السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علمائے دین مسائل ذیل میں کیا فرماتے ہیں؟
۱۔ حدیث صحیح سے رسول اللہ ﷺ کا کتنی رکعت تراویح پڑھنا ثابت ہے؟
۲۔ کسی حدیث صحیح سے رسول اللہ ﷺ کا بیس رکعت تراویح پڑھنا ثابت ہے یا نہیں؟
۳۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب تراویح کی جماعت قائم کی تھی۔ تو امام کو کتنی رکعت تراویح پڑھنے کا حکم فرمایا تھا؟
۴۔ صحیح سند سے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ کا کتنی رکعت تراویح پڑھنا یا کتنی رکعت تراویح پڑھانے کا حکم فرمانا ثابت ہے؟
۵۔ رکعات تراویح کے عدد میں فیما بین العلماء کیا کیا اختلافات ہیں۔ اور اس اختلافات میں دلیل کی رو سے مرحج کون قول ہے؟
۶۔ ہر ایک سوال کا جواب بحوالۂ کتب محدثین اہل سنت ہونا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جواب نمبر ۱:… صحیح حدیث سے رسول اللہ ﷺ کا مع وتر گیارہ (؎۱) رکعت سے زیادہ تراویح پڑھنا ثابت نہیں صحیح بخاری مطبوعہ مصر جلد ۱ صفحہ ۲۶۰ اور صحیح مسلم مطبوعہ دہلی جلد ۱ صفحہ ۲۵۴ میں ہے،
(؎۱) جس طرح آنحضرت ﷺ صلوٰۃ لیل یعنی رات کی نماز جسے تہجد کہتے ہیں کبھی کبھی تیرہ رکعت پڑھا کرتے تھے جن میں سے اول کی دو رکعتیں ہلکی پڑھتے تھے۔ اس لیے کبھی وہ شمار میںآتی تھیں، اور کبھی نہیں (صفحہ ۴ ملاحظہ ہو) اسی طرح اگر آپ نے تراویح بھی کہ وہ بھی صلوٰۃ لیل ہی ہے، کبھی کبھی تیرہ رکعت پڑھی ہو، اور اول کی دو رکعتوں کو ہلکی ہونے کی وجہ سے راوی نے شمار نہ کیا ہو تو اس تقدیر پر یہاں گیارہ رکعت سے (اول کی ہلکی دو رکعتوں کے علاوہ) لانبی گیارہ رکعتیں مراد ہوں گی۔ ۱۲۔
((عن ابی سلمة بن عبد الرحمٰن انه سأل عائشة رضی اللہ عنہا کیف کانت صلوة رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان فقالت ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علٰی احدی عشرة رکعت الحدیث))
’’ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کی نماز رمضان میں کیوں کر تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں۔‘‘
علامہ عینی حنفی نے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری مطبوعہ مصر جلد ۳ صفحہ ۶۲۸ میں بذیل شرح اس حدیث کے چند سوال مع جواب بغرض توضیح مطلب اس حدیث کے لکھے ہیں، کچھ اُن میں سے اسی غرض سے یہاں بھی منقول ہوتے ہیں۔
سوال:… مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ شب کو گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں حالانکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث سے ثابت ہے، کہ آپ رمضان مبارک کے آخر عشرہ میں جس قدر عبادت میں کوشش فرماتے تھے اور کسی مہینے میں اتنی کوشش نہیں فرماتے تھے۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب عشرۂ اخیرہ آتا ہے۔ تو آپ شب کو بیدار رہتے، اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی جگاتے اور اپنی کمر عبادت کے لیے چست باندھتے، اور عبادت میں بھی بہت کوشش فرماتے ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ آخر عشرۂ رمضان میں اپنی مستمر عادات کریمہ سے زیادہ عبادت کرتے تھے، اس صورت میں مذکورہ ٔبالا حدیث اور ان دونوں حدیثوں میں جو اختلاف ہے، اس میں وجہ تطبیق کیا ہے؟
جواب:… آپ آخر عشرہ ٔ رمضان میں صرف رکعتوں کو طول دیتے تھے۔ یعنی لانبی لانبی رکعتیں پڑھتے تھے۔ اور رکعتوں کی تعداد نہیں بڑھاتے تھے۔ رکعتوں کی تعداد اُسی قدر تھی۔ جو حدیث میں مذکور ہوئی، یعنی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
سوال:… جس قدر رکعات رسول اللہ ﷺ شب کو پڑھتے تھے، ان کی تعداد میں خود عائشہ رضی اللہ عنہا سے مختلف رواتیں آئی ہیں۔ کسی میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ جیسا کہ حدیث صدر میں ہے۔ اور کسی میں ہے، کہ تیرہ رکعت پڑھتے تھے۔ اور کسی میں ہے، کہ کبھی سات پڑھتے تھے۔ اور کبھی گیارہ پڑھتے تھے۔ اور کسی میں صرف نو ہی پڑھنا مذکور ہے، اس اختلاف کا کیا جواب ہے؟
جواب:… جس روایت میں تیرہ رکعت پڑھنا آیا ہے، اس میں فجر کی سنت بھی شامل ہے۔ اور جس میں سات اور نو کا ذکر ہے۔ وہ کبر سنی کی حالت میں تھا۔ عمدۃ القاری کی عبارت یہ ہے:
(الاسئلة والاجوبة) ((منھا انه ثبت فی الصحیح من حدیث عائشة رضی اللہ عنہا انه ﷺ کان اذا دخل العشر الا واخر یجتھد فیه ما لا یجتھد فی غیرہ وفی الصحیح ایضا من حدیثہا کان اذا دخل العشر احیی اللیل وایقظ اھله وجد و شد میزرہ وھذا یدل علی انه کان یزید فی العشر الاواخر علی عادته فکیف یجمع بینه وبین حدیث الباب فالجواب ان الزیادة فیا لعشر الاخیر یحمل علی التطویل دون الزیادة فی العدد ومنھا ان الروایات اختلفت عن عائشة رضی اللہ عنہا فی عدد رکعات صلوة النبی ﷺ باللی ففی حدیث الباب احدی عشرة رکعته وفی روایة ھشام بن عروہ عن ابیه کان یصلی من اللیل ثلث عشرة رکعته وفی روایة مسروق انه سألھا عن صلوة رسول اللّٰہ ﷺ فقالت سبع و تسع واحدی عشرة سوی رکعتی الفجر و فی روایة ابراھیم عن الاسود عن عائشة انه کان یصلی باللیل تسع رکعات رواة البخاری والنسائی وابن ماجة والجواب ان من عددھا ثلث عشرة اراد برکعتی الفجر وصرح بذلك فی روایة القاسم عن عائشة رضی اللہ عنہا کانت صلوٰة باللیل عشرة رکعات ویوتر بسجدة ویرکع رکعتی الفجر فتلك ثلاث عشرة رکعة واما روایة سبع و تسع فهی فی حاله کبرہ کما سیاتی انشاء اللّٰہ تعالیٰ ا ھ))
اگرچہ علامہ عینی نے دوسرے سوال کے جواب میں حضرت رسول اللہ ﷺ کا گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھنا تجویزنہیں کیا۔ اور یہ فرمایا کہ جس روایت میں تیرہ رکعت کا پڑھنا آیا ہے۔ اس میں فجر کی سنت بھی شامل ہے، لیکن حق یہ ہے، کہ آپ نے کبھی کبھی سنت فجر کے علاوہ بھی تیرہ رکعتیں پڑھی ہیں۔ چونکہ اُن سے اول کی دو رکعتیں آپ ہلکی پڑھتے تھے، اور عام طور پر بھی آپ نے فرمایا ہے کہ اول کی دو رکعتیں ہلکی پڑھنی چاہییے۔ لہٰذا کبھی اُن دو رکعتوں کا شمار کیا گیا اور کبھی نہیں کیا گیا، جب شمار کیا گیا تو تیرہ ہو گئیں۔ ورنہ گیارہ ہی رہیں۔ صحیح مسلم جلد ۱ صفحہ ۲۶۲ میں ہے۔
((عن زید بن خالد الجھنی انہ قال لا رمقن صلوة رسول اللّٰہ ﷺ اللیلة فصلی رکعتین خفیفتین ثم صلی رکعتین طویلتین طویلتین طویلتین ثم صلی رکعتین وھما دون اللتین قبلھما ثم او تر فذلك ثلث عشرة رکعة ۱ھ))
’’زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں دیکھوں گا۔ رسول اللہ ﷺ کی نماز کو اس رات کو تو آپ نے پہلے ہلکی دو رکعتیں پڑھیں پھر بہت ہی لانبی دو رکعتیں پڑھیں، پھر اس سے بھی کچھ کم لانبی دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر اس سے بھی کچھ کم لانبی دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر اس سے بھی کچھ کم لانبی دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر اس سے بھی کچھ کم لانبی دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر وتر پڑھے پس یہ سب تیرہ رکعتیں ہوئیں۔‘‘
اور بھی اسی صفحہ میں ہے:
((عن عائشة رضی اللّٰہ عنہا قالت کان رسول اللّٰہ ﷺ اذا قام من اللیل لیصلی افتح صلوتہ برکعتین خفیفتین ۱ھ))
’’عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ ﷺ جب رات کو نماز کے لیے اٹھتے تو نماز کو ہلکی دو رکعتوں سے شروع کرتے۔‘‘
اور بھی اُسی صفحہ میں ہے:
((عن ابی هریرة عن النبی ﷺ قال اذا قام احدکم من اللیل فلیفتح صلوته برکعتین خفیفتین ۱ ھ))
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب کوئی تم میں سے رات کو اٹھے تو اپنی نماز کوہلکی دو رکعتوں سے شروع کرے۔۱۲‘‘
اور بھی صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۲۶۰ اور صحیح مسلم جلد ۱ صفحہ ۱۵۹ میں ہے۔
((عن عروہ عائشة رضی اللّٰہ عنہا اخبرته ان رسول اللّٰہ ﷺ خرج لیلة من جوف اللیل فصلی فی المسجد وصلی رجال بصلاته فاصبح الناس فتحد ثوا فاجتمع اکثر منھم فصلوا معه فاصبح الناس فتحدثوا فکثر اھل المسجد اللیلة الثالثة فخرج رسول اللّٰہ ﷺ فصلی فصلوا بصلاته فلما نت اللیلة الرابعة عجز المسجد عن اھله حتی خرج بصلاة الصبح فلما قضی الفجر اقبل علی الناس فتشہد ثم قال اما بعد فانه لم یخف علی مکالکم ولکنی خشیت ان تفرض علیکم فتعجزوا عنہا فصلوا یھا الناس فی بیوتکم وذلك فی رمضان (صحیح بخاری جلد ۱ صفحه ۱۹۸ د ۱۴۷) فتوفی رسول اللّٰہ ﷺ والامر (؎۱) علی ذلك ثم کان الامر علی ذلك فی خلافة ابی بکر و صدراً من خلافة عمر رضی اللّٰہ عنھا ۱ ھ))
(؎۱) قوله والامر علی ذلك روایة الکشیھنی وفی روایة غیرہ والناس علی ذلك ای علی ترك الجماعة فی التراویح ۱۲ عمدة القاری للعلامة العینی الحنفی من ص ۳۵۵ جلد ۵۔
’’عروۃ ابن زبیر سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ رمضان میں ایک رات مسجد میں نماز پڑھی اور کچھ لوگوں نے آپ کے ساتھ اقتدا کی۔ صبح کو انہوں نے اور لوگوں سے ذکر کیا۔ دوسری رات کو کچھ لوگ زیادہ جمع ہوئے، اس رات کو بھی آپ نے نماز پڑھی، اور ان لوگوں نے آپ کے ساتھ اقتدا کی۔ دوسری صبح کو انہوں نے اور بھی چرچا کیا تیسری رات کو اور زیادہ جمع ہوئے، اس رات کو بھی آپ نے نماز پڑھی، اور ان لوگوں نے آپ کے ساتھ اقتدا کی چوتھی رات کو اس قدر لوگ جمع گئے، جن کی گنجائش مسجد میں نہیں رہی (اس رات کو آپ نے جماعت سے نماز نہیں پڑھی، یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لیے آپ باہر تشریف لائے، اور نماز صبح کے بعد تشہد پڑھ کر فرمایا کہ تم لوگوں کا اس نماز کو جماعت سے پڑھنے کے شوق میں جمع ہونا معلوم ہے۔ لیکن میں نے جماعت سے اس لیے نہیں پڑھی کہ مجھ کو اس بات کا خوف ہوا کہ کہیں یہ نماز جماعت تم پر فرض نہ ہو جائے، اور تم سے ادا نہ ہو سکے۔ غرض آپ نے اس نماز میں جماعت موقوف کر دی، اور اصل نماز قائم رکھی، اور فرما دیا کہ تم لوگ اس نماز کو گھروں میں پڑھا کرو۔ پھر آپ کے عہد مبارک تک یہی حالت رہی کہ جماعت قائم نہیں ہوئی۔ اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت اور حضرت فاروق اعظم کے ابتدائے عہد خلافت تک بھی یہی حال رہا۔‘‘
اگرچہ اس حدیث میں اس بات کا بیان نہیں ہوا کہ راتوں میں آنحضرت ﷺ نے کتنی رکعت نماز پڑھائی تھی۔ لیکن شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ شرح صحیح بخاری چھاپۂ دہلی جلد نمبر ۱ صفحہ ۵۹۷ میں بذیل شرح اس حدیث کے صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان سے براوئت جابر رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں کہ آں حضرت ﷺ نے وتر کے علاوہ آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں، فتح الباری کی عبارت یہ ہے۔
((ولم ارفی شئی من طرقه بیان عدد صلوته فی تلك اللیالی لکن روی ابن خزیمة وابن حبان من حدیث جابر رضی اللہ عنه قال صلی بنا رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر الحدیث))
’’میں نے حدیث مذکورہ بالا کی کسی سند میں یہ نہیں دیکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان راتوں میں کتنی رکعتیں پڑھائی تھیں۔ لیکن ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں وتر کے علاوہ آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں۔‘‘
فتح الباری کی اس عبارت میں جو جابر رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان سے منقول ہے، یہ روایت صحیح ہے یا حسن ہے، ضعیف نہیں ہے، اس لیے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری چھاپہ دہلی صفحہ ۴ میں اس امر کی تصریح فرما دی ہے کہ ہم جو حدیث فتح الباری میں ذکر کریں گے، اس شرط سے ذکر کریں گے۔ کہ وہ حدیث یا تو صحیح ہوگی یا حسن ہو گی،مقدمہ فتح الباری صفحہ ۴ کی عبارت یہ ہے:
((فاسوق انشاء اللّٰہ تعالیٰ الباب و حدیثه اولا ثم اذکر وجه المناسبة بینھما ان کانت خفیة ثم استخرج ثانیا ما یتعلق به غرض صحیح فی ذلك الحدیث من القواعد المبنیة والاسنادیة من تتمات وزیادات وکشف غامض وتصریح مدلس بسماع ومتابعة سامع من شیخ اختلف قبل ذلك منتزعاً کل ذل من امھات المسانید والجوامع والمستخرجات والاجزاء والفوائد بشرط الصحة والحسن فیما اوردہ من ذلك ۱ھ))
اور علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تدریب الراوی مطبوعہ مصر صفحہ ۳۱ میں فرماتے ہیں:
((قیل وما ذکر من تساھل ابن حبان لیس بصحیح فان غایته انه یسمی الحسن صحیحا فان کانت نسبته الی التساھل باعتبار وجدان الحسن فی کتابه فہی مشاعة فی الاصطلاح وان کانت باعتبار خفة شروطه فانه یخرج فی الصحیح من کان راویة ثقة غیر مدلس سمع من شیخہ و سمع منه الا اٰخذ لا یکون ھناك ارسال ولا انقطاع واذا لم یکن فی الراوی جرح ولا تعدیل وکان کل من شیخه والراوی عنه ثقة ولم یات بحدیث منکر فہو عندہ ثقة (الی ان قال) فالحاصل وان ابن حبان وفی بالتزام شروط ولم یوف الحاکم ۱ ھ))
اور ایسا ہی علامہ سخاوی رضی اللہ عنہ نے بھی فتح المغیث مطبوعہ لکھنو صفحہ ۴ میں فرمایا ہے، اور بھی اسی صفحہ میں ہے:
((قال العماد بن کثیر و قد التزم ابن خزیمة وابن حبان الصحة وھما خیر من المستدرك بکثیر وانظف اسانید وموقاً ۱ ھ))
علامہ عینی نے بھی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری مطبوعہ جلد ۳ صفحہ ۵۹۷ میں اس حدیث کو صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان سے نقل فرمایا ہے، عمدۃ القاری کی عبارت یہ ہے:
((فان قلت لم یبین فی الروایات المذکورة عدد الصلوة التی صلاھا رسول اللّٰہ ﷺ فی تلك اللیالی قلت روی ابن خزیمة وابن حبان من حدیث جابر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنه قال صلی بنا رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر))
’’اگر تو یہ سوال کرے کہ رسول اللہ ﷺ نے اُن راتوں میں جو نماز پڑھائی تھی، اس کی تعداد روایات مذکورہ بالا میں بیان نہیں ہوئی ہے، تو میں اس کے جواب میں یہ کہوں گا۔ کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ کی حدی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں وتر کے علاوہ آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں۔‘‘
علامہ زیلعی حنفی نے بھی نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ جلد ۱ صفحہ ۲۹۳ میں اس حدیث کو بحوالۂ صحیح ابن حبان بدیں عبارت نقل فرمایا ہے۔
((وعند ابن حبان فی صحیحه عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنه انه علیه السلام قلوبھم فی رمضان فصلی ثمان رکعات ثم اوتر الحدیث))
اور علامہ موصوف نے صفحہ ۲۷۶ میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ابن حبان میں کس جگہ پر واقع ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
((رواہ فی النوع التاسع الستین من القسم الخامس ۱ھ))
یعنی ابن حبان نے حدیث مذکورہ بالا کو اپنی صحیح کی پانچویں قسم کی اونہترویں نوع میں روایت کیا ہے، اور امام محمد بن نصر مروزی نے اپنی کتاب ’’قیام اللیل‘‘(؎۱) صفحہ ۱۶۰ میں جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو اپنی سند سے اس طرح روایت کیا ہے۔
(؎۱) اس کتاب کو ایک قلمی عتیق نسخہ جناب مولانا ابو الطیب محمد شمس الحق صاحب عظیم آبادی ڈیانوی مؤلف غایۃ المقصود شرح سنن ابی داؤد کے کتب خانہ میں موجود ہے، جواب ہذا میں اس کتاب کی عبارتیں اسی نسخہ سے منقول ہیں۔
((ثنا محمد بن حمیدہ الرازی ثنا یعقوب بن عبد اللّٰہ ثنا عیسی بن جاریة عن جابر رضی اللّٰہ عنه قال ﷺ فی رمضان ثمان رکعات والوتر الحدیث))
’’ہم سے حدیث بیان کی محمد بن حمید رازی نے انہوں نے کہا ہم سے حدیث بیان کی یعقوب بن عبد اللہ نے انہوں نے کہا ہم سے حدیث بیان کی عیسیٰ بن جاریہ نے انہوں نے روایت کی جابر رضی اللہ عنہ سے کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا نماز پڑھی، رسول اللہ ﷺ نے رمضان میںآٹھ رکعتیں علاوہ وتر۔‘‘
اگرچہ اس حدیث کے بعض رواۃ متکلم فیہ ہیں۔ لیکن تاہم مذکورہ بالا حدیث کی تائید سے خالی نہیں ہے، علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی میزان الاعتدال جلد۲ صفحہ ۲۸۰ میں اس حدیث کو اسی سند سے نقل فرمایا ہے، جس سند سے امام محمد بن نصر نے روایت کیا ہے۔ فرق دونوں میں اسی قدر ہے کہ اس سند میں بجائے محمد بن حمید رازی کے جعفر بن حمید ہیں۔ اس کے بعد علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی سنت کی نسبت فرمایا ہے۔
((اسنادہ وسط))
’’یعنی اس حدیث کی سند اچھی ہے۔‘‘
میزان الاعتدال کی عبارت یہ ہے:
((کعفر بن حمید ثنا یعقوب القمی عن عیسی بن جاریة عن جابر رضی اللہ عنه قال صلی بنا رسول اللّٰہ لیلة فی رمضان ثمان رکعات والوتر (الی ان قال) اسنادہ وسط ا ھ))
اور یہ حدیث معجم صغیر طبرانی مطبوعہ دہلی صفحہ ۱۰۸ میں بھی مروی ہے۔اس میں طبرانی رحمہ اللہ کے شیخ عثمان بن عبید اللہ الطلحی الکوفی ہیں۔ باقی سند وہی ہے، جو میزان الاعتدال میں ہے، معجم صغیر طبرانی کی عبارت یہ ہے:
((ثنا عثمان بن عبید اللّٰہ الطلحی الکوفی ثنا جعفر بن حمید ثنا یعقوب بن عبد اللّٰہ القمی عن عیسی بن جاریة عن جابر بن عبد اللّٰہ قال صلی بنا رسول اللّٰہ ﷺ فی شھر رمضان ثمان رکعت واوتر (الی ان قال) تفردبه یعقوب وھو ثقة))
اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ کتاب نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار مطبوعہ مصر جلد ۲ صفحہ ۲۹۹ میں فرماتے ہیں۔
((واما العدد الثابت عنه ﷺ فی صلاته فی رمضان فاخرج البخاری وغیرہ عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت ما کان النبی ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعتة واخرج ابن حبان فی صحیحه من حدیث جابر انه ﷺ بھم ثمان رکعات ثم اوتر ۱ھ))
’’ان رکعات کی تعداد جو آنحضرت ﷺ سے رمضان کی نماز میں ثابت ہے، اس کو امام بخاری وغیرہ نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں اور ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہ آن حضرت ﷺ نے لوگوں کو مع وتر گیارہ رکعتیں پڑھائی تھیں۔‘‘
اور امام محمد بن نص مروزی رحمہ اللہ کی کتاب قیام اللیل صفحہ ۱۲۰ میں ہے۔
((وبه عن جابر جاء ابن بن کعب فی رمضان فقل یا رسول اللّٰہ کان اللیلة شئی قال وما ذال یا ابی قال نسوة داری قلن انا لا نقرأ القراٰن فنصلی خلفك بصلاتك فصلیت بھن ثمان رکعات والوتر فسکت عنه وکان شبه الرضأ))
’’بسند مذکورہ بالا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ رات کو ایک بات ہو گئی ہے، آپ نے فرمایا کون سی بات ہو گئی ہے، اے ابی۔ ابی نے عرض کیا میرے گھرانے کی عورتوں نے کہا کہ ہم لوگ قرآن نہیں پڑھتے ہیں، پس ہم لوگ تمہارے پیچھے نماز پڑھیں گے، اور تمہاری اقتدا کریں گے، تو میں نے ان کو آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھا دیں۔ آں حضرت ﷺ نے یہ سن کر سکوت کیا۔ اور گویا اس بات کو پسند فرمایا۔‘‘
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ اللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
جواب ۲:… کسی صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ کا بیس رکعت پڑھنا ثابت نہیں ہے، ((من ادعی فعلیہ البیان))، اورجو ابن ابی شیبہ اور طبرانی اور بیہقی اور ابن عدی اور بغوی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ
((کان رسول اللّٰہ ﷺ یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر ا ھ))
’’یعنی رسول اللہ ﷺ رمضان میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔‘‘
یہ حدیث صحیح نہیں ہے، علاوہ بریں یہ حدیث اُس حدیث کے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے صحیحین میں مروی ہے،مخالف بھی ہے، اور علامہ حافظ بن حجر رحمہ اللہ التلخیص الجیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر چھاپہ دہلی صفحہ ۱۱۹ میں فرماتے ہیں۔
((ذکر العشرین ورد فی حدیث اٰخر رواہ البیہقی عن ابن عباس ان النبی ﷺ کان یصلی فی شہر رمضان فی غیر جماعة عشرین رکعة والوتر قال البیقی تفردبه ابو شیبة ابراہیم بن عثمان وھو ضعیف ۱ھ))
’’بیس رکعت کا ذکر ایک اور حدیث میں واردہوا ہے، جس کو بیہقی رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے، کہ نبی ﷺ ماہ رمضان میں غیر جماعت میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے، بیہقی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو صرف ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان نے روایت کیا ہے، اور وہ ضیعف ہے۔‘‘
علامہ حافظ ابن حجر فتح الباری شرح صحیح بخاری چھاپہ دہلی جلد ۲ صفحہ ۳۱۷ میں فرماتے ہیں۔
((واما ما رواہ ابن ابی شیبة من حدیث ابن عباس کان رسول اللہ ﷺ یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر فاسنادہ ضعیف وقد عارضه حدیث عائشة الذی فی الصحیحین))
’’اور جو ابن ابی شیبہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں بیس رکعات اور وتر پڑھتے تھے۔ اولاً اس کی سند ضعیف ہے، ثانیاً عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی اس صحیح حدیث کے مخالف ہے جو صحیحین میں مروی ہے۔‘‘
اور علامہ ابن ہمام حنفی فتح القدیر شرع ہدایہ چھاپہ نول کشور جلد ۱ صفحہ۲۰۵ میں فرماتے ہیں۔
((وما ما روی ابن ابی شیبة فی مصنفة والطبرانی والبیہقی من حدیث ابن عباس انه علیه السلام کان یصلی فی رمضان عشرین رکعته سوی الوتر فضعیف بابی شیبة ابراھیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة متفق علی ضعفه مع مخالفته الصحیح ۱ھ))
’’اور جو ابن ابی شیبہ نے مصنف (؎۱) میں اور طبرانی اور بیہقی نے ابن عباس کی حدیث سے روایت کی ہے، کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں بیس رکعات وتر کے سوا پڑھتے تھے۔ ضعیف ہے، کیونکہ اس کا راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان جو امام ابو بکر بن ابی شیبہ کا دادا ہے، باتفاق ائمہ حدیث ضعیف ہے۔ علاوہ بریں یہ حدیث صحیح حدیث(؎۲) کے مخالف بھی ہے۔‘‘
(؎۱) منصف کی کتاب کا نام ہے۔ (؎۲) نمبر ۱ میں گذر چکی ہے۔۱۲
اور علامہ زیلعی حنفی نصب الرایہ جلد ۱ صفحہ ۲۹۳ میں فرماتے ہیں۔
((روی ابن ابی شیبة فی مصنفة والطبرانی والبیہقی من حدیث ابراھیم بن عثمان ابی شیبة عن الحکم عن مقسم عن ا بن عباس ان النبی ﷺ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة سوی الوتر (الی قوله) وھو معلوم بابی شیبة ابراهیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة وھو متفق علی ضعف ولینه ابن عدی فی الکامل ثم انه مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمة بن عبد الرحمٰن انه سال عائشة کیف کانت صلوة رسول اللّٰہ ﷺ فی رمضان قال ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة الحدیث))
’’ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور طبرانی اور بیہقی نے ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ کی حدیث سے عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس روایت کی ہے کہ نبی ﷺ رمضان میں بیس رکعت وتر کے علاوہ پڑھتے تھے،یہ حدیث معلول ہے، (معلول ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے) اس لیے کہ اس کا راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان جو امام ابو ب کر بن ابی شیبہ کا دادا ہے۔ اتفاق ائمہ حدیث ضعیف ہے، اور ابن عدی نے کامل (؎۱) میں اس کو لین۔ یعنی ضعیف کہا ہے۔ علاوہ بریں یہ اس صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے۔ جس کو ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز رمضان میں کیوں کر تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ نہ رمضان میں اور نہ غیر رمضان میں۔‘‘
اور علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ عمدۃ القاری میں شرح صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۳۵۸، ۳۵۹ میں فرماتے ہیں۔
((فان قلت روی ابن ابی شیبۃ من حدیث ابن عباس کان رسول اللّٰہ ﷺ یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر قلت ھذا الحدیث رواہ ایضاً ابو القاسم البغوی فی معجم الصحابۃ قال حدثنا منصور بن مزاحم حدثنا ابو شیبۃ عن الحکم عن مقسم بن ابن عباس الحدیث وابو شیبۃ ھو ابراہیم بن عثمان العبسی الکوفی قاضی واسط جد ابی بکر بن ابی شیبۃ کذبہ شعبۃ وضعفہ احمد وابن معین والبخاری والنسائی وغیرھم واورد لہ ابن عدی ھذا الحدیث فی الکامل فی مناکبیرہ ۱ھ))
’’اگر تو یہ سوال کرے کہ ابن ابی شیبہ نے ابن عبا س رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔ تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ اس حدیث کو ابو القاسم نے بعوی نے بھی معجم الصحابہ میں روایت کیا ہے، کہا ہے کہ ہم سے حدیث بیان کی منصور بن ابی مزاحم نے انہوں نے کہا ہم سے حدیث بیان کی ابن ابی شیبہ نے عن الحکم عن مقسم عن ابی عباس وہی حدیث جو اس سوال میں مذکور ہو چکی یہ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان عبسی کوفی شہر واسط کا قضی ابو بکر بن ابی شیبہ کا دادا ہے، شعبہ نے اس کو جھوٹا کہا ہے، اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اور امام بخاری رحمہ اللہ اور نسائی رحمہ اللہ وغیرہم نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ اور ابن عدی رحمہ اللہ نے کامل میں اس حدیث کو ابو شیبہ کی منکر حدیثوں میں درج کیا ہے۔‘‘
اور علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب التہذیب چھاپہ دہلی صفحہ ۱۴ میں فرماتے ہیں:
((ابراھیم بن عثمان العبسی بالموحدۃ ابو شیبۃ الکوفی قاضی واسط مشہور بکنیتہ متروک الحدیث من السابعۃ مات سنۃ تسع وستین ۱ ھ))
’’ابراہیم بن عثمان عبسی ابو شیبہ کوفی جو شہر واسط کا قاضی اور راہنی کنیت (ابو شیبہ) کے ساتھ مشہور ہے۔ متروک الحدیث ہے ساتویں طبقے سے ۱۶۹ھ میں مرا ہے۔‘‘
اور علامہ حافظ صفی الدین احمد بن عبد اللہ خزرجی انصاری رحمہ اللہ خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال فی اسماء الرجال چھاپہ مصر صفحہ ۲۰ میں فرماتے ہیں۔
((ابراہیم عن عثمان العبسی بموحدۃ ابو شیبۃ الکوفی قاضی واسط عن خالد الحکم بن عتیبۃ وابی اسحٰق وجماعۃ وعنہ کاتبہ یزید بن ھٰرون ووصفہ بالعدل فی الفضاء ضعفہ ابن معین و ابو داؤد وقال النسائی متروک الحدیث الخ))
’’ابراہیم بن عثمان بن عبسی ابو شیبہ کوفی جو شہر واسط کا قاضی ہے، اپنے ماموں حکم بن عتیبہ اور ابو اسحق اور ایک جماعت سے روایت کرتا ہے، اور اس کا کاتب یزید بن ہارون روایت کرتا ہے کہ یہ فیصلہ جات میں انصاف کرتا تھا۔ یحییٰ بن معین اور ابو داؤد نے اس کو ضعیف اور نسائی نے متروک الحدیث کہا ہے۔‘‘
اور علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب التہذیب صفحہ ۳ میں فرماتے ہیں۔متروک الحدیث وہ راوی ہے، جس کی قطعاً کسی نے توثیق نہیں کی یعنی ثقہ نہیں اور باوجود اس کے وہ ایسی جرح سے ضعیف ٹھہرایا گیا ہے۔ جو اس کے ثقہ ہونے میں قادح ہے، تقریب التہذیب کی عبارت یہ ہے:
((العاشرۃ من لم یوثق البتۃ وضعف مع ذلک بقادح و الیہ الاشارۃ بمتروک او متروک الحدیث او داھی الحدیث او ساقط ۱ھ))
اور امام ذہبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال فی اسماء الرجال جلد۱ صفحہ ۳۱ میں فرماتے ہیں۔
((ابراہیم ابن عثمان ابو شیبۃ العبسی الکوفی قاضی واسط وجد ابی بکر ابن ابی شیبۃ یروی عن اخ امہ الحکم بن عتیبۃ وغیرہ کذبہ شعبۃ لکونہ روی عن الحکم عن ابی لیلیٰ انہ قال شہد صفین من اھل بدر سبعون فقال شعبۃ کذب واللّٰہ لقد ذاکرت الحکم فما وجدنا شھد صفین احد امن اھل بدر غیر خزیمۃ قلت سبحان اللّٰہ ام شھدھا علی اما شھدھا عمار رویٰ عثمان الدارمی عن ابی معین لیس بثقۃ وقال احمد ضعیف وقال البخاری سکتوا عنہ وقال س متروک الحدیث ومن مناکیر ابی شیبۃ ما روی البغوی نا منصور بن ابی مزاحم نا ابو شیبۃ عن الحکم عن مقسم عن ابی عباس کان رسول اللّٰہ ﷺ یصلی فی شھر رمضان فی غیر جماعۃ بعشرین رکعتہ والوتر وقد وردلہ عن الحکم احادیث وقد قال عبد الرحمٰن بن معاویۃ العتبی (؎۱) سمعت عمرو بن خالد ن الحرانی یقول سمعت ابا شیبۃ یقول ما سمعت من الحکم الا حدیثاً واحداً الخ))
(؎۱) لعل الصواب التجیبی فانی لم اجد احدا ممن اسمہ عبد الرحمٰن بن معاویۃ نسبۃ العتیبی۔۱۲
’’ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ عبسی کوفی جو شہر واسط کا قاضی اور ابو بکر بن ابی شیبہ کا داد ا ہے، اپنے ماموں حکم بن عتیبہ وغیرہ سے روایت کرتا ہے، شعبہ نے اس کو اس وجہ سے جھوٹا کہا ہے کہ اس نے حکم سے روایت کہ کہ ابن ابی لیلیٰ نے کہا کہ صفین میں ستر اہل بدر صحابی حاضر تھے۔ شعبہ نے کہا واللہ ابو شیبہ نے یہ بات جھوٹ کہی۔ میں نے تو خود حکم سے مذاکرہ کیا تو سوائے خزیمہ کے اور کسی کو اہل بدر میں سے نہیں پایا۔ جو صفین میں حاضر ہوا ہو۔ میں کہتا ہوں۔ سبحان اللہ کیا صفین میں علی رضی اللہ عنہ حاضر نہ تھے۔ کیا صفین میں، عمار رضی اللہ عنہ حاضر نہ تھے۔ عثمان دارمی رحمہ اللہ نے یحییٰ بن معین سے روایت کی کہ ابو شیبہ ثقہ نہیں ہے اور امام احمد بن حنبل نے کہا کہ ضعیف ہے، اور امام بخاری نے کہا کہ ((سکتوا عنہ)) (؎۱) اور نسائی نے کہا کہ متروک الحدیث ہے۔ اور ابو شیبہ کے مناکیر میں سے ایک وہ حدیث ہے۔ جو بغوی نے روایت کی کہا ہم کو خبر دی منصور بن ابی مزاحم نے انہوں نے کہا کہ ہم کو خبر دی ابو شیبہ نے ((عن الحکم عن مقسم عن ابی عباس)) کہ رسول الہ ﷺ ماہ رمضان میں غیر جماعت میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔ اور ابو شیبہ نے حکم سے چند حدیثیں اور بھی روایت کی ہیں، حالانکہ عبد الرحمٰن بن معاویہ عتبی نے کہا کہ میں نے عمروین خالد حرانی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے ابو شیبہ سے سنا وہ خود کہتا تھا کہ میں نے حکم سے صرف ایک ہی حدیث سنی ہے۔‘‘
(؎۱) سکتوا عنہ کا مطلب آگے کے قول میں مذکور ہے۔ ۱۲
اور علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تدریب الرادی شرح تقریب النواوی چھاپہ مصر صفحہ ۱۲۷ میں فرماتے ہیں:
((البخاری یطلق فیہ نظرا وسکتوا عنہ فیمن ترکوا حدیثہ ۱ ھ))
’’امام بخاری رحمہ اللہ نے لفظ فیہ نظر او لفظ سکتوا عنہ اس راوی کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ جو متروک الحدیث ہوتا ہے۔‘‘
یعنی فیہ نظر اور سکتوا عنہ اور متروک الحدیث یہ تینوں الفاظ امام بخاری کے نزدیک ایک ہی معنی میں مستعمل ہیں۔ اور متروک الحدیث کے معنی تقریب التہذیب سے اوپر بیا ن ہو چکے اور مولوی عبد الحئی صاحب لکھنوی رحمہ اللہ رسالہ الرفع والتکمیل مطبوعہ لکھنو صفحہ ۲۸ میں فرماتے ہیں:
((قال العراقی فی شرح الفتیہ فیہ نظر وفلان سکتوا عنہ ھاتان العبارتان یقولھما البخاری فیمن ترکوا حدیثہ ۱ھ))
’’حافظ عراقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الفیتہ الحدیث کی شرح میں فرمایا کہ یہ دو لفظ فیہ نظر اور فلان سکتوا عنہ امام بخاری رحمہا للہ اس راوی کے حق میں استعمال کرتے ہیں، جو متروک الحدیث ہوتا ہے۔‘‘
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
جواب ۳:… حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب تراویح کی جماعت قائم کی تھی تو امام کو مع وتر گیارہ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم فرمایا تھا۔ مؤطا امام مالک رحمہ اللہ مطبوعہ دہلی صفحہ ۴۰ میں ہے۔
((عن السائب بن یزید انہ قال امرعمر بن الخطاب ابی بن کعب وتمیماً ن الدارمی ان یقوما للناس باھدی عشرۃ رکعۃ الحدیث))
’’سائب بن یزید نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور تمیم داری رحمہ اللہ کو حکم کیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔‘‘
اور امام محمد بن نصر مروزی کی کتاب قیام اللیل صفحہ ۱۹۱ میں ہے:
((عن السائب بن یزید امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب و تمیما الداری ان یقوما للناس باحدی عشرۃ رکعۃ وفی روایۃ کنا نصلی فی زمن عمر بن الخطاب فی رمضان ثلث عشرۃ رکعۃ الحدیث))
’’سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم کیا کہ گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہم لوگ عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے زمانے میں رمضان میں تیرہ رکعت پڑھتے تھے۔‘‘
ان دونوں روایتوں میں مخالفت نہیں ہے۔ اس لیے کہ آخر الذکر روایت میں اس امر کی تصریح نہیں ہے کہ جو لوگ تیرہ رکعت پڑھنے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت قائم کی تو امام کو گیارہ ہی رکعت پڑھانے کا حکم کیا۔ لیکن بعض لوگ تنہا دو رکعت بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ اور یہ ہو سکتا ہے کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ کبھی کبھی تیرہ رکعتیں پڑھ لیا کرتے تھے۔ اور اس وجہ سے کہ آپ اول کی دو رکعتیں ہلکی پڑھتے تھے۔ کبھی ان کا شمار کیا جاتا تھا۔ اور کبھی نہیں جب شمار کیا جاتا تو تیرہ ہو جائیں۔ ورنہ گیارہ رہتیں۔ جیسا کہ جواب نمبر (۱) میں گذر چکا ہے، اسی طرح ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی لوگ تیرہ رکعتیں پڑھتے رہے ہوں۔ اور اول کی دو رکعتوں کے ہلکی ہونے سے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کبھی ان کا شمار کرتے اور تیرہ روایت کرتے ہوں۔ اور کبھی نہیں شمار کرتے۔ اور گیارہ روایت کرتے ہوں۔ اور امام بیہقی رحمہ اللہ کتاب معرفۃ (؎۱) السنن والآثار جلد اول صفحہ ۴۴۷ میں فرماتے ہیں:
(؎۱) اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ جناب مولیٰنا ابو الطیب محمد شمس الحق صاحب عظیم آبادی ڈیانوی مؤلف غایت المقصود شرح سنن ابی داؤد کے کتب خانہ میں موجود ہے، اس کی عبارت رسالہ ہذا میں اسی نسخہ سے منقول ہوئی ہے۔ ۱۲۔
((قال الشافعی اخبرنا مالک عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید قال امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب و تمیمان الداری ان یقوما للناس باحدیٰ عشرۃ رکعۃ الحدیث))
’’امام شافعی نے فرمایا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی انہوں نے محمدبن یوسف سے روایت کی انہوں نے سائب بن یزید سے کہ سائب بن یزید نے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ او رتمیم داری کو حکم دیا کہ گیارہ رکعت لوگوں کو پڑھایا کریں۔‘‘
اور علامہ جلال الدین سیوطی رسالہ المصابیح فی صلوٰۃ التراویح مطبوعہ لاہور صفحہ ۱۹ میں فرماتے ہیں کہ سنن سعید بن منصور میں ہے۔
((حدثنا عبد العزیز بن محمد حدثنی محمد بن یوسف سمعت السائب بن یزید یقول کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب باحدی عشرۃ رکعۃ الحدیث))
’’ہم کو عبد العزیز بن محمد نے خبر دی انہوں نے کہا مجھ کو محمد یوسف نے خبر دی، انہوں نے کہا میں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے۔ ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔‘‘
اور علامہ ممدوح صفحہ ۲۰ میں اس روایت کی نسبت فرماتے ہیں:
((سندھہ فی غایۃ الصحۃ))
’’یعنی اس روایت کی سند نہایت صحیح ہے۔‘‘
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف میں بھی کچھ روایتیں آئی ہیں۔ لیکن وہ روایتیں اس رواتی کے ہم پلہ نہیں ہے۔ قیام اللیل صفحہ ۲۹۳ میں ہے۔
((قال ابن اسحٰق وما وسمعت فی ذلک حدیثا ھوا ثبت عندی ولا احری بان یکون کان من حدیث السائب فذلک ان صلوٰۃ رسول اللّٰہ ﷺ کانت من اللیل ثلث عشرۃ رکعۃ))
’’ابن اسحااق نے کہا کہ میں نے اس باب میں ایسی کوئی حدیث جو میرے نزدیک اس حدیث سے زیادہ ثابت اور سائب بن یزید کی حدیث ہونے کی زیادہ سزاوار ہو۔ نہیں سنی ہے، اور یہ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز بھی تیرہ ہی رکعت تھی۔‘‘
عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری مطبوعہ مصر جلد ۵ جلد ۳۵۷ میں ہے۔
((وھو اختیار مالک لنفسہٖ واختارہ ابو بکر بن العربی))
’’امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے لیے گیارہ ہی رکعت پسند کی ہے، اور ابو بکر بن العربی رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔‘‘
اور عمدۃ القاری کی جلد و صفحہ مذکور میں قیام اللیل سے منقول ہے۔
((عن السائب بن یزید قال کنا نصلی فی زمان عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فی رمضان ثلث عشرۃ رکعۃ))
’’سائب بن یزید سے روایت ہے کہ ہم لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تیرہ رکعت پڑھتے تھے۔‘‘
اور علامہ جلال الدین سیوطی رسالہ المصابیح فی صلوٰۃ التراویح صفحہ ۲۰ میں فرماتے ہیں۔
((قال ابن الجوزی من اصحابنا عن مالک انہ قال الذی جمع علیہ الناس عمر بن الخطاب احب الی وھو احدی عشرۃ رکعۃ وھی صلٰوۃ رسول اللّٰہ ﷺ قیل لہ احدی عشرۃ رکعۃ بالوتر قال نعم وثلث عشرۃ قریب قال ولا ادری من این احدث ھذا الرکوع الکثیرا اھ))
’’ہمارے اصحاب میں سے ابن جوزی نے کہا۔ امام مالک نے فرمایا: جتنی رکعتوں پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا تھا۔ وہ مجھ کو زیادہ پیاری ہیں۔ اور وہ گیارہ رکعتیں ہیں۔ اور یہی رسول اللہ ﷺ کی نماز ہے، اُن سے پوچھا گیا کیا گیارہ رکعت مع وتر، کہاہاں، اور تیرہ رکعت قریب ہے،اور کہا میں نہیں جانتا کہ یہ سب سارے رکوع کہاں سے ایجاد کیے گئے ہیں۔‘‘
اور جو موطا امام مالک صفحہ ۴۰ میں یزید بن رومان سے مروی ہے، کہ انہوں نے کہا کہ:
((کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان بثلث وعشرین رکعۃ))
’’یعنی لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مع وتر تئیس رکعت پڑھتے تھے۔‘‘
اس کا جواب اولاً یہ ہے، کہ یہ روایت سنداً صحیح نہیں ہے، بلکہ منقطع السند ہے، اس لیے کہ یزید بن رومان جو اس حدیث کے راوی ہیں۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد پیدا ہوئے ہیں پس یہ روایت بوجہ انقطاع کے متصل السند اور صحیح نہیں ہے، علامہ زیلعی حنفی نصب الرایہ میں جلد ۱ صفحہ ۲۹۴ میں فرماتے ہیں۔
((ویزید بن رومان لم یدرک عمر اھ))
’’یعنی یزید بن رومان نے حضرت عمر کا زمانہ نہیں پایا ہے۔‘‘
اور علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۸۰۴ میں فرماتے ہیں۔
((ویزید لم یدرک عمر ففیہ انقطاع ۱ھ))
’’یعنی یزید بن رومان نے حضرت عمر کا زمانہ نہیں پایا ہے، پس اس کی سند منقطع ہے۔‘‘
اور جلد ۵ صفحہ ۳۵۶ میں فرماتے ہیں۔
((رواہ مالک فی الموطا باسناد منقطع ۱ھ))
’’یعنی امام مالک رحمہ اللہ نے اس کو موطا میں منقطع سند سے روایت کیا ہے۔‘‘
اور اس کا جواب ثانیاً یہ ہے کہ اس روایت میں اس امر کی تصریح نہیں ہے، کہ جو لوگ تئیس رکعت پڑھتے تھے۔ وہ بحکم حضرت عمر پڑھتے تھے۔ یہ جواب اس روایت کا بھی ہے، جس کو علامہ زیلعی حنفی نے نصب الرایہ جلد ۱ صفحہ ۱۹۴ میں بیہقی سے نقل فرمایا ہے، اور امام نووی سے اس کا صحیح الاسناد ہونا نقل کیا ہے کہ سائب بن یزید نے کہا کہ:
((کنا نقوم فی زمن عمر بن الخطاب بعشرین رکعۃ والوتر ۱ھ))
’’یعنی ہم لوگ حضرت عمر کے زمانے میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔‘‘
کیونکہ اس روایت میں بھی اس امر کی تصریح نہیں ہے کہ جو لوگ بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے، وہ حضرت عمر کے حکم سے پڑھتے تھے۔ اور یہی جواب اس روایت کا بھی ہے، جس کو علامہ عینی حنفی نے عمدۃ القاری جلد ۲ صفحہ ۸۰۳ میں بیہقی سے نقل فرمایا ہے، (اور کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے) کہ سائب بن یزید نے کہا کہ:
((کانوا یقومون علی عھد عمر رضی اللہ عنہ بعشرین رکعۃ وعلی عہد عثمان وعلی رضی اللہ عنہما مثلہ ۱ھ))
’’یعنی لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعت پڑھتے تھے، اور ایسا ہی حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے عہد میں۔‘‘
کیوںکہ اس روایت میں بھی اس امر کی تصریح نہیں ہے کہ جو لوگ بیس رکعت پڑھتے تھے، وہ لوگ حضرت عمر کے حکم سے پڑھتے تھے یا حضرت عثمان یا حضرت علی رضی اللہ کے حکم سے پڑھتے تھے، اور جو مصنف ابن ابی شیبہ صفحہ ۴۰۶ میں ہے:
((حدثنا وکیع عن مالک بن انس عن یحیی بن سعیدان عمر بن الخطاب امر رجلا ان یصلی بھم عشرین رکعۃ))
’’یعنی وکیع نے ہم کو خبر دی۔ انہوں نے امام مالک سے روایت کی کہ انہوں نے یحییٰ بن سعید سے کہ حضرت عمر نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت پڑھایا کرے۔‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی بسند صحیح نہیں ہے، بلکہ منقطع السند ہے، اس لیے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے شیخ یحییٰ بن سعید انصاری مدنی نے جو اس اثر کے راوی ہیں، انہوں نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو ۲۳ھ میں شہید ہو چکے تھے، اور یحییٰ بن سعید طبقہ خامسہ سے ہیں، جو تابعین کا طبقہ صغریٰ ہے، جس نے صرف ایک دو صحابی کو دیکھا ہے، اور یہ ۱۴۳ھ یا اس کے بعد میں مرے ہیں، پھر اُن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ پانے کی کیا صورت ہے، پس یہ روایت بوجہ منقطع السند ہونے کی صحیح نہیںہے، تقریب التہذیب صفحہ ۱۸۹ میں ہے۔
((عمربن الخطاب امیر المؤمنین استشہد فی ذای الحجۃ سنۃ ثلث وعشرین انتہیٰ ملتقطا))
’’امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ ماہ ذی الحجہ ۲۳ھ میں شہید ہوئے۔‘‘
اور صفحہ ۲۷۵ میں ہے:
((یحییٰ بن سعید ن الانصاری المدنی من الخامسۃ مات سنۃ اربع و اربعین ومائۃ او بعدھا انتہی ملتقطا))
’’یحییٰ بن سعید انصاری مدنی طبقہ خامسہ سے ہیں، ۱۴۴ھ میں یا اس کے بعد مرے ہیں۔‘‘
اور صفحہ ۳ میں ہے:
((الخامسۃ الطبقۃ الصغریٰ منھم الذین رأوا الواحد والاثنین اھ))
’’پانچواں طبقہ تابعین کا طبقہ صغریٰ ہے، جس نے ایک دو صحابی کو دیکھا ہے۔‘‘
اور تذکرہ الحفاظ میں حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
((یحییٰ بن سعید ن الانصاری قاضی المدینۃ مات سنۃ ثلث واربعین ومائۃ انتہی ملتقطا))
’’یحییٰ بن سعید انصاری جو مدینہ منورہ کے قاضی ہیں ۱۴۳ھ میں مرے ہیں۔‘‘
اور خلاصہ صفحہ ۲۸۲ میں ہے:
((عمر بن الخطاب اھد فقہاء الصحابۃ ثانی الخلفاء الراشدین واحد العشرۃ المشھود لھم بالجنۃ استشھد فی اٰخر سنۃ ثلث وعشرین انتہیٰ ملتقطا))
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجتہدین صحابہ میں سے ایک مجتہد ہیں، اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہ سے خلیفہ دوم ہیں۔ اور ان دس صحابہ میں سے جن کے لیے آں حضرت ﷺ نے جنت کی بشارت دی ہے، ایک صحابی ہیں، ۲۳ھ میں شہید ہوئے ہیں۔‘‘
اور صفحہ ۴۲۴ میں ہے:
((یحییٰ بن سعید ن الانصاری قاضی المدینہ قال القطان مات سنۃ ثلث و اربعین ومائۃ انتہیٰ ملتقطا))
’’یحییٰ بن سعید انصاری جو مدینہ منورہ کے قاضی ہیں، بقول یحییٰ بن سعید قطان رضی اللہ عنہ ۱۴۳ھ میں مرے۔‘‘
اور فتح الباری شرح صحیح بخاری مطبوعہ مصر جلد ۱ صفحہ ۷ میں ہے:
((یحییٰ بن سعید الانصاری من صغار التابعین انتہیٰ ملتقطا))
’’یحییٰ بن سعید انصاری صغار تابعین میں سے ہیں۔‘‘
الحاصل جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت قائم کی تھی، تو صحیح سند سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام کو گیارہ ہی رکعت پڑھانے کا حکم کیا تھا، اور جو روایتیں اس کے خلاف میں آئی ہیں، وہ یا تو صحیح الاسناد نہیں ہیں، یا اُن میں اس امر کی تصریح نہیں ہے، کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعت پڑھانے کا حکم صادر فرمایا تھا۔
((ومن ادعی فعلیہ البیان واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب))
اورجو بعض لوگوں نے گیارہ اور بیس میں یوں تطبیق دی ہے کہ پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے گیارہ ہی رکعت پڑھی جاتی تھی بعد کو حضرت عمر نے بیس رکعت کا حکم صادر فرمایا تب سے بیس رکعت پڑھی جانے لگی۔ اس تطبیق پر دو وجہ سے بحث ہے، اولاً یہ کہ اس تطبیق کی یہاں ضرورت ہی نہیں اس لیے کہ تطبیق کی ضرورت تو جب ہو کہ گیارہ اور بیس دونوں کا حکم دینا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح ثابت بھی ہو۔ حالانکہ گیارہ کا حکم دینا تو صراحۃً حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح ہے، بلکہ نہایت صحیح سند سے ثابت ہے، اور بیس کا حکم دینا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صراحۃً کسی صحیح سند سے ثابت ہی نہیں۔ ((ومن ادعی فعلیہ البیان)) ثانیاً یہ اگر بالفرض دونوں کا ثبوت ان سے بھی لیا جائے،تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ گیارہ کا حکم پہلے ہے، اور بیس کا پیچھے کیوں نہیں جائز ہے، کہ بیس ہی کا حکم پہلے ہوا اور گیارہ کا حکم پیچھے۔
جواب ۴:… صحیح سند سے خلفاء راشدین میں سے سوائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اور کسی سے کچھ ثابت نہیں ہے کہ وہ حضرت تراویح کے لیے رکعت پڑھنے تھے یا کتنی رکعت پڑھانے کا حکم فرماتے تھے۔ ((ومن ادعی فعلیہ البیان)) ہاں حضرت عمر سے البتہ بسند صحیح ثابت ہے کہ آپ اماموں کو گیارہ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم فرماتے تھے (جواب نمبر ۲ ملاحظہ ہو) اور جب آپ اوروں کو گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم فرماتے تھے، تو ظاہر یہی ہے، کہ خود بھی ایسا ہی کرتے رہے ہوں گے، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ اور علامہ ھافظ ابن حجر رحمہ اللہ درایہ تخریج ہدایہ چھاپہ دہلی صفحہ ۱۲۳ میں صاحب ہدایہ کے اس قول ((علیہ الخلفاء الراشدون رضی اللہ عنھم)) کی تخریج میں فرماتے ہیں، ((لم اجدہ)) یعنی صاحب ہدایہ نے جو کہا ہے کہ خلفائے راشدین نے تراویح پر مواظیت فرمائی ہے، میںنے اس کا کہیں ثبوت نہیں پایا۔ اور علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ جنہوں نے اپنی کتاب نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ میں صاحب ہدایہ کے حوالاجات کا پتہ بتا دینا اپنے ذمہ لیا ہے، وہ بھی صاحب ہدایہ کے اس حوالہ کا کچھ پتہ نہ دے سکے، اور اس حوالہ کو یوں ہی لاپتہ چھوڑ دینے پر قناعت کرلی، اور جب نفس تراویح پر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ کی مواظبت کا پتہ نہیں چلتا تو بیس رکعت تراویح پر مواظبت کا پتہ چلنا خیلے مشکل ہے، اورعلامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری جلد ۳ صفحہ ۲۱۶ میں فرماتے ہیں۔
((قولہ: فخرج لیلۃ والناس یصلون بصلوۃ قارئھم ای امامھم المذکور و فیہ اشعار بان عمر کان لا یواظب علی الصلوۃ معھم وکانہ کان یریٰ ان الصلوۃ فی بیتہ ولا سیما فی اٰخر اللیل افضل وقد رویٰ محمد بن نصر فی قیام اللیل من طریق طاؤس عن ابن عباس قال کنت عند عمر فی المسجد فسمع ھیعۃ الناس فقال ما ھذا قیل خرجوا من المسجد وذلک فی رمضان فقال ما بقی من اللیل احب الی مما مضی ومن طریق عکرمۃ عن ابن عباس نحوہ من قولہ))
’’راوی (عبد الرحمٰن بن عبدٌ) کے اس قول (کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دوسری رات نکلے رمضان میں اور لوگ اپنے امام کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے) سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر اس نماز کے باجماعت پڑھنے پر مواظبت نہیں فرماتے تھے اور شاید ان کا یہ مذہب تھا کہ اس نماز کو گھر میں خصوصاً آخر شب میں پڑھنا افضل ہے، اور محمد بن نصر نے اپنی کتاب قیام اللیل میں طائوس کی سند سے ابن عباس سے روایت کی ہے، کہ ابن عباس نے فرمایا کہ میں ماہ مبارک میں رمضان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مسجد میں تھا۔ لوگوں کو شور سن کر فرمایا۔ یہ کیسا شور ہے۔ عرض کیا گیا کہ لوگ مسجد سے نماز پڑھ کر نکلے ہیں تو فرمایا کہ میرے نزدیک ملت کا باقی حصہ رات کے گذشتہ حصہ سے بہتر ہے، اور محمد بن نصر رحمہ اللہ نے عکرمہ کی سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کا مضمون روایت کیا ہے۔‘‘
کہ ابن عباس نے فرمایا اور علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ عمدۃ القاری شرح بخاری جلد ۵ صفحہ ۳۵۶ میں فرماتے ہیں۔
((قد اختلف العلماء فی العدد المستحب فی قیام رمضان علی اقوال کثیرۃ فقیل احدی واربعون وقال الترمذی رای بعضھم ان یصلی احدی واربعین رکعۃ مع الوتر وھو قول اھل المدینۃ والعمل علٰی ھذا عندھم بالمدینۃ قال شیخنا رحمہ اللّٰہ وھو اکثر ما قیل فیہ قلت ذکر ابن عبد البر فی الاستذکار عن الاسود بن یزید کان یصلیٰ اربعین رکعۃ ویوتر بسبع ۱ھ))
’’علماء نے قیام رمضان (تراویح) کی رکعتوں کے بارے میں کہ اس میں کون عدد مستحب ہے، بہت کچھ اختلاف کیا ہے، ایک قول یہ ہے، کہ اکتالیس رکعت ہے، ترمذی نے کہا کہ بعضوں کی رائے یہ ہے کہ اکتالیس رکعت مع وتر پڑھے، اور یہی قول اہل مدینہ کا ہے، اور اسی پر مدینہ میں اہل مدینہ کا عمل ہے، ہمارے شیخ نے فرمایا کہ اکتالیس سے زیادہ کسی کا قول نہیں ہے، میں کہتا ہوں کہ ابن عبد البر نے اسود بن یزید سے نقل کیا ہے کہ وہ چالیس رکعت پڑھنے تھے، اور سات رکعت وتر پڑھتے تھے۔ یعنی مع وتر سینتالیس رکعت پڑھتے تھے۔‘‘
دوسرا قول یہ ہے کہ اڑتیس رکعت ہے، علامہ عینی فرماتے ہیں۔
((وقیل ثمان وثلثون رواہ محمد بن نصر من طریق ابن ایمن عن مالک قال یستجب ان یقوم الناس فی رمضان بثمان و ثلثین رکعۃ ثم یسلم الامام والناس ثم یوتر بہم بواحدۃ قال وھذا العمل بالمدینۃ قبل الحرۃ منذ بضع ومائۃ سنۃ الی الیوم ۱ھ))
’’دوسرا قول یہ ہے کہ اڑتیس رکعت ہے، امام محمد نصر رحمہ اللہ نے ابن ایمن کے طریق سے امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ امام مالک نے کہا کہ مستحب یہ ہے کہ لوگ رمضان میں اڑتیس رکعت پڑھیں پھر امام اور سب لوگ سلام پھیر کر ایک رکعت وتر پڑھیں، امام مالک نے کہا کہ زمانہ جرہ کے قبل ایک سو کئی برس سے اب تک اہل مدین کا اسی پر عمل چلا آتا ہے۔‘‘
اور حافظ ابن حجر فتح الباری شرح صحیح بخاری چھاپہ دہلی جلد ۲ صفحہ ۲۱۷ میں فرماتے ہیں۔
((ھذا یمکن ردہ الی الاول بانضمام ثلث توتر لکن صرح فی روایۃ بانہ یوتر بواحدۃ فتکون اربعین الا واحدۃ ۱ھ))
’’اس دوسرے قول کو باضافہ وتر کی تین رکعتوں کے پہلے قول کی طرف رجوع کر سکتے ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ اس روایت میں تصریح ہو چکی ہے، کہ وتر ایک ہی رکعت پڑھے تو وتر ملا کر ایک کم چالیس ہی رکعتیں ہوتی ہیں۔ نہ اکتالیس۔‘‘
تیسرا قول یہ ہے۔ کہ چھتیس رکعت ہے، علامہ عینی فرماتے ہیں۔
((وقیل ست وثلثون وھو الذی علیہ عمل اھل المدینۃ وروی ابن وھب قال سمعت عبد اللہ بن عمر یحدث عن نافع قال لم ادرک الناس الا وھم یصلون تسعا و ثلثین رکعۃ ویوترون منہا بثلث))
’’تیسرا قول یہ ہے کہ چھتیس رکعت ہے اور اسی پر اہل مدینہ کا عمل ہے، ابن وہب نے کہا کہ میں نے عبد اللہ بن عمر سے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ نافع نے کہا کہ میں نے لوگوں کو نہیں پایا۔ مگر اسی حالت پر کہ تراویح انتالیس رکعت پڑھتے تھے۔ جن میں سے تین رکعتیں وتر کی تھیں۔‘‘
اور علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
((وھذا ھو المشہور عنہ))
’’امام مالک سے یہی قول مشہور ہے کہ تراویح چھتیس رکعت ہے۔‘‘
چوتھا قول یہ ہے کہ چونتیس رکعت ہے، علامہ عینی فرماتے ہیں۔
((وقیل اربع وثلثون علی ما حکمی عن زرارۃ بن اوفی انہ کذلک کان یصلی بھم فی العشر الاخیر))
’’چوتھا قول یہ ہے کہ چونتیس رکعت ہے، جیسا کہ زرارہ بن اوفی سے مروی ہے کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ میں اسی طرح (چونتیس رکعت) پڑھتے تھے۔‘‘
پانچواں قول یہ ہے کہ اٹھائیس رکعت ہے، علامہ عینی فرماتے ہیں۔
((وقیل ثمان وعشرون وھو المروی عن زرارۃ بن اوفی فی العشرین الاولین من الشھر وکان سعید بن جبیر فی العشر الاخبر ۱ھ))
’’پانچواں قول یہ ہے کہ ۲۸ رکعت ہے، یہ بھی زرارہ بن اوفیٰ سے رمضان کے پہلے دو عشروں میں منقول ہے۔ اور سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ وہ اٹھائیس رکعت آخری عشرہ میں پڑھتے تھے۔‘‘
چھٹا قول یہ ہے کہ چوبیس رکعت ہے،علامہ عینی فرماتے ہیں۔
((وقیل اربع و عشرون وھو مروی عن سعید بن جبیر ۱ھ))
’’چھٹا قول یہ ہے کہ چوبیس رکعت ہے اور یہ سعید بن جبیر سے مروی ہے۔‘‘
ساتواں قول یہ ہے کہ بیس رکعت ہے۔ علامہ عینی فرماتے ہیں۔
((وقیل عشرون وحکاہ الترمذی عن اکثر اھل العلم فانہ روی عن عمر و علی وغیر ھما من الصحابۃ وھو قول اصحابنا الحنفیۃ))
’’ساتواں قول یہ ہے کہ بیس رکعت ہے ترمذی نے اس کو اکثر اہل علم سے نقل کیا ہے۔ کیونکہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ و حضرت علی رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، اور یہی قول ہم احناف کا ہے۔‘‘
یہاں پر علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت کے منقول ہونے کا حوالہ امام مالک پر کر دیا ہے، حالانکہ موطا میں کسی جگہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت کا پڑھنا یا حکم دینا منقول نہیں ہے، اس میں تو بیس رکعت کے بارے میں صر ف یزید بن رومان کی روایت ہے، جو جواب نمبر ۳ میں مذکور ہو چکی ہے، جس میں نہ اس امر کی تصریح ہے کہ خود حضرت عمر رضی اللہ عن بیس رکعت پڑھتے تھے اور نہ ا امر کی تصریح ہے کہ بیس رکعت پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔ مع بذایہ روایت سنداً بھی صحیح نہیں ہے بلکہ منقطع الاسناد ہے، چنانچہ خود علامہ عینی نے بھی عمدۃ القاری میں اس کا اعتراف فرمایا ہے، عمدۃ القاری کی عبارت یہ ہے:((اما اثر عمر رضی اللہ عنہ فرواہ مالک فی الموطا باسناد منقطع)) اس کی پوری بحث اوپر گذر چکی ہے، جواب نمبر ۳ ملاحظہ ہو، اور بھی یہاں پر علامہ عینی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت کے منقول ہونے کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے، جس کا حوالہ کسی حدیث کی کتاب پر نہیں دیا ہے، مع ہذا جو اس کی سند لکھی ہے، اس میں ایک راوی ابو لحسناء کون بزرگ ہیں۔ اگر یہ وہی ابو الحسناء ہیں، جو تقریب التہذیب میں مذکور ہیں تو ان کو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لقا ہی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ابو الحسناء طبقہ سابعہ سے ہیں جو کبار اتباع تابعین کا طبقہ ہے جس کو کسی صحابی سے لقا نہیں ہے، چہ جائکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لقا ہو۔ اور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کی لقا ثابت نہیں ہوئی تو یہ روایت بھی بوجہ منقطع سند ہونے کے صحیح نہ ٹھہری۔ علاوہ بریں یہ ابو الحسنا مجہول بھی ہیں تو اس وجہ سے بھی یہ روایت صحیح ثابت نہ ہوئی۔ تقریب التہذیب مطبوعہ فاروقی دہلی صفحہ ۲۹۴ میں ہے۔
((ابو الحسنا بزیادۃ الف قیل اسمہ الحسن وقیل الحسین مجہول من السابعۃ ۱ھ))
’’ابو الحسناء بزیادۃ الف بعض کہتے ہیں کہ ان کا نام حسن ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ حسین ہے مجہول ہیں طبقہ سابعہ سے ہیں۔‘‘
اور صفحہ ۳ میں ہے۔
((السابعۃ طبقۃ کبار اتباع التابعین کما لک والثوری))
’’ساتواں طبقہ کبار اتباع تابعین کا ہے، جیسے امام مالک رحمہ اللہ اور سفیان ثوری۔‘‘
اور یہاں پر علامہ عینی نے عمدۃ القاری جلد ۲ صفحہ ۸۰۳ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان سے بیس رکعت کے منقول ہونے کے بارے میں ایک روایت بھی بحوالہ بیہقی نقل کی ہے، جو جواب نمبر ۳ کے آخر میں منقول ہونے کے بارے میں ایک اور روایت بھی بحوالہ بیہقی نقل کی ہے، جو جواب نمبر ۳ کے آخر میں منقول ہو چکی ہے، جس میں بھی نہ اس امر کی تصریح ہے کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیس رکعت پڑھتے تھے، اور نہ اس امر کی تصریح ہے کہ ان حضرات رضی اللہ عنہم نے کسی کو بیس رکعت پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ یہاں پر علامہ عینی نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی بیس رکعت کے منقول ہونے کے بارے میں ایک روایت امام محمد بن نصر مروزی کے طریق سے نقل کی ہے، اور وہ بھی بوجہ منقطع السند ہونے کے صحیح نہیں ہے، وہ روایت یہ ہے۔
((قال الاعمش کان عبد اللّٰہ بن مسعود عشرین رکعۃ ویوتر بثلث))
’’اعمش نے کہا کہ عبد اللہ بن مسعود بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔‘‘
اس روایت کے منقطع السند ہونے کی یہ وجہ ہے کہ اعمش جو اس واقعہ نماز تراویح عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ناقل ہیں، انہوں نے عبد اللہ بن مسعود کا زمانہ نہیں پایا ہے۔ عبد اللہ بن مسعود تو ۲۲ھ یا ۳۳ھ میں وفات پا چکے تھے، اور اعمش رحمہ اللہ ۶۰ھ کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ تقریب التہذیب چھاپہ دہلی صفحہ ۴۲ ۱ میں ہے۔
((عبد اللّٰہ بن مسعود مات سنۃ اثنتین و ثلثین اوفی التی بعدھا بالمدینۃ انتہیٰ ملتقطا))
’’عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ۲۲ھ میں یا اس کے بعد والے سنہ میں خاص مدینہ طیبہ میں وفات پائی ہے۔‘‘
اور صفحہ ۱۰۲ اور ۱۰۳ میں ہے۔
((الاعمش مات سنۃ سبع واربعین او ثمان ومائۃ وکان مولدہ اول احدی وستین انتہیٰ ملتقطا))
’’سلیمان اعمش رحمہ اللہ نے ۱۴۷ھ یا ۱۴۸ھ میں وفات پائی اور ۶۱ھ کے اوائل میں پیدا ہوئے۔‘‘
اور خلاصہ چھاپہ مصر صفحہ ۲۱۴ میں ہے۔
((عبد اللّٰہ بن مسعود قال ابو نعیم مات با مدینۃ سنۃ اثنین وثلثین عن بصع وستین سنۃ انتہی ملتقطا))
’’ابو نعیم نے کہا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خاص مدینہ طیبہ میں ۳۲ھ میں کئی برس اوپر ساٹھ کے ہو کر وفات پائی۔‘‘
اور صفحہ ۱۵۵ میں ہے۔
((سلیمان الاعمش قال ابو نعیم مات سنۃ ثمان واربعین ومائۃ عن اربع و ثمانین سنۃ اھ))
’’ابو نعیم نے کہا سلیمان اعمش نے ۱۴۸ھ میں چوراسی برس کے ہو کر وفات پائی۔‘‘
اور مصنف ابن ابی شیبہ صفحہ ۴۰۶ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بھی بیس رکعت کے بارہ میں ایک روایت آئی ہے لیکن وہ بھی بوجہ منقطع السند ہونے کے صحیح نہیں ہے۔ وہ روایت مع سند یہ ہے۔
((حدثنا حمید بن عبد الرحمٰن عن حسن عن عبد العزیز بن رفیع قال کان ابی بن کعب یصلی بالناس فی رمضان بالمدینۃ عشرین رکعتۃ ویوتر بثلث))
’’حمید بن عبد الرحمن نے ہم کو خبر دی انہوں نے حسن سے روایت کی انہوں نے عبد العزیز بن رفیع سے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ میں ماہ رمضان میں لوگوں کو بیس رکعت پڑھایا کرتے تھے۔ اس روایت کے منقطع السند ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عبد العزیز بن رفیع ۵۰ھ کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ تقریب التہذیب صفحہ ۱۷ میں ہے:
((ابی بن کعب من فضلاء الصحابۃ اختلف فی سنۃ موتہٖ اختلافا کثیرا قیل سنۃ تسع عشرۃ وقلیل سنۃ اثنتین وثلثین وقیل غیر ذلک انتہی ملتقطا))‘‘
’’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فضلا صحابہ میں سے ہیں۔ ان کے سن وفات میں بہت کچھ اختلاف ہے، کوئی ۱۹ھ بتاتا ہے، اور کوئی ۲۲ھ بتاتا ہے، اور کوئی اور کچھ۔‘‘
اور صفحہ ۱۶۱ میں ہے۔
((عبد العزیز بن رفیع ثقۃ من الرابعۃ مات سنۃ ثلثین (؎۱) ومائۃ وقیل بعدھا وقد جاوز السبعین انتہیٰ ملتقطا))
(؎۱) تقریب التہذیب مطبوعہ ہند کے نسخوں میں اس جگہ بجائے لفظ ثلثین کے لفظ ثلث طبع ہوا ہے، یہ قطعاً غلط ہے، صحیح لفظ ثلثین ہے، جیسا کہ خلاصہ و عمدۃ القاری و کاشف میں ہے جن کی عبارات آئندہ منقول ہیں۔ اس کے علاوہ خود تقریب کا قلمی صحیح نسخہ مرحوم خدا بخش خان صاحب وکیل پٹنہ کے مشہور کتب خانہ میں موجود ہے، اس میں بھی ثلثین ہی کا لفظ ہے، الحاصل اس جگہ لفظ ثلثین صحیح ہے، لفظ ثلث جو نسخ مطبوعہ ہند میں ہے، قطعاً غلط ہے، اس کتاب کی عبارت مولانا ابو محمد زین العابدین بہاری مرحوم آروی کے قلمی نسخ سے نقل کی گئی ہے۔۱۲
’’عبد العزیز بن رفیع ثقہ ہیں، طبقہ رابعہ سے ہیں ۱۳۰ ھ میں یا اس کے بعد ستر برس سے زائد کے ہو کرمرے ہیں۔‘‘
اور خلاصہ صفحہ۲۴ میں ہے۔
((ابی بن کعب سید القراء تونی سنۃ عشرین اوا اثنتین و عشرین او ثلثین او اثنتین و ثلثین او ثلث و ثلثین انتہی ملتقطا))
’’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ جو قاریوں کے سردار ہیں۔ انہوں نے ۲۰ھ یا ۲۲ھ یا ۳۰ ھ یا ۳۲ ھ یا ۲۳ ھ میں وفات پائی ہے۔‘‘
اور صفحہ ۲۳۹ میں ہے۔
((عبد العزیز بن رفیع وثقہ احمد وابن معین قال مطین مات سنۃ ثلثین ومائۃ انتہی ملتقطا))
’’عبد العزیز بن رفیع ان کو امام احمد اور یحییٰ بن معین نے ثقہ کہا ہے، مطین نے فرمایا یہ ۱۳۰ھ میں مرے ہیں۔‘‘
اور کتاب الثقات لابن حبان جلد ۱ صفحہ ۲۳۴ میں ہے۔
((ابی بن کعب کنیۃ ابو المنذر مات سنۃ ثنتین و عشرین فی خلافۃ عمر و قیل انہ بقی الی خلافۃ عثمان))
’’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے جن کی کنیت ابو المنذر ہے، ۳۲ھ میں وفات پائی، اور بعض نے حضرت عثمان کی خلافت تک اُن کا باقی رہنا بیان کیا ہے۔‘‘
اور علامہ عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد ۹ صفحہ ۳۶۲ میں فرماتے ہیں۔
((عبد العزیز بن رفیع مات بعد الثلثین ومائۃ انتہی ملتقطا))
’’عبد العزیز بن رفیع ۱۳۰ھ کے بعد مرے ہیں۔‘‘
اور امام ذہبی کاشف میں فرماتے ہیں۔
((عبد العزیز بن رفیع ثقہ معمر مات سنۃ ثلثین ومائۃ انتہی ملتقطا))
’’عبد العزیز بن رفیع ثقہ معمر ہیں ۱۳۰ھ میں مرے ہیں۔‘‘
آٹھواں قول یہ ہے کہ سولہ رکعت ہے، علامہ عینی فرماتے ہیں۔
((ست عشرۃ وھو مروی عن ابی مجلز انہ کان یصلی بھم اربع ترویحات ویقرء لھم سبع القرأن فی کل لیلۃ رواہ محمد بن نصر من روایۃ عمر ان بن حدیر اھ))
’’آٹھواں قول یہ ہے کہ سولہ رکعت ہے، اور یہ ابو مجلز سے منقول ہے کہ وہ لوگوں کو چار تراویحہ پڑھایا کرتے تھے۔ اور ہر رات قرآن کا ساتواں حصہ اس میں پڑھا کرتے تھے، اس کو امام محمد بن نصر رحمہ اللہ نے عمران بن حدیر کے طریق سے روایت کیا ہے۔‘‘
نواں قول یہ ہے کہ تیرہ رکعت ہے، علامہ عینی فرماتے ہیں۔
((وقیل ثلث عشرۃ واختارہ محمد بن اسحٰق روی محمد بن نصر من طریق ابن اسحٰق قال حدثنی محدم بن یوسف عن جدہ السائب ابن یزید قال کنا نصلی فی زمان عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ فی رمضان ثلث عشرۃ رکعت رالی قولہ قال ابن اسحٰق وما سمعت فی ذلک حدیثا ھوا اثبت عندی ولا احری بان یکون من حدیث اسائب وذلک ان صلوۃ رسول اللّٰہ ﷺ کانت من اللیل ثلٰث عشرۃ رکعۃ ۱ھ))
’’نواں قول یہ ہے کہ تیرہ رکعت ہے، اور اسی کو محمد بن اسحق نے اختیار کیا ہے، امام محمد نصر نے روایت کی کہ محمد بن اسحق نے کہا کہ محمد بن یوسف نے مجھے خبر دی کہ ان کے جد سائب بن یزید نے کہا کہ ہم لوگ عمر بن خطاب کے زمانہ میں رمضان میں تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے، محمد بن اسحق نے کہا کہ میں نے کہا کہ میں اس باب میں ایسی کوئی حدیث جو میرے نزدیک اس حدیث سے زیادہ ثابت اور سائب بن یزید کی حدیث ہونے کے زیادہ لائق ہو۔ نہیں سنی ہے، اور یہ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کی رتگ کی نماز بھی تیرہ ہی رکعت تھی۔‘‘
اور علامہ ابن حجر فرماتے ہیں۔
((قال ابن اسحٰق وھذا اثبت ما سمعت فی ذلک وھو موافق لحدث عائشۃ فی صلوۃ النبی ﷺ من اللیل))
’’محمد بن اسحق نے کہا کہ میں نے جس قدر حدیثیں اس بات میں سنی ہیں، ان سب میں یہ حدیث کے موافق ہے، جو رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کے بارے میں مروی ہے۔‘‘
دسواں قول یہ ہے کہ گیارہ رکعت ہے۔ علامہ عینی فرماتے ہیں۔
((وقیل احدی عشرۃ رکعۃ وھو اختیار مالک لنفسہ اختارہ ابو بکر ابن العربی))
’’دسواں قول یہ ہے کہ گیارہ رکعت ہے، اور اسی کو امام مالک نے اپنے لیے اختیار کیا ہے۔ اور اسی کو ابو بکر بن عربی نے بھی پسند کیا ہے۔‘‘
علامہ حافظ ابن حجر فتح الباری جلد ۲ صفحہ ۲۱۶ میں فرماتے ہیں۔
((فی الموطأ عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید انہا احدی عشرۃ ورواہ سعدی بن منصور من وجہ اخر وروأہ محمد بن نصر المروزی من طریق محمد بن اسحٰق عن محمد بن یوسف فقال ثلٰث عشرۃ والعدد الاول موافق لحدیث عائشۃ والثانی قریب منہ ۱ھ ملتقطا))
’’امام مالک نے موطا میں محمد بن یوسف سے روایت کی انہوں نے سائب بن یزید سے کہ تراویح گیارہ رکعت ہے، اور سعید بن منصور نے ایک اور سند سے بھی یہی مضمون روایت کیا ہے۔ اور امام محمد بن نصر مروزی نے محمد بن اسحق کی سند سے محمد بن یوسف سے تیرہ رکعت روایت کی ہے، اور اول عدد یعنی گیارہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی حدیث کے موافق ہے، اور ثانی یعنی تیرہ اس سے قریب ہے۔‘‘
امر دوم کا بیان ان اقوال عشرہ میں قول و ہم اس لیے مرحج ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا کسی حدیث صحیح سے گیارہ رکعت سے زیادہ تراویح پڑھنا ثابت نہیں (جواب نمبر ۱ ملاحظہ ہو۲) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حکم کہ امام لوگ گیارہ ہی پڑھا کریں۔ مزید براں ہے (جواب نمبر ۲ ملاحظہ ہو) اور کسی صحیح سند سے کسی کا خلفائے راشدین میں سے بھی اس سے زیادہ پڑھنا یا اس سے زیادہ پڑھنے کا حکم دینا ثابت نہیں ہے، اور صریحاً آسمانی قانون موجود ہے کہ عند الاختلاف جو قول کتاب و سنت کے موافق ہے وہی مرحج ہے، (دیکھو سورہ نساء رکوع ۸)
{فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ}
’’اگر تم لوگ کسی بات میں اختلاف کرو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو، اگر تم اللہ کو اور قیامت کے آنے کو مانتے ہو۔‘‘
پس ثابت ہوا کہ اس اختلاف میں قول وہم ہی مرحج ہے۔
تنبیہ:۔ ایک صاحب نے دو بارہ بیس رکعت تراویح کے رسائل خمسہ مطبوعہ امرت سرے کتاب سنن کبریٰ بیہقی کی چند روایات نقل کر کے ہمارے پاس بھیجی ہیں۔ ہم ان کی اس مہربانی کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اوراپنی گذارش جو ان روایات کے متعلق ہیں، ذیل میں درج کرتے ہیں، ہماری نظر سے نہ سنن کبیریٰ بیہقی گذری ہے، نہ ہم مؤلف رسائل خمسہ کا حال جانتے ہیں،لہٰذا ان روایت کی نسبت کہ یہ سنن کبریٰ بیہقی میں ہیں یا نہیں، کچھ حکم نہیں لگا سکتے۔ اور بعد تسلیم یہ گذارش ہے کہ روایات مذکوہر میں سے پہلی روایات تو سائب بن یزید کی ہے کہ ((کانوا یقومون علی عہد عمر بن الخطاب فی شہر رمضان بعشرین رکعۃ)) اور دوسری روایت یزید بن رومان کی ہے کہ ((کان الناس یقومون فی زمن عمر بن الخطاب بثلٰث وعشرین رکعۃ)) ان دونوں روایتوں پر اسی رسالہ میں یہ بحث گذر چکی ہے کہ ان میں اس امر کی تصریح نہیں ہے کہ جو لوگ بیس رکعت پڑھتے تھے، وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے پڑھتے تھے۔ اور یزید بن رومان کی روایت پر ایک اور بحث بھی گذر چکی ہے، کہ یہ روایت بوجہ منقطع السند ہونے کے صحیح بھی نہیں ہے، رسالہ رکعات التراویح کا صفحہ ۱۵ ملاحظہ ہو) تیسری اور چوتھی روایت یہ ہے کہ سوید بن غفلہ اور شتیر بن شکل (جو منجملہ تابعین ہیں) رمضان میں بیس رکعت پڑھاتے تھے، ان دونوں روایتوں کی عبارت مع سند یہ ہے۔
((اخبرنا ابو زکریا ابن ابی اسحٰق ثنا ابو عبد اللّٰہ محمد بن یعقوب ثنا محمد بن عبد الوھاب ثنا جعفر بن عون ثنا ابو الخطیب قال کان یؤمنا سوید بن غفلۃ فی رمضان فیصلی خمس ترویحات عشرین رکعۃ وروینا عن شتری بن شکل وکان من اصحاب علی انہ کان یؤمھم فی شھ رمضان بعشرین رکعۃ ویوتر بثلٰث ۱ھ))
ان دونوں روایتوں کا جواب (اس سے قطع نظر کہ ان کی سند کیسی ہے، صحیح یا غیر صحیح) یہ ہے کہ زیر بحث یہ امر نہیں ہے کہ دنیا میں کسی نے بیس رکعت بھی پڑھی پڑھائی ہے، یا نہیں۔ ضرور پڑھی بھی ہے، اور پڑھائی بھی ہے، بلکہ بعض اکابر نے تو ۲۴ بلکہ ۲۸ بلکہ ۳۶ بلکہ ۳۸ بلکہ مع وتر ۴۱ بلکہ ۴۷ رکعت تک بھی پڑھی ہے، چنانچہ ان سب کی تفصیل رسالہ رکعات التراویح میں بخوبی گذر چکی ہے، (جواب نمبر ت۵ ملاحظہ ہو) بلکہ زیر بحث یأمر ہے کہ آنحضرت ﷺ اور خلفاء راشدین سے کتنی رکعت پڑھنا یا کتنی رکعت پڑھانے کا حکم دینا ثابت ہے، اور یہ امر کہ آنحضرت ﷺ اور خلفاء راشدین سے بیس رکعت پڑھنا یا بیس رکعت پڑھانے کا حکم دینا ثابت ہے، یا نہیں، اور یہ امر کہ دوبارہ رکعات التراویح جو فیما بین العلماء اختلاف ہے، اس میں مرحج اور قوی من حیث الدلیل کے کتنی رکعت ہے، اور یہ دونوں روائتیں ان تینوں زیر بحث امور سے اجنبی ہیں۔ یہی جواب اس روایت کا بھی ہے، جو بعض رسائل میں بلا حوالہ کسی حدیث کی کتاب کے منقول ہے کہ عطاء نے کہا کہ میں نے لوگوں کو تئیس رکعت پڑھنے پایا ہے، اس روایت کی عبارت مع سند یہ ہے۔
((حدثنا ابن نمیر عن عبد الملک عن عطاء قال ادرکت الناس وھم یصلون ثلٰثا وعشرین رکعۃ))
پانچویں روایت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ماہ رمضان میں قاریان قرآن کو بلایا، اور ان میں سے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت پڑھایا کرے، اور وتر آپ پڑھا دیا کرتے، اس روایت کی عبارت مع سند یہ ہے۔
((اخبرنا ابو الحسین الفضل بن القطان ببغداد اخبرنا محمد بن احمد بن عیسیٰ بن عبدک الرازی اثنا ابو عامر عمرو بن تمیم ثنا احمد بن عبد اللّیہ بن یونس ثنا حماد بن شیعب عن عطاء ابن السائب عن ابی عبد الرحمٰن السلمی عن علی قال دعا القراء فی رمضان فامر منھم رجلا یصلی بالناس عشرین رکعۃ وکان علی یوتر بھم ۱ھ))
اس روایت کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے، اولاً اس وجہ سے کہ اس کی سند میں ایک راوی حماد بن شعیب ہیں اور وہ ضعیف و متروک الحدیث ہیں۔ امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب میزان الاعتدال جلد ۱ صفحہ ۲۴۷ میں فرماتے ہیں۔
((حماد بن شعیب ن الحمانی الکوفی عن ابی الذبیر وغیرہ ضعفہ ابن معین وغیرہ وقال یحییٰ مرۃ لا یکتب حدیثہ وقال البخاری فیہ نظر وقال النسائی ضعیف وقال ابن عدی اکثر حدیثہ مما لا یتابع علیہ و ابو حاتم لیس بالقوی انتہیٰ ملتقطا))
’’حماد بن شعیب حمانی کوفی ہیں۔ ابو الزبیر وغیرہ سے روایت کرتے ہیں، یحییٰ بن معین وغیرہ نے ان کو ضعیف کہا ہے، اور یحییٰ نے ایک بار یہ بھی کہا ہے کہ یہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان کی حدیث لکھی جائے، اور امام بخاری نے ان کے حق میں ((فیہ نظر)) یعنی متروک الحدیث کہا ہے، اور نسائی نے بھی ان کو ضعیف کہا ہے، اور ابن عدی رحمہ اللہ نے کہا کہ ان کی اکثر حدیثیں اس قسم کی ہوتی ہیں، جن پر ان کی کوئی متابعت نہیں کرتا۔ اور ابو حاتم نے کہا کہ یہ قوی نہیں ہیں۔‘‘
ثانیاً اس وجہ سے کہ اس روایت کی سند میں ایک راوی عطاء بن سائب بھی ہیں، جو حماد بن شعیب رحمہ اللہ کے شیخ یعنی استاذ ہیں۔ اور گویہ عطاء بن سائب پہلے ثقہ تھے، لیکن بعد کو اس وجہ سے کہ ان کے حافظہ میں تغیر آ گیا۔ تھا۔ یعنی بد حافظہ ہو گئے تھے، اور انڈ کا منڈر وایت کرنے لگے تھے، ثقہ باقی نہیں رہے، لہٰذا جن ثقات نے ان سے ان کے اس تغیر اور بدحافظگی کے قبل حدیث سنی ہے، وہ حدیث تو صحیح ہے، اور جن ثقات نے ان سے بعد میں حدیث سنی ہے، وہ حدیث صحیح نہیں۔ اور حماد بن شعیب جو ان سے روایت کرتے ہیں، اولاً تو وہ خود ہی ثقہ نہیں ہیں۔ (کمامر) ثانیاً اگر ان سے حدیث سنی بھی تھی۔ تو بعد میں سنی ہے، کیونکہ قبل میں ان سے حدیث سننے والے صرف تین ہی شخص بیان کیے جاتے ہیں۔ جن میں سے یہ نہیں ہیں، اور وہ تین شخص یہ ہیں، شعبہ۔ سفیان۔ حماد بن زید۔ امام ذہبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال جلد ۲ صفحہ ۱۷۷ میں فرماتے ہیں۔
((عطاء بن السائب الثقفی ابو زیدن الکوفی احد علماء التابعین۔ روی عن عبد اللہ بن ابی اوفی و انس ووالدہ وجماعۃ حدث عنہ سفیان وشعبۃ والفلاس و تغیر بآخرہٖ وسأ حفظہ قال احمد من سمع منہ قدیما فھو صحیح ومن سمع منہ حدیثا لم یکن بشئی وقال یحییٰ لا یحتج بہ، وقال احمد، بن ابی خثیمۃ عن یحییٰ حدیثہ ضعیف الا ما کان عن شعبۃ وسفیان وقال یحییٰ بن سعید سمع حماد بن زید من عطاء بن السائب قبل ان یتغیر واقال البخاری احادیث عطاء بن السائب القدیمۃ صحیحۃ وقال احمد بن حنبل عطا بن السائب ثقۃ ثقۃ رجل صالح من سمع منہ قدیماً کان صحیحا یختم کل لیلۃ وقال ابو حاتم محلہ الصدق قبل ان یختلط وقال النسائی ثقۃ فی حدیثہ القدیم لکنہ تغیر وروایۃ شعبۃ والثوری و حماد بن زید عنہ جیدۃ انتہیٰ))
’’عطاء بن سائب ثقفی ہیں، ابو زید ان کی کنیت ہے کوفے کے رہنے والے ہیں، علماء تابعین میں سے ایک عالم ہیں۔ عبد اللہ بن ابی اوفی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور اپنے والد اور ایک جماعت سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ اور ان سے سفیان اور شعبہ اور افلاس روایت کرتے ہیں۔ آخر میں ان کے حافظہ میں تغیر آ گیا، اور بد حافظہ ہو گئے، امام احمد بن حنبل نے کہا، جن ثقات نے ان سے قبل میں حدیث سنی ہے، وہ صحیح ہے، اور جن ثقات نے بعد میں سنی ہے، وہ کچھ نہیں۔ اور یحییٰ رحمہ اللہ نے کہا عطاء بن سائب قابل احتجاج نہیں ہیں۔ اور احمد بن ابی خثیمہ نے یحییٰ رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ جو حدیث ان سے شعبہ و سفیان نے سنی ہے، اس کے سوا جو ان کی حدیث ہے، وہ ضعیف ہے، اور یحییٰ بن سعید رحمہما اللہ نے کہا کہ حماد بن زید نے بھی عطا بن سائب سے اُن کے اختلاط یعنی تغیر کے قبل سنا ہے، اور امام بخاری نے کہا کہ عطاء بن سائب کی قدیم حدیثیں صحیح ہیں، اور امام احمد بن حنبل نے کہا، عطاء بن سائب ثقہ ہیں، وہ ایک صالح شخص ہیں، جن ثقات نے ان سے قبل میں حدیث سنی ہے، وہ صحیح ہے، اور یہ ہر رات قرآن ختم کیا کرتے تھے، اور ابو حاتم نے کہا عطاء بن سائب اس اختلاط کے قبل سچائی کے محل تھے۔ اور نسائی نے کہا عطاء بن سائب اپنی قدیم حدیث میں ثقہ ہیں۔ لیکن بعد میں ان میں تغیر آ گیا تھا۔ اور شعبہ اور سفیان ثوری اور حماد بن زید نے جو حدیثیں ان سے روایت کی ہیں، وہ اچھی ہیں۔‘‘
چھٹی روایت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت پڑھایا کرے۔ اور اس روایت کے آخرمیں یہ بھی لکھا ہے کہ ((فی ھذا الاسناد ضعف)) یعنی اس روایت کے اسناد میں ضعف ہے، یعنی اس کی سند ضعیف ہے، اس روایت کی عبارت مع سند یہ ہے۔
((اخبرنا ابو عبد اللّٰہ بن فنجویۃ الدنیوری ثنا احمد بن محمد بن اسحٰق السنی ثنا احمد بن عبد اللہ البزار ثنا سعدان بن یزید ثنا حکم ابن مروان السلمی انبأ الحسن بن صالح عن ابی سعدن البقال عن ابی الحسناء ان علی بن ابی طالب امر رجل یصلی بنا خمس ترویحات عشرین رکعۃ وفی ھذا الاسناد ضعف ۱ھ))
اس روایت کا جواب کو خود اسی روایت کے آخر میں مذکور ہے کہ ((فی ھذا الاسناد ضعف)) یعنی اس روایت کی سند ضعیف ہے، اس سند کے ضعف کی چند وجوہ ہیں۔ ازا نجملہ ایک وجہ یہ ہے کہ اس روایت کی سند میں ایک راوی ابو سعد بقال ہیں، اور وہ اس درجے کے ضعیف ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے علم میں کسی نے بھی ان کی توثیق نہیں کی ہے، ومعہذا یہ مدلس بھی ہیں، اور یہ روایت انہوں نے عن کے ساتھ کی ہے، اور جب راوی مدلس عنعنہ کرے، یعنی عن کے ساتھ روایت کرے تو اس کی وہ روایت صحیح نہیں ہوتی اگرچہ وہ روی ثقہ کیوں نہ ہو تو جب وہ راوی غیر ثقہ ہو جیسے ابو سعد بقال تو اس کی روایت کیونکر صحیح ہو گی۔ یعنی اس کی تو بطریق اولیٰ صحیح نہ ہو گی۔ الحاصل یہ چھٹی روایت بھی صحیح نہ نکلی، تقریب صفحہ ۹۴ میں ہے۔
((سعید بن مرزبان ابو سعدن البال ضعیف مدلس))
’’ابو سعد بقال جن کا نام سعید اور باپ کا نام مرزبان ہے، ضعیف ہیں، اور مدلس بھی ہیں۔‘‘
اور خلاصہ صفحہ ۱۴۲ میں ہے۔
((سعید ابن المرزبان ابو سعدن البقال قال النسائی ضعیف قال الذھبی وما علمت احد او ثقہ))
’’ابو سعد بقال جن کا نام سعید اور باپ کا نام مرزبان ہے، نسائی نے کہا ضعیف ہیں۔ اور علامہ ذہبی نے فرمایا جہاں تک میں جانتا ہوں۔ ان کو کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے۔‘‘
واذان جملہ ایک وجہ یہ ہے کہ اس روایت کی سند میں ایک راوی ابو الحسنا بھی ہیں۔ جو ابو سعد بقال مذکور کے شیخ ہیں، اور حضرت علی سے اس اثر کے روایت کرنے والے قرار دئیے گئے ہیں۔ ابو الحسناء میں جو کلام ہے۔ رسالہ میں مفصل بیان ہو چکا ہے (صفحہ ۲۳ میں ملاحظہ ہو۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر یہ وہی ابو الحسناء ہیں، جو تقریب التہذیب میں مذکور ہیں۔ تو اولاً تو ان کو حضرت علی سے لقا ہی نہیں ہے، پس یہ روایت بوجہ منقطع السند ہونے کے صحیح نہ ٹھہری، ثانیاً یہ ابو الحسناء مجہول بھی ہیں۔ اس وجہ سے بھی یہ روایت صحیح ثابت ہوئی، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔(کتبۂ محمد عبد اللہ الغازی فوری)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب