السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ماہ شعبان کی تیس تاریخ کو اگر دن کا کچھ حصہ گزر کر مفتی کے فتوے سے ماہ رمضان کی پہلی تاریخ مقرر ہوئی تو اسی وقت کھانا پینا ناقص چھوڑ دینا واجب ہے؟ اگر کوئی شخص یہ خبر سن کر بھی کھانا وغیرہ عمداً نہ چھوڑے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ (یکے از سرینگر)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مرقومہ میں کھانا پینا چھوڑ دینا احترام صیام ہے، روزہ نہیں ہے، کیونکہ دن کا کچھ حصہ گزرنے پر شرعی روزہ نہیں ہوتا۔ ماہ صیام کا احترام ہوتا ہے، اگر کسی کا دل اس شہادت پر مطمئن نہ ہو تو اسے کچھ نہ کہا جائے مگر وہ بعد رمضان روزہ قضا کرے۔ (۱۳/۵ ذی الحجہ ۱۳۵۷ء) (فتاویٰ ثنائیہ جلد ۱ ص ۴۳۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب