السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تہجد کے کیا معنی ہیں، اور نماز تہجد کا وقت کب سے کب تک ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تہجد کے لغوی معنی بیداری کے ہیں، اور بعض کہتے ہیں کہ بے داری اور خواب دونوں کے ہیں۔ اور تہجد کے شرعی معنی صرف رات کی نماز کے ہیں۔ یعنی تہجد شرح میں وہ نماز ہے، جو رات کو عشاء کے بعد پڑھی جائے۔ اور اس کا وقت عشاء کے بعد سے تمام رات طلوع فجر تک ہے، فتح الباری جلد ۳ صفحہ ۵۹۲ میں ہے۔
((تفسیر التھجد بالشھر معروف فی اللغة وھو من الاضداد یقال تہجد اذا سھر وتہجد اذا نام حکاہ الجوهری وغیرہ ومنھم من فرق بینھما فقال هجرت نمت وتہجدت سشھرت حکاہ ابو عبیدة و صاحب العین فعلی ھذا اصل التہجد النوم ومعنی تہجدت طرحت التی النوم وقال الطبری التہجد السھر بعد نومة ثم ساقه عن جماعة من السلف وقال ابن الفارس المتہجد المصلی وقال کراع التہجد صلوة اللیل خاصۃ))
’’لغت میں تہجد کے معنی بیداری کے ہیں اور یہ لفظ اضداد سے ہے، یعنی اس کے معنی بیداری اور خواب دونوں کے ہیں۔چنانچہ جوہری وغیرہ نے نقل کیا ہے، کہ جب تہجد بولتے ہیں، تو کبھی اس سے مراد لتے ہیں، کہ بیدار ہو اور کبھی اس سے مراد لیتے ہیں، کہ سو گیا، اور بعض کا قول ہے کہ لفظ تہجد اضداد سے نہیں ہے، بلکہ اس کے معنی صرف بیداری کے ہیں، ہاں ہجود جوایک دوسرا لفظ ہے، اس کے معنی البتہ خواب کے ہیں۔ چنانچہ ابو عبیدہ اور صاحب العین نے نقل کیا ہے کہ جب ہجرت بولتے ہیں، تو اس سے نمت مراد لیتے ہیں۔ یعنی میں سو گیا۔ اور تہجدت بولتے ہیں، تو اس سے سہرت مراد لیتے ہیں،یعنی میں بیدار ہوا، تو اس بنا پر ہجود کے اصلی معنی خواب کے ہیں، اورتہجد کے اصلی معنی ترک خواب یعنی بیداری کے ہیں۔ یعنی خواب سے پرہیز کرنا۔ پس تہجد میں تجنب کی خاصیت پائی جاتی ہے، اور طبری نے کہا کہ تہجد کے معنی اس بیداری کے ہیں، جو ایک نیند کے بعد ہو، اور اس کو طبری نے ایک جماعت سلف سے نقل کیا ہے، اور ابن فارس نے کہا کہ متہجد یعنی تہجد گذاروہ شخص ہے، جو رات کو نماز پڑھا کرے۔ اور کراع نے کہا کہ تہجد خاص رات کی نماز کا نام ہے۔‘‘
اور ارشاد الساری جلد ۲ صفحہ ۳۴۸ میں ہے۔
((اصله ترك الھجود وھو النوم وقال ابن فارس المتہجد المصلی لیلا))
’’تہجد کے اصلی معنی ترک خواب یعنی بیداری کے ہیں، اور ابن فارس نے کہا کہ متہجد وہ شخص ہے، جو رات کو نماز پڑھا کرے۔‘‘
امام رازی تفسیر کبیر مطبوعہ مصر جلد ۳ میں فرماتے ہیں۔
((قال الازھری المروف فی کلام العرب ان الہا جد ھو النائم ثم ان فی الشرع یقال لمن قال من النوم الی الصلوٰۃ انہ متہجد فوجب ان یحمل ھذا علی انه سمی متہجد الا تقائة الہجود عن نفسه کما قیل للعابد متحنث لا تقائة الحنث عن نفسه وھو الا ثم ویقال فل ان رجل مخرج ومنا ثم ومحتوب ای یلقی الحرج والا ثم والحوب عن نفسه))
’’ازہری نے کہا مشہور کلام عرب میں یہ ہے کہ ہاجد سونے والے ہی کو کہتے ہیں، پھر جو شخص کہ خواب سے اٹھ کر نماز پڑھتا ہے، اس کو شرع میں متہجد یعنی تہجد گزار کہتے ہیں، تو ضرور ہوا کہ یہ کہا جائے کہ تہجد گزار کو متہجد اس لیے کہا جاتا ہے کہ اُس نے ہجود یعنی خواب سے اپنے آپ کو بچایا یعنی پرہیز کیا، جس طرح عابد متحنث اس لیے کہا جاتا ہے کہ اُس نے حنث یعنی گناہ سے اپنے آپ کو بچایا۔ یعنی پرہیز کیا۔ اور جو کسی شخص کو متحرج اور متاثم اور متحوب کہا جاتا ہے، اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس نے حرج اور اثم اور حوب یعنی گناہ سے اپنے آپ کو بچایا یعنی پرہیز کیا۔ (یعنی تہجد میں تجنب کی خاصیت پائی جاتی ہے)۔‘‘
اور علامہ شیخ سلیمان الجمل فتوحات الٰہیہ مطبوعہ مصر جلد ۲ صفحہ ۷۳۲ میں فرماتے ہیں۔
((والمعروف فی کلام العرب ان الہجود عبارة عن النوم باللیل یقال ہجد فلان اذ انام باللیل ثم لما راینا عرف الشرع انه یقال لمن انتبه باللیل من نومه وقام الی الصلوة انه متہجد وجب ان یقال سمی متہجدا من حیث انه اتقی الہجود))
’’مشہور کلام عرب میں یہ ہے کہ ہجود کے معنی رات کو سونے کے ہیں، چنانچہ جب کوئی شخص رات کو سو جاتا ہے تو کہتے ہیں، ہجد فلاں یعنی رات کو سو گیا، پھر جب ہم نے دیکھا کہ جو شخص رات کو خواب سے بیدار ہو کر نماز پڑھتا ہے، اُس کو عرف شرح میں متہجد یعنی تہجد گزار کہتے ہیں، تو ضرور ہو اکہ یہ کہا جائے کہ تہجد گزار کو متہجد اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس نے خواب کو اپنے ترک کیا، یعنی خواب سے پرہیز کیا۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب