السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مشکوک دن کا روزہ رکھنے کے بعد چاند دیکھنے کی یقینی شہادت مل جائے تو پھر رکھے ہوئے روزہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشکوٰۃ کتاب العلم میں ہے:
((عن جندب قال قال رسول اللّٰہ ﷺ من قال فی القراٰن برأیه فاصاب فاخطأ)) (رواہ الترمذی و ابو داؤد)
’’یعنی جو شخص قرآن میں رائے سے کہتا ہے، پس و ہ صواب کو پہنچا تو یقینا اس نے خطا کی ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا جب ابتداء چیز کی جرم ہو تو صحیح ہونے سے وہ معاف نہیں ہوتا۔ مثلاً کوئی شخص کسی عورت کے پاس گیا۔ اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ غیر ہے، اس سے صحبت کر لی،، بعد میں معلوم ہوا کہ اس کی بیوی ہے، تو وہ قصور سے بری نہیں ہو سکتا۔ ایسے ہی اس کے برعکس اپنے دل میں یہ سمجھ کر کہ یہ میری بیوی ہے، اگر صحبت کر لے، اور وہ غیر عورت نکل آئے تو اسے وہ مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسا ایک واقعہ امام ابو حنیفہ کے زمانہ میں ہوا دو بہنوں کی شادی دو بھائیوں سے ہوئی، رخصتی کے وقت غلطی سے ہر ایک کی منکوحہ دوسرے کے گھر میں بھیج دی گئی۔ تو اس سے وہ مجرم نہیں قرار دئیے گئے۔ کیونکہ اُن کی نیت بخیر تھی بہت سے مسائل ایسے ہیں اُن میں نیت کا اثر بھی عمل پر پڑتا ہے، یعنی نیکی گناہ ہو جاتی ہے اور گناہ نیکی بن جاتا ہے، صورت مسئولہ میں روزہ صحیح ہو جائے گا۔ جیسے حدیث مذکورہ میں تفسیر غلط نہیں ہو گی۔ تفیسر کرنے وال گناہ گار ہو گا۔ ایسے ہی یہ روزہ صحیح ہو جائے گا۔ لیکن ایسا روزہ رکھنے والا گناہ گار ہو گا۔ (عبد اللہ امر تسری روپڑی، یکم رمضان ۱۳۸۰ھ) (فتاویٰ اہل حدیث جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۵۴۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب