سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(86) صلوٰۃ اللیل کا افضل وقت کون ہے؟

  • 4089
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1287

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صلوٰۃ اللیل کا افضل وقت کون ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صلوٰۃ اللیل کا افضل وقت آخر شب ہے، آخر شب کی بہت فضیلت آئی ہے، مشکوٰۃ شریف صفحہ ۱۰۱ میں ہے

((عن ابی هریرة قال قال رسول اللّٰہ ﷺ ینزل ربنا تبارك وتعالیٰ کل لیلة الی السماء الدنیا حین یبقی ثلث اللیل الاٰخر یقول من یدعنی فاستجیب له من یسالنی فاعطیه من یستغفر فی فاغفرله متفق علیه))

’’صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہمارا پروردگار تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف جبکہ رات کی آخری تہائی باقی رہ جاتی ہے، نزول فرماتا ہے، کہتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے کہ میں اس کی سنوں۔ کون ہے جو مجھ سے کچھ مانگے، کہ میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے گناہوں کی بخشش چاہے کہ میں اس کے گناہ بخش دوں۔‘‘

اور بھی اُس صفحہ میں ہے۔

((عن عبد اللہ بن عمرو قال قال رسول اللّٰہ ﷺ احب الصلوة الی اللّٰہ صلوة داود واجب الصیام الی اللّٰہ صیام داود کان ینام نصف اللیل ویقوم ثلثه وینام سلسة ویصوم یوماً ویفطر یوماً متفق علیه))

’’صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں ہے، کہ عبد اللہ بن عمرو نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نمازوں میں سب سے زیادہ پیاری نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے، اور روزوں میں سب سے زیادہ پیارا روزہ اللہ کے نزدیک دائود علیہ السلام کا روزہ ہے، داؤد علیہ السلام آدھی رات سو رہتے تھے۔ اور تہائی رات نماز پڑھتے۔ پھر چھٹا حصہ رات کا سو رہتے، اور ایک دن روزہ رکھتے، اور ایک دن افطار کرتے۔‘‘

اور بھی اسی صفحہ میں ہے۔

((عن عائشة رضی اللہ عنه قالت کان قضٰی رسول اللّٰہ ﷺ ینام اول اللیل ویحیٰی اٰخرہ متفق علیه))

’’صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اول شب میں سو رہتے، اور آخر شب میں نماز پڑھتے۔‘‘

اور بھی اسی صفحہ میں ہے۔

((عن عمرو بن عبسة قال قال رسول اللّٰہ ﷺ اقرب ما یکون الرب من العبد فی خوف اللیل الاٰخر فان استطعت ان تکعن ممن یذکر اللّٰہ فی تلك الساعة فکن رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث صحیح غریب اسناداً))

’’سنن ترمذی میں ہے، اور ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے کہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کہ پروردگار سب وقتوں سے زیادہ آخر شب میں بندوں سے نزدیک وہتا ہے، تو اگر تجھ سے ہو سکے کہ جو لوگ اس وقت اللہ کو یاد کیا کرتے ہیں، ان میں سے ہو جائے تو ہو ہی جا۔‘‘

اور بھی اُسی صفحہ میں ہے۔

((عن ابی امامة قال قیل یا رسول اللّٰہ ای الدعاء اسمع قال جوف اللیل الاٰخر ودبر الصلوٰة المکتوبات رواہ الترمذی))

’’سنن ترمذی میں ہے کہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کس وقت کی دعا سب سے زیادہ سنی جاتی ہے، فرمایا آخر شب کی، اور فرض نمازوں کے بعد کی۔‘‘

اور صفحہ ۱۰۳ میں ہے۔

((عن جابر قال قال رسول اللّٰہ ﷺ من خاف ان لا یقوم من اٰخر اللیل فلیوتر اوله ومن طمع ان یقوم من اٰخر فلیوتر اٰخر اللیل فان صلوة اٰخر اللیل مشہودة وذلك افضل رواہ مسلم))

’’صحیح مسلم میں ہے کہ جابر نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کو ڈر ہو کہ آخر رات میں نہیں اٹھے گا، تو وہ اول ہی رات میں وتر پڑھ لے، اور جس کو امید ہو کہ آکر شب میں اٹھے گا۔ تو وہ وتر آخر شب میں پڑھے کیونکہ آخر شب میں رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور آخر شب کی نماز افضل ہے۔‘‘

اور صفحہ ۱۰۷ میں ہے۔

((عن عبد الرحمٰن بن عبد القاری قال خرجت مع عمر بن الخطاب لیلة الی المسجد فاذا الناس اوزاع متفرقون یصلی الرجل لنفسه ویصلی الرجل فیصلی الرھط فقال عمرانی لو جمعت ھؤلاء علی قاریٔ واحد لکان امثل ثم عزم فجمعھم علی ابی ابن کعب قال ثم خرجت معه فی لیلة اٰخرٰ والناس یصلون بصلوة قارئھم قال عمر نعمت البدعة ھذہ والتی تنامون عنہا افضل من التی تقومون یرید اٰخر اللیل وکان الناس یقومون اوله راوہ البخاری))

’’صحیح بخاری میں ہے کہ عبد الرحمن بن عبد نے کہا کہ میں ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کو نکلا تھا۔ تو دیکھتا کیا ہوں کہ مسجد میں کچھ لوگ متفرق طور پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ کوئی اکیلا ہی پڑھ رہا ہے، اور کسی کے ساتھ چند آدمی شامل ہو کر پڑھ رہے ہیں، تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اگر میں ان لوگوں کے لیے ایک امام مقرر کر دیتا کہ یہ لوگ اُسی کے پیچھے پڑھا کرتے تو بلاشبہ یہ بہتر ہوتا، پھر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام مقرر کر ہی دیا۔ عبد الرحمن نے کہا کہ پھر میں اور راتگ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلا، اور لوگ اپنے امام کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھ رہے تھے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ کیا اچھی بدعت ہے، اور جس وقت سے یہ لوگ غافل ہو کر رہتے ہیں، یعنی آخر رات وہ اس وقت یعنی اول رات ہے جس میں یہ لوگ نماز پڑھتے ہیں، افضل ہے۔‘‘

 اور فتح القدیر جلد ۱ صفحہ ۲۰۶ میں ہے۔

((انھا صلوة اللیل والافضل فیہا اٰخرہ))

’’نماز تراویح بھی صلوٰہ اللیل ہی ہے، اور اس میں افضل آخر شب ہے، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب‘‘

(کتبۂ محمد عبد اللہ الغازیفوری)

مختصرحالات اُستاد حافظ عبد اللہ غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ

جن کی ذات پر علم کو فخر اور عمل کو ناز تھا۔ تدریس جن کے دم سے زندہ تھی اساتذہ جن پر اس قدر نازاں کہ حضرت شیخ الکل جناب میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے۔ میرے درس میں دو عبد اللہ آئے۔ ایک عبد اللہ غزنوی رحمۃ اللہ۔ دوسرا عبد اللہ غازی پوری۔ آپ کے مشاہیر تلامذہ مندرجہ ذیل ہیں۔

(۱) مولانا محمد سعید بنارسی رحمہ اللہ (۲) مولانا عبد النور حاجی پوری مظفر پوری رحمہ اللہ (۳) حضرت شاہ عین الحق رحمہ اللہ (۴) مولانا عبد السلام مباری پوری رحمہ اللہ (۵) عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ (۶) مولانا محمد یونس پرتاب گڑھی دہلوی رحمہ اللہ (۷) مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ سابق امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث مغربی پاکستان۔ لکھنؤ ۱۳۳۷ھ مطابق ۱۹۱۸ء میں وفات پائی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 251

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ