں کو نہیں پایا مگر اس حالت پر کہ تراویح انتالیس رکعتیں پڑھتے تھے جن میں سے تین رکعت وتر کی تھیں۔‘‘

((وقیل اربع وثلثون علی ما حکم عن زرارة بن اوفیٰ انه کذالك کان یصلی بھم فی العشر الاخیر))

’’چونتیس رکعت ہے جب کہ زرارہ بن اوفی سے مروی ہے کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ میں اسی طرح چونتیس رکعت پڑھتے تھے۔‘‘

((قیل ثمان وعشرون وھو المروی عن زرارة بن اوفی فی العشرین الاولین من اشھر وکانی سعید بن جبیر یفعله فی العشر الاخر))

’’کہا گیا ہے۔ اٹھائیس رکعت ہے یہ قول بھی زارہ بھی اوفی سے رمضان کے پہلے دو عشروں میں منقول ہے اور سعید بن جبیر آخری عشرہ میں اٹھائیس رکعت پڑھتے تھے۔‘‘

((قیل اربع وعشرون وھو مروی عن سعید بن جبیر))

’’کہا گیا ہے چوبیس رکعت ہے اور یہ سعید بن جبیر سے مروی ہے۔‘‘

((قیل عشرون وحکاہ الترمذی عن اکثر اھل العلم فانه روی عن عمر رضی اللہ عنه وعلی رضی اللہ عنه وغیرھما من الصحابة وھو قول صحابنا الحنفیه))

’’کہا گیا ہے کہ بیس رکعت ہے ترمذی نے اس کو اکثر اہل علم سے نقل کیا ہے کیونکہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ سے منقول ہے اور یہ قول ہم احناف کا ہے۔‘‘

بیس رکعت کے متعلق جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے خود علامہ عینی کو اعتراف ہے کہ وہ منقطع الاسناد، عمدۃ القاری کی عبارت یہ ہے ((اما اثر عمر رضی اللہ عنه بن الخطاب فرواہ مالك فی المؤطا باسناد منقطع)) حضرت علی رضٰ اللہ عنہ کے بیس رکعت کے منقول ہونے کے بارے میں بحث گذر چکی ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے صحابہ سے جو آثار نقل ہوتے ہیں وہ سابقہ سوالوں کے جوابات میں بحث ہو چکی ہے۔

((وقیل ست عشرة وھو مروی عن ابی مجلز انه کان یصلی بھم اربع ترویحات ویقرأ لہم سبع القراٰن فی کل لیلة روہ محمد بن نصر من روایة عمران بن حدید))

’’کہا گیا ہے کہ سولہ رکعت ہے اور ابو مجلز سے منقول ہے کہ وہ لوگوں کو چار تروایح پڑھایا کرتے تھے اور ہر رات قرآن کا ساتواں حصہ میں پڑھا کرتے تھے اس کو امام محمد بن نصر نے عمران بن حریر کے طریق سے روایت کیا ہے۔‘‘

((وقیل ثلث عشرة واختارہ محمد بن اسحاق روی محمد بن نصر من طریق ابن اسحاق قال حدثنی محمد بن یوسف عن جدہ السائب بن یزید قال کنا نصلی فی زمان عمر رضی اللہ عنه بن الخطاب فی رمضان ثلث عشرة رکعة الی قوله، قال ابن اسحٰق وما سمعت فی ذلك حدیثا ھو اثبت عندی ولا احری بان یکون من حدیث السائب و ذلك ان صلوٰة رسول اللّٰہ ﷺ کانت من اللیل ثلث عشرة رکعة))

’’کہ تیرہ رکعت ہے۔ اور اسی کو محمد بن اسحاق نے اختیار کیا ہے۔ امام محمد بن نصر نے روایت کیا ہے کہ محمد بن اسحاق نے کہا کہ محمد بن یوسف نے مجھے خبر دی کہ دادا سائب بن یزید نے کہا کہ ہم لوگ عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے زمانہ میں تیرہ رکعت پڑھا کرتے تھے۔ محمد بن اسحاق نے کہا کہ میں نے اس باب میں ایسی کوئی حدیث جو میرے نزدی اس حدیث سے زیادہ ثابت اور سائب بن یزید کی حدیث ہونے کے زیادہ لائق ہو۔ نہیں سنی اور یہ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز بھی تیرہ رکعت تھی۔‘‘

 اسی طرح علامہ ابن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔

((قال ابن اسحاق وھذا ثبت مما سمعت فی ذلك وھو موافق لحدیث عائشة رضی اللہ عنہا فی صلوة النبی فی اللیل))

’’محمد بن اسحاق نے کہا کہ میں نے جس قدر حدیثیں اس بات میں سنی ہیں ان سب میں یہ حدیث موافق ہے جو رسول اللہ ﷺ کی رات نماز کے بارے میں مروی ہے۔‘‘

((وقیل احدی عشرة رکعة وھو اختیار مالك لنفسه واختارہ ابو بکر بن العربی))

’’کہا گیا ہے کہ گیارہ رکعت ہے اور اسی کو امام مالک نے اپنے لیے اختیار کیا ہے اور اس کو ابو بکر بن عربی نے بھی پسند کیا۔‘‘

علامہ حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ نے فتح الباری جلد نمبر ۲ ص ۲۱۶ میں فرماتے ہیں۔

((فی الموطا عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید انہا احدی عشرة رکعة ورواہ سعید بن منصور من وجه اٰخر ورواہ محمد بن نصر من ابن اسحاق عن محمد بن یوسف فقال ثلث عشرة رکعة والعدد الاول موافق لحدیث عائشة والثانی قریب منه))

’’امام مالک نے مؤطا میں محمد بن یوسف سے روایت کی انہوں نے سائب بن یزید سے کہ تراویح گیارہ رکعت ہے اور سعید بن منصور نے ایک اور سند سے بھی یہی مضمون روایت کیا ہے۔ اور امام نصر رحمہ اللہ مروزی نے محمد بن اسحاق کی سند سے محمد بن یوسف سے تیرہ رکعت روایت کی ہے اور اول عدد یعنی گیارہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ کی حدیث کے موافق ہے اور ثانی تیرہ۔‘‘

اس سے قریب ہے علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ کی وضاحت سے یہ بات متحقق ہو گی ہے کہ بعض الناس کا دعویٰ اجماع علی العشرین بالکل باطل ہے علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ کے پیش کردہ اقوال سے آخری قول۔ گیارہ۔ ((تراویح عن حیث الاللیل قوی)) اور راجح ہے۔((کما قال فی تحفة الاحوذی)) (جلد نمبر ۲ ص ۷۳) قول راجح مختار عن حیث الالیل قولی قول ہے جس کو امام امام مالک نے اپنے لیے پسند فرمایا۔ گیارہ رکعت اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ سے بسند صحیح ثابت ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت تراویح پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔ گیارہ رکعت کے علاوہ باقی اقوال کے متعلق علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

((فلم یثبت واحد منہا عن رسول اللّٰہ ﷺ بسند صحیح ولم یثبت الامر بہ عن احد مان الخلفاء الراشدین بسند صحیح قال عن الکلام))

’’یعنی باقی اقوال سے کوئی بھی بسند صحیح رسول اللہ ﷺ اور خلفاء الراشدین سے ثابت نہیں جو کہ کلام سے خالی ہو۔‘‘(تحفۃ)

ہم کیوں کہتے ہیں کہ گیارہ رکعت سنت ہے دلیل نمبر۱ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ سے گیارہ رکعت ہی ثابت ہے جیسا کہ بخاری۔ مسلم وغیرہما کتب احادیث میں ابی سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے جب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے نبی ﷺ کی نماز تراویح کا سوال کیا۔

 ((فقالت ما کان یزید فی رمضان ولا غیرہ علی احدی عشرة رکعة یصلی اربعا فلا تسئل عن حسنھن ثم یصلی اربعا فلا تسئل عن حسنھن وطولھن ثم یصلی ثلث الحدیث))

’’تو آپ نے فرمایا کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ام المومنین نے کہا کہ آپ نے بڑی عمدگی اور طویل قرأت کے ساتھ چار رکعتیں پڑھیں پھر تین رکعت وتر پڑھے۔‘‘

علامہ مبارک پوری فرماتے ہیں۔

((فھذا الحدیث نص صریح فی ان رسول اللّٰہ ﷺ ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ عل احدی عشرة رکعة تحفة الاحوذی)) (جلد نمبر۲ ص ۳)

یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔

دلیل نمبر ۲:

((عن جابر رضی اللہ عنه قال صلی بنا رسول اللّٰہ ﷺ فی شھر رمضان ثمان رکعات واوتر ولما کانت القابلة اجتمعنا فی المسجد ورجونا ان یخرج فلم نزل فیه حتٰی اصبحنا ثم دخلنا فقلنا یا رسول اللّٰہ ﷺ اجتمعنا البارحة فی المسجد ورجونا ان تصلی بنا فقال انی خشیت ان یکتب علیکم رواہ الطبرانی فی الصغیر وقیام اللیل۔ وابن خزیمہ وابن حبان فی صحیحھما))

’’طبرانی۔ قیام اللیل مروزی۔ صحیح ابن خزیمہ۔ اور صحیح ابن حبان بحوالہ تحفۃ الاحوذی جلد نمبر ۲ ص ۷۴ میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک میں آپ نے ہم کو آٹھ رکعت تراویح اور تین وتر پڑھائے اگلی رات اس امید پر ہم مسجد میں زیادہ اکٹھے ہوئے کہ آپ تشریف لائیں گے تو ہم کو گذشتہ رات کی طرح نماز پڑھائیں گے مگر آپ تشریف نہ لائے۔ صبح جب آپ ﷺ سے ملے تو ہم نے مسجد میں اپنے اجتماع کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا میں اس بات سے ڈرا کہ مبادا یہ نماز تم پر فرض ہو جائے۔‘‘

دلیل نمبر۳:

((عن جابر بن عبد اللّٰہ قال جاء ابی بن کعب الی رسول اللّٰہ ﷺ انه کان منی اللیلة شئی یعنی فی رمضان قال وما ذاك با ابی فال نسوة فی داری قلن لا نقرأ القرأن فصلی بصلوٰتك قال فصلیت بھم ثمان رکعات واوترت فکانت شبه الرضا ولم یقل شیئا قال الھیثمی فی مجمه الزوائد رواہ ابو یعلی وقیام اللیل))

’’ابو یعلی میںجابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابی ابن کعب آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھ سے اب آج رات رمضان المبارک میں ایک بات ہوگئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ابی وہ کیا بات ہے کہا کہ میرے گھر کی مستورات نے جمع ہو کر مجھ سے کہا کہ ہم کہ قران نہیں پڑھ سکتیں لہٰذا ہم تو آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گی تو میں نے ا ن کو آٹھ رکعت تراویح اور تین وتر پڑھائے تو آپ ﷺ خاموش ہو گئے یہ خاموشی آپ کی رضا کی دلیل تھی۔‘‘

دلیل نمبر ۴:

((عن السائبن بن یزید انه قال امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب وتمیم الداری ان یقوما للناس باحدی عشرة رکعة رواہ مالك فی المؤطا و سعید بن منصور و مصنف ابن ابی شیبة۔ ومعرفة السنن والاٰثار للبیہقی وقیام اللیل۔ورساله المصابیح للیسوطی رحمه اللہ))

’’مؤطا امام مالک و سعید بن منصور اور مصنف ابن ابی شیبہ۔ معرفت السنن والآثار بیہقی۔ قیام اللیل مروزی۔ للمصابیح سیوطی۔ میں سائب بن یزید سے مروی ہے کہ عمر بن خطاب نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم الداری رحی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات تراویح پڑھایا کریں۔‘‘

 ((قال النیموی فی آثار السنن اسنادہ صحیح)) علامہ نیموی حنفی نے آثار السنن میں سائب بن یزید کی روایت کو صحیح سند کہا ہے تحفۃ الاحوذی جلد نمبر ۴ ص ۷۴ مندرجہ بالا دلئل کے بعد ضرو۵رت تو نہیں تھی کہ کسی امام محدث فقیہ اور عالم کا قول پیش کیا جائے مگر آپ حضرات کی مزید تفصیل کے لیے اس مسئلہ میں ائمہ اربعہ کا مسلک فقہائے حنفیہ محدثین عظام اور علماء کرام کے اقوال بطور تائید پیش کیے جاتے ہیں۔

مسلک امام ابو حنیفہ:

امام مالک۔ امام شافعی۔ امام احمد بن حنبل کی تصانیف تو موجود ہیں مگر بقول علامہ، شبلی میزان شعرانی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کوئی تصنیف نہیں یہ قدوری ہدایہ۔ کنز الرقائق۔ شرح وقایہ۔ وغیرہ کتب فقہ جو درسی کتابیں سمجھی جاتی ہیں اور جن پر حنفی مذہب کا دارومدار ہے ان کتابوں کے مصنف حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات ۱۵۰ھ کے صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں چنانچہ ان مصنفین کی وفات بالترتیب ۴۲۸ھ ۵۹۲ھ ۷۱۰ھ ۷۴۵ھ میں واقع ہوتی ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین کی حضرت امام کے شاگردوں سے بھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن فقہی سلسلہ کو مضبوط کرنے کے لے فقہائے احناف میں ایک ضرب المثل مشہو رہے جو بلفظہٖ ملاحظہ ہو۔

((ان الفقه زرعه عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنه وسقاہ علقمة وحصدہ ابراھیم النخعی وداسه حماد وطحنه ابو حنیفه وعجمه ابو یوسف وخبر محمد وسائر الناس یاکلون وتمہید الفاروق لمن طالع کنز الدقائق مطبوعه قاسمی دیوبند))

’’فقہ فاکعیت عبد اللہ بن مسعود نے بویا علقمہ نے سینچا ابراہیم نخعی کاٹا حماد نے بھوس جو کی ابو حنفیہ نے پیسا ابو یوسف نے آٹا۔ گوندھا اور امام محمد نے روٹیاں پکائیں باقی سب کھانے والے ہیں۔‘‘

اس مثل سے ظاہر ہے کہ باب قیام شہر رمضان میں تراویح پڑھنے کا بیان اس کے پیچھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ والی روایت یوں تحریر فرماتے ہیں۔

((اخبرنا مالك حدثنا سعید المقبری عن ابی سلمة بن عبد الرحمٰن انه سأل عائشة کیف کانت صلوة رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان قالت ما کان رسول اللّٰہ ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة))

الحدیث مؤطا امام محمد ترجمہ گذر چکا ہے اس بات کے خاتمے پر فرماتے ہیں ((وبھذانأ خذا کله)) ’’یعنی ہمارا ان سب حدیثوں پر عمل ہے۔‘‘ تعداد رکعت میں سوائے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ کے آپ نے کوئی حدیث نقل نہیں کی جس سے ثابت ہوا کہ امام محمد بھی اس حدیث کے مطابق گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔ اگر فقہ حنفی کو امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ کے ارشادات گرامی کا مجموعہ سمجھا جائے تو فقہ حنفیہ میں گیارہ رکعت تراویح مو وتر موجود ہے ملاحظظہ ہدایہ جلد اول ص ۵۶۳ تراویح آٹھ رکعت سنت اور بیس رکعت مستحب۔ شرح وقایہ ص ۱۳۴ میں ہے۔ آٹھ رکعت تراویح علاوہ وتر سنت ہیں اور بیس رکعت مستحب۔ شرح وقایہ ص ۱۲۳ میں ہے کہ تراویح ّآٹھ رکعت کی حدیث صحیح ہے نبی ﷺ نے رمضان میں بیس رکعت تراویح نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ رکعت علاوہ وتر پڑھا کرتے تھے۔ شامی و شرح فقہ اکبر میں گیارہ تراویح مع وتر موجود ہے۔ مندرجہ بالا حوالہ جات فقہ سے حضرت امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ نے صحیح مسلک گیارہ رکعت تراویح مع وتر پرھنے کا کہا ہے۔

مسلک امام مالک:

مؤطا امام مالک میں ہے۔

((ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة))

’’نبی ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔‘‘

اس حدیث کی بنا پر امام مالک نے گیارہ رکعت تراویح مع وتر پسند فرمائی ہیں۔ جیسا کہ علامہ بدر الدین عینی حنفی فرماتے ہیں۔ ((احدی عشرة رکعة ھو اختیار مالك لنفسه)) (عینی جلد نمبر صفحہ ۳۵۷)

’’یعنی گیارہ رکعت تراویح کو امام مالک نے اپنے لیے اختیار کیا۔‘‘

مسلک امام شافعی:

امام شافعی کا مسلک بھی گیارہ رکعت تراویح مع وتر کا ہے جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کتاب معرفۃ السنن والآثار جلد اول ص ۴۴۷ فرماتے ہیں۔

((قال الشافعی اخبرنا مالك عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید قال امر عمر ابن الخطاب ابی بن کعب وتمیم الداری ان یقومأ للناس باحدی عشرة رکعة ھذا مذھبنا))

’’امام شافعی فرماتے ہیں ہم کو امام مالک نے خبر دی انہوں نے محمد بن یوسف سے روایت کی انہوں نے سائب بن یزید سے اور سائب بن یزید نے کہا کہ حضرت عمر فاروق نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ گیارہ رکعت تراویح لوگوں کو پڑھایا کریں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی میرا مذہب ہے۔‘‘

مسلک امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ:

((خیر احمد بن حنبل بین احدی عشرة وثلث وعشرین رکعة))

’’امام احمد حنبل نے گیارہ اور تیئس ۲۳ کے درمیان اختیار دیا۔‘‘

مصفیٰ شرح مؤطا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ائمہ مجتہدین کے فیصلہ جات سے نماز تراویح مع وتر گیارہ رکعت پڑھنا ثابت ہو گیا۔ آٹھ رکعت تراویح کے سنت نبویہ ہونے کی بسبب علمائے احناف کے چند شہادتیں بطور تائید پیش کی جاتی ہیں بغور ملاحظہ فرمائیں۔

نمبر۱: امام محمد رضی اللہ عنہ امام ابو حنفیہ کے شاگر رشید اور فقیہ احناف ہیں۔ انہی کی کتابوں سے آج حنفیت زندہ ہے ان کی ایک مایہ ناز کتاب مؤطا امام محمد ہے اس میں یوں باب باندھتے ہیں باب قیام شہر رمضان اس کے محشی۔ مولینا عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے قیام شہر رمضان پر حاشیہ لکھ کر بتایا ہے۔ یسمیٰ التراویح۔ یعنی قیام شہر رمضان ہی کا نام تراویح ہے اس باب کے نیچے عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ والی حدیث لائے ہیں جس میں آنحضرت ﷺ کی تراویح باجماعت کا ذکر ہے۔ چونکہ اس میں رکعت کی تعداد کا ذکر نہیں اس لیے اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی وہ روایت لائے ہیں جو مسلک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بیان میں گذر چکی ہے جس میں رکعت کی تعداد کا بیان ہے جس سے گیارہ رکعت مع وتر کا سنت نبوی ہونا ثابت کیا ہے۔ فجزاہ اللّٰہ عنا وعن سائر المسلمین۔

نمبر۲: امام ابن اہمام حنفیوں میں ایک جید عالم ہوئے ہیں ایسے عالموں پر اللہ تعالیٰ کی بیش شمار رحمتیں ہوں جن کا شیوہ حق بیانی رہا ہے آپ آٹھ اور بیس تراویح کی تحقیق میں فرماتے ہیں۔

((فتحصل من ھذا کله ان قیام رمضان سنة احدی عشرة رکعة مع الوتر فی جماعة فعلیه علیه الصلوٰة والسلام وترکه لعذر الخ فتح القدیر۔ جلد اول))

پس حاصل اس بحث کا یہ ہے کہ قیام رمضان۔ تراویح۔ جو سنت ہے وہ تو وتر سمیت گیارہ رکعت ہیں جس کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے فعل سے باجماعت ادا کیا اور فرضیت کے عذر سے چھوڑ دیا۔

نمبر۳: علامہ عینی حنفی عمدۃ القاری جلد نمبر ۳ ص ۵۹۷ میں لکھتے ہیں۔

((فان قلت لم یبین فی الروایات المذکورة عدد الصلوٰة التی صلاھا رسول اللّٰہ ﷺ فی تلك اللیالی قلت روی ابن خزیمة وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان ثمان رکعة ثم اوتر))

’’اگر تو سوال کرے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان راتوں میں جو نماز پڑھائی تھی اس کی تعداد و روایات مذکورہ میں نہیں ہوئی تو میں اسے جواب میں کہوں گا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں وتر علاوہ آٹھ رکعتیں پڑھائے تھیں۔‘‘

نمبر۴: ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوۃ میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ کلام بلا کسی رد و انکار کے نقل کرتے ہیں۔

((اعلم انه لم یوقت رسول اللّٰہ ﷺ فی التراویح عدداً معیناً بل لا یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی ادری عشرة رکعة))

’’رسول اللہ ﷺ نے تراویح کا کوئی خاص عدد قولاً مقرر نہیں فرمایا یا لیکن عملاً رمضان و غیر رمضان گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘

 نیز ابن اہمام رحمہ اللہ حنفی کے مندرجہ بالا کلام ((منتحصل من ھذا کله الخ)) پر بھی ان کو کوئی اعتراض نہیں۔ واللہ اعلم۔

(اخبار الاعتصام جلد نمبر ۱۸ ش نمبر ۲۴،۲۵ یکم شوال ۱۳۸۶ھ)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 317-328

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ