سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(87) کیا آٹھ رکعات تراویح بدعت ہے؟

  • 4090
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2772

سوال

(87) کیا آٹھ رکعات تراویح بدعت ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ یہاں مسجد نیلا گنبد میں ایک مقتدر عالم دین نے مسئلہ تراویح بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آٹھ رکعت تراویح بدعت اور گمراہی ہے۔ اور یہ کہ بیس رکعت تراویح پر امت کا اجماع ہو چکا ہے۔ اب ا س میں کمبی بیشی کرنا معصیت ہے۔ آج تک ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ آٹھ رکعت تراویح سنت ہے اور نبی ﷺ سے اسی قدر ثابت ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وتروںسمیت گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم اپنے عہد خلافت میں دیا۔ مولانا کے وعظ سے ہم بہت پریشان ہوئے۔ مہربانی فرما کر اس مسئلہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اقول وباللّٰہ التوفیق۔ ایک محقق عالم دین سے اس کی توق نہیں کہ انہوں نے یہ کہا ہو کہ آٹھ رکعت تراویح بدعت ہے۔ کیونکہ جو چیز رسول اکرم ﷺ سے ثابت ہوا ہے بدعت کہنا بہت بڑی جرأت ہے۔ اور فقہی مسائل میں غلو کا ایسا مقام ہے جسے کوئی بھی صاحب علم و بصرت پسند نہیں کر سکتا۔ افسوس ہے کہ آج ہم آٹھ اور بیس رکعت تراویح کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں اور قیام رمضان کا جو اصل مقصد اور اس کی روح تھی اس سے تو بے اعتنائی برت رہے ہیں اور عدد کی بحث اور ((قِیْلَ و قَالَ)) میں اس درجہ منہمک ہیں کہ بسا اوقات حد اعتدال کے ساتھ ذکر ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔

((سألت عائشة کیف کانت صلوٰة رسول اللّٰہ فی رمضان فقالت ما کان رسول اللّٰہ ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ عَلٰی احدی عشرة رکعة یصلی اربعا فلا تسئل من حسنھن وطولھن ثم یصلی اربعا فلا تسئل من حسنھن وطولھن ثم یصلی ثلاثا (صحیحین))

’’ابو سلمہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ رمضان شریف میں نبی ﷺ کی نماز کیسی ہوتی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ رمضان اور سوائے رمضان دوسرے دنوں میں بھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ آپ پہلے چار رکعت پڑھتے ان کی کیفیت کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ کتنی اچھی اور کتنی لمبی ہوتی تھیں۔ پھر اس کیفیت کے ساتھ چار رکعت اور پڑھتے پھر اس کے بعد تین رکعت وتر پڑھتے۔‘‘

 کیا ہم آٹھ رکعت تراویح پڑھنے والوں نے اس کیفیت کو قائم رکھا۔ نہیں! اچھا جس روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں بیس رکعت تراویح پڑھنے کا ذکر ہے۔ اسے بھی دیکھ لیجئے۔

((کا نوا یقومون علی عہد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنه فی شھر رمضان بعشرین رکعة قال وکانوا یقرؤن باالمسین وکانو یتوکون علی عصیھم فی عھد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ من شدة القیام)) (بیہقی، جلد دوم صفحہ ۴۹۶)

’’یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اور ان کی قرأت کی حالت یہ تھی کہ سو سو آیتوں والی سورتیں پڑھتے تھے۔ اور لمبے قیام کی وجہ سے لوگ تھک کر اپنے عصاء لاٹھی پر ٹیک لگاتے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں۔‘‘

اور امام مروزی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں۔

((عن المسائب ایضاً انھم کانوا یقومون فی رمضان بعشرین رکعة۔ ویقرؤن بالمعئین من القراٰن ومنھم کانوا یعتمدون علی العصاء فی زمان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنه)) (قیام اللیل ص ۹۱)

’’سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اور سو سو آیتوں والی سورتیں پڑھتے تھے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں لمبے قیام کی یہ حالت ہوتی تھی کہ لوگ تھک کر اپنی اپنی لاٹھیوں کا سہارا لیے تھے۔‘‘

 کیا بیس رکعت پڑھنے والے حضرات نے اس کیفیت کو قائم رکھا ہے؟ نہیں بلکہ صورت حال یہ ہے کہ آٹھ رکعت پڑھنے والے حضرات ایک گھنٹہ یا سوا گھنٹہ میں قیام اللیل ختم کر دیتے ہیں تو بیس رکعت پڑھنے والے حضرات بھی گھنٹہ سوا گھنٹہ میں بیس تراویح ختم کر دیتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بیس رکعت پڑھنے والے حضرات اڑھائی گنا زیادہ وقت صرف کرتے۔ لیکن صورت حال اس کے برعکس ہے یہی چیز میں نے شروع میں عرض کی ہے۔ کہ کیفیت نماز کو تو ہم نظر انداز کر رہے ہیں اور گنتی کو مدار بنا رکھا ہے اور اس کے لیے بحث و جدل کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ اگر معاملہ یہیں تک رہتا کہ افضل کیا ہے تو چنداں مضائقہ نہ تھا۔ افسوس ہم حد اعتدال سے آگے بڑھ گئے اور ایک دوسرے کے عمل کو بدعت یا معصیت اور گمراہی قرار دینے کے درپے ہو گئے۔ ﴿اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ﴾ جس کیفیت نماز ذوق عبادت اور خشوع و خضوع کے فقدان کا ذکر کر رہا ہوں۔ ائمہ دین کی تشریحات کو دیکھے وہ اس بارے میں عدد رکعت کو اصل قرار دتے ہیں یا طول قیام۔ اور اسی کے مناسب رکوع و سجود کو۔ امام مروزی رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ مدینہ منورہ میں لوگ انتالیس رکعت نماز تراویح پڑھتے ہیں اور مکہ میں بیس رکعت۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ:

((ولیس فی شئی من ھذا ضیق ولا حد ینتہی الیه لانه نافلة فان اطالو القیامه واقلوا السجود فحسن وھو احب الی وان اکثروا الرکوع والسجود فحسن)) (قیام اللیل ص ۹۲)

’’اس میں کسی قسم کی تنگی نہیں ہونی چاہیے۔ اور نہ کوئی حد مقرر کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ نقلی عبادت ہے اگر لمبا قیام کریں اور سجدے کم ہوں تو یہ اچھا ہے اور مجھے یہی پسند ہے۔ اور اگر رکوع دو سجود زیادہ کریں یعنی قیام مختصر کریں تو یہ بھی درست ہے۔‘‘

امام احمد سے اسحاق بن منصور نے دریافت کیا۔

((کم من رکعه یصلی فی قیام شھر رمضان۔ فقال قد قیل فیه اقوال نحواً من اربعین انما ھو تطوع)) (قیام اللیل ص ۹۲)

’’رمضان المبارک کے قیام میں کتنی رکعت پرھنی چاہیے۔ آپ نے فرمایا اس میں چالیس کے قریب اقوال ہیں اور یہ تو نفلی عبادت ہے یعنی اس میں تعداد رکعت تشدد نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

 یہ جو کچھ عرض کیا گیا ہے۔ اس افسوسناک صورت حال کی بنا پر عرض کیا گیا ہے جو حد اعتدال سے تجاوز اور غلو کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے۔ اب یہ عاجز نفس مسئلہ کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہے۔

نفس مسئلہ:

نفس مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک میں تراویح کی نماز گھر پر یا جتنے دن مسجد میں پڑھائی وہ کتنی رکعات تھیں؟

اگرچہ اس کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی اُس حدیث میں آ گیا ہے۔ جو شروع میں ذکر کی گئی ہے لیکن اس میں ذکر صرف گھر کا ہے، مسجد میں جتنے دن نماز آپ نے پڑھائی۔ اس کا ذکر بھی صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ہی سے ہے وہ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم نے ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھائی اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی دوسرے دن بھی اسی طرح نماز تراویح باجماعت آپ نے پڑھائی۔ اس دن لوگ پہلے دن سے زیادہ جمع ہو گئے پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اسی طرح لوگ نماز تراویح کے لیے جمع ہو گئے لیکن رسول اللہ ﷺ مکان سے باہر تشریف نہ لائے۔ صبح کی نماز کے لیے آپ تشریف لائے تو فرمایا تمہارے شوق کو میں نے دیکھا میں اس خوف کی وجہ سے نہیں آیا کہ مباداہ یہ نماز فرض نہ ہو جائے اس حدیث میں عدد رکعات کا ذکر نہیں علامہ عینی شارح بخاری شریف جو نہایت مقتدر اور کابر علمائے حنفیہ میں سے ہیں۔ شرح بخاری میں اس حدیث کے ذیل میں یہ سوال کرتے ہیں۔

((فان قلت لم یبین فی ھذہ الروایات المذکورة عدد ھذہ الصلوٰة التی صلاھا رسول اللہ ﷺ فی تلک اللیالی))

’’اگر یہ سوال کرو کہ ان روایت میں اس نماز کی تعدا نہیں بیان کی گئی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے رمضان کی ان راتوں میں پڑھیں تو کیا جواب ہے۔‘‘

 فرماتے ہیں۔

((قلت روی ابن خزیمة وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر)) (عمدة القاری ص ۲۱۷۷ جز ۷)

’’جواب یہ ہے کہ صحیح ابن خزیمہ اور ابن حبان میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مروی ہے کہ انہوں نے کہا ہمیں رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک میں آٹھ رکعات نماز پڑھائی۔ اس کے بعد وتر پڑھائے۔‘‘

ملاحظہ فرمائیے کہ علامہ عینی جیسا شخص جو اپنے مسلک حنفیت کی حمایت کی خاص شہرت رکھتے ہیں۔ غلو سے بچے ہوئے صاف الفاظ ہیں۔ اعتراف کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے جب مسجد میں نماز تراویح باجماعت ادا فرمائی تو آٹھ رکعات تراویح اور اس کے بعد وتر پڑھائے۔

ابن الہام کا فیصلہ:

دوسری شہادت امام ابن الہام کی پیش کرتا ہوں۔ اہل علم کو ابن الہام کا مقام معلوم ہے مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے تعلیقات فوائد بھییہ میں لکھا ہے۔

((عدہ ابن نجیع فی البحر الرائق من اھل الترجیح وعدہ بعضہم من اھل الاجتہاد وھو رأی نجیح تشھد بذالك تصانیفه))

’’یعنی بحر الرائق کے فاضل مصنف ابن نجیح نے ابن الہام کو اہل ترجیح میں شمار کیا ہے جن کا درجہ اہل تخریج کے بعد ہوتا ہے جو ایک حد تک مجتہد ہوئے ہیں اور بعض نے تو ان کو مجتہدین میں شمار کیا ہے۔ اور یہ بڑی صحیح رائے ہے اس پر ان کی تصانیف شاہد ہیں۔‘‘

 امام ابن الہمام ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں رکعات تراویح کی بحث کرتے ہوئے آخر میں خلاصہ بحث پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

((فتحصل من ھٰذا کله ان قیام رمضان سنة احدی عشرة رکعة بالوتر فی جماعة فعلهﷺ واٰله وسلم ثم ترکه لعذروا فادا نه لوا، خشیة ذٰلك لواظبت بکم ولا شك فی تحقق الا من ذالك بوفاته ﷺ فیکون سنة وکونہا عشرین سنة الخلفاء الراشدین وقوله ﷺ علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین ندب الی سنتھم ولا یستلزم کون ذیلك سة ادسنته بمواظبته بنفسه او الا بعذرد بتقدیر عدم ذالك العذر انما استغد نا انه کان یواظب علی ما وقع منه وھو ما ذکرنا فتکون العشرون مستحبا وذلك العذر منہا ھو السنة کالاربع بعد العشاء مستحبة ورکعتان منہا ھی السنة وظاهر کلامہ المشائخ ان السنة عشرون ومقتضی الدلیل ما قلنا)) (فتح القدیر جلد۱ ص ۳۳۴)

’’یعنی اس تمام بحث کا ماحصل یہ ہے کہ قیام رمضان میں سنت نبوی گیارہ رکعت سمیت وتروں کی ہے۔ نبی ﷺ نے جماعت کے ساتھ اتنی ہی رکعت پڑھی ہیں۔ کچھ دن کے بعد آپ نے جماعت کے ساتھ پڑھنا چھوڑ دیا ایک عذر کی وجہ سے اور وہ یہ کہ آپ کو خوف دامن گیر ہو گیا کہ کہیں یہ نماز فرض نہ ہو جائے اگر یہ خوف نہ ہوتا تو آپ اس سنت کو ہمیشہ جاری رکھتے۔ آپ کے فوت ہو جانے کے بعد یہ خوف جاتا رہا اب سنت یہی گیارہ رکعت وتر کے ثابت رہی۔ بیس رکعت تراویح یہ سنت خلفاء راشدین کی ہے۔

اور اس حدیث نبوی میں کہ میر ی سنت کو لازم پکڑو اور خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔ خلفاء راشدین کی سنت کی اتباع کی ترغیب دی گئی ہے۔ مگرا س ترغیب کی بنا پر بیس رکعت سنت نبوی نہیں ہو جائے گی کیونکہ آپ کی سنت وہ ہو سکتی ہے جس پر آپ نے مداومت کی ہو۔ سوائے اس کے کہ کوئی عذر پیش آ گیا ہو۔ اور اس عذر کے نہ ہونے کی صورت میں جیسا کہ ہم نے سمجھا ہے کہ آپ گیارہ رکعت پر مداوت فرماتے۔ اس تقریر کی بنا پر فرماتے ہیں کہ بیس رکعت تو مستحب ہوں گی۔ اور آٹھ رکعت (بلاوتر) سنت ہوں گی۔ اس کی مثال دیتے ہیں جیسا کہ عشاء کی نماز کے بعد چار کعت اگر کوئی پرھے تو اس کی دو رکعت سنت ہوں ہیں۔ مگر دلیل کا تقاضا وہی ہے جو ہم نے کہا ہے یعنی آٹھ رکعت تو سنت نبوی ہیں۔ باقی بارہ رکعت مستحب ہیں۔‘‘

بحر الرائق:

امام ابن الہام کی عبارت جو تشریح اردو میں ہم نے کی ہے صاحب بحر الرائق نے وہی بیان کی ہے فرماتے ہیں۔

((ذکر المحقق فی فتح القدیر ما حاصله ان الدلیل یقتضی ان تکون السنة من العشرین ما فعله ﷺ منھا ثم ترکه خشیة ان تکتب علینا و الباقی مستحب وقد ثبت ان ذالك کان احدی عشرة رکعة بالوتر کما ثبت فی الصحیحین من حدیث عائشة رضی اللہ عنه فاذن یکون اسنون منھا علی اصول مشائخنا ثمانیة والمستحب اثنا عشرة)) (البحر الرائق ص ۷۲ ج۲ طبع مصر)

’’یعنی فتح القدیر میں محقق ابن الہام نے جو لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا تو یہی ہے کہ بیس رکعت تراویح میں سے سنت اسی قدر ہوں گی جس قدر رسول اللہ ﷺ نے خود پڑھی ہیں پھر فرضیت کے خوف سے ان کا پڑھنا جماعت کے ساتھ چھوڑ دیا باقی رکعت مستحب ہوں گی اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آپ نے نماز تراویح گیارہ رکعت مع وتر پڑھی ہیں۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیحین سے معلوم ہوتا ہے پس اس تحقیق کے بعد یہی کہنا پڑے گا کہ ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق آٹھ رکعت تراویح تو سنت نبوی ہیں اور بارہ رکعت مستحب ہیں۔ یہ ہیں محققین علماء حنفیہ کی تصریحات آج کے علماء حنفیہ کو چاہیے کہ اپنے اسلاف کی منفقانہ روش کو دیکھیں اور اپنے غلو پر نظر ثانی کریں افسوس انہوں نے سیدھی سادھی بات کو کس قدر پیچ دار بنا دیا ہے۔‘‘

ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت:

محققین علماء کیا حنفی کیا اہل حدیث سب ہی اس پر متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں گھر یا مسجد میں جتنے دن جماعت کے ساتھ آپ نے نماز تراویح پڑھی اور پڑھائی وہ وتروں کے ساتھ گیارہ رکعت ہے۔ لیکن بعض حضرات اس بارہ میں حضرت ابن عباس کی ایک روایت کی بنا پر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے الفاظ یہ ہیں۔

((عن ابن عباس ان النبی ﷺ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة سوی الوتر)) (مصنف ابن ابی شیبه بحواله تخریج الاحادیث زیلعی)

اس روایت کے متعلق بھی اکابر علماء حنفیہ کی تصریحات پیش کروں گا اور آپ دیکھیں گے کہ انہوں نے اس روایت کے متعلق کس قدر محققانہ اور منفقانہ فیصلہ کیا ہے۔

امام زیلعی:

اس روایت کے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔

((وھو معلول بابی شیبة ابراھیم ابن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة وھو متفق علی ضعفه ولینه ابن عدی فی الکامل ثم انه مخالف الحدیث الصحیح عن ابی سلمة انه سأل عائشة کیف کانت صلاة رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة)) (تخریج احادیث الہدایہ للزیلعی ص ۱۰۳ جلد دوم)

کہ یہ روایت معلول ہے اس کا راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان جو مشہور محدث ابو بکر بن ابی شیبہ کا دادا ہے اس قدر ضعیف راوی ہے کہ تمام محدثین اس کے ضعف پر متفق ہیں اور ابن عدی نے کامل میں اسے کمزور قرار دیا ہے اس کے علاوہ یہ روایت اس صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ جسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ان سے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ رمضان مبارک میں نبی ﷺ کی نماز کیسے ہوتی تھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت ہی پڑھا کرتے تھے امام زیلعی نے دو باتیں صاف صاف کہہ دی ہیں بیس رکعت والی روایت ضعیف ہے اور اس درجہ ضعیف ہے کہ تمام محدثین اس کے راوی کے ضعیف ہونے پر متفق ہیں۔ اس لیے اس روایت کے ضعیف ہونے اور ناقابل حجت ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔ صحیح اور پکی بات یہ ہے کہ نبی ﷺ نے آٹھ تراویح اور تین وتر کل گیارہ رکعت رمضان ہی اور رمضان کے سوا دوسرے دنوں میں بھی یہی پڑھی ہیں۔ کیونکہ یہ روایت صحیحین میں موجود ہے۔ اس میں مزید تشریح کے لیے یہ عرض کر دینا بے جا نہ ہو گا کہ ہمارے زمانہ کے قریب قریب کے بعض علماء نے جو یہ کہا ہے کہ پہلے آپ ﷺ آٹھ رکعت تراویح پڑھتے تھے پھر آپ نے بیس رکعت پڑھنی شروع کر دی تھیں غلط ہے اگر یہ بات ہوتی تو امام زیلعی جیسا مشہور محدث فقیہہ اور عابد و زاہد شخص ضرور کہہ دیتا کہ ہاں آپ ﷺ شروع میں تو آٹھ رکعت پڑھتے تھے۔ لیکن بعد میں بیس رکعت تراویح پڑھتے رہے لیکن نہیں انہوں نے بھی صاف واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ بھائی اول تو یہ حدیث ضعیف ہے اور دوم یہ کہ صحیحین کی حدیث کے خلاف ہے علامہ عینی شرح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اسی بیس رکعت والی روایت کے متعلق فرماتے ہیں۔

((فان قلت روی ابن شیبة من حدیث ابن عباس قلت ھٰذا الحدیث رواہ ایضاً ابو القاسم البغوی فی معجم الصحابة عن ابن عباس الحدیث وابو شیبة ھو ابراهیم ابن عثمان العبسی الکوفی قاضی واسط جد ابی بکر بن شیبة کذبة شعبة وضعفه احمد و ابن معین والبخاری والنسائی وغیرھم وارد له ابن عدی ھذا الحدیث فی الکامل فی مناکیرہ)) (عمدة القاری ج۲ ص ۳۵۸، ۳۵۹)

اگر یہ اعتراض کرو کہ ابن عباس سے بیس رکعت تراویح والی حدیث ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے۔ تو اس کا یہ جواب دوں گا کہ اس حدیث کو ابو القاسم بغوی نے بھی اپنی کتاب معجم الصحابہ میں روایت کیا ہے۔ لیکن اس کے ایک راوی ابو شیبہ کا حال یہ ہے کہ یہ مقام واسط کا قاضی تھا اور مشہور محدث ابو کبر بن شیبہ کا دادا ہے لیکن شعبہ نے اس کو جھوٹا قرار دیا ہے امام احمد ابن معین، امام بخاری اور امام نسائی وغیرہ محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن عدی نے اپنی کتاب کامل میں اس حدیث میں بیس رکعت والی کو ابو شیبہ کی منکر حدیثوں میں درج کیا ہے علامہ عینی جو اکابر علماء حنفیہ میں سے ہے وہ حضرت ابن عباس کی روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ اگر مزید اکابر علماء حنفیہ کی شہادت کی ضرورت ہے تو امام ابن الہام کی سن لیجئے۔ وہ فرماتے ہیں۔

((وامّا ما روی ابن ابی شیبة فی مصنفه والطبرانی وعند البیہقی من حدیث ابن عباس انه ﷺ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة سوی الوتر فضعیف بأبی شیبة متفق علی ضعفه مع مخالفة الصحیح نعم ثبت العشرون من زمن عمر)) (فتح القدیر ص ۳۳۳ جلد اول)

’’کہ مصنف ابن ابی شیبہ۔ طبرانی اور بیہقی میں حضرت ابن عباس سے جو مروی ہے کہ نبی ﷺ رمضان میں وتروں کے علاوہ بیس رکعت پڑھا کرتے تھے یہ روایت ضعیف ہے۔ اس کے ایک راوی ابی شیبہ ہیں جس کے ضعف پر ائمہ کا اتفاق ہے علاوہ اس ضعف کے یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس رکعت کا ثبوت ملتا ہے۔‘‘

اگرچہ ان اکابر کا یہ فیصلہ کہ ابن عباس کی روایت ضعیف ہے بلکہ بالاتفاق ضعیف ہے۔ کافی ہے لیکن اس حقیقت کے بے نقاب کرنے کے لیے آج کے علماء جس گروہی تعصب میں مبتلا ہیں بحمد اللہ اس سے ہمارے زمانہ کے قریب کے علماء حنفیہ بھی اس تعصب سے مبرا تھے۔ مولانا احمد علی سہارن پوری محشی صحیح بخاری کی سن لیجئے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث ((ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ)) ’’آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘ کہ حاشیہ پر فرماتے ہیں۔

((وما رواہ ابن ابی شیبة والطبرانی والبیہقی من حدیث ابن عباس انه علیه السلام کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة سویا لوتر فضعیف مع مخالفة للصحیح نعم ثبت العشرون من زمن عمر رضی اللہ عنہ فتحصل من ھذا کله ان قیام رمضان سنته احدی عشرة رکعة باولتر فی جماعتة فعله علیه السلام وترکه لعذروا فادا نه لو لا خشیة ذالك لواظبت بکم ولا شك فی تحقق الامر من ذالك بوفاته ﷺ فیکون سنته وکونہا عشرین سنة الخلفاء الراشدین)) (صحیح بخاری ص ۱۵۴ جلد ۱)

’’یعنی حضرت ابن عباس کی حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ آپ رمضان میں بیس رکعت پڑھتے تھے ضعیف ہے علاوہ ازیں یہ اس صحیح حدیث کی روایت عائشہ رضی اللہ عنہ کے خلاف ہے ہاں بیس رکعت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پڑھی جاتی رہیں اس ساری بحث سے یہ حاصل ہوا کہ قیام رمضان میں سنت یہ ہے کہ گیارہ رکعت جامعت کے ساتھ پڑھی جائیں جیسا کہ نبی ﷺ نے کیا آپ اس نماز کا جماعت کے ساتھ چھوڑنا۔ عذر کی وجہ سے تھا آپ کی وفات کے بعد وہ عذر جاتا رہا اب یہ سنت بحال ہو جائے گی اور بیس رکعت پڑھنا سنت خلفاء الراشدین ہو گی۔‘‘

جیسا کہ ابن الہام نے کہا ہے امام ابن الہام کی پوری عبارت اس بارے میں پہلے ذکر کر چکا ہوں مولانا احمد علی صاحب سہارن پوری رحمۃ اللہ علیہ صحیح بخاری کے حاشیہ میں آگے چل کر اسی حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت پر فرماتے ہیں۔

((اعلم انة لم یواقت رسول اللہ ﷺ فی التراویح عدد امعینا بل لا یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی ثلاث عشرة رکعة لکن کان یطیل الرکعات فلام جمعھم عمر علی ابی کان یصلی بھم عشرین رکعة ثم یوتر بثلاث وکان طائفة من السلف یقومون باربعین رکعة ویوترون بثلاث واٰخرون بست وثلاثین واوتروا بثلاث وھذا کله حسن واماما روی ابن شیبة وغیرہ انه ﷺ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة سوی الوتر فضعیف)) (ص ۲۶۹)

’’یعنی نبی ﷺ نے نماز تراویح کے لیے کوئی تعداد خاص متعین نہیں کی۔ البتہ یہ ثابت ہے کہ رمضان اور غیر رمضان میں تیرہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رحمہ اللہ کی امامت پر جب لوگوں کو جمع کیا تو وہ بیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔ اور علمائے سلف میں سے بعض چالیس رکعت تراویح اور تین وتر اور بعض چھتیس رکعت تراویح اور تین وتر پڑھتے تھے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ سب درست ہیں۔ اور ابن ابی شیبہ کہ جو روایت ہے کہ نبی ﷺ رمضان میں وتروں کے علاوہ بیس رکعت پڑھایا کرتے تھے یہ ضعیف ہے۔‘‘

خلاصہ بحث:

پورے التزام کے ساتھ صرف اکابر علمائے حنفیہ کی عبارات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ (۱) نبی ﷺ کی سنت تراویح کے متعلق یہی ہے کہ آپ وتروں سمیت گیارہ رکعت پڑھتے رہے۔ (۲) جتنے دن آپ ﷺ نے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز تراویح پڑھی اور پڑھائی وہ یہی گیارہ رکعت تھی۔ (۳) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت جس میں ذکر ہے کہ آپ ﷺ رمضان میں بیس رکعت پڑھایا کرتے تھے بالاتفاق ضعیف ہے۔ (۴) علاوہ ازیں روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں ذکر ہے کہ آپ ﷺ رمضان او رغیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ (۵) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور آپ کے بعد بیس بھی پڑھی گئیں۔ چھتیس بھی اور چالیس بھی پڑھی گئیں اور یہ سب درست ہے۔ اب بتائیے کہ اکابر علمائے حنفیہ کی ان تصریحات کے بعد آپ کی تنگ نظری اور تعصب کے لیے کیا مقام ہے۔ کیا کوئی انصاف پسند اب یہ کہہ سکتا ہے کہ آٹھ تراویح بدعت ہے یا گمراہی ہے اور موجب عذاب ہے «اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْهُ» ’’اللہ تعالیٰ ہم سب کی حالت پر رحم فرما دے۔‘‘اور اقتصادہ و میانہ روی کی ہدایت عطا فرما دے میں اعلان کرتا ہوں کہ امام ابن ہمام اور دوسرے اکابر علمائے حنفیہ نے جو پوزیشن لی ہے کہ آٹھ رکعت تراویح سنت رسول اللہ ﷺ کی ہے اور باقی گیارہ رکعت مستحب ہیں۔ اگر آج کے حنفی بھائی اس پوزیشن کو قبول کر لیں اور غالی حضرت کے غلو کو چھوڑ دیں تو آج تمام جھگڑوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اور ہم آپس میں صلح و آشتی کے ساتھ رہ سکتے ہیں بیس رکعت پڑھنے والے سمجھ لیں کہ ہمارے اہل حدیث بھائی سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کرتے ہیں۔ آٹھ رکعت تراویح ہم سے نسبتاً لمبے قیام و رکوع و سجود کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ اور آٹھ رکعت پڑھنے والے یہ سمجھ لیں کہ ہمارے حنفی بھائی آٹھ رکعت سنت اور بارہ رکعت بطور مستحب کے پڑھتے ہیں۔ اگر بیس رکعت کی وجہ سے ان کا قیام و رکوع و سجود ہم سے نسبتاً مختصر ہے تو مضائقہ نہیں۔ بشرطیکہ رکوع و سجود اور قومہ وغیرہ میں اعتدال ارکان محفوظ رہے۔ کیا امید کی جا سکتی ہے کہ امام ابن اھمام اور دوسرے اکابر علمائے حنفیہ کی تصریحات کے مطابق ہمارے حنفی بھائی اس اعلان کا خیر مقدم کریں گے۔

اجماع کی حقیقت:

اب سوال کے اس پہلو پر غور کیا جائے کہ کیا بیس رکعت تراویح پر اجماع ہو چکا ہے؟ اور اجماع کی خلاف ورزی گمراہی اور ضلالت ہے؟ اس مسئلہ پر غور کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کہ اجماع کی حقیقت معلوم کی جائے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ مسئلہ اجماع میں بہت سے مسائل ہیں۔ اور بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور اس کا دامن بہت وسیع ہے۔ لیکن یہاں مختصراً صرف اس پر غور کر لیا جائے۔ اجماع کے لیے کیا یہ ضروری نہیں کہ تمام مجتہدین کا اجماع ہو؟ اور اگر تمام مجتہدین کا اتفاق نہیں بلکہ مسئلہ مختلف فیہ ہے تو یہ اجماع نہیں ہوگا؟ انشاء اللہ اس کا جواب کتب اصول فقہ حنفیہ سے ہی دیا جائے گا۔ اصول فقہ کی مشہور کتاب توضیح جس کے مصنف صدرا لشریعت عبید اللہ بن مسعود بخاری جو آٹھویں صدی کے اکابر علمائے حنفیہ میں سے ہیں فرماتے ہیں۔

((فان قوما قالوا اجماع اھل المدینة حجة وقوما قالوا اجماع العترة حجة ونحن لا نکتفی بھٰذا بل نقول لا بد من اتفاق جمعی المجتھدین)) (توضیح ص۵۱ ج۲ طبع مصر)

’’یعنی بعض لوگوں کی رائے ہے کہ صرف اہل مدینہ کا اجماع حجت ہے۔ اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صرف اہل بیت کا اجماع حجت ہے۔ مگر ہم اس پر کفایت نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں کہ تمام مجتہدین کا اجماع ضروری ہے۔‘‘

اب آپ کتاب التحریر لابن اھمام معہ شرح تیسیر التحریر کی عبارت ملاحظہ فرمائیے۔

((والمختار انه لیس اجماع الاکثر اجماعاً اصلاً فلا یکون حجة ظنیة ولا قطعیة لانه لیس بکتاب ولا سنة ولا اجماع ولا قیاس ولا من ادلة المعتبرة عند الامة)) (ص ۲۳۷ ج۳)

’’یعنی ہمارے نزدیک پسندیدہ قول یہی ہے کہ اکثر مجتہدین کا اتفاق اجماع نہیں ہے ایسا اجماع نہ تو حضرت ظنی ہے اور نہ یقینی اس لیے کہ یہ نہ تو کتاب و سنت ہے اور نہ اجماع و قیاس ہے۔ اور نہ امت کے نزدیک جو معتبر دلائل ہیں ان میں سے یہ کوئی دلیل ہے۔‘‘

معلوم ہوا کہ علمائے حنفیہ کے نزدیک اجماع وہی معتبر اور حجت ہو سکتا ہے جس پر تمام مجتہدین کا اتفاق ہو۔ اور زیر بحث مسئلہ میں سب کو معلوم ہے کہ بیس رکعت تراویح پر اتفاق نہیں ہے۔ شروع میں امام احمد کا قول بحوالہ قیام اللیل مروزی دیکھ چکے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں چالیس کے قریب اقوال ہیںا ور یہ نفلی عبادت ہے۔ غرض اس میں تشدد نہیں کیا جا سکتا۔ امام شافعی کا قول بھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ مکہ میں بیس اور مدینہ میں انتالیس رکعت پڑھتے تھے۔ مگر اس میں کسی قسم کا تشدد نہیں ہونا چاہیے اگر لمبا قیام ہو اور رکوع و سجود کم ہوں تو یہ میرے نزدیک پسندیدہ ہے اور اگر رکوع و سجود زیادہ ہوں اور قیام مختصر ہو تو یہ بھی ٹھیک ہے۔ یہ اس لیے کہ یہ نفلی عبادت ہے، اور امام مالک نے خود اپنے لیے گیارہ رکعت پسند کر رکھی تھیں جیسا کہ علامہ عینی نے شرح بخاری میں اس مسئلہ کے متعلق متعدد اقوال آئمہ کے ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔

((وقیل احدی عشرة رکعة وھو اختیار مالك لنفسه واختارہ ابو بکر العربی عمدة القاری)) (ص۱۲۷ ج۱۱)

’’یعنی ایک قول یہ ہے کہ گیارہ رکعت پڑھی جائیں۔ اور یہی امام مالک نے اپنے لیے پسند کیا ہے۔ اور مشہور مالک محدث امام ابو بکر العربی نے بھی اسی کو پسند کیا ہے۔‘‘

علامہ عینی کے بیان کے مطابق امام مالک کا اپنا ذاتی عمل تو وہی تھا جو حضرت عائشہ کی حدیث میں ہے یعنی گیارہ رکعت۔ لیکن دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عامۃ الناس کے لیے امام مالک فرماتے ہیں۔

((استحب ان یقوم الناس فی رمضان بثمان وثلاثین رکعة ثم یسلم الامام والناس ثم یوتر بھم بواحدة وھٰذا العمل بالمدینة قبل الحرة منذ بضع ومائة سنة الی الیوم)) (قیام اللیل ص ۹۲)

’’کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ عام لوگ رمضان میں ۳۸ رکعت پڑھیں پھر امام سلام کہے اور امام کے ساتھ مقتدی بھی پھر ایک رکعت وتر امام پڑھائے اور یہ عمل مدینہ منورہ میں واقعہ حرہ سے پہلے یعنی ایک سوسے زائد برس سے آج تک جاری ہے۔‘‘

حضرت نافع فرماتے ہیں۔

((لم ادرك الناس الا وھم یصلون تسعا وثلاثین رکعۃ ویوترون منہا بثلاث)) (مروزی ص ۹۲)

’’میں نے ہمیشہ سے لوگوں کو اس طرح تراویح پڑھتے دیکھا کہ وتروں سمیت انتالیس رکعت پڑھا کرتے تھے۔‘‘

مدد نہ کبریٰ میں حضرت نافع کے اس قول کے ذکر کرنے کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیز کے متعلق یہ روایت مذکور ہے۔

((عن عبد اللہ بن عمر بن حفص قال اخبر فی غیر واحد ان عمر بن عبد العزیز امر القرّاء ان یقوموا بذالك و یقرؤا فی کل رکعت عشراٰیَات)) (مددنة کبریٰ جلد اول ص ۱۹۴)

’’عبد اللہ بن عمر بن حفص کہتے ہیں۔ کہ مجھے بہت سے لوگوں نے یہ بتایا کہ حضرت عمر بن عبدا لعزیز نے قاری صاحبان کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ انتالیس رکعت پڑھائیں اور ہر رکعت میں دس آیات پڑھا کریں۔‘‘

حضرت عمر بن عبد العزیز کا شمار خلفاء الراشدین میں ہوتا ہے۔ ان کے متعلق ایک روایت امام مروزی کی یہ ہے۔

((ان عمر بن عبد العزیز کانت تقوم العامة بحضرنه فی رمضان بخمس عشرة تسلیمة)) (قیام اللیل مروزی ص۹۱)

’’یعنی حضرت عمر بن عبدا لعزیز کی موجودگی میں عام لوگ رمضان مبار میں تیس رکعات پڑھا کرتے تھے، اور دو رکعت پر سلام کہہ دیتے تھے۔‘‘

ان روایات و اقوال کے ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ دکھانا ہے۔ کہ یہ جو فرمایا جاتا ہے کہ بیس رکعت پر اجماع ہو چکا ہے اور یہی عمل متوارث ہے اور تمام ائمہ دین کا اس پر اجماع ہے یہ علم اور دلیل کی روشنی میں تو صحیح نہیں ہے۔ جب امام مالک حضرت عمر بن عبد العزیز حضرت نافع جیسے ائمہ دین نے اس سے اتفاق نہیں کیا تو اجماع کیسے؟ اور کہاں کا اجماع ہوا جب اجماع ہی نہیں تو بیس رکعت نہ پڑھنے والوں کو گمراہ کہنا کیونکہ قرین دانش و عقل ہو سکتا ہے یہ آپ اصول فقہ حنفیہ کی تصریحات سے معلوم کر چکے ہیں کہ اجماع وہی حجت ہو سکتا ہے جس میں تمام مجتہدین متفق ہوں۔ اور حنفیہ کے نزدیک اکثر مجتہدین کا اتفاق بھی اجماع نہیںَ پھر کس طرح بیس رکعت کے لیے اجماع کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

خلفاء راشدین کا عمل:

بیس رکعت تراویح کو سنت خلفائے راشدین بتایا جاتا ہے اس بارہ میں ایک تو وہ نظریہ ہے جو امام ابن الھمام نے پیش کیا ہے کہ سنت نبوی تو آٹھ رکعت ہے اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھی گئی ہے اس لیے بیس میں سے آٹھ تو سنت ہیں اور باقی بارہ مستحب ہیں اس سے ہم تعرض نہیں کرنا چاہیے اور ایک یہ نظریہ ہے کہ حضرت عمر نے بیس رکعت پڑھانے کا حکم دیا۔ اور اس پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ اور ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی لوگ بیس رکعت تراویح پڑھتے رہے۔ اور ان کے بعد امت کا یہی تعامل رہا ہے اس کو ہم صحیح نہیں سمجھتے اس بارہ میں سب سے واضح دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ اما بیہقی کی ہے جسے علامہ عینی نے اور دوسرے اکابر علمائے حنفیہ نے ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے سائب بن زید کہتے ہیں۔

((کانوا یقومون علی عہد عمر رضی اللہ عنه بعشرین رکعة وعلی عہد عثمان و علی رضی اللہ عنہما مثله))

’’یعنی لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعت پڑھتے تھے اور اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعت پڑھتے تھے۔‘‘

اس کے متعلق اولاً یہ عرض ہے کہ بیہقی کی کتاب سنن کبریٰ جس کے حوالہ سے یہ روایت نقل کی جاتی ہے۔ اس میں موجود نہیں ہے۔ خود علمائے حنفیہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس روایت میں یہ ٹکڑا ((علی عہد عثمان وعلی مثلہ)) ’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی اسی طرح بیس رکعت پڑھتے تھے۔بعد میں کسی نے درج کر دیا ہے اصل کتاب میں نہیں ہے۔ فاضل نیموی (یوپی ہند) جس نے فقہ حنفی کے لیے احادیث و آثار کے جمع و تحقیق میں نمایاں خدمت سرانجام دی ہے انہوں نے تعلیق آثار السنن میں لکھا ہے۔

((لا یخفی علیك ان صارواہ السائب من حدیث عشرین رکعة قد ذکرہ بعض اھل العلم بلفظ انھم کانوا یقومون علی عہد عمر بعشرین رکعة وعلی عہد عثمان و علی مثله وعزاہ الی البیهقی فقوله علی عہد عثمان و علی مثله قول مدرج لا یوجد فی تصانیف البیہقی)) (بحواله تحفة الاحوذی ص۷۳ ج۲)

’’یعنی سائب بن یزید کی روایت میں یہ ٹکڑا کہ حضرت عثمان اور حضرت علی کے زمانہ میں بھی لوگ بیس رکعت پڑھا کرتے تھے بعد میں کسی نے درج کر دیا ہے امام بیہقی کی کتابوں میں اس کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔‘‘

صاحب ہدایہ نے بھی لکھا ہے۔

((لانه واظب علیه الخلفاء الراشدون رضی اللہ تعالیٰ عنھم))

’’بیس رکعت تراویح اس لیے سنت ہے کہ خلفاء راشدین نے ہمیشہ اسی طرح تراویح پڑھیں۔‘‘

حافظ ابن حجر درایہ فی تخریج احادیث ہدایہ میں اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں۔

((لم اجدہ))

’’مجھے اس روایت کا کہیں اتا پتا نہیں ملا۔‘‘

 اور امام زیلعی جنہوں نے احادیث ہدایہ کی تخریج کا ذمہ لیا ہے وہ بھی اس روایت کے بارے میں خاموشی سے گذر گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس بھی اس روایت کا کوئی صحیح ماخذ نہیں ہے۔

اس کے علاوہ اگر خلفائے راشدین کا تعامل یہی ہوتا تو حضرت عمر بن عبد العزیز حضرت نافع، امام مالک اور دوسرے بزرگان سلف بیس رکعت تراویح کا عمل کیوں ترک کر دیتے۔ امام مالک خود گیارہ رکعت مع وتر پڑھتے تھے۔ عام لوگوں کو ۳۴+۳ پڑھنے کے لیے کہتے۔ اسی طرح حضرت عمر بن عبد العزیز۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ واقعہ حرہ (جو ۶۳ھ میں واقع ہوا) سے پہلے مدینہ میں آج تک یعنی ایک سو برس سے زائد عرصہ سے لوگ ۳۹ رکعت مع وتر پڑھتے ہوئے ہیں حضرت نافع فرماتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ لوگوں کو ۳۹ رکعت تراویح پڑھتے دیکھا ہے۔

اور اس بارہ علامہ عینی نے متعدد اور مختلف اقوال ائمہ دین کے عمدۃ القاری میں ذکر کیے ہیں۔ اس لیے یہ دعویٰ کرنا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت سے امت کا تسلسل سے بیس رکعت پڑھنے کا تعامل رہا ہے دلائل کی روشنی میں صحیح نہیں ہے اس لیے یہ فرماناکہ بیس رکعت پر اجماع ہو چکا ہے اور اس کا خلاف موجب ضلالت ہے۔ علم و بصیرت کی بات نہیں۔ رہا یہ مسئلہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھی جاتی تھیں یا آٹھ؟بڑی تفصیل کا محتاج ہے۔ اسے کسی دوسری صبحت کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

(العبد المذنب الراجی رحمۃ ربہ الودود، محمد داؤد الغزنوی)(اخبار الاعتصام جلد نمبر ۹ ش نمبر ۳۸، ۲۸ رمضان المبارک ۱۳۷۷ ھ مطابق ۱۸ اپریل ۱۹۵۸ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 251-271

محدث فتویٰ

تبصرے