سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) رسول اللہ ﷺ سے بیس رکعت تراویح پڑھنا کسی حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟

  • 4095
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1958

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رسول اللہ ﷺ سے بیس رکعت تراویح پڑھنا کسی حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی صحیح حدیث سے رسول اللہ ﷺ کا بیس رکعت تراویح پڑھنا ثابت نہیں، اس سلسلہ میں ایک ضعیف احادیث اور منقطع اثر پیش کر کے عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے، حالانکہ ایسی احادیث اور آثار کو فقہائے عظام نے ضعیف اور منقطع قرار دے کر ناقابل اعتبار بنا دیا ہے، مسئلہ کے ثبوت کے لیے صحیح حدیث کا ہونا ضروری ہے، وہ احادیث اور آثار نقل کر کے ان کا ضعف اور انقطاع درج کیا جاتا ہے، ((وھو ھذا))

۱۔ ((قال قال رسول اللّٰہ ﷺ من صلی التراویح عشرین رکعة یغفر اللّٰہ له عشرین الف ذنوبه واعطی له اجر عشرین شھیداً واعتق عشرین))بلا حوالہ ہے۔

۲۔ ((عن ابن عمر رضی اللہ عنه قال قال علیه السلام من صلی عشرین رکعة من التراویح قبل الوتر عطی اللّٰہ له نور عشرین مرتبة فی الجنة فکل مدینة شھر وکل شھر من ثلثین ایام ویوم مقدار سنة۔ فقد المتین)) (بحوالہ فتاویٰ ثنائیہ ج ۱ ص ۲۴۳)

یہ حدیثیں صحیح نہیں ہیں۔ آج تک کسی مستند کتاب میں نہیں دیکھیں، بلکہ وہ حنفی مسلک کے ذمہ دار علماء نے بھی کہیں نقل نہیں کی ہیں۔

۳۔ ((عن یزید بن خصیفة عن السائب بن یزید قال کانوا یقومون علی عھد عمر بن الخطاب فی شھر رمضان بعشرین رکعة الحدیث فتاویٰ ثنائیه۔رواہ البیہقی باسناد صحیح بذل المجھود شرح ابی داؤد للعلامہ خلیل احمد حنفی ج ۲ ص ۳۰۴ لکن فی اسنادہ ابو عبد اللّٰہ بن فنجولة الدینوری ولم اقف علی ترجمته فمن بدعی صحة ھذا الاثر فعلیه ان یثبت کونه ثقة قابل للاحتجاج)) (تحفة الاحوذی ج ۲ ص۷۵)

۴۔ ((وفی روایة اخریٰ للبیھقی عن السائب بن یزید قال کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب عشرین رکعة والوتر الخ))

اس اثر کی سند میں ابو عثمان بصری۔ عمرو بن عبد اللہ۔ علامہ نیموی رحمہ اللہ حنفی نے اپنی قابل قدر کتاب آثار سنن میں کہا ہے، ((لم اقف من ترجم له)) ’’کہ میں ابو عثمان کے حالات سے ناواقف ہوں۔‘‘نیز اسی سند میں ا بو طاہر فقیہ ہے، اس کے ثقہ ہونے میں شبہ ہے، علاوہ ازیں روایت صحیح مرفوع حدیثوں کے اور جو حضرت سائب بن یزید کی مندرجہ ذیل صحیح ترین روایتوں میں مخالف ہیں۔

((رواہ سعید بن منصور فی سننہٖ قال حدثنا عبد العزیز بن محمد حدثنی محمد بن یوسف سمعت السائب بن یزید یقول کنا نقوم لی زمان عمر بن الخطاب باحدیٰ عشرة رکعة))

علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس اثر کے نقل کے بعد لکھا ہے۔

((اسنادہ فی غایة الصحة وھو ایضاً معارض بما رواہ محمد بن نصر فی قیام اللیل من طریق محمد بن اسحاق حدثنی محمد بن یوسف عن جدّہ السائب ابن یزید انه قال نصلی زمن عمر رضی اللہ عنه فی رمضان ثلاث عشرة رکعة وھو ایضاً معارض بما رواہ مالك فی المؤطا عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید انه قال امر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنه ابی بن کعب وتیم الداری ان یقوما للناس باحدی عشرة رکعة))

ان تینوں روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعت مع وتر پڑھا کرتے تھے۔

((فاثر السائب بن یزید رواہ البیہقی۔(فی اثبات عشرین رکعة) لا یصلح للاحتجاج)) (تحفۃ الاحوذی جلد نمبر۳ صفحہ نمبر ۷۵)

 حنفیہ ۲۰ رکعت تراویح کے ثبوت میں یہ اثر بھی پیش کرتے ہیں۔

((عن یزید بن رومان انه قال کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان بثلٰث وعشرین رکعة رواہ مالك))

ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی کے شمارہ ماہ ستمبر میں ۱۹۶۲ء میں کسی مسئلہ تراویح کے مسائل کے جواب میں اس منقطع اثر کے سامنے رکھ صحیح احادیث و آثار سے دا نسبتاً اعراض کر کے محض اپنے مسلک کی حمایت کی خاطر ۲۰ تراویح کا فتویٰ دیا گیا ہے، جو محض دھوکا ہے، کاش کہ مفتی صاحب علامہ جمال الدین زیلعی حنفی رحمہ اللہ کا نصب الرایۃ جلد نمبر ۱ صفحہ ۲۹۴ اور علامہ عنی حنفی کی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد نمبر ۲ صفحہ ۸۰۴ و دیگر فقہائے عظام و علمائے احناف کو سامنے رکھ کر فتویٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ اس کے منقطع ہونے کا حال سنئے۔ علامہ زیلعی حنفی نصب الرائیۃ میں فرماتے ہیں۔ ((یزید بن رومان لم یدرك عمر رضی اللہ عنه)) اسی طرح علامہ عینی حنفی عمدۃ القاری جلد نمبر۱ صفحہ ۲۹۴ میں فرماتے ہیں۔ ((ویزید لم یدکر عمر رضی اللہ عنه ففیه انقطاع)) یعنی یزید بن رومان نے حضرت عمر کا زمانہ نہیں پایا۔ یہ روایت سنداً صحیح نہیں۔ بلکہ منقطع السند ہے۔ اس لیے کہ یزید بن رومان جو اس حدیث کے راوی ہیں۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ علامہ عینی حنفی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری کے جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۳۵۶ میں فرماتے ہیں۔ ((رواہ مالك فی المؤطا باسناد منقطع)) بیس رکعت تراویح کے ثبوت میں بڑے شد و مد سے ایک مرفوع حدیث پیش کرتے ہیں۔ جو یہ ہے۔

((روی ابن ابی شیبة فی مصنفة والطبرانی والبیہقی من حدیث ابراهیم بن عثمان بن ابی شیبة عن الحکم عن ابن عباس ان النبی ﷺ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة سوی الوتر))

یہ حدیث محققین احناف کے نزدیک قابل حجت نہیں۔ بلکہ ضعیف ہے، چنانچہ علامہ بن الہمام حنفی رحمہ اللہ فتح القدیر شرح ہدایہ میں لکھتے ہیں۔

((اماما رواہ ابن شیبة فی مصنفة … النبی ﷺ یصلی فی رمضان عشرین رکعة سوی الوتر فضعیف بابی شیبة ابراهیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة متفق علی ضعفہٖ مع مخالفة للصحیح))

’’یعنی یہ حدیث ابی شیبۃ ابراہیم بن عثمان جو امام ابی بکر کے دادا ہے، باتفاق ائمہ ضعیف ہے، علاوہ ازیں یہ حدیث صحیح کے مخالف ہے۔‘‘

اسی طرح عینی حنفی نے عمدۃ القاری جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۳۵۸ اور علامہ زیلعی حنفی نے نصب الرائیہ جلد نمبر ۱ صفحہ ۳۹۳پر اس حدیث کو بوجہ ابی شیبہ ابراہیم بن عثمان ضعیف اور معلول قرار دیا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ۔ یحییٰ بن معین۔ امام بخاری۔ اور امام نسائی نے بھی اس کو ضعیف کہا ہے۔ حافظ بن حجر فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۳۱۷ پر فرماتے ہیں۔ کہ ۲۰ رکعت والی حدیث ضعیف ہونے کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے مخالف ہے، جو صحیحین میں ان سے مروی ہے، مولانا عبد الحئی لکھنوی نے بھی اس ۲۰ رکعت والی حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ تعلیق المجد علی موطا محمد صفحہ ۱۴۲ مولانا ظہیر احسن نیموی بھی اس حدیث کو ضعیف تسلیم کرتے ہیں۔ اور اس کے ضعیف پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے، اور حضرت مولانا انور شاہ صاحب حنفی حدیث ابن عباس رضی اللہ عن کے متعلق فرماتے ہیں۔

((واما النبی فصح عنه علیه السلام ثمان رکعات واما عشرون رکعة فھو عنه علیه السلام بسند ضعیف وعلی ضعفه اتفاق (عرف الشذی ص۳۳))

’’یعنی نبی ﷺ سے صحیح طور پر آٹھ ہی رکعات تراویح ثابت ہیں۔ اور آنحضرت ﷺ کی بیس رکعت تراویح پڑھنے کی روایت بالاتفاق سنداً ضعیف ہے۔‘‘

 ان حضرات کے علاوہ اور بے شمار ائمہ حدیث نے حدیث ابن عباس کو ضعیف کہہ کر ناقابل حجت قرار دیا ہے۔

حنفیہ کی ایک اور دلیل:

((ان عمر بن الخطاب امر رجلا فیصلی بھم عشرین رکعة))

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو بیس تراویح پڑھنے کا حکم دیا۔‘‘

یہ روایت ضعیف ہے۔ مولانا ظہیر احسن نیموی حنفی اپنی قابل قدر کتاب آثار السنن میں فرماتے ہیں۔

((رجاله ثقات لکن یحی بن سعید الانصاری لم یدرك عمر)) (تحفة الاحوذی)

یحییٰ بن سعید طبقہ خامسہ سے ہیں۔ جو تابعین کا طبقہ صغری ہے، جس نے صرف ایک دو صحابہ کو دیکھا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ۲۳ ھ کو شہید ہوچکے تھے، اور یحییٰ بن سعید انصاری ۲۳ ھ یا اس کے بعد پیدا ہوئے ہیں، پس یہ روایت بوجہ منقطع السند ہونے کے صحیح نہیں، نیز یہ روایت اُن صحیح مرفوع حدیثوں اور آثار صحابہ کے مخالف ہے، جو گیارہ رکعت تراویح کے منقول ہیں۔

حنفیہ کی ایک اور دلیل:

((اخرج ابو بکر بن ابی شیبة فی مصنفة عن عبد العزیز بن رفیع قال کان ابی بن کعب یصلی بالناس فی رمضان بالمدینة عشرین رکعة ویوتر بثلاث)) (تحفة الاحوذی ج ۲ ص ۷۵)

یعنی ابی بن کعب مدینہ منورہ میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے۔ ((قال الینموی عبد العزیز بن رفعی لم یدرك ابی بن کعب)) یہ اثر منقطع السند ہے، کیونکہ عبد العزیز بن رفیع جو اس واقعہ تراویح کے راوی ہیں۔ انہوں نے ابی بن کعب کو نہیں پایا۔ کیونکہ ابی بن کعب کی وفات ۳۳ ھ میں ہوئی، اور عبد العزیز بن رفیع ۵۰ھ کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ ملاحظہ ہو۔

((تقریب التھذیب ومع ھذا فھو مخالف لما ثبت بسند صحیح عن عمر رضی اللہ عنه امر ابی بن کعب وتمیما الداری ان یقوما للناس باحدی عشرة رکعة وایضاً مخالف لما ثبت عن ابی بن کعب انه صلی اللہ رمضان وارہ ثمان رکعة وارتر)) (تحفة الاحوذی ص ۷۵) ان دونوں کا ترجمہ گذر چکا ہے۔

حنفیہ کی ایک اور دلیل:

((فی قیام اللیل قال الاعمش کان ای ابن مسعود یصلی عشرین رکعة ویوتر بثلاث)) (تحفة الاحوذی ج ۲ ص ۷۵)

’’یعنی الاعمش کہتے ہیں۔ کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھا کرتے تھے۔‘‘

جواب یہ روایت بوجہ منقطع سند ہونے کے صحیح اور قابل اعتبار نہیں اس روایت کی سند میں ایک راوی اعمش ہیں، جو عبد اللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں، حالانکہ اعمش نے عبد اللہ بن مسعود کا زمانہ بھی نہیں پایا۔ کیونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ۳۲ھ میں فوت ہو جاتے ہیں۔ اور حضرت اعمش ۶۰ھ کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ملاحظہ ہو تقریب التہذیب لہٰذا یہ روایت بھی قابل اعتبار نہی۔

حنفیہ کی ایک اور دلیل:

((فاخرجه البیھقی فی سننه وابن ابی شیبة عن ابی الحسناء ان علی ابن ابی طالب امر رجلا ان یصلی بالناس خمس ترویحات عشرین رکعة)) (تحفة الاحوذی جلد نمبر۲ صفحه نمبر ۷۱)

’’یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ نماز پڑھائے لوگوں کو پانچ تراویح سے ۲۰ رکعتیں۔‘‘

جواب:… ((قال النیموی فی اٰثار السنن مرار ھذا الاثر علی ابی الحسناء وھو لا یعرف))

اس اثر کی سند کا ایک راوی ابو الحسناء ہے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے، حالانکہ ابو الحسناء کی ملاقات حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی، علاوہ ازیں مجہول بھی ہے، اور اس سند کا دوسرا راوی ابو سعد بقال ہے، جو ضعیف ہے، لہٰذا یہ روایت علاوہ ضعیف ہونے کے منقطع ہے، قابل اعتبار نہیں۔

حنفیہ کی ایک اور دلیل:

((ان علیا رضی اللہ عنه دعا القراء فی رمضان فامر رجلا منھم یصلی بالناس عشرین رکعة وکان علی یوتر لھم))

’’یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قاریوں کو بلایا، اور ان میں ایک آدمی کو حکم کیا کہ لوگوں کو بیس رکعت پڑھایا کرے، اور حضرت علی اُن کو وتر پڑھایا کرتے تھے۔‘‘

جواب:… اس کی سند میں ایک راوی حماد بن شعیب ہے، جو ضعیف ہے، ((قال النیموی ضعیف تحفة الاحوذی ۷۵/۲۹)) یحییٰ بن معین اور امام نسائی نے ضعیف کہا ہے، میزان الاعتدال تحفۃ الاحوذی جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۷۵ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ان دونوں سے دلیل قائم کی گئی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیس تراویح کا حکم دیا۔ اور خود بیس تراویح پڑھیں۔ حالانکہ دونوں اثر ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں۔ تحفۃ الاحوذی جلد نمبر ۲ صفحہ ۷۵ نیز صحیح مرفوع حدیثوں کے خلاف ہیں، مذکورہ بالا دلائل کے علاوہ خلیل احمد نے اپنی قابل قدر کتاب بذیل المجہود شرح ابی داؤد جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۳۰۵ میں عطا بن نافع بن عمر سعید بن عبیدہ وغیر۔ حضرات سے بیس رکعت تراویح کے سلسلہ میں فرماتے ہیں، جو مرسل اور منقطع السند ہونے کے باعث ناقابل استدلال ہیں، یاد رکھیں اس مسئلہ میں جتنی بھی روایتیں آئی ہیں۔ ان میں کوئی بھی وہم سے خالی نہیں۔

((کما قال النیموی وفی الباب روایات اخری اکثر ما لا تخلوا عن الوھم۔)) (بذل الجہودص ۳۰۵)

(اخبار الاعتصام جلد نمبر ۱۸ شمارہ نمبر ۲۴،۲۵، یکم شوال ۱۳۸۶ھ)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 308-314

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ