السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کتنے گواہ ہوں کہ روزہ کے بارہ میں ان کی رؤیت کا اعتبار ہو سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آج کل بعض تجدد پسند حضرات کی طرف سے یہ آواز اٹھ رہی ہے، کہ چاند کا مسئلہ رؤیت کے بجائے فلکی حساب سے حل کیا جائے، تاکہ عید و رمضا ن میں وحدت پیدا ہو سکے۔ ہم اس رائے اور ذہن کی تردید شرعی نقطہ نظر سے الاعتصام میں متعدد مرتبہ کر چکے ہیں۔ حال ہی میں ادارہ تحقیقات اسلامی کے آرگن ماہنامہ فکر و نظر (شمارہ ستمبر) میں بی اس سلسلے میں مولانا عبد القدوس ہاشمی صاحب کا ایک نہایت فاضلانہ اور مدلل مضمون شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے عقلی اور نقلی دلائل سے مسئلے کو خوب حل کیا ہے، اللہ تعالیٰ فاضل مضمون نگار کو جزائے خیر دے ہم مذکورہ رسالے کے شکریے کے ساتھ افادہ عام کی غرض سے یہ فاضلانہ مضمون الاعتصام میں شائع کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ قارئین دل چسپی اور غور سے پڑھیں گے۔ اور تشکیک پسند متجدد دین اس کی روشنی میں اپنے ذہنوں کو یک سو کر سکیں گے۔ (مولانا عبد القدوس صاحب ہاشمی مہتمم کتب خانہ ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد)
قمری مہینوں کے لیے ابتداء کی تعین کا مسئلہ ایک مدت سے موضوع بحث بنا ہوا ہے، رمضان شریف کی ابتداء عید الفطر کے دن کی تعیین اور حج کی تاریخ کا متعین کرنا ایک مسئلہ ہے، جس پر بڑی مدت سے بحث ہو رہی ہے، اور بعض یہ چاہتے ہیں کہ اس کو اسی طرح قائم رکھا جائے جیسے عہد رسالت سے اب تک قائم ہے، اور بعض یہ چاہتے ہیں کہ اس کے لیے ایک دوامی کیلنڈر شمسی مہینوں کی طرح بنا لیا جائے، اس طرح ایک ہی وقت میں ہر جگہ رمضان شروع ہو گا۔ ایک ہی دن سب جگہ عید ہوا کرے گی، اور یہ بات ختم ہو جائے گی کہ مختلف ملکوں بلکہ مختلف شہروں یا ایک ہی شہر کے مختلف حصوں میں رمضان کی ابتداء مختلف دنوں میں ہے، اور عید کی نماز مختلف دنوں میں ادا کی جائے۔
یہ مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ بڑا قدیم مسئلہ ہے، تیسری صدی ہجری سے اس کی بار بار کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ اور قوت و سلطنت کے بل بوتے ہر فاطمی خلفاء مصر نے ایک ایسا کیلنڈر بنا بھی لیا تھا۔ جو اب تک ان لوگوں میں جاری ہے، جو ان خلفاء کو مذہبی پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ امام کا درجہ دیتے ہیں۔ سائئس فلکیات میں علم انسانی کی جدید ترقیاں بہت ہی قابل قدر ہیں۔
اور یقینا بہت سی باتیں جوا ب ہمیں معلوم کیں۔ پہلے معلوم نہ تھیں۔ لیکن اس سے یہ قیاس کر لینا صحیح نہیں ہے کہ منازل قمر اور چاند کی زمین کے گرد گردش بھی آج معلوم ہوئی ہیں۔ چاند کی زمین کے گر د گردش اور منازل اور منازل قمر کے حسابات ہجری تاریخ کی تعیین سے ہزاروں سال پہلے بابلی تمدن کے زمانہ ہی میں انسانوں نے معلوم کر لیے تھے۔ اور بالکل صحیح طور پر حساب لگا لیا گیا تھا۔ کہ چاند کب شروع ہو تا ہے، کب دکھائی دیتا ہے، اور کب عماق میں آ کر ناقابل دید ہو جاتا ہے، ہندوستانی ماہر فلکیات نے بھی بابل کے بعد اس پر قابل قدر کام کیا تھا۔ اور پیدائش قمر، ظہور، قمر، نچھتر، عماق وغیرہ کا صحیح حساب لگا لیا تھا۔ قرآن مجید کے نزول تقریباً (۶۱۔۶۳۲ء) سے ہزاروں ہی سال پہلے سے انسانی علم پیدائش قمر ظہور، قمر (چند رمان دوج) اور منازل قمر وغیرہ کی تعین کر چکا تھا۔ قرآن مجید میں بھی منازل قمر کا ذکر سورۃ یونس کی پانچویں آیت میں موجود ہے۔ عہد صحابہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان بھی اس سے بالکل ناواقف نہ تھے، اس کا ثبوت بھی قرآن مجید کی متعدد آیتوں سے مل جاتا ہے، اور جاہلی اشعار و ضرب الامثال سے بھی اس کا پتہ لگتا ہے، غرض یہ کہ اب تک جو یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا، تو اس کی وجہ چاند طلوع و غروب سے متعلق انسانی علم کا فقدان نہ تھا، آج کے اتنا نہ سہی لیکن اس قدر علم انسان حاصل کر چکا تھا۔ کہ وہ حساب کے ذریعہ اس کی تعیین کر سکتا تھا۔ اور مسلمان ماہرین نے عملاً مختلف اوقات میں اس کے لیے زائچیں زائچیں بتائیں بھی۔ مگر رمضان و عید کے لیے ان کو عام طور پر قبول نہ کیا جا سکتا۔ اس کے اسباب بالکل دوسرے ہیں۔ ہم اس جگہ ان میں سے چند اسباب کا مختصر ذکر کرتے ہیں۔
(۱) کیا یہ ضروری ہے یا کم از کم یہ کوئی بڑا ہی اہم اور مفید کام ہو گا کہ ساری دنیا میں رمضان ایک ہی وقت میں شروع کیا جائے۔ اور عید الفطر ایک ہی وقت میں ہوا کرے۔
اس سوال کے جواب میں ہمیشہ یہ کہا گیا ہے، اور آج بھی یہ کہا جا سکتا ہے، کہ یہ محض طفلانہ ضد اور بال پٹ ہے، نہ یہ ممکن ہے، ورنہ اس سے کوئی مزید معمولی فائدہ حاصل ہو گا۔ رمضان کے روزے اور عید الفطر کی نماز عبادت ہے، اور عبادات میں وقت کی تعیین مقامی طلو ع وغروب کے مطابق ہوتی ہے۔ نہ مسلمانوں کے لیے یہ ممکن ہے، اور نہ عیسائیوں اور نہ دوسرے مذاہب والوں کے لیے نہ قمری کیلنڈر سے یہ ہو سکتا ہے، اور نہ شمسی کیلنڈر سے طلوع و غروب کا فرق مختلف مقامات کے مابین بالکل واضح اور صریحاً جیسی ہے مکہ مکرمہ سارے مسلمانوں کا مرکزی شہر ہے لیکن جس وقت وہاں صبح کی نماز ہوتی ہے، اس وقت جکارتہ (انڈونیشیا) کے مسلمان صبح کی نماز نہیں پڑھ سکتے۔ کیونکہ جکارتہ میں اس وقت آفتاب کافی بلند ہو چکتا ہے، اور سان فرانسسکو کے مسلمان تو شاید عشاء کی نماز سے بھی فارغ نہ ہو چکے ہوں گے۔ اور تو اور مسلمانوں کے دو مقدس ترین شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں جو صرف ۲۴۷ میل کے فاصلہ پر واقع ہیں۔ صبح کی اذان ایک ہی وقت میں نہیں ہوتی اور نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح عیسائیوں کی مذہبی تقریب عشائے ربانی جس وقت شہر کینبرا میں منعقد ہوئی ہے، اسی وقت لنڈی یا ڈبن میں نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے، کیپ ٹائون کے عیسائی جس وقت کرسمس کی عبادت کے لیے گرجائوں میں جمع ہوتے ہیں۔ سان فرانسسکو یا ونیزولا کے عیسائی نہیں جمع ہوتے، اور نہیں ہو سکتے۔ کسی نقشہ عالم میں دیکھ لیجئے۔ ۱۸۰ درجہ کے خط عرض البلد سے ایک طرف اتوار اور دوسری طرف (پیر) (سوموار) لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے، طلوع و غروب کے فرق سے دو مقامات کے اوقات میں بارہ گھنٹے تک اختلاف ہو جاتا ہے۔
بالکل یہی حال دوسری قوموں کی عبادت کا ہے، بنارس کا ایک ہندو جس وقت شنکرت کا اوپاس شروع کرتا ہے، ڈرین یا کیپ ٹائون میں رہنے والے ہند ٹھیک اسی وقت او پاس نہیں شروع کر سکتا۔ یہودی تو بہت ہی سخت تنظیم رکھنے والی قوم ہے، اور حساب کتاب بھی اس کی درجہ بہت بلند ہے، لیکن اس کے باوجود یہ بھی نہیں ہوتا۔ اور نہ ایسا ہونا ممکن ہے کہ صوم کبور کی ابتداء ہل سنکی کا یہودی تل ابیب کے وقت کے مطابق کر سکے۔ کیونکہ مطالع کا فرق اس کی اجازت نہیں دیتا نہ صومعات میں عبادتیں ایک وقت میں ہوتی ہیں۔ اور نہ صوم کبور اور فسیح ایک ہی وقت میں ہوتا ہے۔
دنیا کی اس صورت حال پر غور کرنے کے بعد سوچئے کہ ہماری یہ تمنا کہ ہماری نمازیں سب جگہ ایک ہی وقت میں ہوں۔ اور ہمارے روزے سب جگہوں میں ایک وقت شروع ہو جائیں۔ کیسی معصوم طفلانہ تمنا نظر آتی ہے، اس تمنا کو کیا نام دیا جائے۔
اب ذرا دوسری طرف غور کیجئے۔ کیا ساری دنیا کے مسلمانوں کو رمضان و عید کے لیے ایک ہی کیلنڈر دے کر بلکہ ایک ہی نظام الاوقات دے کر، اور مطالع کے اختلافات کو نظر انداز کر کے ہم کوئی بڑی مفید خدمت انجام دیں گے۔ اور کسی بہت ہی مضر نقص کی تکمیل لے کر دیں گے۔ گئے رمضان کے روزے ۲ ہجری میں فرض ہوئے تھے، اور پہلی نماز عید ۲ ہجری میں بمقام مدینہ منورہ کے ایک میدان میں ادا کی گئی تھی۔ چند سال تک تو مسلمان صرف مدینہ منورہ ہی میں تھے، رسول اللہ ﷺ چاند کے ظہور حسی کے بموجب رمضان و عید کیا کرتے تھے، اس کے بعد عرب کے متعدد قبائل مسلمان ہو گئے، اور وہ سب اپنی اپنی جگہ پر مقامی مطلع کے بموجب چاند دیکھ کر رمضان اور عید کیا کرتے تھے۔ اور ان میں اختلاف بھی ہو جاتا تھا۔ کہیں رمضان یکشنبہ کو شروع ہوتا۔ اور ہیں دو شنبہ کو۔ کہیں عید سہ شنبہ کو ہوتی اور کہیں دو شنبہ کو۔ اس زما نہ سے اب تک ہم ۱۳۹۲ھ رمضان اور عید کر چکے ہیں۔ اور یہی سادہ سا طریقہ چاند دیکھ کر روزے شروع کرنے کا اور چاند دیکھ کر عید کرنے کا رائج رہا ہے، کوئی بتا سکتا ہے، کہ اس کی وجہ سے تفریق کلمۃ المسلمین یا اور کوئی مضر اثرات پیدا ہوئے ہیں۔ آخر وہ کون سا مضرت رساں نقص ہے، جس کی تلمیل کے لیے یہ بے تابی اور جگر کا دہی ہو رہی ہے، خود عہد رسالت میں ۱۰ ہجری میں مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں ذیقعد اور ذی الحجہ کے چاند میں اختلاف رؤیت ہو گیا۔ جس کے نتیجہ میں حجتہ الوداع میں قیام عرفہ جمعہ کے دن واقع ہوا۔ حالانکہ مدینہ منورہ میں ۹ ذی الحجہ شنبہ کے دن تھا۔ آخر اس سے خرابی کیا واقع ہوئی۔ صبح ایک عباست ہے، جس کا تمام تر تعلق مکہ مکرمہ، اور اس کے قریب واقع ہونے والے منیٰ۔ مزدلفہ اور عرفات سے ہے، اس میں مکہ کے مقامی مطلع کو معتبر سمجھا گیا اور ہمیشہ کے لیے مکہ کا مقامی طلوع و غروب ہی معتبر سمجھا جا رہا ہے، عقلاً و عملاً ایسا ہی ہونا چاہیے، اور یہی ہوا۔
اب آج اگر کوئی یہ کہے کہ طنجہ میں صبح ہوتی ہی نہیں جب خاص عرفات میں پہنچ جاتے ہیں، اور مراکش میں غروب آفتاب کو گھنٹوں باقی رہتا ہے، جب حاجی عرفات سے روانہ ہو کر مزدلفہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ اس لیے کسی حاجی کا حج صحیح نہیں ہوتا۔ تو اس آدمی کی عقل و دانش کو کیا کہیں گے؟ یا کوئی یہ سوچے کہ جب حاجی عرفات میں جا پہنچتے ہیں۔ اس وقت انڈونیشیا کے جزیرہ تیمور میں نہ صرف زوال آفتاب ہو چکتا ہے، بلکہ ظہر کا وقت بھی ختم کے قریب ہوتا ہے، اور عرفات میں جب ظہر کی نماز ہوتی ہے اس وقت شنگھائی میں رات ہوتی ہے اس وجہ سے امت اسلامیہ کی یک جہتی اور اتفاق میں خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے تو اس دانشور کی دانش وری کے سوا کوئی اور کیا کر سکتا ہے۔
یہ کیسی دانشوری اور جدت پسندی ہے، کہ ایک بے فائدہ اور محض طفلانہ ضد کی تکمیل کے لیے ہم قدرت کے بنائے ہوئے نظام سے ٹکر لیں، اور منہ کی کھائیں۔ روزے اور عید کسی ایک مقام سے متعلق عبادتیں نہیں ہیں۔ یہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ہیں۔ اور عملاً ساری دنیا میں مسلمان روزے رکھتے ہیں۔ اور عید الفطر کے دو گانے ادا کرتے ہیں۔ اب اگر ہم رصد گاہوں کی امداد سے اور حسابی نتائج کے رو سے ایک وقت مقرر کر دیں گے۔ تو کیا یہ خود عمل ایک بہت بڑے اختلاف کا دروازہ نہیں کھول دے گا۔ بلکہ عبادات میں بے جا دخل اندازی کی راہ نہیں ہموار کرے گا۔
ذرا سوچئے: کہیں ایسا تو نہیں ہو گا۔ کہ ہم اس طرح امت مسلمہ کی خدمت انجام دینے کی بجائے اس کو نقصان پہنچانے کا سبب بن جائیں گے۔ ایک ملک میں بلکہ ایک ہی شہر میں بھی اگر دو عیدیں ہو جائیں۔ تو برا سا معلوم ہوتا ہے، لیکن صرف یہ ظاہر برا معلوم ہوتا ہے، اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ اور نہ آج تک کوئی نقصان پہنچا ہے۔
اگر اس بد نمائی کو ختم کرنے ہی کا عزم ہے، تو ہر شہر اور ہر ضلع میں رؤیت ہلال کا مناسب اور قابل اعتماد انتظام کافی ہے، وہ بھی اس حد تک کہ مقامی طور پر رؤیت ہلال کی شہادت مہیا کی جائے۔ اور اس شہادت کو اگر وہ قابل قبول بنیاد بنا کر اس شہر یا ضلع میں رمضان و عید کے متعلق فیصلہ کر دیا جائے۔ اس کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کہ طبرانی میں رؤیت ہلال کی شہادت پر زہدان والوں کو رمضان کی ابتداء کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اور نوشکی کی شہادت پر عہد کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ مملکتوں کے سیاسی حدود طلوع و غروب کے حدود نہیں ہیں زہدان سے نوشکی کا فاصلہ طہران سے زہدان کے فاصلہ سے بہت کم ہے، رمضان اور عید کسی مملکت کے انتظامی امور نہیں کہ اس میں حدود مملکت کو معتبر قرار دیا جائے، اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کہ رمضان کے روزے پشاور میں چہار شنبہ ۱۸ ستمبر کو شروع ہو جائیں، اور کراچی میں پنچ شنبہ ۱۹ ستمبر کو شروع ہوں۔ نہ اس سے کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے، اور نہ اس سے کسی نقصان کا اندیشہ ہے، اس لیے سب جگہ کے لیے ایک وقت میں رمضان و عید شروع کرانے کی ہر کوشش کو فوراً ختم کر دینا چاہیے۔ مسلمانوں کو باہم مل کر کرنے کے اور بہت سے کام ہیں۔ جن کی طرف توجہ مبذول ہونی چاہیے۔ اس طفلانہ اور عنبر دانشورانہ کام میں وقت اور توانائی کے ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
(۲) شریعت اسلامی کے بموجب شہر رمضان کسے کہتے ہیں:
قرآن مجید میں ہے۔
﴿شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ﴾
’’رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا۔‘‘
﴿ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْهُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّةَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ (سورة بقرة آیت ۱۸۵)
’’قرآن ہدایت ہے، ہدایت اور اعجاز کی تین دلیلیں ہیں۔ تو جو تم میں سے اس مہینہ میں موجود ہو اسے چاہیے کہ اس ماہ کے روزے رکھے، اور جو مریض ہو یا سفر میں ہو تو اتنے ہی روزے دوسرے دنوں میں رکھ لے اللہ تعالیٰ تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے، اور نہیں چاہتا کہ تم پر تنگی ہو۔ چاہیے کہ اتنی ہی گنتی پوری کر دو۔ اور اللہ تعالیٰ نے تم کو جو ہدایت دی ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو۔ اور تاکہ تم شکر گذار ہو جائو۔‘‘
اس آیت سے پہلے کی آیت ۱۸۴ میں بھی روزوں کی فرضیت کا بیان ہے، اور اس کے بعد کی تین آیتوں میں بھی روزہ ہی کے متعلق احکام و ہدایات ہیں۔ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس رمضان کے مہینہ میں روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ وہ وہی رمضان ہے، جس میں قرآن مجید کا نزول ۶۱۰ عیسوی گریگوری میں ہوا تھا۔ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ وہ رمضان کیا پیدائش قمر (برتھ آف نیو مون) سے شروع ہوا تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے اور اُن کے صحابہ کرام نے رمضنان کا شمار پیدائش قمر سے کیا تھا۔ یہ تو معلوم ہے کہ پیدائش قمر ستر ہلال سے بہت سے گھنٹے پہلے ہوتی ہے اور آج ہی نہیں اس وقت بھی لوگوں کو معلوم تھا۔ لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پیدائش قمر سے ماہ رمضان کی ابتداء نہ اس وقت کی گئی تھی۔ اور نہ اب کی جاتی ہے، رسول اللہ ﷺ سے یہ روایت صحیحہ حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
(۱) ((الا لا تقدموا الشھر اذا رأیتم الھلال فصوموا واذا رأیتموہ فافطر وافان غم علیکم فاکملوا العدة)) (مسند اھل البیت)
خبردار:… ماہ رمضان کو آگے نہ بڑھائو، جب چاند دیکھو تو روزے رکھو۔ اور جب چاند دیکھ لو تو افطار کرو۔ اگر چاند پر بادل ہو۔ اور نہ دیکھ سکو تو شعبان کی گنتی۹ ۳۰ دن پوری کرو۔
(۲) ((الشھر تسع عشرون فلا تصومو حتی تودہ فان غم علیکم فاکملوا العدة ثلٰثین)) (صحیح البخاری ص ۲۵۶)
’’مہینہ ۲۹ دنوں کا ہوتا ہے۔ جب تک چاند نہ دیکھو روزے نہ رکھو اگر چاند نہ دکھائی دے تو تیس کی گنتی پوری کر لو۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
((عن ابی عبد اللہ علیہ السلام انه قال کان علی صلوت اللّٰہ علیه یقول لا اجیز فی الھلال الا شہادة رجلین مدلیین وفی روایة ولیس بارای ولا بالتظنی)) (کافی کلینی ص ۳۶۰)
’’حضرت ابو عبد اللہ امام حسین علیہ السلام سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا حضرت علی صلوات اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میں چاند کے بارے میں دو عادل آدمیوں کی شہادت کے بغیر فیصلہ نہیں کروں گا۔ اور ایک میں ہے، کہ یہ رائے اور ظن سے نہیں ہو گا۔‘‘
یہ صرف تین روایتیں طول کلام سے احتراز کے لیے نقل کی گئیں ہیں۔ ورنہ احادیث میں ایسی بہت سی صحیح روایتیں موجود ہیں جن میں ماہ رمضان کو مقدم کرنے کی ممانعت ی گئی ہے، اور چاند دیکھ کر رمضان کے شروع و ختم کرنے کی تاکید موجود ہے۔ بہرحال یہ بات یقینی ہے کہ جس رمضان میں قرآن مجید کی ابتداء ہوئی تھی۔ یا وہ رمضان جس میں ۲ ھ میں روزہ فرض کیا گیا تھا۔ وہ پیدائش قمر (برتھ آف نیو مون) سے نہیں شروع ہوئے تھے۔ اب اگر ہم یہ کر سکتے ہیں کہ فرمان و عمل نبوی ﷺ اور عمل صحابہ رضی اللہ عنہ سب سے اختلاف کر کے رمضان کی ایک یا دو دن پہلے ابتداء کر دیں تو آخر اس تکلف کی کیا ضرورت ہے، بہرحال فروری کے مہینہ کو کیوںنہ رمضان قرار دے لیں ۲۷ ہجری کا رمضان مدینہ منورہ میں ازروئے حساب گریگری ۲۵ یا ۲۶ فروری کو ہی شروع ہوا تھا۔ اس طرح یہ بھی فائدہ رہے گا۔ کہ رمضان کبھی سخت گرمیوں میں پڑتا ہے، اور کبھی برسات میں۔ فروری کو اگر رمضان قرار دیا جائے تو ہمیشہ سردیوں میں اور، اور بڑے نرم دنوں میں اور سے پڑا کریں گے۔ اور روزے بھی ۲۸ ہی رکھنے پڑھیں گے کیا مسلمان اپنی عباست کے مہینہ رمضان میں یہ تبدیلی پسند کریں گے اور اگر خدانخواستہ مسلمان یہ کر لیں تو یہ خدا اور رسول ﷺ کے حکم سے صریح رو گردانی اورعصیان نہ ہو گا۔ اس بغاوت کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ مسلمان خدا اور رسول ﷺ کے فرمانبردار بھی رہ جائیں گے، ۳، پیدائش قمر(برتھ آف نیو مون) کیا ہے۔
قدرت نے یہ نظام جس طرح قائم کیا ہے، وہ یہ ہے کہ چاند اپنے محور پر حرکت کرنے کے علاوہ زمین کے گرد بھی حرکت کرتا ہے، اور اپنی یہ حرکت ۲۹ دن اور چند گھنٹے میں پوری کر لیتا ہے، یعنی زمین کے گرد ایک پورا چکر اتنے دنوں میں تمام کرتا ہے، اس مدت کو اصطلاحاً قمری مہینہ کہا جاتا ہے، اس مدت میں چاند تقریباً ۶۲ گھنٹے دائرے کے ایسے مقام پر ہوتا ہے، جہاں سے سورج کی روشنی اس پر پڑ کر جب عکس ہوتی ہے، تو زمین پر نہیں پہنچتی۔ اس قدرت کا اصطلاحی نام محاق ہے اس مدت میں زمین والوں کو چاند کسی طرح دکھائی نہیں دیتا۔ چاند ہوتا ہے، اپنے مدار ہی پر اور جو زپر (ایک فرضی دائرہ) کے اندر ہی اور سورج کی کرن اس پر پڑتی ہی رہتی ہے، مگر انعکاس ضؤ جس زاویہ پر ہوتا ہے، وہ زمین سے الگ ہوتا ہے، کسی اور ستارہ سے دیکھا جائے یا زمین سے اتنے فاصلے سے دیکھا جائے کہ زمین کا سایہ حائل نہ ہو تو چاند اس مد ت میں بھی چمکتا ہی نظر آئے گا۔ البتہ زمین سے یہ نظر نہیں آ سکتا چاند جب یہ فاصلہ تقریباً ۶۲ گھنٹے میں طے کر چکتا ہے، اور اپنے مدار پر اس جگہ پہنچ جاتا ہے، جہاں سے اس پر پڑنے والی سورج کی کرنیں منعکس ہو کر زمین پر پڑنے لگتی ہے، تو اس وقت کو چاند کی پیدائش کا وقت (برتھ آف نیو مون) کہتے ہیں، سنسکرت میں اسے سوم جنم کہا جاتا ہے، دن کے وقت سورج کی روشنی کی وجہ سے چاند دکھائی نہیں دیتا اسی طرح شفق کی روشنی بھی رؤیت ہلال سے روکتی ہے، اس لیے پیدائش قمر کے بعد جن جن مقامات پر غروب آفتاب اتنی دیر کے بعد ہوتا ہے کہ چاند مقامی افق پر کم از کم ۱۲ درجہ بلند ہو چکا ہو۔ وہاں سے نئے قمری مہینہ کا چاند دکھائی دہتا ہے، اور جہاں کے افق پر چاند کے ۱۲ درجہ بلند ہونے سے پہلے سورج غروب ہو چکا ہوتا ہے، وہاں چاند شفق کی سرخی کے پیچھے پڑ جاتا ہے، اور دکھائی نہیں دیتا ہے، چونکہ یہ شب چاند کی پیدائش کے بعد دوسری شب ہوتی ہے، اس لیے اس کو چند رمان دوج کہا جاتا ہے، اور امید کی جاتی ہے کہ رؤیت ہلال اس شام کو ہو گی۔ ہندی کے ایک شاعر کا مشہور شعر ہے۔ ؎
آج چند رمان دوج ہے جگ جتوت ادہ کی اور
مور سے دور دامننر کے نہیں ہوئے اک ٹھہور
جیسے رویت ہلال کا وقت ساری زمین کے ہر افق پر ایک نہیں ہو سکتا، اور یہ ممکن نہیں ہو سکتا۔ کہ ساری دنیا میں رؤیت ہلال ایک ہی وقت پر ہو جائے بالکل اسی طرح پیدائش قمر کا وقت بھی ساری دنیا کے لیے ایک نہیں ہو سکتا زمین کا آدھا حصہ سورج کی محاذاۃ سے اور آدھا حصہ چاند کی محاذاۃ سے خارج ہوتا ہے، اس لیے پیدائش قمر کا وقت بھی مختلف حصہ زمین کے لیے مختلف ہوتا ہے، اس بات کو ذہن نشین کر کے سوچئے، اگر ہم رمضان کی ابتداء و انتہاء کے لیے رؤیت ہلال نہیں بلکہ پیدائش قمر کو نقطۂ آغاز قرار دیں تو نہ صرف یہ کہ ہم خدا اور رسول ﷺ کے صریح احکام کی نافرمانی کے مرتکب ہوں گے۔ بلکہ اس گناہ کے بعد بھی اختلاف مطالع کی وجہ سے اسی گرداب میں گرفتار رہیں گے۔ جو رؤیت ہلال میں اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، جہاں تک اوقات میں اختلاف کا تعلق ہے، اس میں ذرہ برابر فرق نہیں آئے گا۔ ہر افق کے لیے پیدائش قمر کا الگ الگ حساب کرنا پڑے گا۔ اور ایک ایسا جدول بنانا پڑے گا۔ جو بارہ گھنٹوں کئے باریک باریک فرق کو ہر ہر افق کے ساتھ ظاہر کر سکے۔
۴۔ اب ایک صورت اور رہ جاتی ہے، اس پر بھی لگے ہاتھوں غور کرتے چلیں وہ صورت یہ ہے، کہ ہم رمضان کے مہینہ کی ابتداء تو کریں ظہور قمر سے یعنی چند رمان کے جنم سے نہیں بلکہ چند رمان دوج سے لیکن اس کے حساب کو کافی قرار دیں رؤیت ہلال یعنی چاند دکھائی دینے کی شرط کو ختم کر دیں۔ ایسا طریقہ اختیار کرنے میں ہم دو قسم کے وبالوں میں مبتلا ہو جائیں گے، اول تو یہ کہ خدا اور رسول ﷺ کے حکم سے تجاوز بلکہ نافرمانی کے مرتکب ہوں گے۔ قرآن مجید میں جہاں صلوٰۃ کا لفظ آیا ہے، وہاں اس کی پوری ہیئت اور طریقہ کا ذکر نہیں ہے، اس کے یقین کہ کتنی رکعتیں کس وقت پڑھی جائیں گی۔ کس طرح پڑھی جائیں گی۔ ایک رکعت میں قیام ایک رکوع ایک قومہ دو سجدے وغیرہ وغیرہ یہ ساری تفصیلات ہمیں رسول اللہ ﷺ کے قول و عمل سے ملی ہیں۔ ہم اگر ان چیزوں میں سے سب کو یا کسی ایک کو بدل دیں تو وہ چاہیے کچھ کہلائے اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی بنائی ہوئی عبادت صلوٰۃ (نماز) نہیں ہو گی۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے رمضان شریف کے روزوں کا حکم دیا ہے۔ روزہ کیا ہوتا ہے، کیسے رکھا جاتا ہے، اور رمضان شریف کی ابتداء و انتہاء کیسے ہوتی ہے، یہ ساری باتیں ہم کر رسول اللہ ﷺ کے اقوال و اعمال سے حاصل ہوتی ہیں۔ اگر ہم اُن سے روگردانی کر کے کوئی اور طریقہ اختیار کریں گے۔ تو وہ رمضان نہیں ہو گا۔ اور نہ ہمارے روزے اللہ و رسول ﷺ کے بتائے ہوئے عبادتی روزے ہوں گے۔ ہم چاہیے اس کا کچھ بھی نام رکھ لیں۔ اسے عبادت نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ عبادت نام ہے، فرمانبرداری کا عقلی و عملی جولانیوں کا نام عبادت نہیں ہو سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی شخص ہر رکعت میں صرف ایک ہی سجدہ کرے، اور دوسرے سجدہ کو غیر ضروری قرار دے کر چھوڑ دے تو یہ نماز عبادت نہیں ہو گی۔ تعبدی امور میں اس قسم کی من مانی کرنے کی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔
دوسرا وبال جو اس طریقہ میں آتا ہے، وہ اختلاف مطالع یا پابندی کے ساتھ طویل جدولوں کی تیاری کا کام ہے، کرۂ زمین کے مختلف حصوں میں ظہور قمر کے وقت کی تعیین کرنی پڑے گی، ہم حساب کی مدد سے یقینا اس کی تعیین یقینی حد تک کر سکتے ہیں، لیکن یہ ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ ہر سال کے رمضان کی ابتداء میں زمین کا فاصلہ سورج سے یکساں نہیں رہتا۔ اور نہ محاذاۃ شمسی و قمری کی حالت ایک ہی رہتی ہے، اس لیے ہر سال کے علیحدہ اور جدید جدول بنانا پڑے گا۔ایک سال کے لیے جو جدول بالک صحیح ہو گا۔ وہ دوسرے اور تیسرے سال میں صحیح نہیں رہے گا۔ زمین کا مدار سورج کے گرد بیضوی ہے، گول نہیں ہے، کبھی زمین سورج سے قریب ہوتی اور کبھی بعید۔ قربی ہونے کی حالت میں محاذاہ کا دائرہ تنگ ہو جاتا ہے، اور بعید ہونے کی حالت میں پھیل جاتا ہے، اس کا اثر ظہور پر پڑتا ہے، زمین کی حرکت سورج کے گرد بھی سریع (تیز) ہوتی ہے، اور بھی لطبی و سست اس کا اثر پیدائش قمرپر پڑتا ہے، فاصلہ کے بدلنے سے انعکاس ضؤ متاثر ہوتا ہے، ان ساری باریکیوں پر قابو پا کر ہم اگر ہر سوال ایک نیا جدول بھی بنا بھی لیں۔ تو پھر ہمیں ہر مسلمان تک اس کے پہنچانے کی ایک لا ینحل وقت سے واسطہ پڑتا ہے، کیا ہم دور افتادہ جزیروں، دیہاتوں اور جنگلوں میں زندگی بسر کرنے والے سارے مسلمانوں تک جدول پہنچا سکیں گے۔ اگر نہیں تو پھر کیا ہو گا۔ شہروں کے رمضان اور ہوں گے، اور دیہاتوں کے اور پھر ان ساری پریشانیوں جگر کاویوں اور اللہ و رسول ﷺ کے احکام کی نافرمانیوں سے حاصل کیا ہوا۔ خلاصہ یہ کہ رمضان کے لیے ازروئے حساب چاند نکلنے کے وقت کی تعیین اور اس پر ساری دنیا کے مسلمانوں سے عمل کرانے کی تمنا محض بے فائدہ ناقابل عمل اور طفلانہ ضد کے سوا کچھ نہیں ہے، اس عمل سے فائدہ تو نہیں، البتہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، رمضان اور عید میں جو اختلاف وقت دکھائی دیتا ہے، اختلاف مطالع کی وجہ سے ہے، یہ باقی رہے گا۔ اس سے باقی رہنے سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی او رکبھی پیدا نہیں ہو گی۔ البتہ اس کے مٹانے کی کوشش سے بہت سی خرابیوں کے پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے رمضان کی ابتداء و انتہاء دونوں رؤیت ہلال ہی سے ہونی چاہئیں اس کے خلاف ہر کوشش اللہ تعالیٰ و رسول اللہ ﷺ کے اقوال و اعمال کے خلاف ہے، ہمیں اس سے احتراز لازم ہے، اس سے اختراق امت کا اندیشہ ہے، اور اختلافات کے بڑے بڑے دروازے کھل جانے کے علاوہ عبادات اور دینی امور میں بے ضرورت دخل اندازی پر دانشوری کے مدعیوں کی جرأت اور بڑھ جائے گی۔ جو ہمارے لیے کس طرح مفید نہیں ثابت ہو سکتی۔ حسابات کے ذریعہ ہم یہ کر دیں گے۔ کہ چاند کس مقام پر کب اور کس وقت دکھائی دے گا۔ لیکن یہ یقین ہم نہیں دلا سکتے کہ حقیقتاً اس مقام پر چاند ضرور دکھائی دے گا، اور جب نہیں دکھائی دے گا۔ تو اس جگہ جدول کے خلاف لوگ ایک طوفان برپا کر دیں گے اور ایک جدید قسم کے فتنہ سے امت مسلمہ کو دوچار ہونا پڑے گا۔ اگر ابتداء رمضان کے لیے رؤیت ہلال کی شرط ہم مٹا دیں، تو ہم فرمان نبوی ﷺ اور عمل صحابہ رضی اللہ عنہ کی صریح مخالفت کے مرتکب ہوں گے، اور فائدہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ حج کا تعلق ایک ہی افق سے ہے، اور حاجی ایک ہی جگہ جمع ہوتے ہیں، وہاں اگر حسابی طریقہ پر تاریخ حج کی تعیین کر دی جائے یا کر دی جاتی ہے، توحکومتی نظم و نسق اور ایک ہی جگہ سب کے جمع ہونے کی وجہ سے کام چل جاتا ہے، اگرچہ یہ طریقہ صرف حج کے لیے بھی خلاف سنت اور نہایت ہی مکروہ طریقہ ہے، مؤذن کا طویل وقت ہوتا ہے، پہلے کی طرح رؤیت ہلال کی شہادت لے کر اعلان کر دیا جائے یہی بہتر ہے، لیکن رمضان و عید کے لیے تو یہ طریقہ کبھی نہیں چل سکتا، ہر جگہ کے مسلمان روزے رکھتے اور نماز عید پڑھتے ہیں، سب کے لیے مقامی مطلع کو نظر انداز کر دینے کا یہ طریقہ نہ قابل قبول ہو سکتا ہے، اور نہ قابل قبول ہونا ہی چاہیے۔(الاعتصام جلد نمبر ۳۶ شمارہ نمبر ۹،۱۰، ۱۱، ۱۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب