سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) خبر اور شہادت کی بحث

  • 4070
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2177

سوال

(67) خبر اور شہادت کی بحث

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خبر اور شہادت کی بحث


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سال شعبان اور رمضان کی آخری تاریخوں میں آسمان ابر آلود تھا۔

مغربی پاکستان کے وسطی علاقوں میں چاند نظر نہ آسکا۔ رمضان کا چاند کراچی سے سکھر تک بڑی کثرت سے دیکھا گیا۔

آزاد کشمیر کے قریبی علاقوں میں مطلع صاف تھا۔ اور چاند نظر آ گیا تھا۔ چنانچہ تمام مکاتب فکر کے دانشمند لوگوں نے ریڈیو یا ٹیلی فون کی اطلاع پر روزہ رکھا۔ بعض حضرات کو صحیح اطلاع نہ پہونچ سکی۔ انہوں نے روزہ رکھا۔ بعض وہم پرست حضرات نے رکھے ہوئے روزے پھر مجمع میں تڑوا دئیے اور اسے دین کی بہت بڑی خدمت تصور کیا۔ رمضان کی آخری تاریخ کو عید کا چاند حسب بیان اخبارات لاہور اور کراچی میں چند آدمیوں نے دیکھا مقامی طور پر شہادت ہوئی۔ اس کی اطلاع دوسرے شہروں کو دی گئی اطلاع کے ذرائع وہی مشینی تھے کہیں کسی نے اصالۃً دریافت کر لیا۔ اطمینان کے بعد مغربی پاکستان کے اکثر حصوں میں عید ہو گئ۔ لیکن کراچی میں عید سرکاری حلقوں نے منائی۔ عوام سرکاری اطلاعات پر مطمئن نہیں ہو کسے۔ لیکن باقی اکثر شہروں میں اس شہادت کی اطلاع دے دی گئ۔ اور عام طور پر عید ہفتہ کے دن منائی گئی۔ لیکن بعض مقامات پر عید کے دن بدستور روزہ رکھا گیا۔ غرض عید کے موقعہ پر بعض حلقوں میں خاصی بے اطمینانی رہی، بعض ملا قسم کے بزرگوں نے اشتہار بازی سے اپنی شہرت کے لیے اچھا موقعہ تلاش کیا۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ بے اطمینانی ضرور ہوئی۔ اس بے اطمینانی کے اسباب میں سرکاری حلقوں کی ذمہ داری بھی کچھ نہ تھی۔ لیکن عموماً اس کا احساس نہیں فرمایا۔ جہاں خبر رسانی کے ذرائع موجود تھے، وہاں احساس ناپید تھا۔ اور جہاں احساس کی فراوانی ہے، وہاں ذرائع موجود نہ تھے،

قدرتی طور پر اس وقت کئی سوال پیدا ہوں گے۔ مثلاً

سوال (۱):… کیا تار۔ خط۔ ریڈیو۔ ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن وغیرہ خبر رسانی کے ذرائع شرعاً قابل اعتماد اور درست ہیں، جو واقعات ان ذرائع سے معلوم ہوں اُنہیں قبول کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

(۲):… رویت ہلال کے لیے شرعاً شہادت ضروری ہے یا خبر اور اطلاع پر بھی روزہ رکھا جا سکتا ہے؟

(۳):… عوام اگر مطمئن ہو کر عید منا لیں اور حکومت کے ادارے فیصلہ کر دیں تو کیا کسی شخص کے لیے انفراداً ان کی مخالفت درست ہے؟

جواب:… ان سوالات پر غور کرنے سے پہلے ایک حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے۔وہ یہ کہ اس قسم کے عوامی مسائل کی دراصل ذمہ داری حکومت پر ہے، ارباب حکومت کا مہذب اگر اسلام نہ بھی ہو تو بھی عوام کی ضرورت کے پیش نظر اس کا صحیح اہتمام ہونا چاہیے۔ اور اس طرح ہونا چاہیے جس سے عوام مطمئن ہوں، اور ان الفاظ سے ہونا چاہیے۔ جو اسلام نے اس کے لیے مقرر فرمائے ہیں ان لوگوں کی شمولیت سے ہونا چاہیے جن پر لوگوں کو مذہبی معاملات میں اعتماد ہو، اور وہ اس کی شرعی اہمیت کو سمجھتے ہوں ڈائریکٹر محکمہ موسمیات کراچی نے اپنے بیان میں فرمایا ہے۔

گو میرا فرض نہیں تھا۔ لیکن میں دونوں گواہ لے کر مولیٰنا احتشام الحق صاحب کے پاس گیا۔ یہ انداز گفتگو کیا ہے، جب آپ ایک ایسا اعلان فرماتے ہیں۔ جس سے بحیثیت مسلمان مولیٰنا احتشام الحق وغیرہم کا براہ راست تعلق ہے، پھر مولیٰنا احتشام الحق کی شخصیت ایسی ہے، جس پر عامۃ المسلمین کو اعتماد ہے، تو آپ ان کو اعتماد میں لیے بغیر کیوں اعلان فرماتے ہیں۔ اخلاقاً شرعاً اور بحیثیت ہیڈ آ ف ڈیپارٹمنٹ آپ کا فرض ہے کہ اعلان سے قبل ان حضرات سے رابطہ قائم کریں اور ان کو مطمئن کریں۔ ہم نے ڈائریکٹر محکمہ موسمیات اور مولیٰنا احتشام الحق صاحب کے اخباری بیانات پڑھے ہیں۔ ہمارا تاثر یہ ہے کہ چاند یقینا دیکھا گیا لیکن ان بیانات اور ان میں اختلاف سے اقتدار اور خود داری کی جنگ نمایاں ہے۔

علماء نے چاند نہیں دیکھا۔ عوام کے پاس وہ ذرائع نہیں جو محکمہ موسمیات کے پاس ہیں، تو اس صورت میں صحیح طریق کار یہ تھا کہ جہاں دو افسر دوربین سے چاند دیکھ رہے تھے، وہاں مولیٰنا احتشام الحق یا مفتی محمد شفیع صاحب بھی دوربین استعمال فرما لیتے۔ اس سے دوربین کا کون سا پرزہ گھس جاتا علماء کا اطمینان بہر حال محکمہ والوں کو کرا لینا چاہیے تھا۔ پھر یہ کیا الفاظ ہیں۔ کراچی میں چاند ہو گیا ڈھاکہ میں چاند نہیں ہوا۔ یہ الفاظ شرعی شہادت کے لحاظ سے قطعی مبہم ہیں۔ محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر مسلمان ہیں۔

انہیں معلوم نہیں کہ شہاد ت میں مبہم الفاظ کا استعمال نہ شرعاً درست ہے۔ نہ قانوناً اس کے لیے الفاظ واضح ہونے چاہیے۔ مثلاً چاند فلاں مقام پر دیکھا۔ فلاں فلاں صاحب نے خود دیکھا۔ وہ فلاں بزرگ ہیں۔

ان کا مختصر تعارف ہو جانا چاہیے، اس دفعہ جو بھی تھوڑا بہت انتشار ہوا ہے، اس میں محکمہ موسمیات کی بے اعتنائی کو زیادہ دخل ہے، وہ اگر بروقت ذمہ دار حضرات سے رابطہ قائم فرما لیتے تو نہ ان کو تکلیف ہوتی۔ نہ عید منانے کے سلسلہ میں ملک میں بے اطمینانی پیدا ہوتی۔ آپ غور فرمائیں۔ اگر سائنس دان چاند کو عبور کر کے اس سے کہیں آگے نکل جائیںتو رؤیت ہلال کی شرعی یا عرضی حیثیت میںکیا فرق پیدا ہو سکتا ہے، وہ تو بہر حال نظر آئے گا۔

اب پیش آمدہ سوالات کے متعلق شرعی مقاصد کے لحاظ سے عرض ہے۔ اصل چیز کسی اطلاع پر یقین اور ا طمینان ہے یہ اطمینان کسی طرح حاصل ہو جائے۔ شارع حکیم کا مقصد پورا ہو جاتا ہے، اگر حالات شہادت کے متقضی ہوں تو شہادت کی شرائط پوری ہونی چاہیں۔ اور اگر یہ مقصد کسی دوسرے طریق سے پورا ہو جائے، توذرائع کی بحث عبث ہے۔ اس میں بظاہر مکاتب فکر میں کوئی اختلاف نہیں۔ جن لوگوں نے رمضان یا عید کے چاند کی اطلاع کو صرف اس لیے رد کیا ہے، کہ ریڈیو تار یا ٹیلی فون کے ذریعے سے یہ اطلاع آئی۔ ان حضرات نے عقل و دانش سے جنگ لڑی ہے، اب یہ ذرائع ہماری زندگی کا جزو بن چکے ہیں، اور آئندہ روز بروز ان کا اعتبار بڑھ رہا ہے۔ جب ٹیلی فون پر ایک آدمی کی آواز پہچانتے ہیں۔ تو ٹیلی فون کی خبر پر بے اعتمادی کیوں کی جائے، کبھی کبھی چونکہ آوازیں مل جاتی ہیں۔ اس لیے حقیقت کو اوھام کی نذر کر دیا جائے۔ یہ فکر و نظر کے استعمال کا معقول طریقہ نہیں، یہ کس قدر غیر معقول بات ہو گی کہ ہم لوگ دنیا کے تمام معاملات میں ان چیزوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں، اور ان ذرائع سے آئی ہوئی خبر کو صحیح سمجھتے ہیں، جلسوں کی تواریخ کی اطلاع ڈاک سے ہوتی ہے، دوسرے ذرائع سے پیغام بھیجے جاتے ہیں، ہمیں ان کے قبول کرنے میں کوئی حجاب نہیں ہوتا، اور اکثر یہ اطلاعات صحیح ہوتی ہیں۔ پورا رمضان سائرن بجتا رہا۔ سب لوگ اس پر روزہ افطار کرتے رہے، حالانکہ سائرن کی آواز میں اشتباہ اور ابہام کی زیادہ گنجائش ہے، لیکن ریڈیو اور ٹیلی فون کے مخالف سائرن پر یقین کرتے ہوئے سحری بند بھی کرتے رہے، اور روزہ کھولتے بھی رہے، لیکن اگر چاند کے لیے یہ ذریعہ جھوٹا سمجھا جائے تو کس قدر غیر معقول بات ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ اس میں مغالطہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ مطلب یہ ہے ان تمام ذرائع میں قرائن اور احوال کی وجہ سے اگر ظن غالب ان خبروں کی صحت کے متعلق ہو جائے تو اسے قبول کرنا چاہیے۔ صرف اس لیے رد کر دینا کہ یہ خبر فلاں ذریعہ سے آئی ہے، قطعاً غیر معقول ہے۔

فقہائے اسلام کی نظر میں یہ شہادت علی الشہادت کی صورت ہو سکتی ہے، کسی مقام پر اگر ہلال رمضان دیکھا گیا تو ریڈیو نے اس شہادت کو نقل کر دیا۔ علامہ علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی م ۵۸۷ھ محدود بالقذف کے متعلق فرماتے ہیں۔

((روی ابو یوسف عن ابی حنیفة رحمه اللہ ان شہادته برؤیة الھلال لا تقبل والصحیح انھا تقبل و ھو روایة الحسن عن ابی حنیفه لام ذکرنا ان ھذا خبر ولیس بشہادة وخبرہ مقبول و تقبل شہادة واحد عدل علی فی ھلال رمضان ۱ھ البدائع والصنائع جلد ۲ ص ۸۱))

مقذوف کے متعلق حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے دو روایات ہیں۔

امام ابو یوسف فرماتے ہیں، یہ شہادت مقبول نہیں۔ حسن بن زیاد فرماتے ہیں، مقبول ہیں، کاسانی فرماتے ہیں، یہ صحیح ہے، فرماتے ہیں یہ خبر ہے، شہادت نہیں، ایسی خبر سے گویا رؤیت ہلال ثابت ہو سکتی ہے، نیز یہ ایک عادل گواہ پر دوسرے عادل گواہ کی شہادت ہلال رمضان کے متعلق قبول کر لی جائے گی۔ ۱ ھ

اس عبارت سے ظاہر ہے، جس طرح شہادت سے ہلال رمضان کی رؤیت ثابت ہو سکتی ہے، بعض حضرات کا شہادت کے لیے اصرار فقہاء کے مؤقف سے بے خبری پر مبنی ہے، عفا اللہ عنا وعنہم۔

اصل چیز قرائن ہیں۔ اگر ایک یا دو شہادتیں مل جائیں۔ لیکن اس کے ساتھ ایسے قرائن بھی مل جائیں جن سے ثابت ہو کہ یہ گواہ غلط کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ شہادت بھی مسترد ہو جائے گی۔ اصل چیز صحیح اطلاع ہے، ذرائع اصل بحث نہیں۔ اگر قرائن موجود ہوں، تو غیر عادل اور غیر ثقہ کی روایب بھی مقبول ہو گی۔ ضعیف اخبار کو کلیۃً مسترد نہیں کیا گیا۔

اصطلاحی شہادت پر اصرار اور خبر سے انکار کرنا منکرین حدیث کے ہاتھوں کو مضبوط کرے گا کیونکہ احادیث کا سارا سلسلہ ہی اخبار پر مبنی ہے، اگر خبر کو ساقط الاعتبار یا مشکوک سمجھا جائے، تو پورا فن حدیث غیر معتبر اور غیر مستند ہو جائے گا، احادیث کی صحت اور ضعف کا انحصار ثقہ یا کمزور راویوں کی اخبار اور اطلاعات پر ہے۔

رؤیت ہلال کے متعلق خبر کی حجیت اور استشہاد پر تمام فقہاء اور محدثین متفق ہیں، اس لیے ریڈیو اور ٹیلی فون وغیرہ کی خبروں کو کلی طور پر مسترد کر نا بے خبری کی دلیل ہے۔

البتہ جب شہادت کا موقعہ ہو تو شہادت ہی پر اعتماد ہو گا۔ غرض یہ ہے کہ واقعہ کی تصدیق ہو جائے۔ تصدیق کا ذریعہ کوئی بھی ہو۔ شہادت یا خبریہ اطلاع ریڈیو اور دوسری سرکاری محکموں میں کام کرنے والے عام طور پر متدین نہیں ہوتے۔ لیکن اس میں ان آلات کا کیا قصور ہے، یہ تو حکومت کا فرض ہے کہ وہاں متدین آدمی رکھے یا کم ز کم وہ اس قسم کے اعلانات متدین اور اھل علم حضرات سے کرائے۔

اس دفعہ بعض دیو بندی اور اکثر بریلوی دوستوں نے بے چارے ٹیلی فون اور ریڈیو کی جو درگت بنائی ہے، یہ معقول اور پسندیدہ طریق نہیں۔

۲:۔ خبر اور شہادت میں واقعی فرق ہے، لیکن جہاں تک کسی معاملہ کی تصدیق و توثیق کا تعلق ہے، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ فرق اس میں ہے کہ بعض لوگ اگر خبر دیں مقبول ہو گی۔ لیکن ان کی شہادت مقبول نہیں۔ اکیلی عورت شہادت نہیں دے سکتی۔ خبر دے سکتی ہے، اس لیے جہاں تک رؤیت ہلال کی توثیق اور تصدیق کا تعلق ہے، اس میں دونوں مفید اور مؤثر ہیں۔ لہٰذا شرعاً بعض مواقع میں رؤیت ہلال میں خبر سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اور بعض وقت شہادت شرعی کی ضرورت ہوتی ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک اعرابی نے آنحضرت ﷺ کو اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے، آپ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو فرمایا روزہ کا اعلان کر دو۔ فقہاء حنفیہ فرماتے ہیں، یہ شہادت نہیں خبر ہے۔

کاسانی فرماتے ہیں:

((لان ھذا لیس بشہادة بل ھو اخبار بدلیل ان حکمه یلزم الشاھد البدائع والصنائع)) (جلد ۲ ص ۸۱)

یہ شہادت نہیں بلکہ خبر ہے، کیونکہ اس کا اثر خبر دینے والے پر ہی پڑتا ہے، اسی طرح مقذوف اگر چاند کی شہادت دے تو قبول کر لی جائے گی۔ کیونکہ یہ خبر ہے، شہادت نہیں اس سے ظاہر ہے کہ فقہاء عراق کے نزدیک بھی خبر سے چاند کی تصدیق ہو سکتی ہے۔

ایک بہت بڑے بزرگ کے ارشادات بھی سنئے وہ محلی میں فرماتے ہیں۔ مسئلہ ۷۵۷

((من صح عندہ بخبر من یصدقہ من رجل واحد او امرأة واحدة عبد او حرا وامة او حرة فصاعداً ان الھلال قدرای البارحة فی اٰخر شعبان بفرض علیه الصوم صام الناس او لم یصوموا محلی ابن حزم جلد نمبر ۲ س ۲۳۵))

’’اگر مصدقہ خبر مل جائے کہ ایک مرد یا ایک عورت۔ غلام یا آزاد نے گذشتہ رات چاند دیکھ لیا ہے، اس پر روزہ فرض ہے، لوگ روزہ رکھیں یا نہ رکھیں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ رمضان کے چاند میں تو ہمارے ساتھ اتفاق فرماتے ہیں۔ مگر شوال کے متعلق ان کا خیال ہے کہ۔‘‘

دو آدمی کی شہادت ضروری ہے، ابن حزم فرماتے ہیں کہ یہ کھلا ہوا تناقض ہے، اور مسئلہ بے دلیل ہے، پھر ص ۲۳۶ جلد ۲ میں فرماتے ہیں:

((فاما نحن فخبرا الکافه مقبول فی ذلك وان کانوا کفارا او فسَّاقاً لانه یوجب العلم ضرورة اھ))

’’ہمارے ہاں تو چاند کے معاملہ میں فاسق اور کافر کی اطلاع بھی درست ہے، کیونکہ اسی سے بقدر ضرورت علم حاصل ہو جاتا ہے، بشرطیکہ یہ اطلاع عامۃ الناس دیں۔‘‘

اہل علم کی وسعت طرف اور رفعت خیال ملاحظہ فرمائیے۔ آپ کہاں ہیں۔ اور ارباب علم کی پروانہ تحقیق کیا ہے۔

ابن حزم رحمہ اللہ کی پوری بحث آثار کے لحاظ سے قابل غور ہے۔ انسانی نفسیات کا تقاضا ہے کہ صحیح خبر کو قبول کیا جائے۔ خوا کہیں سے بھی آئے۔ مغنی ابن قدامہ کے شارح فرماتے ہیں۔

((وان اخبرہ برؤیت الھلال من یثق بقوله لزمه الصوم وان لم یثبت ذلك عند الحاکم لانه خبر بوقت العبادة یشترك فیه المُخْبِر والْمُخْبَر اشبه الخبر عن رسول اللہ ﷺ والخبر عن دخول وقت الصلوٰة)) (جلد ۳ ص۹)

’’اگر کوئی ثقہ آدمی چاند کی اطلاع دے تو روزہ واجب ہو گا۔ حاکم اس اطلاع کو مسترد کر دے۔ کیونکہ یہ عبادت کے وقت اطلاع ہے، اس میں خبر دینے والا اور جسے خبر دی گئی ہے، برابر ہیں۔ یہ احادیث کی روایت یا نماز کے وقت کی اطلاع کے مشابہ ہے۔ جس میں صرف مؤذن کی اطلاع کافی ہوتی ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں۔ اگر یہ اطلاع کسی عورت کی زبانی ہے تو قیاس یہ ہے کہ یہ بھی مقبول ہو گی۔‘‘

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے، مگر امام شافعی رحمہ اللہ سے ایک روایت اس کے خلاف بھی ہے، کیونکہ یہ ایک دینی اطلاع ہے، یہ حدیث کی روایت یا سمت قبلہ کی اطلاع یا نماز کے وقت کی خبر کے مشابہ ہے جیسے وہاں خبر کافی ہے، چاند کے متعلق بھی خبر ہی کافی ہے۔ ۱ ھ۔

آج کل بڑے شہروں میں سائرن کی آواز اور قصبات میں مؤذن کی آواز یا نوبت کی آواز پر روزہ رکھا۔ اور کھولا جاتا ہے، یہ خبر ہے شہادت نہیں۔ فقہاء حنابلہ کے نزدیک ہلال کا معاملہ بھی بعض وقت اسی نوعیت کا ہوتا ہے، بعض آئمہ نے بڑی صراحت سے خبر کے اثر اور حجیت کا اعتراف فرمایا ہے۔ وہ ہلال کے متعلق ایک شہادت کے متعلق جس قدر احادیث آئی ہیں، انہیں خبر پر محمول فرماتے ہیں۔ وہ اسے شہادت سمجھتے ہی نہیں، اور فقہاء عراق اس توجیہہ میں پیش پیش ہیں۔ چنانچہ سابقہ منقولات سے ظاہر۔ فقہاء اہل حدیث بھی اس سلسلہ میں فقہاء عراق۔ رحمہم اللہ کے ہمنوا ہیں۔

خطابی فرماتے ہیں:

((وقد روی عن عمر بن الخطاب من طریق عبد الرحمٰن بن ابی لیلی انه اجاز شہادة رجل فی اضحیٰ او فطر ومال الی ھذا القول بعض اھل الحدیث وزعم ابن باب رؤیة الھلال باب الاخبار فلا یجری مجری الشہادات الاتری ان شہادة الواحد مقبولة فی رویة ھلال شہر رمضان فکذالك یجب ان تکون مقبولة فی ہلال شہر شوال ۱ ھ معالم السنن ج ۲ ص ۱۰۱))

’’عبد اللہ بن ابی لیلیٰ سے مروی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عید الاضحی اور عید الفطر کے چاند میں ایک آدمی کی شہادت کو قبول فرمایا۔ بعض اہل حدیث کا بھی یہی خیال ہے کہ رؤیت ہلال کا مسئلہ از قبیل اخبار ہے، از باب شہادت نہیں۔ اس لیے اس میں شہادت کی پابندیاں ملحوظ نہیں رکھی جا سکتیں۔ جس طرح رمضان میں ایک آدمی کی شہادت مقبول ہے شوال کے چاند میں بھی اسے مقبول ہونا چاہیے۔ ۱ ھ‘‘

گویا احناف، اہل حدیث، حنابلہ، ہلال رمضان کے متعلق خبر ہی کو کافی سمجھتے ہیں، عام حالات میں اس کے لیے شہادت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خطابی کا خود رحجان چونکہ موالک کی طرف ہے، اس لیے وہ اپنا اختلاف ظاہر فرمانے کے بعد فرماتے ہیں۔

((لکن بعض الفقہاء ذھب فی ان رؤیة ھلال رمضان خصوصاً من باب الاخبار وذلك لان الواحد العدل کافی عند جماعة من العلماء اھ معالم السنن جلد ۲ ص ۱۰۱))

’’لیکن بعض فقہاء ہلال رمضان کا مسئلہ اخبار ہی کی قسم سے سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ایک شہادت پر اکتفا فرماتے ہیں۔ گویا اطلاع خبر کی قسم سے ہے۔‘‘

 ص ۱۰۲ جلد ۲ میں فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک ہلال رمضان کے متعلق ایک ہی آدمی کی شہادت کافی ہے، اگرچہ وہ غلام ہو یا لونڈی، اسی طرح ایک عورت کی شہادت بھی کافی سمجھتے ہیں۔ امام ما وراء ظاہر روایت کے خلاف مرد۔ عورت۔ غلام۔ لونڈی عادل غیر عادل میں اطلاع کو کافی سمجھتے ہیں، کیونکہ یہ دراصل شہادت ہے ہی نہیں بلکہ خبر اور اطلاع ہے، ان نقل سے واضح ہوتا ہے، ہلال رمضان کے لیے شہادت ضروری نہیں۔ البتہ فقہائے حنفیہ کے نزدیک ظاہر روایت کے مطابق فجر کا ثقہ ہونا ضروری ہے، لیکن امام طحاوی اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں۔

ایک لطیفہ:

اس قسم کے مضامین میں شاید مقامی تذکرہ بھلا نہ لگتا ہو، لیکن بطور لطیفہ اور واقعہ کے یہ غالباً نامناسب بھی نہ ہو گا۔ کہ بعض اچھے بھلے اہل علم اور سمجھ دار حضرات پر بھی ٹیلی فون وغیرہ کی خبر سے کسی قسم کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

معلوم ہے اس سال ۲۹ رمضان کو مطلع ابر آلود تھا۔ چاند کے متعلق تشویش تھی۔ عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ریڈیو نے اطلاع دی کہ کراچی میں چاند ہو گیا ہے، تقریباً بارہ تیرہ آدمی ہمارے ہاں مسجد میں اعتکاف کر رہے تھے۔ وہ اعتکاف ختم کر نے کے لیے دریافت کر رہے تھے۔ میں اس قدر ذمہ داری لینے کے لے تیار نہ تھا۔ اس لیے کوشش کی کہ لاہو ریا کراچی سے رابطہ قائم کیا جائے، اور صورت حال دریافت کی جائے۔ پوری کوشش کے باوجود کراچی سے رابطہ قائم نہ ہو سکا۔ دفتر مرکزی جمعیت اہل حدیث میں صدر محترم مولیٰنا سید محمد داؤد صاحب غزنوی صدر مرکزی جمعیت اہل حدیث رات کو تقریباً گیارہ بجے مل سکے۔

مولانا نے فرمایا۔ جامعہ اشرفیہ نے مہتمم مولانا مفتی محمد حسن صاحب اور مولانا مفتی محمد جمیل کے پاس قابل اعتماد شہادت آ گئی ہے، اس لیے مولانا ابو البرکات کے سوا پورے لاہور میں ہفتہ کے دن عید کا فیصلہ ہو گیا ہے، اس ساری گفتگو میں مولانا عبد الواحد صاحب خطیب جامع مسجد گوجرانوالہ بھی موجود تھے۔ میں نے انہیں پیغام بھیج کر بلا لیا تھا۔ کہ جو فیصلہ ہو اتفاق سے ہو میں نے رسیور مولانا عبد الواحد صاحب کو دے دیا۔ تاکہ مولیٰنا خود مولانا غزنوی صاحب سے براہ راست گفتگو فرما لیں۔ میں نے اس کے بعد مولیٰنا عبد الواحد صاحب سے عرض کیا کہ اب تو شرعاً عید کا فیصلہ ہفتہ کے دن ہو جانا چاہیے۔ مولانا نے فرمایا، ہاں مجھے تو یقین ہو گیا۔ لیکن ذرا معاملہ شریعت کے مطابق ہو جائے۔ میں مولانا کی یہ بات نہ سمجھ سکا کہ اب شریعت کے ساتھ مطابقت کا کیا مطلب ہے۔ میں خاموش ہو گیا۔ ایک بڑا ہجوم یہ گفتگو سن رہا تھا۔ اُن سب نے کہنا شروع کر دیا کہ عید کل ہو گی۔

صبح مجھے یہ سن کر تعجب ہوا کہ مولانا عبد الواحد صاحت دو تین حضرات کے ہمراہ رات لاہور گئے۔ اور مولانا مفتی محمد جمیل صاحب سے مل کر ان کی زبانی چاند دیکھنے کی اطلاع لائے۔ پھر اُن کو اطمینان ہوا۔ میں اسے لطیفہ سمجھتا ہوں۔ مولانا عبد الواحد صاحب پڑھے لکھے سمجھ دار آدمی ہیں۔ اب دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو مولانا سید داؤد غزنوی پر اعتماد نہیں تھا۔ یا پھر فون کی بجائے مولانا محمد جمیل صاحب سے بالمشافہ حقیقت سنن چاہتے تھے، میری رائے میں اس توثیق کی حیثیت وہم سے زیادہ نہیں۔ فون پر آواز پہچان کر پھر لاہور جانا۔ پھر اسے شریعت کی مطابقت سے تعبیر کرنا ایک پڑھے لکھے سنجیدہ آدمی کے لیے نامناسب ہے، اور اگر یہ فون سے گھبراہٹ ہے، تو اور بھی معیوب او رمضحکہ خیز ہے، پھر یہاں کے بریلوی بزرگ جنہوں نے یکم رمضان المبارک کو جمعہ کے دن روزے تڑوائے تھے۔ وہ اپنے ایک مرید کی جیپ لے کر لاہور گئے۔ وہ انے کسی بریلوی بزرگ سے مل کر عیدلائے۔ اور تقریباً سات بجے تک ان کے مقتدی روزہ ملے رہے۔ ان کی اپنی بریلوی عید بریلوی جیپ میں سوار ہو کر آئی۔ تو ان بے چاروں کی جان میں جان آئی۔ علماء میں یہ تعصب باہم بے اعتمادی اور بغض یا پھر وہم پرستی اور ریڈیو یا فون کے نام سے دشمنی نہ کوئی علمی کارنامہ ہے۔ نہ عقل و شعور کا تقاضا۔ حضرات علماء ہی وسعت ظرف کے داعی ہیں۔ یہی توہمات میں مبتلا ہو جائیں تو عوام کا خدا حافظ۔ ان حالات میں پڑھے لکھے۔ اور باشعور حضرات ان توہم پرستوں کا اگر مذاق اڑائیں تو وہ حق بجانب ہیں۔ بریلوی حضرات سے تعجب نہیں۔ لیکن حضرات دیوبند کی یہ ریڈیو یا فون دشمنی میری سمجھ میں بالکل نہیں آئی۔ ((اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی))

۳:۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:

((الاضحیٰ یوم تضحون والفطر یوم تفطرون)) (ترمذی)

’’یعنی بادشاہ یا عامۃ المسلمین جب افطار کا فیصلہ کر لیں۔ یا عید منائیں تو ان کے ساتھ اتفاق کرنا چاہیے۔‘‘

حافظ مقدسی مغنی کی شرح میں فرماتے ہیں:

((وعنه روایة ثالثة ان الناس تبع للامام فان صام صاموا وان افطر افطرد وھو قول الحسن وابن سیرین لقول النبی ﷺ الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون، والاضحیٰ یوم تضحون۔ قیل معناہ ان الصوم والفطر مع الجماعة ومعظم الناس قال الترمذی حدیث حسن غریب ص ۱۵۳))

لوگ اس معاملہ میں امام کے تابع ہیں۔ متذکرہ صدر حدیث کا یہی مطلب ہے۔ کہ عوام اور امیر المسلمین کے ساتھ اتفاق کرنا چاہیے۔ اختلاف اور تضریق پیدا کرنے سے بچنا چاہیے۔ مقصد شارع حکیم کا یہی معلوم ہوتا ہے، کہ اس مسئلہ میں تضریق پسند ذہن اسلام کے مقاصد کے خلاف ہے۔ اگر عامۃ المسلمین روزہ رکھ لیں۔ تو تڑوانا درست نہیں۔ اگر عید سمجھ کر افطار کر لیں تو ان کو روزہ پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں گوجرانوالہ کے ایک بریلوی مولوی صاحب نے کراچی کی صحیح اطلاع کے باوجود روزے تڑوا دئیے تھے۔ وہ اپنے ضمیر کی چوری اور اپنی غلط روش کو چھپانے کے لیے اشتہاروں کی بھرمار کر رہے ہیں اور وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں، کہ ایک صحیح اطلاع چونکہ ریڈیو یا فون کے ذریعہ سے آئی ہے، اس لیے چاند ہوا ہی نہیں۔ گویا ایک صحیح واقعہ اگر ان آلات کی معرفت معلوم ہو جائے۔ تو وہ واقعہ ہی نہیں ہوتا۔ اگر تار یا فون کی معرفت کسی کی موت یا پیدائش کی اطلاع آ جائے تو حضرت مولانا کے نزدیک یہ واقعہ ہوا ہی نہیں۔ نہ کوئی مرا نہ کوئی پیدا ہوا۔ ایسے عقل مندوں کا خدا حافظ۔

عید اور وحدت ملت:

۲۹ رمضان کے ریڈیو سے معلوم ہوا کہ ڈھاکہ میں چاند نظر نہیں آیا۔ لیکن کمشنر صاحب مشرقی پاکستان نے وہاں بھی عید کا اعلان کر دیا۔ معلوم نہیں کیوں کیا گیا۔

بات یہ ہے کہ اختلاف مطلع ایک حقیقت ہے وحدت ملت کی دلیل صرف عید ہی کو تصور کر نا حقائق سے مطابقت نہیں۔ اگر ڈھاکہ میں عید اتوار کو ہو جاتی تو اس سے ملت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ موسمیات کے محکمہ ہی سے دریافت فرمائیے۔ اگر ڈھاکہ کا مطلع مغربی پاکستان سے مختلف ہے، تو ان لوگوں کو عید پر کیوں مجبور کیا جائے۔ کمشنر صاحب ہزاروں روزے تڑوانے یا نہ رکھنے کا گناہ اپنے ذمہ کیوں لیں۔ یہ نہ شرعاً درست ہے نہ عقلاً۔ محکمہ موسمیات اس پر فتویٰ دے سکتا ہے۔ مسلمان بحمد اللہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان سب کا ایک دن عید منانا ممکن ہی نہیں۔ اور نہ یہ وحدت شرعاً مطلوب ہے۔

حجاز۔ مصر۔ اور شام میں عید جمعہ کو ہو تو وحدت ملت کو کچھ نقصان نہیں۔ ڈھاکہ میں چاند نظر نہ آنے کی وجہ سے اگر عید اتوار کو ہو تو اس میں وحدت ملت کو ن سا نقصان پہنچ سکتا ہے، بلکہ وحدت ملت ا س میں ہے کہ ملت کے احکام اور قواعد کی صحیح پابندی کی جائے۔ دانشمندی یہ ہے کہ جب اتنی دور کے منطقہ میں چاند نظر نہیں آیا۔ تو معاملہ کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے طے شدہ مسائل کے خلاف پبلک سے کچھ کہنا حکومت کے وقار کا تقاضا نہیں۔ (الاعتصام جلد ۱۲ شمارہ ۳۵) (محمد اسمٰعیل گوجرانوالہ)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 173-184

محدث فتویٰ

تبصرے