السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر چاند ۲۹ رمضان کو نظر نہ آئے۔ اور کسی کو ۳۰ رمضان کو آفتاب کے غروب ہونے سے پہلے نظر آ جائے تو کیا اُس وقت روزہ افطار کر سکتا ہے۔ (ابو محمد اسمٰعیل لدھیانہ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں ہے:
﴿فَمَحَوْنَا اٰیَةَ اللَّیْلِ وَجَعَلْنَا اٰیَةَ النَّہَارٍ مُبْصِرَةً﴾
’’یعنی ہم نے رات کی نشانی کو مٹا دیا۔ اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا۔‘‘
رات کی نشانی سے مراد چاند ہے، اور دن کی نشانی سے مراد آفتاب ہے، اللہ تعالیٰ نے چاند کی روشنی گم کر دی ہے، اور اس میں سیاہی ڈال دی ہے، اس لیے فرمایا کہ ہم نے رات کی نشانی کو مٹا دیا ہے، پس جب چاند رات کی نشانی ہے، تو اس کا دن میں دیکھنا معتبر نہیں۔ بلکہ رات میں غروب آفتاب کے بعد دیکھنا معتبر ہے، اس وقت سے ماہ اول کا ختم ہونا۔ اور ماہ ثانی کی ابتداء ہوتی ہے، تو مہینہ ختم ہونے کے بغیر افطار کس طرح جائز ہو گا۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْهُ﴾
’’جو ماہ رمضان میں حاضر ہو۔ یعنی سفر میں نہ ہو وہ اس ماہ کے روزے رکھے۔‘‘
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ سارے رمضا ن کے روزے رکھے۔ کیونکہ رمضان ابھی ختم نہیں ہوا۔ اس نے پہلے ہی افطار کر دیا۔ یہی وجہ ے کہ اگر تین شعبان کو دن میں رمضان کا چاند نظر آ جائے تو دیکھنے کے وقت سے روزہ شروع نہیں ہو جاتا۔ اگر دن میں دیکھنے کا اعتبار ہوتا تو چاہیئے تھا کہ جب سے دیکھا ہے اُس وقت سے مغرب تک روزہ ہوتا۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ پہلے مہینہ کا ختم ہونا اور دوسرے کی ابتداء رات کے وقت چاند دیکھنے سے ہے نہ دن کے وقت اس لیے حدیث میں ہے:
((الشھر تسع و عشرون لیلة فلا تصوموا حتی تردہ فان غم علیکم فاکملوا العدة)) (متفق علیه۔ مشکوٰة باب رؤیة الہلال)
مہینہ ۲۹ کا بھی ہوتا ہے، چاند دیکھے بغیر نہ روزہ رکھو۔ اگر ۲۹ کو چاند نظر نہ آئے۔ تو تیس کی گنتی پوری کرو۔ مشکوٰۃ کے اسی باب میں ہے۔ ابو البختری کہتے ہیں کہ ہم عمرہ کے لیے نکلے جب موضع نخلہ میں پہنچے تو چاند دیکھا۔ بعض نے کا تیسری تاریخ کا ہے۔ اور بعض نے کہا دوسری تاریخ کا ہے۔ ہم ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ملے تو فرمایا کہ تم نے کس رات کو دیکھا ہے، ہم نے جواب دیا کہ فلاں رات کو فرمایا رسول اللہ ﷺ نے چاند کی مدت اس کی رؤیت ہے، اور ایک روایت میں ہے، ابو البختری کہتے ہیں۔ ہم نے موضع ذات عرق میں۔ جو بطن نخلہ کے قریب ہے، رمضان کا چاند دیکھا۔ ہم نے پوچھنے کے لیے ابن عباس کے پاس آدمی بھیجا۔ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خدا نے اس کی مدت اس کی رؤیت مقرر کی ہے۔
اگر ۲۹ کو نظر نہ آئے تو تیس کی گنتی پوری کرو۔ ایک اور حدیث میں ہے، جو مسلم وغیرہ میں ہے، کریب کہتے ہیں۔ اُم الفضل نے مجھے معاویہ رضی اللہ عنہ کی طر ف ملک شام میں بھیجا۔ میں نے ام الفضل کا کام کیا۔ رمضان کا چاند مجھے شام ہی میں چڑ گیا۔ جمعرات کو میں نے خود دیکھا۔ پھر اخیر رمضان میں مدینہ آیا۔ ابن عباس نے مجھے وہاں کا حال پوچھا پھر چاند کا ذکر کیا۔ میں نے کہا ہم نے جمعرات کو دیکھا ہے، فرمایا تو نے خود دیکھا۔ کہا ہاں۔ میں نے بھی اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا ہے، اور سب لوگوں نے روزہ رکھا۔ اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ فرمایا ہم نے ہفتہ کی رات کو دیکھا ہے، ہم اسی طرح روزے رکھتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ تیس کی گنتی پوری ہو جائے۔ یا چاند اس سے پہلے دیکھ لیں۔ میں نے کہا آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت اور ان کے روزہ رکھنے کے ساتھ کفایت نہیں کرتے فرمایا نہیں۔
رسول اللہ نے ہمیں اس طرح حکم دیا ہے کہ ایک ملک کے لیے دوسرے ملک کی شہادت معتبر نہیں اس سے ثابت ہوا کہ چاند کا اعتبار رات سے ہے، اگر ۲۹ کو نظر نہ آئے تو تیس کی گنتی پوری کرنی پڑتی ہے، دن کے دیکھنے کا اعتبار نہیں۔
(عبد اللہ امر تسری از روپڑ ۲۰ صفر ۱۳۵۲ھ ۱۵ جون ۱۹۳۳ئ) (فتاویٰ اہل حدیث روپڑی جلد ۲ ص ۵۴۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب