سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(89) تراویح کی تعداد

  • 4092
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1128

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کتنی رکعتیں نماز تراویح کی۔ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح باد کہ احادیث صحیحہ میں رسول اللہ ﷺ سے نماز تراویح مع وتر گیارہ رکعت ثابت ہیں، صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے۔

((عن ابی سلمة بن عبد الرحمٰن انه سأل عائشة کیف کانت صلوة رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان فقالت ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہٖ علٰی احدیٰ عشرة رکعة الحدیث))

’’ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز رمضان میں کیونکر تھی۔ تراویح کی نماز کیسے رکعت پڑھتے تھے، پس عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے، نہ رمضان میںنہ غیر رمضان میں۔‘‘

 یعنی آنحضرت ﷺ کی نماز تراویح کی تعداد گیارہ رکعت تھی۔ صحیح بخاری جلد ۱ و مسلم جلد ۱ میں ہے۔

((عن عروة عن عائشة اخیرته ان رسول اللّٰہ ﷺ خرج لیلة من جوف اللیل فصل فی المسجد فصلی رجال بصلوة فاصبح الناس فتحدثوا فاجتمع اکثر منھم فصلوا معه فاصبح الناس فتحدثوا الکثر اھل المسجد من اللیلة الثالثة فخرج رسول اللہ ﷺ فصلی فصلوا بصلوٰة الصبح فلما قضی الفجرا قبل علی الناس فتشھد ثم قال اما بعد فانہ لم یخف علی مکانکه ولکنی خشیت ان تفرض علیکم فتعجزوا عنہا فصلوا ایھا الناس فی بیوتکم وذٰلك فی رمضان))

’’عروہ بن زبیر سے عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیا ن فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، اور کچھ لوگوں نے آپ کے ساتھ اقتداء کی صبح کو انہوں نے اور لوگوں سے ذکر کیا۔ دوسری رات کو کچھ لوگ زیادہ جمع ہوئے، جن کی گنجائش مسجد میں نہ رہی، اس رات کو آپ نے جماعت سے نماز نہیں پڑھی، یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لیے آپ باہر تشرفیف لائے، اور نماز صبح کے بعد ’’خطبہ‘‘ پڑھ کر فرمایا کہ تم لوگوں کا اس نماز کو جماعت سے پڑھنے کے شوق میں جمع ہونا معلوم ہے، لیکن میں نے جماعت سے اس لیے نہیں پڑھی، کہ مجھ کو اس بات کا خوف ہوا کہ کہیں یہ جماعت تم پر فرض نہ ہو جائے، اور تم سے ادا نہ ہو سکے۔ غرض آپ نے اس نماز میں جماعت موقوف کر دی، اور اصل نماز قائم رکھی، اور فرمایا کہ تم لوگ اس نماز کو گھروں میں پڑھا کرو۔‘‘

 صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۱۹۸ و ۱۴۷ میں ہے۔

((فتوفی رسول اللہ ﷺ والامر علٰی ذلك ثم کان الامر علٰی ذلك فی خلافة ابی بکر رضی اللہ عنه وصدر من خلافة عمر رضی اللہ عنه))

’’یعنی آپ کے عہد مبارک تک یہی حالت رہی کہ جماعت قائم نہ ہوئی، اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ابتدائے عہد خلافت تک بھی یہی حال رہا۔‘‘

اگر کوئی سوال کرے کہ اس حدیث میں اس بات کا بیان نہیں ہوا۔ کہ ان راتوں میں آنحضرت ﷺ نے کتنی رکعت نماز پڑھائی تھی۔ جواباً عرض ہے کہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں بذیل شرح اس حدیث کے صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان سے بروایت جابر رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں کہ آں حضرت نے وتر کے علاوہ آٹھ رکعتیں پڑھائی ہیں۔ فتح الباری کی عبارت یہ ہے۔

((لم اوفی شئی من طرفة بیان عدد صلوٰة فی تلك اللیالی لکن روی ابن خزیمة و ابن حبان من حدیث جابر رضی اللہ عنہ قال صلی بنا رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان ثمان رکعات ثم او تر))

علامہ عینی حنفی نے بھی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کو صحیح ابن خزیمہ و صحیح ابن حبان سے نقل فرمایا ہے، عمدۃ القاری کی عبارت یہ ہے۔

((فان قلت لم یبین فی الروایات المذکورة عدد الصلٰوۃ التی صلاھا رسول اللّٰہ ﷺ فی تلك اللیالی قتل روی ابن خزیمة وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللہ ﷺ فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر))

’’اگر تو سوال کرے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان راتوں میں جو نماز پڑھائی تھی، اس کی تعداد روایات مذکورہ بالا میں بیان نہیں ہوئی۔ تو میں اس کے جواب میں یہ کہوں گا۔کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں وتر کے علاوہ آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں۔‘‘

 علامہ زیلعی حنفی نے نصب الرائیۃ فی تخریج احادیث الہدایہ جلد ۱ صفحہ ۲۹۳ میں اس کو بحوالہ صحیح ابن حبان بدین عبارت نقل فرمایا ہے۔

((عند ابن حبان فی صحیحه عن جابر بن عبد اللّٰہ انه علیه السلام قام بھم فی رمضان فصلی ثمان رکعات ثم اوتر۔ الحدیث))

علامہ موصوف نے صفحہ ۲۷۶ میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ابن حبان کس جگہ واقع ہے، چنانچہ فرماتے ہیں۔ ((رواہ فی النوع التاسع والستین من القسم الخامس)) ابن حبان نے حدیث مذکورہ بالا کو اپنی صحیح کی پانچویں قسم کی اونہترویں نوع میں روایت کیا ہے، یہ روایت قیام اللیل مروزی کے صفحہ ۱۶۰ معجم الصغیر طبرانی مطبوعہ دہلی کے صٖحہ ۱۰۸ سبل السلام جلد ۲ صفحہ ۱۰ میں بدیں الفاظ مروی ہے۔

((عن جابر قال صلی بنا رسول اللّٰہ ﷺ لیلة فی رمضان ثمان رکعة والوتر الی ان قال اسنادہ وسط))

اور نیل الاوطار جلد ۲ صفحہ ۲۹۹ میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

((واما العدد الثابت عنه ﷺ فی صلاته فی رمضان فاخرج البخاری وغیرہ عن عائشة ما کان النبی ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہٖ علی احدی عشرة رکعة واخرج ابن حبان فی صحیحہ من حدیث جابر انه ﷺ صلی بھم ثمان رکعات ثم اوتر))

’’ان رکعات کی تعداد جو آنحضرت ﷺ سے رمضان کی نماز میں ثابت ہے اس کو امام بخاری وغیرہ نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو مع وتر گیارہ رکعت پڑھائی تھیں۔‘‘

 آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میں کسی صحابی سے بھی بیس رکعت یا بیس رکعت سے زیادہ تراویح پڑھنا ہر گز ثابت نہیں، بلکہ صحابہ نے اپنی تراویح کی کبھی تصریح کی تو اس قدر جس قدر احادیث صحیحہ سے ثابت ہے یعنی آٹھ رکعت اور وتر جیسا کہ امام محمد نصر مروزی رضی اللہ عنہ کی کتاب قیام اللیل صفحہ ۱۶۰ میں ہے۔

((وبه عن جابر جاء ابی بن کعب فی رمضان فقال یا رسول اللّٰہ ﷺ کان اللیلة شئی قال ما ذاك یا ابی قال نسوة داری قلن انا لا نقرأ القرأن فتصلی خلفك بصلوتك فصلیت بہن ثمان رکعت والوتر فسکت عنه وکان شبة الرضاء))

’’ابی بن کعب رمضان میں آں حضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ! رات ایک بات ہو گئی، آپ ﷺ نے فرمایا: کون سی بات ہو گئی اے ابی! انہوں نے عرض کیا کہ میرے گھر کی عورتوں نے کہا کہ ہم لوگ قرآن نہیں پڑھتے ہیں، پس ہم لوگ تمہارے پیچھے نماز پڑھیں گے، اور تمہارے اقتداء کریں، تومیں نے ان کو آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھائے، پس رسول اللہ ﷺ نے سن کر سکوت فرمایا۔ اور گویا اس بات کو پسند کیا۔‘‘

الحاصل مندرجہ بالا حدث سے واضح ہوا، آنحضرت ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں رات کی نماز گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے، اورآپ نے رمضان میں تین رات نمازپڑھائی تھی، ان راتوں میں آٹھ تراویح اور تین وتر پڑھائے تھے، آپ کے سامنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت تراویح پڑھائی۔ واللہ اعلم بالصواب۔

(اخبار الاعتصام جلد نمبر ۱۸ شمارہ نمبر ۲۲، ۱۷ رمضان المبارک ۱۳۸۶ھ)

توضیح الکلام:

علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ المذہب نے بذیل شرح اس حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے چند سوال مع جواب، بغرض تو ضیح مطلب اس حدیث کے لکھتے ہیں۔ سوال اول مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ رات کو رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب عشرہ آخیر آتا تو آپ رات کو بیدار رہتے اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے، اور اپنی کمر عبادت کے لے چست باندھتے اور عبادت میں بھی بہت کوشش فرماتے، ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے، کہ آپ عشرہ رمضان میں اپنی عادت مستمرہ سے زیادہ عبادت کرتے تھے، اس صورت میں مذکورہ بالا حدیث اور ان دونوں حدیثوں میں اختلاف معلوم ہوتا ہے، اس میں وجہ تطبیق کیا ہے؟

جواب:… آپ آخری عشرہ میں صرف رکعتوں کو طول دیتے تھے، یعنی لمبی لمبی رکعتیں پڑھتے تھے، اور رکعتوں کی تعداد نہیں بڑھاتے تھے۔ رکعتوں کی تعداد اسی قدر تھی جو حدیث بالا میں مذکور ہوئی، یعنی گیارہ رکعت زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

 

 

جلد 06 ص 302-306

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ