سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(88) کیا نماز تراویح آنحضرت ﷺ سے عملاً جماعت کے ساتھ پڑھنا ثابت ہے؟

  • 4091
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 4077

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نماز تراویح آنحضرت ﷺ سے عملاً جماعت کے ساتھ پڑھنا ثابت ہے، اگر ثابت ہے تو کتنی رکعتیں ہیں؟ اور انہیں کسی محقق محدث نے روایت کیا ہے؟ اور کیا قیام رمضان کے لیے کوئی مخصوص عدد ہے کہ جس کے بغیر مطلوب حاصل نہیں ہو سکتا؟ اور کیا بیس رکعتیں جنہیں تراویح کہتے ہیں۔ نفس قیام رمضان ہی ہے؟ یا اس پر قیام رمضان کا لفظ صادق آتا ہے؟ حفاظ محدثین کے کلام سے بیان فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میں اللہ کی مدد اور اس کی توفیق سے کہتا ہوں۔

بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے، ایک رات رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے۔ اور نماز پڑھی لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔ ان نمازیوں نے صبح ہونے پر دوسرے لوگوں کو بھی بتایا تو دوسری رات مجمع بہت بڑھ گیا۔ اور آنحضرت کے ساتھ لوگوں نے نماز ادا کی تیسری رات باتیں سن کر لوگ بہت اکٹھے ہو گئے۔ حتی کہ مسجد کی تنگ و امانی ظاہر ہرنے لگی۔ اس شب صبح کی نماز سے فارغ ہو کر آنحضرت ﷺ نے لوگوں پر متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا کہ میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ کر دی جائے۔ اور پھر تم اسے پڑھ نہ سکو گے۔ (اھ ملخصاً)

ابن شہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب فوت ہوئے ہیں تو اس وقت یہی حکم تھا۔ مائی عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی ایک روایت مسند احمد میں ہے۔ اس میں ہے… کہ رمضان کی راتوں میں لوگ گروہ گروہ ہو کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ جس شخص کو کچھ قرآن یاد ہوتا وہ پانچ، سات یا اس سے کم و بیش آدمی لے کر جماعت کرواتا۔ آنحضرت علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے حجرے کے دروازے پر ایک چٹائی بچھائوں میں نے تعمیل ارشاد کی آپ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر وہاں آئے لوگ بھی جمع ہو گئے۔ تو آپ نے نماز پڑھائی الخ اس روایت میں تیسری رات کا ذکر نہیں ہے۔

ایک روایت عبد الرحمان بن عبد القاری کی ہے، وہ کہتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ایک رات رمضان المبارک میں مسجد آیا لوگ الگ الگ نماز پڑھ رہے تھے۔ کوئی اکیلا تھا تو کوئی دو، چار کے ساتھ حضرت عمر نے فرمایا میرا خیال ہے کہ اگر میں انہیں قاری پر جمع کر دوں تو اس سے بہتر ہو گا۔ چنانچہ حضرت عمر نے ابی بن کعب کو جماعت کرانے کا حکم دے دیا۔ ایک رات پھر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلا تو لوگ اپنے قاری کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے، تو عمر نے دیکھ کر فرمایا کہ یہ ایک اچھی ایجاد ہوئی ہے ((نعمت البدعة ھذہ)) اور رات کا وہ حصہ جس میں یہ سو جاتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے جس میں یہ قیام کرتے ہیں (یعنی پچھلی رات، لوگ پہلی رات قیام کرتے تھے۔) (رواہ البخاری)

امام شوکانی نیل الاوطار میں کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفلی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ جائز ہے، لیکن پسندیدہ نوافل میں انفرادی صورت میں پڑھنا ہی ہے، مگر مخصوص نوافل جیسے عیدین، کسوف، اور استسقاء ہے، اور اسی طرح جمہور کے نزدیک نماز تراویح بھی جب کہ معتکف ہو اس حدیث میں مسجد میں نوافل کا جواز بھی ہے، اگرچہ گھر بہتر ہے، شاید نبی علیہ السلام نے بیان جواز کے لیے ہی مسجد میں ادا کی ہوں یا آپ معکتف ہوں۔ اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جس نے امامت کی نیت نہ کی ہو۔ اس کی بھی اقتداء جائز ہے، شوکانی کہتے ہیں کہ مشہور اور صحیح ہمارے مذہب میں یہی ہے، لیکن اگر امام نے مقتدیوں کی اقتداء کے بعد ان کی امامت کی نیت کر لی۔ تو امام اور مقتدیوں کو جماعت کا ثواب حاصل ہو گا۔ اور اگر نیت نہ کی تو ثواب نہیں ہو گا۔ (علی الاصح) چونکہ اس نے نیت نہیں کی۔ اور اعمال کے ثواب کا دارومداد نیتوں پر ہے، مقتدیوں نے چونکہ نیت کی ہے، اس لیے انہیں ثواب ہو گا۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جب مصلحت اور فساد کا تعارض ہو تو زیادہ اہم کا اعتبار کای جائے گا۔ چونکہ نبی علیہ السلام مسجد میں نماز کو مصلحت سمجھتے تھے، جب اس کے مقابلے میں فرض ہونے کا خوف دیکھا تو اسے ایک عظیم فساد کے خطرے کے پیش نظر ترک کر دیا کہ وہ فرض ہونے پر اسے ترک کریں گے۔

اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جب امام یا قوم کا سردار کوئی خلاف توقع کام کرے، اور اس میں سے اسے کوئی عذر ہو تو وہ لوگوںکو بتا دے تاکہ وہ کسی بدظنی میں مبتلا نہ ہوں۔ حضرت امام بخاری وغیرہ نے اس حدیث سے نماز تراویح پر استدلال کیا ہے، امام نے کتاب التراویح میں منجملہ دیگر احادیث کے اسے بھی ذکر کیا ہے، اور وجہ دلالت یہ ہے کہ نبی علیہ السلام نے مسجد میں نماز ادا کی لوگ آپ کے ساتھ ہو گئے۔ آپ نے منع نہیں کیا۔ اور چھوڑا بھی نہیں مگر فرض ہونے کے ڈر سے۔ مطلق جمع ہو کر رمضان کی راتوں میں نوافل ادا کرنے کی مشروعیت پر اس سے استدلال صحیح ہے، لیکن موجودہ زمانے میں رائج صورت یعنی مخصوص رکعتیں اور مخصوص قرأت اور باقاعدگی کے ساتھ پڑھنے پر بحث آگے آئے گی۔ ۱ھ۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اکرم ﷺ دوسری رات نکلے تو لوگوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔ الخ۔ مسند احمد۔ میں ہے کہ مسجد تنگ ہو گئی۔ اس کی ایک روایت بطریق سفیان بن حسین میں ہے کہ چوتھی رات لوگ مسجد میں نہ سما سکے۔ مؤطا میں ہے کہ تیسری یا چوتھی رات آنحضرت ﷺ نہ نکلے۔ مختلف روایات کے الفاظ مختلف ہیں کسی میں ہے کہ لوگوں نے تیسری رات آپ کی تاخیر کی وجہ سے کھانسنا شروع کر دیا، کسی میں ہے کہ لوگوں نے دروازہ کھٹکھٹایا کسی میں ہے کہ تیسری رات ہم نے خیال کیا کہ آج سحریاں بھی نہ کھا سکیں گے۔ (اس قدر لمبا قیام کیا) یہ تھیں نبی علیہ السلام کی اجتماعی شکل میں رمضان میں مطلق قیام کی حدیث کی مختلف سندیں۔

آپ ﷺ نے کتنی رکعتیں ادا کیں:

ابن عباس کی ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے انہیں بیس رکعتیں پڑھائیں، اور وتر بھی پڑھایا۔ ((اخرجه ابن ابی شیبة)) ابن حبان میں ہے کہ آٹھ رکعتیں اور وتر یہی زیادہ صحیح ہے، ((کذا فی الزرقانی علی الموطا)) ابن حجر کہتے ہیں کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ کی کسی سند میں بھی آنحضرت سے قیام کی تعداد مذکور نہیں ہے، لیکن ابن خزیمہ و ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کی ہے، جس میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمارے ساتھ رمضان میں آٹھ رکعتیں اور وتر ادا کئے۔ جب اگلی رات ہوئی تو ہم پھر جمع ہوئے، اور آپ کے نکلنے کی امدی کرتے رہے حتی کہ صبح ہو گئی ہم آپ کے پاس داخل ہوئے، اور عرض کی اے اللہ کے رسولﷺ! الخ

اگر (عائشہ رضی اللہ عنہا و جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں) ایک ہی قصہ ہے تو پھر ممکن ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ تیسری رات آئے ہوں۔ اسی لیے انہوںنے دو راتوں کا ذکر کیا ہے۔

اسی طرح انس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت مسلم میں ہے کہ آنحضرت ﷺ رمضان میں نماز ادا کر رہے تھے پس میں آیا۔ اور آپ کے پہول میں کھڑا ہو گیا۔ پھر ایک اور آ گیا حتی کہ ایک جماعت ہو گئی جب آپ کو ہمارا پتہ چلا تو آپ نے نماز مختصر کر دی اور پھر تشریف لے گئے۔

ظاہر ہے کہ یہ کوئی اور قصہ ہے، جماعت کے ساتھ قیام رمضان آنحضرت کے قیام سے ثابت ہو گیا، آپ نے فرض ہونے کے ڈر سے اسے چھوڑا ہے، چونکہ آپ مومنوں پر رحم و شفقت فرماتے تھے۔

ابو الولید باجی اور ابن التین کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی تقریر سے استنباط کیا تھا کہ آپ نے پڑھنے والوں کو منع نہیں فرمایا۔ جو مکروہ جانا تو صرف فرضیت کے خوف کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد تو یہ خوف نہیں رہا تھا، یعنی مسجد اور جماعت کی شرط صحت نوافل میں اسی طرف اشارہ ہے، زید بن ثابتگ کی حدیث میں ((خشیت ان یکتب علیکم الخ)) ممکن ہے کہ فرض کفایہ کی صورت میں فرضیت کا ڈر ہو اس صورت میں صلوٰۃ خمسہ پر زائد فرض نہ ہوتگا۔ ممکن ہے کہ صرف قیام رمضان کی فرضیت کا خوف ہو۔ اس صورت میں کوئی اشکار نہیں رہتا۔ چونکہ قیام رمضان کی تکرار سال بھر نہیں ہے، پھر بھی یہ صلوٰۃ خمسہ پر قدر زائد نہ ہوتی۔

حافظ نے فتح الباری میں ابن عبد البر سے ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف اسی چیز کو سنت قرار دیا تھا، جو آنحضرت ﷺ کو پسند تھی۔ آنحضرت ﷺ نے مواظبت (یعنی باقاعدگی) سے تو صرف اس لیے منع فرمایا تھا کہ کہیں امت پر فرض نہ ہو جائے، جب فرضیت کا خوف باقی نہ رہا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ۱۴ھ میں اس سنت کو پھر سے زندہ کر دیا، اور آنحضرت ﷺ سے اسے سنت قرار دینے پر یہ دلیل ہے کہ آپ نے فرمایا:

((ان اللہ فرض علیکم قیام رمضان سنتت لکم قیامة الخ اخرجه احمد و النسائی وابن ماجة والبیہقی عن عبد الرحمٰن بن عوف))

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں رغبت دلانے کے لیے فرمایا ((نعمت البدعۃ ھذہ)) چونکہ کلمہ نعم جمیع محاس کو مشتمل ہوتا ہے، جیسا کہ کلمہ بئس جمیع برائیوں کو متضمن ہوتا ہے، آنحضرت کا ارشاد ہے اقتدا کر، ان کی جو میرے بعد ہیں۔ یعنی ابو بکر و عمر یہ خذیفہ کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ جو مسند احمد اور ترمذی میں ہے۔

حافظ شوکانی ((القول المفید فی حکم التقلید)) میں فرماتے ہیں یہ حدیث سنن میں معروف، مشہور اور ثابت ہے۔

اور سنن کی کتابوں میں عرباض بن ساریہ کی صحیح اور ثابت حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔ ((علیکم بسنتی سنة الخلفاء الراشدین المھدین من بعدی)) اس کے رواۃ صحیح کے رواۃ ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ خلفاء راشدین جب کسی چیز کو آپ ﷺ کے بعد سنت قرار دیں۔ اس پر عمل پیرا ہونا۔ آنحضرت ﷺ کے فرمان پر عمل کی وجہ سے ہی ہے کہ آپ نے خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنے اور ابو بکر و عمر کی اقتداء کا حکم فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ امت کے کسی عالم کی اقتداء کا حکم نہیں دیا۔ اور نہ ائمہ مجتہدین میں سے کسی مجتہد کی اقتداء کا حکم فرمایا حاصل کلام یہی ہے کہ ہم جو ابو بکر و عمر کی اقتداء کرتے ہیں۔ تو صرف آنحضرت ﷺ کی تعمیل ارشاد کے لیے آپ نے فرمایا:((علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدین من بعدی)) نیز فرمایا ((اقتدوا بالذین من بعدی ابو بکر و عمر)) آنحضرت ﷺ نے خلفاء راشدین کی تخصیص فرمائی۔ اور ان کی سنت کو اپنی سنت کی مانند قرار دیا۔ (اتباع میں)اگر خلفاء راشدین کے ساتھ دوسروں کا اطلاق درست ہونا تو ان کے صحبت و علم کے ساتھ (دیگر صحابہ) مقدم ہوتے ان پوگوں پر جو خلفاء کے ساتھ ان کی کسی فضیلت میں بھی شریک نہیں ہیں بلکہ ان کی باہمی نسبت ایسے ہی ہے، جیسے ناک اور ثریا کی ہے۔ اگر یہ فضیلت انہیں کے ساتھ خاص اور انہیں میں محصور نہ ہوتی تو آنحضرت ﷺ خصوصیت سے دیگر صحابہ کے علاوہ ذکر نہ کرتے۔

جہاں تک حدیث۔ ((اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم)) (؎۱) کا تعلق ہے ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی ان میں سے تم پیروی کرو گے ہدایت پائو گے۔‘‘ یہ حدیث حضرت جابر اور ابن عمر کے طرق سے مروی ہے۔ ائمہ جرح و تعدیل نے تصریح کی ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اور آنحضرت ﷺ سے اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس فن کے اماموں نے اس پر کافی و شافی بحثیں کی ہیں۔ غرضیکہ یہ حدیث قابل حجت نہیں ہے، اگر بالفرض صحیح بھی ہو تو اس میں صحابہ کرام کی غیر صحابہ پر فضیلت کا ثبوت ہے۔ اگر ہم ان میں سے کسی کے قول کو لیں گے۔ تو صرف اس لیے کہ حضور ﷺ نے ہمیں ہدایت فرمائی ہے کہ ان کی اقتداء میں ہدایت ہے، اس صورت میں بھی ہم اتباع سنت اور عمل بالحدیث سے خارج نہیں ہوں گے۔

(؎۱) اس حدیث پر تفصیلی اور تحقیقی بحث اور عمدہ نقد کے لیے ملاحظہ ہو حضرت النواب سید صدیق الحسن رحمہ اللہ ۱۳۰۷ھ کی کتاب دلیل الطالب علی ارحج المطالب ص ۱۳۵۔ (عبد الرشید سلفی)

یہ ایسے ہی ہے جیسے حضو ﷺ نے معاذ کے بارے میں کہا تھا۔ اس نے تمہارے لیے سنت قرار دیا ہے، تم ویسے ہی کرو۔ (ابو داؤد باب الاذان)

وہ صرف حضرت معاذ کے کرنے سے نہیں۔ بلکہ آنحضرت ﷺ کے فرمانے سے سنت ہوتی ہے، یہی جواب ہو گا۔ حضرات ابن مسعود کے قول کا جو انہوں نے صحابہ کی تعریف میں فرمایا یعنی ((فاعرفوا لھم حقھم وتمسکوا بھدیھم فانھم کانوا علی الھدی المستقیم))۔

پس پہنچا نو صحابہ کا حق اور چمٹے رہو ان کے طریقے سے بے شک وہ صحیح راستہ پر تھے۔ ہاں ایک جواب ان تمام احادیث و آثار سے یہ بھی دیا جا سکتا ہے، کہ ان صحابہ کی سنت کو سنت پرپکڑنے اور ان کی اقتداء کرنے سے مراد یہ ہے۔ کہ ان میں سے ہر ایک وہی کچھ کرتا تھا۔ جو آنحضرت ﷺ نے کہا۔ وہ جو کچھ کرتے اور کہتے تھے۔ وہ آنحضرت ﷺ کے افعال و اقوال کا عکس ہوتا تھا۔ ان کے اقوال و افعال آنحضرت ﷺ کے افعال و اقوال کی گویا کہ حکایت ہی تھے۔ ان کی اقتداء آنحضرت کی اقتداء ٹھہری اور ان کی سنت پر عمل پیرا ہونے کا مطلب ہے، آنحضرت ﷺ کی سنت پر عمل کرنا اس کے لیے خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کے عبادات و معاملات میں عمل کی طرف توجہ کر کے دیکھ لیں، جہاں کہیں ان میں اختلاف ہے، وہ روایت کرنے میں ہے، رائے میں نہیں ہے۔ صحابہ سے صادر ہونے والے افعال خصوصاً عبادات میں آپ کوئی ایسا فعل نہ دیکھیں گے۔ جس کی بنیاد پر ان کی رائے پر ہو۔ وہ صرف اسی پر عمل کرتے تھے۔جس کا آنحضرت ﷺ یا خلفاء راشدین میں مشاہدہ کرتے تھے۔ وہ تو صرف مبلغ تھے۔ اسی لیے اکابر صحابہ سے رائے کی مذمت مروی ہے۔ وہ سنت کے سوا اور کسی چیز کی طرف لوگوں کی راہنمائی نہیں کرتے تھے۔ جہاں کہیں ان کے اپنے اجتہادات کا ذکر ہے، وہ کتاب و سنت سے خارج نہیں ہیں۔ بلکہ یا تو بتصریح یا بتلویح کتاب و سنت میں موجود ہیں اور جہاں کہیں کسی صحابی کو رائے اور اجتہاد سے کام لینا پڑا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ صحابی بہت تنگی محسوس کرے گا۔ اور ساتھ ہی تصریح بھی کرے گا۔ کہ یہ میری اپنی رائے ہے۔ خطاء کو اپنے نفس اور شیطان کی طرف منسوب کرے گا۔ اور صواب و درستی کو اللہ کی طرف یہ بڑی نفیس بحث ہے، اس پر مزید غور و خوض کرنا چاہیے۔ا ھ۔

اسی ’’القول المفید‘‘ میں امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس بدعت کی تفسیر میں جو آنحضرت سے صحیح اور ثابت حدیث میں مروی ہے۔ ((خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمد ﷺ شر الامور محدثاتھا وکل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار)) فرماتے ہیں: تمام بدعی امور دو قسم پر ہیں۔ ایک یہ کہ کتاب و سنت کے خلاف کوئی بات نکال لیں تو یہ بدعت ضلالت ہے، دوسرے جو قرآن و سنت سے مستنبط ہوں کسی کو اس میں خلاف نہ ہو۔ یہ محدث مذموم نہیں ہے، جیسا کہ حضرت عمر نے فرمایا: ((نعمت البدعة ھذہ۔ اھ)) نیز آپ کے فتاویٰ میں مذکور ہے کہ آپ سے حدیث ((علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین)) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس کے متعلق لوگوں نے بہت طویل کلام کیے ہیں۔ اس کی صحیح تاویل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ صحیح بات قابل عمل وہی ہے، جس پر یہ ترکیب عربی لغت کی رو سے دلالت کرتی ہے۔ لغت میں سنت کا معنی طریقہ کا ہے۔ گویا کہ آپ نے فرمایا: ((الزموا طریقتی وطریقة الخلفاء الراشدین)) تو صحابہ کرام کا طریقۂ نفس آنحضرت ﷺ کا طریقہ ہی تو تھا وہ اس پر عمل کرنے میں سخت حریص تھے۔ وہ معمولی امور میں بھی آپ کی مخالفت سے ڈرتے تھے کجا بڑے معاملات۔

اور جب انہیں کتاب و سنت سے کوئی دلیل نہ ملتی تو وہ باہمی بحث و مشاورۃ سے جس نتیجے پر پہنچتے اس پر عمل کرتے۔ اور یہ بھی آنحضرت ﷺ کی سنت ہی ہے، جیسا کہ اس پر معاذ والی حدیث سے دلیل ملتی ہے۔ کہ حضور ﷺ نے معاذ سے کہا تھا۔ کہ کیسے فیصلہ کرو گے۔ عرض کی کتاب اللہ کے ساتھ۔ فرمایا اگر کتاب اللہ میں نہ پائو تو پھر۔ عرض کی حدیث سے فرمایا اگر حدیث بھی نہ ملے تو عرض کیا اجتہاد کروں گا۔ آپ نے فرمایا۔ الحمد اللہ۔ جس نے میرے پیامبر کو توفیق دی ((او کما قال)) اگرچہ بعض اہل علم کو اس حدیث میں کلام ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ یہ حسن لغیر ہ کی قسم سے ہے، اور حسن لغیرہ معمول بہ ہے، میں نے ایک مستقل بحث میں اس کی وضاحت کی ہے۔ پس اگر آپ یہ کہیں کہ اگر جمیع صحابہ کا اپنی آراء پر عمل سنت ہے، تو پھر حضور ﷺ کے قول و سنۃ الخلفاء الراشدین کا کیا فائدہ ہے، جواب یہ ہے۔ کہ بعض لوگوں نے حضور کا زمانہ نہیں پایا۔ صرف خلفاء راشدین کا زمانہ ہ پایا ہے، یا پھر زمانہ تو آنحضرت ﷺ اور خلفاء کا پایا۔ مگر امر حادث حضور کے زمانے کے بعد خلفاء کے زمانہ میں ظہور پذیر ہوا۔ پس خلفاء نے اس پرعمل کیا تو سنۃ خلفاء راشدین کی قرار پائے گی۔ اس حدیث سے اسی طرف اشارہ ہے۔

اسی بنا پر بعض امور میں حضور ﷺ نے نسبت فعل اپنی ذات اور اپنے صحابہ کی طرف کی ہے۔ حالانکہ اپنی طرف نسبت کے بعد کسی غیر کی طرف نسبت کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ((لانه محل القدوة ومکان الاسوة))

مجھے اس حدیث کی یہی تفسیر سمجھ آئی ہے، اگر یہ درست ہے تو اللہ کی طرف سے ہے، اگر خطا ہے۔ تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے۔ ۱ھ۔

حافظ ابن حجر فتح الباری میں کہتے ہیں، کہ دراصل حدث اُسے کہتے ہیں جس کی پہلے مثال نہ ہو۔ اور شرع میں اس کا اطلاق سنت کے مقابل ہوتا ہے۔ پس یہ مذموم ہوگی۔ اھ۔

زرقانی میں ہے کہ حضرت عمر نے اسے نعمت البدعتہ کہا ہے، چونکہ اس فعل کا اصل سنت سے ثابت ہے، بدعت ممنوعہ تو وہ ہے، جو خلاف سنت ہو۔ ابن عمر نے چاشت کی نماز کے بارے میں فرمایا۔ نعمت البدعۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ﴿ورھبانیة ابدعوھَا ما کتبناھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللّٰہ}

ابن عبد البر باجی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ حضرت عمر نے خود ہی تصریح کر دی ہے، کہ سب سے پہلے قیام رمضان میں ایک امام پر انہوں نے جمع کیا۔ اور پھر صحابہ نے اس کی پیروی کی۔ اور یہ رائے اور اجتہاد کی صحت کی دلیل ہے۔ اھ۔

زرقانی کہتے ہیں کہ عمر نے اس لیے بدعت کہا کہ یہ سنت حضور ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اوقات میں نہیں تھی۔ لیکن جب عمر کے زمانے میں صحابہ کا اس پر اجماع ہو گیا۔ تو اس سے بدعت کا لفظ زائل ہو گیا۔ اھ۔

ابن حجر کہتے ہیں کہ ابن وہب نے جو ابو ہریرہ سے روایت کی ہے۔ کہ نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو لوگ مسجد کے کونے میں نماز ادا کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کی یہ ابی بن کعب لوگوں کو نماز پڑھا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ اچھا کر رہے ہیں۔ اھ۔ ابن عبد البر نیا سے ذکر کیا ہے۔ للیکن اس میں مسلم بن خالد راوی ضعیف ہے، اور محفوظ بات یہی ہے کہ اولاً حضرت عمر نے ہی ابی بن کعب پر لوگوں کو جمع کیا تھا۔ حدیث ((یؤمھم اقروئھم کتاب اللّٰہ)) کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ اھ۔

حافظ نے فتح الباری میں کہا ہے، قیام رمضان سے مراد اس کی راتوں کا قیام نماز کی حالت میں ہے۔ نووی نے ذکر کیا ہے۔ کہ قیام رمضان سے مقصود نماز تراویح ہے۔

شوکانی نیل میں کہتے کہ قیام کے لیے ساری رات نماز میں مشغول رہنا مراد نہیں ہے، بلکہ صرف اسی قدر جس پر لفظ قیام صادق آ سکے۔ اھ۔ حافظ نے ابن تین کے حوالے سے حضرت عمر کے فرمان ((لوجمعت ھٰؤلاء علی قاریٔ واحد لکان امثل)) کی توضیح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ عمر نے آنحضرت کی تقریر سے استنباط کیا ہے۔ مگر وہ آپ نے صرف اس وجہ سے جانا تھا کہ فرضیت کا ڈر تھا۔ آنحضرت کی وفات کے بعد امن ہو گیا۔ اسی لیے جمہور بھی حضرت عمر کے قول کی طرف گئے ہیں۔ ابن بسطال نے تو کہا ہے کہ تراویح سنت ہے۔ چونکہ عمر نے اسے آنحضرت ﷺ کے فعل سے ہی اخذ کیا ہے،ا مام بخاری کی حدیث عائشہ کو حدیث عمر کے بعد لانے میں بھی یہی راز ہے۔

’’سبیل الجراد علی الازہار‘‘ میں امام محمد بن علی شوکانی نے اسے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ حضرت عمر نے اسے آنحضرت کے فعل سے اخذ کیا ہے، اس لیے یہ سنت ہے بدعت نہیں ہے، آنحضرت سے رمضان کی راتوں میں نوافل باجماعت ثابت ہیں انہوں نے مذکورۃ الصدر احادیث کا ذکر بھی کیا ہے۔

تعداد رکعات:

آخر میں کہتے ہیں کہ بعض اہل علم نے جو بیس رکعتوں کو مستحسن کہا اور ہر رکعت میں مخصوص قرأت کو معین کر دیا ہے، یہ کہیں سے ثابت نہیں ہے۔

نیل الاوطار میں شوکانی کے الفاظ کا خلاصہ یہ ہے کہ تعداد کعات کے بارے میں بخاری شریف میں عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ ابن حبان بن جابر کی روایت میں ہے آپ نے انہیں آٹھ رکعتیں پڑھائیں بیہقی نے ابن عباس سے روایت کی ہے، کہ آنحضرت ﷺ رمضان میں جماعت کے بغیر بیس رکعتیں ادا فرماتے تھے۔ سلیم رازی نے کتاب الترغیب میں زیادہ کیا ہے کہ تین وتر بھی پڑھتے تھے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے ساتھ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان متفرد ہے، اور وہ ضعیف ہے، گویا حدیث ضعیف ہے۔

قرأت:

ہر رکعت میں مخصوص قرأت کے اندازے کے بارے میں کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی حاصل کلام یہ ہے، کہ باب کی احادیث سے قیام رمضان کی مشروعیت جماعت کے ساتھ اور اکیلے اکیلے ثابت ہے، مخصوص عدد اور مخصوص قرأت کے بارے میںکوئی دلیل وارد نہیں ہوئی۔ اھ۔ ابن عباس کی جو حدیث ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے۔ کہ آنحضرت ﷺ رمضان میں بغیر جماعت کے بیس رکعت نماز پڑھتے تھے۔ حافظ اب حجر نے فتح الباری میں کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے، اسے ابن عبد البر اور بیہقی نے ابن ابی شیبہ کے دادے ابی شیبہ کی روایت سے ضعیف قرار دیا ہے، اور اس کے مقابلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت بھی ہے، کہ آنحضرت ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اور عائشہ رضی اللہ عنہ آپ کے رات کے امور کی زیادہ واقف ہیں۔ مجھے گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے اور عائشہ رضی اللہ عنہ آپ کے رات کے امور کے زیادہ واقف ہیں۔ مجھے گیارہ رکعت میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے۔ کہ چونکہ دن کے فرائض آٹھ میں چار ظہر کے چار عصر کے اور مغرب دن کے وتر ہیں۔ تو اس مناسبت سے رات کی نماز بھی دن کی نماز کے برابر رکھی گئی۔ اور جہاں تیرہ کا ذکر ہے تو اس میں فجر کو شامل کر لیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔

جہاں تک صحابہ کا تعلق ہے۔ تو حضرت کے زمانے میں اور اس کے بعد زمانہ تابعین کے بارے میں سنن بیہقی میں ہے، صحیح سند کے ساتھ کہ عمر کے زمانے میں رمضان میں بیس رکعت کے ساتھ قیام کرتے تھے۔ مالک نے مؤطا میں روایت کی ہے کہ حضرت عمر بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا تھا۔ کہ لوگوں کو گیارہ رکعتیں پڑھائیں، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی گیارہ رکعت والی روایت مؤطا میں موجود ہے۔ لیکن دوسروں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں احدی و عشرین کے لفظ روایت کیے ہیں۔ صرف مالک نے احدی و عشرۃ کا لفظ ذکر کیا ہے جو وہم ہے۔ اھ۔

یہ بات صحیح نہیں ہے کہ مالک اس کے ساتھ اکیلے ہیں۔ سعید بن منصور نے محمد بن یوسف کی روایت سے بھی احد عشرۃ ذکر کیا ہے، جیسے مالک نے کہا ہے۔ مالک نے یزید بن رومان سے ذکر کیا ہے، کہ عمر کے زمانے میں تیئس رکعتیں تھیں۔ زرقانی کہتے ہیں کہ بیہقی نے تطبیق دی ہے۔ کہ پہلے طول قیام کے ساتھ گیارہ کا حکم دیا تھا۔ پھر لوگوں کی کمزوری کی وجہ سے تخفیف کے ساتھ تیئس کا حکم دیا۔ اھ۔ لمبی بحث کے بعد شوکانی نے نیل میں بھی یہی خلاصہ نکالا ہے، اور اپنی تائید میں داؤدی کا ذکر بھی کیا ہے۔

محمد بن نصر نے بطریق داؤد بن قیس ذکر کیا ہے کہ میں نے لوگوں کو ربان اور عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی خلافت میں مدینہ میں ۳۳ رکعت پڑھتے پایا۔ اور تین وتر پڑھتے تھے۔ مالک کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ۳۹ ہیں اور مکہ میں ۲۳ ہیں۔ اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ امام ترمذی نے زیادہ سے زیادہ ۴۱ کا ذکر کیا ہے۔ شوکانی نے نیل میں اور ابن حجر نے فتح الباری میں لمبی بحثیں کی ہیں۔ جو اوپر عربی میں ذکر ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ کوئی عد د معین نہیں ہے طول قیام کے ساتھ کم رکعتیں پڑھتے۔ اور اگر قیام تھوڑا کرتے تو رکعتیں زیادہ پڑھتے۔ یہی صورت افضل و ادنیٰ ہے، امام ابن قیم کے فتاویٰ میں ہے کہ نفس قیام رمضان میں آپ نے کوئی عدد متعین نہیں فرمایا۔ صرف یہی ہے کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں تیرہ رکعت سے زیادہ نہیں ادا کرتے تھے۔ قیام لمبا کرتے تھے۔ جب حضرت عمر نے لوگوں کو ابی بن کعب پر جمع کیا تو اس نے بیس رکعتیں پڑھائیں۔ اور قیام مختصر کیا پھر سلف میں سے بعض نے چالیس اور بعض نے چھتیس پڑھیں۔ بہتر صورت یہی ہے کہ دس رکعتیں اور تین وتر ہوں، اور قیام طویل ہو۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس میں کوئی تعداد مقرر ہے، اس کی غلطی ہے۔ اھ۔ ملخصاً۔

شافعی قاری کے لیے اکیلا پڑھنے کو اختیار کرتے ہیں۔ حافظ نے بھی فتح الباری میں مالک کے ایک قول ابو یوسف اور بعض شافعیہ کے حوالے سے یہی لکھا ہے۔ چونکہ حدیث میں ہے، ((افضل صلوة المرء فی بیته الا المکتوبة)) (مسلم) طحاوی نے مبالغہ کیا اور کہا ہے، کہ نماز تراویح جماعت کے ساتھ واجب ہے۔ اھ۔ شافعی اور اس کے جمہور ساتھیوں نے اور ابو حنیفہ اور احمد نے جماعت کے ساتھ پڑھنے کو افضل کہا ہے۔ جیسا کہ عمر نے حضرات صحابہ کو جمع کیا تھا۔ بعض شافعیہ مالک اور ابو یوسف کا خیال ہے۔ امید ہے کہ اس سے سوال کے تمام اطراف پر روشنی پڑ گئی ہوگی۔ اللہ توفیق عمل سے نوازے۔ مؤلف کہتا ہے، کہ اس کی ترتیب سے ۱۳ رمضان المبارک ۱۲۹۵ھ میں فراعت ہوئی۔ مترجم کہتا ہے کہ اس کے ترجمہ و تلخیص سے ۱۳ شعبان المعظم کو فراغت میسر آئی۔ صلی اللہ علی حبیبہٖ وعلیٰ آلہٖ واصحابہ اجمعین۔

(احقر عبد الرشید بن عبد العزیز السلفی عفی عنہما مدرس جامعہ سعیدیہ خانیوال)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 289-302

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ