سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(93) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب تراویح کی جماعت قائم کی تھی..الخ

  • 4096
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 5062

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب تراویح کی جماعت قائم کی تھی تو آئمہ کو کتنی رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ ماہ نامہ تعلیم القرآن راولپنڈی بابت ماہ ستمبر ۶۴ء میں سوال نمبر ۲۵۲ کے جواب میں جو یہ لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ نے سب مسجد والوں کو ابی بن کعب کے پیچھے اقتداء کرنے کا حکم فرمایا۔ اور سب اہل مسجدوں مل کر باجماعت تراویح ادا کرنے لگے۔ یہ زمانہ تراویح کی نماز کے اہتمام اور اظہار کا ہے اس وقت جس جو بات بالاخر مقرر ہوئی وہ بیس رکعت تراویح ہیں۔جیسے یزید بن رومان سے امام مالک نے روایت کیا۔ ((کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب بثلث و عشرین رکعة الخ)) صحیح ہے یا غیر صحیح۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بخاری شریف جلد نمبر۱ ص ۱۹۸، ۱۴۷ میں ہے۔ ((فتوفی رسول اللّٰہ ﷺ والامر علی ذلك ثم کان الامر علی ذٰلك فی خلافة ابی بکر و صدراً من خلافة عمر رضی اللہ عنه))

’’یعنی آپ کے عہد مبارک تک یہی حالت رہی کہ تراویح کی جماعت قائم نہیں ہوئی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتداء عہد خلافت تک یہی حال رہا۔‘‘

ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے زمانہ جب کہ آپ کے ساتھ عبد الرحمن بن عبد القاری بھی تھا ماہ رمضان کی ایک رات مسجد میں تشریف لائے۔

((فاذا الناس اوزاع متفرقون فصلی بصلوته الرھظ فقال عمر انی اری لو جمعت ھولاء علی قاری واحد لکان امثل ثم عزم فجمعہم علی ابی بن کعب ثم خرجت معه لیلة اخریٰ و الناس یصلون بصلوٰة قارئھم قال عمر رضی اللہ عنه نعمت البدعة ھٰذہٖ والتی تنامون عنہا افضل من التی تقومون یزید اخر اللیل وکان الناس یقومون اوله)) (بخاری۔ موطا امام مالك)

’’پس ناگہاں لوگ متفق اور جدا جدا تھے۔ نماز پڑھتا تھا ایک آدمی اکیلا اور نماز پڑھتا تھا ایک آدمی پس نماز پڑھتے تھے ساتھ نماز اس کی کے لوگ پس کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تحقیق میں دیکھتا ہوں کہ جمع کروں لوگوں کو ایک قاری پر تو البتہ بہتر ہو پھر قصد کیا پس جمع کیا لوگوں کو ابی بن کعب پر کہا عبد الرحمن نے پھر نکلا میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوسری رات اور لوگ نماز پڑھتے تھے ساتھ نماز امام اپنے کے کہا عمر رضی اللہ عنہ نے اچھی ہے یہ بدعت اور وہ ساعت کہ سو رہتے ہو اس سے بہتر ہے اس ساعت سے کہ وہ قیام کرتے ہو اور ارادہ کیا آخری رات کا۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ابی بن کعب کو تراویح کی جماعت کا امام مقرر فرمایا۔ موطأ امام مالک میں ہے۔

((عن السائب بن یزید قال امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب وتمیم الداری ان یقوما للناس فی رمضان باحدی عشرة رکعة)) (مشکوٰة) (موطأ امام مالك قیام اللیل ص ۱۹۱)۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم الداری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کورمضان میں گیارہ رکعت مع وتر پڑھائیں۔

((قال الشافعی رحمه اللہ اخبرنا مالك عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید قال امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب وتمیم الداری ان یقوما للناس باحدی عشرة رکعة))

’’سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔‘‘

 اور ایک روایت سائب بن یزید میں کہ تیرہ رکعت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پڑھا کرتے تھے یہ گیارہ رکعت والی روایت کے مخالف نہیں ہے۔ کہ بعض لوگ تنہا دو رکعت بھی پڑھ لیا کرتے تھے کتاب معرفۃ آثار السنن جلد اول ص ۴۴۷ میں امام بیہقی فرماتے ہیں۔

((قال الشافعی رحمه اللہ اخبرنا مالك عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید قال امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب و تمیم الداری ان یقوما للناس باحدی عشرة رکعة))

’’امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی انہوں نے محمد بن یوسف سے روایت کی۔ انہوں نے سائب بن یزید سے کہ سائب بن یزید نے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ گیارہ رکعت لوگوں کو پڑھایا کریں۔‘‘

علامہ جلال الدین سیوطی رسالہ المصابیح فی صلوۃ التراویح میں فرماتے ہیں کہ سنن سعید منصور میں ہے۔

((حدثنا عبد العزیز بن محمد حدثنی محمد بن یوسف سمعت سائب بن یزید یقول کنا نوم فی زمان عمر بن الخطاب باحدی عشرة رکعة الحدیث))

’’ہم کو عبد العزیز بن محمد نے خبر دی انہوں نے کہا مجھ کو محمد بن یوسف نے خبر دی انہوں نے کہا میں نے سائب بن یزید سے سنا وہ فرماتے تھے ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔‘‘

 اور علامہ ممدوح ص ۲۰ میں اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں۔ ((سندہ فی غایة الصحة)) ’’سند نہایت صحیح ہے۔‘‘ سائب بن یزید سے اس کے خلاف بھی کچھ روایتیں آئیں ہیں لیکن وہ روایتیں اس گیارہ رکعت والی روایت کے ہم پلہ نہیں جیسا کہ محمد بن اسحاق سے قیام اللیل ص ۱۹۳ میں ہے۔

((قال محمد بن اسحٰق وما سمعت فی ذلك حدیثا ھوا ثبت عندی ولا احری بان یکون کان من حدیث السائب وذلك ان صلوة رسول اللّٰہ ﷺ کانت من اللیل ثلث عشرة))

’’ابن اسحاق نے کہا کہ میں نے اس باب میں ایسی کوئی حدیث جو میرے نزدیک اس حدیث سے زیادہ ثابت اور سائب بن یزید کی حدیث سے زیادہ اچھی ہو نہیں سنی اور یہ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز تیرہ ہی رکعت تھی۔‘‘

عمدۃ القاری جلد نمبر ۵ ص ۳۵۷ میں ہے۔

((وھو اختیار مالك لنفسه واختارہ ابو بکر بن العربی))

’’امام مالک نے اپنے لیے گیارہ ہی رکعت کو پسند کیا اور ابو بکر بن عربی نے بھی اس کو اختیار رکھا۔‘‘

علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ رسالہ المصابیح ص ۲۰ میں فرماتے ہیں۔

((قال ابن الجوزی من اصحابنا عن مالك انه قال الذی جمع علیه الناس عمر بن الخطاب احب الی وھو احدی عشرة رکعة وھی صلوة رسول اللّٰہ ﷺ قیل له احدی عشرة بالوتر قال نعم وثلث عشرة قریب قال ولا ادری من این احدث ھذا الرکوع الکثیر))

’’ہمارے اصحاب میں سے ابن جوزی نے کہا کہ امام مالک نے فرمایا جتنی رکعتوں پر حضرت عمر نے لوگوں کو جمع کیا تھا وہ مجھ کو زیادہ پیاری ہیں اور وہ گیارہ رکعتیں ہیں اور یہی رسول اللہ ﷺ کی نماز ہے ان سے پوچھا گیا۔ گیارہ رکعت سے وتر؟ کہا: ہاں! اور تیرہ رکعت قریب ہے اور کہا میں نہیں جانتا کہ اتنے زیادہ رکوع کہاں سے ایجاد کئے گئے۔‘‘

ان حوالہ جات سے یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچ گئی کہ حضرت عمر فاروق نے جب نماز تراویح کی جماعت قائم کی تھی تو صحیح سند سے ثابت ہوتا ہے۔ آئمہ گیارہ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم فرمایا ہے بلکہ امام مالک اور ابن العربی نے انہی رکعات تراویح کو اختیار کیا اور امام مالک رحمہ اللہ نے اس سے زیادہ سنت سمجھ کر پڑھنے کو ناپسند فرمایا اور جو روایتیں اس کے خلاف ہیں آتی ہیں وہ یا تو صحیح الاسناد نہیں یا ان میں اس امر کی تصریح نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعات پڑھانے کا حکم صادر فرمایا ہو۔

((ومن ادعی فعلیه البیانج واللہ اعلم بالصواب))

(اخبار الاعتصام جلد نمبر ۱۸ ش نمبر ۲۴،۲۵ یکم شوال ۱۳۸۶ھ)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 314-317

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ