السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رؤیت ہلال اگر ایک شہر میں ہو تو دیگر اہل امصار و بلاد کے لیے بھی اس کا اعتبار ہو گا یا خاص اسی شہر کے لیے کہ جہاں رؤیت ہوئی ہے، بصورت اول شہادت بذریعہ خبر تار برقی و خطوط و اخبار سماعی معتبر ہو گی یا نہیں۔ اوراس حالت میں شہادت قالب قبول کس طرح ہونی چاہیے۔ دوسری صورت میں جہاں رؤیت ہوئی ہے اس کے قرب و جوار کے امصار و قریٰ کے لیے وہ رؤیت قابل حجت ہو گی یا نہیں۔ اگر ہو گی تو کس قدر فاصلہ تک۔ یعنی جس شہر میں رؤیت ہوئی اس کے باہر اطراف میں کتنے فاصلہ تک وہ رؤیت معتبر سمجھی جائے گی۔ بینواتوجروا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ابن عباس کی حدیث کے موافق جو کہ کتب صحاح میں ہے۔ کہ ہر شہر والوں کا چاند دیکھنا معتبر ہے، دور شہر جو ایک ماہ کی مسافت پر ہو اس شہر کے واسطے اُن شہر والوں کی رؤیت معتبر نہیں ہے، اور شہر کے گرد و نواح والے سب اسی شہر کے حکم میں داخل ہیں، اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے گرد و نواح والوں کی شہادت سے روزہ رکھا۔ اور افطار کیا۔ ابو داؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے:
{ان رکباً جاؤا الی النبی ﷺ یشھدون اھم رأوا الھلال بالامس فامرھم ان یفطردا او اذا اصبحوا ان یغدوا الی مصلاھم}
’’کہ چند سوار رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور انہوں نے گواہی دی کہ ہم نے کل چاند کو دیکھا ہے، آپ نے حکم دیا کہ افطار کریں۔ اور کل کو عید گاہ کی طرف نکلیں۔‘‘
شہروں کی رؤیت کے اختلاف کا حکم بسبب مختلف ہونے مطالع کے ہے، اور مطلع کے مختلف ہونے کی ادنیٰ مسافت تخمیناً ایک ماہ ہے طحطاوی نے حاشیہ صراقی الفلاح میں لکھا ہے کہ مطلع کے مختلف ہونے کی وجہ سے رؤیت میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے۔ اور صاحب تجرید نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، اور یہ ہی مشابہ حق کے ہے، اس لیے کہ جدا ہونا چاند کا شعاء شمس سے مختلف ہوتاہے، بہ سبب مختلف ہونے اقطار کے جیسا کہ دخول وقت اور خروج وقت میں مشاہدہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ علم افلاک اور علم ہیئت میں ثابت کیا گیا ہے، مطالع کے مختلف ہونے کے واسطے ادنیٰ ایک ماہ کی مسافت کے قدر ہے۔ انتہیٰ۔ کما فی الجواہر ملخصاً اور زیلعی نے شرح کنز میں لکھا ہے اکثر مشائخ اسی پر ہیں کہ مطالع کا مختلف ہونا نہ اعتبار کیا جائے۔ لیکن صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اعتبار کیا جائے۔ اس واسطے کہ ہر قوم اپنی طاقت کے موافق مکلف اور اس کے معتبر ہونے پر یہ دلیل ہے کہ کریب سے نقل کیا گیا ہے۔ کہ ام الفضل نے اس کو معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا۔ اس نے کہا کہ میں ملک شام میںآیا۔ اور آپ کی حاجت کو پورا کیا۔ اور رمضان المبارک کا چاند طلوع قریب تھا، اور میں اُس وقت شام ہی میں تھا۔ پس میں نے جمعہ کی رات چاند دیکھا پھر میں رمضان کے آخر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف مدینہ کو آیا۔ اور اپنے چاند کا ذکر کیا۔ اور کہا کہ تم نے چاند کب دیکھا ہے۔ میں نے کہا ہم نے جمعہ کی رات کو دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا تو نے دیکھا ہے۔ میں نے کہا ہاں۔ اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا ہے۔ اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ تو آپ نے فرمایا ہم نے تو ہفتہ کی رات کو دیکھا ہے، اور ہم تو روزے رکھتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ ہمارے حساب سے تیس پورے ہو جاویں۔ اور یا ہم چاند کو دیکھ لیں۔ میں نے کہا کہ کیا آپ معاویہ کی رؤیت اور ان کے روزہ رکھنے پر کفایت نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا نہیں ہم کو رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم کیا ہے، فقہائے حنفیہ رؤیت ہلال کے بارے میں تار اور خط کی خبر معتبر نہیں جانتے۔ مگر نصوص شرعیہ اور آثار صحابہ اس پر دال ہیں کہ معتبر ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کسراں قیصر وغیرہ سلاطین کو جو ابلاغ کیا وہ سب خط خطوط ہی کے ذریعہ سے تھا اور وہ بھی خطوط ہی کے ذریعہ سے جواب روانہ کرتے تھے۔
اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اور بڑے بڑے سلف صالحین اہل اسلام جو آپس میں استفسار سائل کرتے تھے۔ تو یہ سب بذریعہ خط و کتابت کرتے تھے۔ اور ان کے جواب بھی بذریعہ خطوط ہی جاتے تھے۔ اور یہ سب صاحب بغیر کسی شک و شبہ کے ان پر عمل بجا لاتے تھے۔ اگر خطوط وغیرہ کو اعتبار نہ دیا جائے۔ تو رسول اللہ ﷺ کا ابلاغ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے، اور ان کے ساتھ ان کے جواب کے موافق کیوں معاملہ کیا جاتا تھا۔ اور جمیع اہل اسلام سلف و خلف سے کیوں فتویٰ مرسلہ پر عمل بجا لاتے تھے۔ اور تمام مصنفون رحمۃ اللہ علیہم کی تصنیف شدہ رسالوں اور کتابوں پر عمل کرنا کس طرح جائز ہو گا۔ اگر خط و کتابت کو اعتبار نہ کیا جائے تو تمام دین کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ چنانچہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر اس کو اعتبار نہ دیا جاتا تو آج اسلام ضائع ہو جاتا، کیونکہ کتاب اللہ کے بعد سنت رسول اللہ ﷺ انہی نسخوں میں موجود ہے۔ اور اس قاعدہ کی بنا پر کتب فقہ کا بھی اعتبار نہیں، اور اس کی تفصیل لکھنے کے واسطے بڑی کتاب چاہیے۔
(حررہ عبد الجبار بن الشیخ عبد اللہ الغزنوی عفی اللہ عنہما) (فتاویٰ غزنویہ جلد اول ص ۸۰۱، ۸۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب