سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(84) قیام لیلۃ القدر کا لفظ جو احادیث شریفہ میں وارد ہوا ہے، اُس سے کیا مراد ہے؟

  • 4087
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 973

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قیام لیلۃ القدر کا لفظ جو احادیث شریفہ میں وارد ہوا ہے، اُس سے کیا مراد ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قیام لیلۃ القدر کے لغوی معنی ہیں۔ شب قدر میں اٹھنا۔ اور شرعی معنی ہیں، شب قدر کی نماز۔ یعنی قیام لیلۃ القدر سے وہ نماز مراد ہے، جو شب قدر میں عشاء کے بعد پڑھی جائے، قیام کے معنی ایسے محل میں نماز کے آیا کرتے ہیں۔ جیسے قیام اللیل اور قیام رمضان وغیرہ، قیام کا اطلاق نماز پر اس قسم کے مقامات پر بہت آیا ہے، سورہ مزمل میں قیام کا لفظ کئی جگہ آیا ہے، اُس سے ان سب جگہوں میں نماز ہی مراد ہے، (جواب نمبر ۵ بھی ملاحظہ ہو) اور ابو ذر کی حدیث جو مشکوٰۃ شریف صفحہ ۳۱ میں ہے اس میں ہے۔

((صمنا مع رسول اللّٰہ ﷺ فلم یقم بنا شیئا من الشہر حتٰی بقی سبع فقام بنا حتی ذھب ثلث اللیل فلما کانت السادسة لم یقم بنا فلما کانت الخامسة قام بنا حتی ذھب شطر اللیل فقل یا رسول اللّٰہ لو نفلتنا قیام ھذہ اللیلة فقال ان الرجل اذا صلی مع الامام حتی ینصرف حسب له قیام لیلة فلام کانت الرابعة لم یقم بنا حتی بقی ثلث اللیل فلما کانت الثالثه جمع اھله ونساء ہ والناس فقام بنا حتی خشینا ان یفوتنا الفلاح قلت وما الفلاح قال السحور ثم لم یقم بنا بقیة الشھر رواہ ابو داؤد والترمذی والنسائی الخ))

اس ایک حدیث میں قیام کا لفظ نو جگہ آیا ہے، اور ان نوں جگہوں میں اس سے نماز ہی مراد ہے، الحاصل قیام لیلۃ القدر سے بھی شب قدر ہی مراد ہے، نماز پر قیام کا اطلاق اس لیے کیا جاتا ہے، کہ قیام نماز کا ایک رکن ہے، اور یہ اطلاق از قبیل اطلاق الجزء علی الکل ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 249

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ