سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(82) قیام اللیل اور صلوۃ اللیل کے کیا معنی ہیں؟

  • 4085
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3107

سوال

(82) قیام اللیل اور صلوۃ اللیل کے کیا معنی ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قیام اللیل اور صلوۃ اللیل کے کیا معنی ہیں۔ اور اس کا وقت کب سے کب تک ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قیام اللیل کے لغوی معنی ہیں۔ رات کو اٹھنا۔ اور صلوۃ اللیل کے لغوی معنی ہیں۔ رات کی نماز اور شرعی معنی صرف رات کی نماز کے ہیں۔ یعنی قیام اللیل اور صلوۃ اللیل دونوں شرع میں وہ نماز ہے جو رات کو بعد عشاء کے پڑھی جائے، اور اس کا وقت بھی عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے، علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ جلالین میں فرماتے ہیں۔

((قم اللیل ای صل))

’’رات کو اٹھ یعنی نماز پڑھ۔‘‘

اور فتوحات الٰہیہ جلد ۴ صفحہ ۴۹۹ میں خطیب سے منقول ہے۔

((وقیام اللیل فی الشرع معناہ الصلوة))

۔’’اور قیام اللیل کے شرعی معنی رات کی نماز کے ہیں۔‘‘

اور علامہ خازن رحمہ اللہ تفسیر لباب التاویل چھاپہ مصر جلد ۴ صفحہ ۴۳ میں فرماتے ہیں۔

((قم اللیل ای صل اللیل))

’’رات کو اُٹھ یعنی رات کو نماز پڑھ۔‘‘

اور حضرت مولانا شاہ عبد العزیز تفسیر عزیزی چھاپہ کلکتہ صفحہ ۱۵۶ میں فرماتے ہیں۔

((قم اللیل))

یعنی بر خیر و استادہ نماز گزار در ہر شب ۱ھ اور ۱۷۷ میں فرماتے ہیں۔

﴿اِنَّ رَبَّكَ یَعْلَمُ اَنَّكَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلْثَیِ اللََّیْلِ﴾

’’یعنی تحقیق پروردگار تو مے واند کہ تو در نماز تہجد استادہ می باشی قریب از ود حصہ شب گا ہے۔‘‘

اور علامہ بیضاوی انوار التنزیل چھاپہ کلکتہ جلد ۲ صفحہ ۳۶۴ میں فرماتے ہیں۔

((قُمِ اللَّیْلَ ای ثم الی الصلوة اود ادم علیھا))

’’رات کو اُٹھ یعنی نماز کو اُٹھ۔‘‘

اور علامہ ابو السعود تفسیر ارشاد العقل السلیم چھاپہ مصر جلد ۸ صفحہ ۳۳۳ میں فرماتے ہیں۔

((قُمِ اللَّیْلِ ای الی الصلوٰة وانتصاب اللیل علی انظر فیة وقیل القیام مستعار للصلوة ومعنی قم صل))

’’رات کو اُٹھ یعنی نماز۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیام کا لفظ نماز کے لیے مستعار ہے، اور قم کے معنی صل۔یعنی نماز پڑھ۔‘‘

اور صحیح مسلم میں جلد ۱ صفحہ ۱۵۹ میں ہے۔

((عن ابی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ ﷺ اذا قام احدکم من اللیل فلیفتتح صلوة برکعتین خفیفتین))

’’ابو ہریرہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی رات کو اٹھے تو اپنی نماز ہلکی دو رکعتوں سے شروع کرے۔‘‘

اور مشکوٰۃ شریف صفحہ ۱۱ میں ہے۔

((عن عبد اللہ بن عمروبن العاص قال قال لی رسول اللّٰہ ﷺ یا عبد اللّٰہ لا تکن مثل فلان کان یقوم من اللیل فترك قیام اللیل متفق علیه))

’’صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں ہے کہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص نے نقل کیا کہ مجھ سے رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عبد اللہ! تم اس فلاں شخص کے سے نہ ہو جانا، جو رات کو اٹھا کرتا تھا۔ پھر رات کو اٹھنا چھوڑ دیا۔‘‘

اور صفحہ ۷۰۳ میں ہے۔

((عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ صلوة اللیل مثنی مثنی فاذا خشی احدکم الصبح صلی رکعة واحدة توتر له ما قد صلی متفق علیه))

’’صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صلوٰۃ اللیل دو دو رکعت ہے، پھر جب تم میں سے کسی کو صبح ہو جانے کا ڈر ہو تو ایک ہی رکعت پڑھ لے کہ یہ ایک رکعت اس کے لیے ان کل نمازوں کو جو پڑھ چکا ہے، وتر بنا دے گی۔‘‘

اور صفحہ ۹۷ میں ہے۔

((عن عائشة قالت کان النبی ﷺ یصلی فیما بین ان یفرغ من صلوة العشاء الی الفجر احدی عشرة رکعة یسلم من کل رکعتین ویوتر بواحدة الحدیث متفق علیه))

’’صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی ﷺ عشاء کے بعد سے فجر تک میں گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا کرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھا کرتے۔‘‘

اور صفحہ ۱۰۳ میں ہے۔

((عن ابن عمر عن النبی ﷺ اجعلوا اٰخر صلواتکم باللیل وترا رواہ مسلم))

’’صحیح مسلم (؎۱) میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیا ن کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اپنی صلوٰۃ اللیل کو وتر پر ختم کیا کرو۔‘‘

(؎۱) یہ حدیث متفق علیہ ہے، یعنی صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں ہے، لیکن مشکوٰۃ شریف میں صرف صحیح مسلم ہی کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ۱۲۔

اور بھی صفحہ ۱۰۳ میں ہے۔

((عن عائشة قالت من کل اللیل اوتر رسول اللّٰہ ﷺ من اول اللیل واوسطه واٰخرہ وانتہیٰ وترہ الی السحر متفق علیه))

’’صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کے ہر ایک (؎۲) حصہ میں نماز وتر پڑھی ہے، اول رات میں بھی اوسط رات میں بھی اور آخر رات میں بھی اور آپ کی نماز وتر سحر تک ختم ہو گئی ہے۔ یعنی آپ نے سحر ہو جانے کے بعد نماز وتر نہیں پڑھی ہے۔‘‘

(؎۲) یعنی عشاء کے بعد سے جس قدر رات باقی رہ جاتی ہے، اس کے ہر ایک حصہ میں نماز وتر پڑھی ہے۔ ۱۲

اور بھی صفحہ ۱۰۳ میں ہے۔

((عن جابر قال قال رسول اللّٰہ ﷺ من خاف ان لا یقوم اٰخر اللیل فلیوتر اوله ومن طمع ان یقوم اٰخرہ فلیوتر اٰخر اللیل الحدیث رواہ مسلم))

’’جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کو ڈر ہو کہ آخر رات میں نہیں اٹھے گا۔ وہ وتر اول ہی رات میں پڑھ لے، اور جس کو امید ہو کہ آخر رات میں اُٹھے گا۔ وہ وتر آخر رات میں پڑھے۔‘‘

ان عبارات تفاسیر و احادیث منقولہ بالا سے ثابت ہوا کہ قیام اللیل اور صلوٰۃ اللیل دونوں ایک ہی نماز کے نام ہیں۔ یعنی جو نماز کہ رات کو عشاء کے بعد پڑھی جائے، اور یہ بھی ثابت ہوا کہ تہجد بھی اسی نماز کا نام ہے، تو ثابت ہوا کہ تہجد اور قیام اللیل اور صلوۃ اللیل یہ تینوں ایک ہی نماز کے نام ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 246-248

محدث فتویٰ

تبصرے