سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(56) رویت ہلال کے لیے شرع شریف میں کوئی مسافت متعین نہیں ہے؟

  • 4059
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2001

سوال

(56) رویت ہلال کے لیے شرع شریف میں کوئی مسافت متعین نہیں ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ رویت ہلال کے لیے شرع شریف میں کوئی مسافت متعین نہیں ہے؟ اگر ہے تو کتنے میل کی؟

کیا مدارس کے مسلمان دہلی کی رویت کا اعتبار کر سکتے ہیں، جب کہ دہلی ایک ہزار سے زیادہ فاصلہ پر واقع ہے، نیز دہلی اور مدارس کے غروب کے وقت میں نصف گھنٹہ کا فرق ہے؟

(۳) کیا ریڈیو، تار، ٹیلی فون کی خبریں اور شہادتیں شریعت اسلامیہ میں قابل تسلیم ہیں۔

(۴) ریڈیو پر ایسا آدمی جو شہادت شرعی کے معیار پر صحیح اترتا ہو۔ ہندوستان کے کسی حصہ سے اعلان کرے کہ میں نے بچشم خود چاند دیکھا تو کیا تمام ہندوستان کو عید کرنی جائز ہے؟ اسی پر ٹیلی فون، اور تار کو قیاس فرمائیں۔

(۵) کیا بارہ بجے دن کو چاند کی شرعی تحقیق ہو جائے، اور شرعی شہادت کے ذریعہ ثابت ہو جائے کہ ۲۹ کو چاند ہوا تو ۱۲ بجے کے بعد روزہ توڑنا جائز ہے۔ بینوا توجروا۔ (سید عزیز اللہ از مدارس)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الجواب:… (۱) دوسرے شہر کی رویت ہلال کے اعتبار میں مسافت یعنی میلوں کی تعین کی کتاب و سنت میں کوئی نص صریح نہیں اسی لیے علمائے کرام کے اجتہادی اقوال اور مذاہب اس امر میں مختلف ہیں، اور سوائے قول اختلاف مطلع کے جس کی تحقیق آگے آتی ہے۔ کوئی قول قابل وثوق نہیں۔ کریب کی روایت سے ابن عباس کے مجمل قول ہکذا امرنا سے بعض نے ((لکل اھل بلدٍ رویتھم)) کے باب کو حدیث سمجھ لیا ہے، جو بالکل غلط ہے، یہ تو اجتہادی قول ہے، اصل دلیل حدیث نبوی ((صوموا الرویتة وافطر والرویتة)) (صحیح بخاری) ہے یہ خطاب عام ہے۔ کوئی مسلم کہیں چاند دیکھئے چاند ہو گیا۔ عید الفطر وغیرہ کے لیے دو شخص کی روایت لازمی ہے، اور روزہ رمضان رکھنے کے لیے ایک شخص کی شہادت بھی کافی ہے، جس کی تفصیل سنن وغیرہ میں یہ بھی ہے کہ آخر رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ اونٹوں پر سوار دو دروازے ایسے وقت میں آئے کہ عید کی نماز کا وقت نہیں رہا تھا۔ یعنی بعد دوپہر وہ لوگ حاضر ہوئے تھے، انہوں نے یہ شہادت دی کہ کل ہم لوگوں نے اپنے موضع یا شہر میں چا ند دیکھا تھا تو آنحضرت ﷺ نیا سی وقت لوگوں کے روزے افطار کرا دئیے اور دوسرے روز عید کی نماز پڑھائی۔ اس حدیث سے یہ بات ثابت وہتی ہے کہ دوسرے شہر کے لوگوں کی رویت ہلال کی شہادت کا اعتبار ہے، بشرطیکہ دوسرے شہر کا مطلع اس شہر سے مختلف نہ ہو۔ مختلف مطلع یہ کہ مثلاً ایک شہر یا موضع میں دن ہے، تو دوسرے میں رات ہے، یا ایک جگہ ظہر کی نماز کا وقت ہے، تو دوسرے میں عصر یا مغرب کا۔ اگر ایسا ہو تو پھر وہاں کی رؤیت دوسروں کے لیے کافی ہو گی۔ تاوقتیکہ وہ یا اس کے متفق طمع والے چاند نہ دیکھ لیں۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ مثلاً جس شہر میا موضع میں دوسرے شہر سے چند گھنٹے پہلے زوال ہو گا۔ ان کو حکم ہے کہ ظہر کی نماز ادا کریں۔ اور اس وقت دوسرے شہر والوں کو جن کا مطلع ان سے مختلف ہے، اور ابھی وہاں زوال میں کئی گھنٹے باقی ہیں نماز ظہر پڑھنا منع ہو گا۔ اس لیے کہ ابھی یہاں زوال نہیں ہوا۔ اور پہلوں کو نماز ظہر پڑھنا فرض ہو گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مختلف المطالع کا حکم الگ الگ ہے، اگر دوسرے شہر والے پڑھنا بھی چاہیں تگو اول تو ہر جگہ اس کا علم مشکل ہے، اگر کسی طرح معلوم کر کے پڑھ بھی لیں تو پھر جب ان کے ہاں زوال ہوا تو اگر وہ دوبارہ ظہر نہ پڑھیں تو ((اَقِمِ الصَّلٰوةِ لِدُلُوْكِ الشِّمْسِ)) (الایۃ) اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہو گا۔ اور اگر دوبارہ پڑھیں تو اس میں یہ اشکال ہے کہ ایک دن رات میں جو پانچ نمازیں فرض ہیں کم و بیش نہیں۔ اس صورت میں پانچ سے زائد کیا؟ بے شمار ہوں گی۔ اس لیے کہ چوبیس گھنٹے میں ہر وقت کہیں نہ کہیں۔ ظہر، عصر وغیرہ کا وقت ہوتا ہے تو ہر وقت نماز فرض ہو گی، تو اول تو ہر وقت کا علم محال دوم پڑھنا بھ محال نیز اس صورت میں تکلیف بالمحال لازم آتی ہے، اور یہ سب امور باطل ہیں۔ لہٰذا یہ صورت بھی باطل ہے اس سے ثابت ہوا کہ جن جن شہروں کے آپس میں مطالع مختلف ہوں۔ ان کی رویت ہلال دوسروں کے لیے معتبر نہ ہو گی۔ ہاں جن کا مطلع ایک ہے، ان کی رویت دوسروں کے لیے معتبر نہ ہو گی۔ بعض فقہائے کرام نے اختلاف مطالع کی تعین مسافت ایک مہینے کے راستے سے کی ہے، مگر یہ بھی اُسی کریب والی اوپر کی روایت سے استنباط کی ہے، سو اول تو روایتہ کریب سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ چاند دیکھ کر فوراً وہاں سے چلے یا ٹھہر کر، نیز وہ کس تاریخ کو مدینہ منورہ پہنچے، کتنے دن چلتے رہے، پھر ایک ماہ کے راستہ میں اجمال ہے کہ رفتار پیدل کی یا سواری کی؟ اس میں بہت بڑا فرق ہے، پھر راستہ میدان صاف کا یا پہاڑی ٹیڑھا ترچھا یا دریائی ایر پھیر کا کبھی ان امور میں زمین آسمان کا فرق ہو جاتا ہے، تحقیق جدید سے معلوم ہوا ہے کہ مدینہ منوریہ اور شام کے مطلع میں پندرہ بیس منٹ کا فرق ہے، اور یہ اختلاف رویۃ ہال کے حکم میں معتبر نہیں کس کی تحقیق آگے آتی ہے، مسافت کمر میں بھی اور مدار شمس کے اختلاف مطالع کی نمازوں میں گھنٹوں کے اعتبار سے ان دیار میں بہت کمی بیشی ہے، متوسط اختلاف کا لحاظ کیا گیا۔ یعنی ظہر عصر یا مغرب کے وقت کا اختلاف جو عموماً تین گھنٹے سے کم نہیں ہوتا۔ لہٰذاجہاں دو شہروں کے طلوع و غروب میں تین گھنٹے کا اختلاف ہو وہ مختلف مطالع میں شمار ہوں گے، اور جن کا اس سے کم ہو وہ اس سے خارج ہوں گے۔ جواب لکھا ہوا بوجہ علالت طبع رکھا ہوا تھا کہ اخبار اہل حدیث مورخہ ۲۹ شعبان ۱۳۶۱ھ میں مولانا کا جواب بھی نظر سے گذرا کہ مسافت متعینہ کی روایت میرے علم میں نہیں۔ ہاں علم ہیئت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ غالباً تیس میل کے فاصلہ پر اختلاف مطالع ہو جات اہے، امر تسر سے لاہور کا فاصلہ تیتس ۳۳ میل کا ہے، اتنے فاصلہ پر تین منٹ اختلاف ہے۔ اگر امر تسر میں چھ بجے سورج غروب ہوتا ہے تو لاہور میں ۶ بج کر ۳۳ منٹ پر ہوتا ہے، اس لیے اختلاف مطالع کی وجہ سے رویت قبول نہیں کی جائے گی۔ (انتہا) میں کہتا ہوں کہ اوپر کی سنن کی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جو دور دراز کے اونٹوں کے سوار آخر رمضان میں حاضر ہوئے تھے، اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے کل اپنے شہر یا موضع میں چاند دیکھا تھا تو ان کے کہنے پر حضور ﷺ نے بعد دوپہر روزہ افطار کرا کر دوسرے دن نماز عید پڑھنے کو فرمایا تھا۔ وہ غالباً تیس میل یا ا سے بھی زائد ہی ہے، آئے تھے، اس سے ثابت ہوا کہ اس قدر اختلاف مطالع کا شرع میں اعتبار نہیں۔ نیز اختلاف مطالع مدار شمس کے اختلاف سے بھی ہوتا ہے، خواہ مسافت کم ہی ہو۔ اور مطلقاً تینتیس میل مستلزم،مطالع نہیں تا وقتیکہ مدار شمس کا فرق نہ ہو۔ نیز مکہ معظمہ اور جدہ کے درمیان کا فاصلہ پچاس میل کا ہے، اور ایسا کبھی معلوم نہیں ہوا کہ مکہ والوں نے جدہ والوں کی رؤیت ہلال کا اعتبار نہ کیا ہو یا لنکس۔ نیز اگر ۳۳ میل کے اختلاف کا اعتبار ہوتا تو پھر اختلاف مطالع میں امت کا اختلاف ہی نہ ہوتا۔ اس لیے کہ یہ تو عموماً ہوا ہی کرتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ متواتر یا مشہور ہو جاتا۔ اور اختلاف نہ رہتا۔ واذا لیس فلیس۔

نیز جب ۳۳ میل یا تین منٹ کا اختلاف مطلع ہے تگو گیارہ میل پر ایک منٹ کا ہو گا۔ پھر اگر مطلقاً اختلاف مطلع کا اعتبار ہو گا تو گیارہ پر بھی ہو گا تو اول تگو یہ اوپر کی سنن وغیرہ کی حدیث سے باطل ہے، کہ اس سے زائد فاصلہ کی رؤیت ہلال کا رسول اللہ ﷺ نے اعتبار کیا دوم اس سے مکہ والوں کو عرفات کے پرلے سرے جو گیارہ میل پر ہو۔ رؤیت ہلال کا بھی اعتبار نہ ہو گا۔ اور یہ بالکل غلط ہے، اس کا تو کوئی بھی قائل نہیں اس سے تو لازم آتا ہے کہ دہلی والے غازی آباد (۱۲) میل اور قطب (۱۱) میل وغیرہ کی رؤیت ہلا ل کا بھی اعتبار نہ کریں، یہ بھی بالکل غلط ہے کوئی اس کا بھی قائل نہیں تو جب تک اختلاف مطلاع کی حد شرع سے نہ ثابت ہو قابل قبول نہیں۔ کتاب و س نت سے صراحتاً ثابت ہو یا استنباطاً اور اوپرجو میں نے لکھا ہے، وہ کتاب و سنت سے مستنبط ہے کہ اگر بالکل اختلاف مطالع کو تسلیم کیا جائے، مگر شرع سے اس کی کوئی حد نہ مقرر کی جائے۔ تو ہر دو صورت میں تکلیف ما لایطاق اور محال لازم آتا ہے، جو باطل ے، جس سے شریعت محمدیہ پاک ہے، لہٰذا جو کچھ اوپر کتاب و سنت کی روشنی میں لکھا گیا ہے، وہی قابل قبول ہے، اور بس۔

جواب ۲:… کا جواب نمبر(۱) میں آ گیا کہ دہلی اور مدارس کے طلوع و غروب میں چونکہ نصف گھنٹے کا فرق ہے جو تین گھنٹے سے کم ہے لہٰذا ان کو ایک دوسرے کی رؤیت ہلال کا اعتبار نہ ہو گا۔

جواب ۳:… تار کی خبر کو عموماً علمائے کرام و اساتذہ عظام تسلیم نہیں کرتے اس لیے کہ تار کے کارکن اکثر بالک کافر غیر مسلم ہوتے ہیں، اور کافر کی خبر دیانات میں مقبو ل نہیں (درمختار وغیرہ) نیز یہ کہ رویت ہلال محض خبر نہیں اس میں شہادت اور نصاب شہادت اور مجلس قضا بھی ہے، اور یہ خبر غائب ہے، اس میں معرفت فجر کی لازم ہے، اور یہ امور تار کی خبر میں مفقود، لہٰذا مردود ہے تو جواب یہ ہے کہ اول تو فقہاء کا یہ کلیہ کہ ہرامر دینی میں ہر کافر کی خبر کسی حالت میں بھی مقبول نہیں۔ بچند وجوہ منقوض ہے۔

وجہ اول یہ کہ کافر فاسق کی خبر کے عدم اعتبار کو آیت ﴿اِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوْا﴾ (الایۃ پس ۲۶ ع ۱۳) سے استنباط کیا گیا ہے، حالالنکہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اس سے کافر کی خبر مطلقاً تردید نہیں ہوتی، بلکہ تحقیق پر موقوف ہے، لہٰذا بعد تحقیق و ثبوت مقبول ہو گی تو گویا من وجہ یہ آیت بھی دلیل قبول کی ہے۔

وجہ دوم قول باری تعالیٰ جل مجدہ:

﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَہَادَةُ بَیْنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّةِ اِثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ اَوْ اٰخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاصَابَتْکُمْ مُصِیْبَةُ الْمَوْتِ﴾ (الایہ پ ۷۔ ع ۴)

اس آیتہ سے کافر کی کبر شہادت بحالت سفیر شرعاً ثابت ہے اس کی شہادت و خبر پر میت کی وصیت داداء دیون اس کے اور تکہ کی تقسیم، اس کی عورت کی عدت و نکاح ثانی و نماز جنازہ غائب، اس کے بچوں پر حکم یتیم کا ثبوت، اس کی ضمانت کا استقاط وغیرہ موقوف ہیں، اور یہ امور دینی ہیں، خصوصاً نماز جنازہ غائب و وصیت تعمیر مسجدو غیرہ۔

وجہ سوم رسول اللہ ﷺ نے بوقت ہجرت مدینہ منورہ ایک کافر کو اپنی سواری کی اونٹنیاں دے کر کہا کہ فلاں وقت لا کر ہم کو مخفی راستہ سے مدینہ پہنچا دو، اس نے ایسا ہی کیا ہجرۃ امر دینی ہے، اس میں رسول اللہ ﷺ نے کافر کے قول و عمل کا اعتبار کیا۔ اور حضور کا یہ امر دینی ہے۔ (صحیح بخاری)

وجہ چہارم واقعہ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ نے ایک مشرک کافر کو جاسوس بنا کر کفار کا حال معلوم کرنے کو بھیجا اس نے آ کر خبر دی، اس پر اعتبار کر کے حضور ﷺ نے صحابہ سے مقابلہ کرنے کے بارے میں مشورہ کیا۔ (بخاری) اس سے بھی کافر کی خبر کا اعتبار ثابت ہوا کہ یہ سفر حضوت ﷺ کا عمرہ کے لیے تھا۔ پھر جنگ کے بارے میں مشورہ کیا۔ مگر جنگ کو ملتوی کیا گیا۔ بہر حال عمرہ ہو یا جنگ کفار دونوں امر دینی ہیں، خلاصہ یہ کہ کافر کی خبر دیانات میں بھی مطلقاً مردود نہیں بعد تحقیق و ثبوت، قرائن مصدقہ بعض امور میں بعض اوقات مقبول بھی ہے، مثلاً اگر کسی اعلیٰ افسر نے دہلی سے کانپور شب کو رتار دے کر وہاں کے نائز کو بلایا کہ تم یہا ں آ جائو۔ اس نے فوراً جواب دیا کہ یہاں آج چاند ہو گیا ہے، صبح مسلمانوں کی عید ہے، مجھے یہاں کا انتظام کرنا ہے، تو بتائیے اس کے صدق میں کسی کو شبہ ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں ایسے ہی اگر کوئی نابینا یا ضعیف العمر کسی ایسے مقام میں قید ہو جہاں کفار کے سوا کوئی مسلم رویت ہلال کی خبر دینے والا نہ ہو تو وہ اگر کفار کی رویت ہلال پر روزہ رمضان و عید نہ کرے تو کیا کرے، ایسے ہی اگر اس کے مرنے کی خبر کفار دیں،ا گر اس کے مر نے کا اعتبار نہ کیا جائے، تو اس کی زوجہ اور اس کے بچے کیا کریں۔ کیا زوجہ ساری عمر اس کے آنے کی منتظر رہے، ایسے ہی اس کے ترکہ کی تقسیم اس کی زوجہ کی عدت و نماز جنازہ غائب کا کیا حکم ہو گا۔ ایسے امور میں اعتبار ہے، تار کی خبر بھی انہیں بعض قسموں میں سے ہے، کہ بعد تحقیق مکرہہ رسہ کر تار دینے اور نیز مختلف مقامات سے دریافت کرنے سے اگر یقنی یا ظن غاہلب اس کے صدق کا ہو تو قبول ورنہ مردود۔ لاکھوں روپے کے کاروبار مرنے و جینے کے حالت تار کی خبر پر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی ان میں تردد نہیں کرتا۔ اور نہ کبھی اس میں یہ سنا گیا کہ فلاں مقام میں رویت ہلال کی خبر میں تار والوں نے اہل اسلام کو جھوٹی خبر دے کر روزہ کھایا ہو یا عید کرائی ہو، اور ان کو اس جھوٹی خبر دینے سے فائدہ ہی کیا ہے، ان کو تو ٹکوں سے کام ہے کسے باشد۔

حاجی لوگ سفر حج سے کسی حاجی کے مرنے کی خبر تار کے ذریعے ہیں۔ اس پر عمل ہوتا ہے، جنازہ غائب بھی پڑھا جاتا ہے، کوئی اعتراض نہیں کرتا، یہ جنازہ امر دینی نہیں تو کیا ہے، نیز اول تو تار کے کارکن سارے کافر ہی نہیں ہوتے، بلکہ مسلم بھی ہوتے ہیں، نیز روپیہ زیادہ خرچ کرکے خالص مسلموں ہی کو ذریعہ خبر رسانی تارکا بنایا جاسکتا ہے، فافہم و تدبر۔

مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ کے مجموعہ فتاویٰ جلد اول مطبوعہ یوسفی پریس لکھنو کے ص ۲۸۱ میں ہے۔ شہادت خطوط یا تار برتی۔ پس چند فقہاء ایسے مقامات میں الخط یشبہ الخط لکھتے ہیں لیکن ایسی صورت میں کہ ظن حاصل ہو جائے اور شبہ قوی باقی نہ رہے، اور خبر تار تار خط بدرجہ پہنچ جائے، اس پر عمل ہو سکت اہے، اور بحسب اقتضاء انتظام زمانہ حال اس پر حکم عام بھی دے سکتے ہیں۔ انتہیٰ۔

منع کے دوسرے شبہ کا جواطب یہ ہے کہ رؤیت ہلا کو اگرچہ فقہا نے من وجہ شہادت لکھا ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ یہ امر دینی ہے، لہٰذا روایتۃً اخبارت کے مشابہ ہے، اس لیے اس میں شہادت اور نصاب شہادت اور خصوصیت حریت و ذکوریت وغیرہ بھی شرط یا ضروری نہیں۔ حتی کہ غیر عادل یعنی مستور واحد کی روایتہ بھی کافی ہے تفصیل ہدایہ اور اس کے شروح و حواشی وغیرہ میں ہے، تیسرے شبہ کا جواب یہ ہے، کہ اول تو قضا قاضی کی شرط کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔ دوم جب فقہاء نے اس کو امر دینی اور مشابہ روایت اخبار لکھا ہے، تو پھر قضا قاضی کی شرط بھی نہ رہی۔ سوم ہندوستان میں قضا کا محکمہ ہی نہیں اگر مفتی عالم کو قائم مقام قاضی ہی بنایا جائے۔ تو دیہات میں یہ بھی اکچڑ نہیں ہوتے اور حکم شرع کا عام ہے۔ لہٰذا شرط باطل شبہ ۴ کا جواب بھی نمبر ۳ میں آ گیا کہ نصاب شرط نہیں۔ اگر ہو بھی تو یہ بھی تار کے ذریعہ ہو سکتا ہے، شبہ ۴ کا جواب یہ ہے کہ اوپر کی تحقیق سے فجر کی معرفت بھی ہو سکتی ہے مکررسہ کرر دریافت کرنے سے ٹیلی فون کا معاملہ تو بالکل واضح ہے۔ کہ اس میں ایک مسلم دوسرے مسلم سے باقاعدہ گفتگو کر سکتا ہے، اس کی آواز کو پہچان سکتا ہے، شہادت وغیرہ سب امور طے ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ٹیلی فون کے ذریعہ گفتگو کی روایت ہلال کی خبر معتبر ہے۔

جواب ۴:… ریڈیو بھی اسی قسم سے ہے، اگر اس کا حال معلوم ہے کہ ثقہ خبر دینا کرتا ہے، اور آواز بھی اس کی پہچانتے ہیں۔ تو معتبر ہے، ورنہ نہیں اور تمام ہندوستان کو ریڈیو کی خبر پر عید کرنے کا جواب نمبر۱ اور نمبر ۲ میں آ چکا ہے کہ صرف متفق المطالع شہر اس پر عمل کریں گے۔ مختلف المطالع اس پر عمل نہ کریں گے۔ مولانا نے اخبار میں لکھا ہے کہ اہل حدیث کے نزدیک دور دراز کی رؤیت ہلال حجت نہیں۔ یہ فیصلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے زامنہ میں ہو چکا ہے، انتہیٰ میں کہتا ہوں کہ مولانا نے کچھ تفصیل نہیں کی صحابہ رضی اللہ عنہ کا یہ کون سا فیصلہ ہے، اور کس کس محدث کے نزدیک دور کی رؤیت حجت نہیں غالباً مولانا کی مراد اس سے روایت کریب میں عبد اللہ بن عباس کا قول مرا دہے، کہ کریب نے ملک شام سے آ کر ابن عباس کو وہاں کی رویت ہلال کی خبر دی تو ابن عباس نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔ اس پر کریب نے کہا کہ آپ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت ہلال اور روزہ پر اکتفا نہیں کرتے ابن عباس نے کہا نہیں کرتے ہم کو رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی فرمایا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کل یا اکثر صحابہ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ نہیں صرف ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مجمل قول ہے، جس کی تضیع و تشریح مشکل ہے، بکذا کے مشار الیہ کو بتایا جائے کہ کیا ہے، اور اس کے ما قبل کیا کیا ہے، جب تک اس کا مشار الیہ قطعی طور پر معین نہ ہو اس سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا، اور اس کا مشار الیہ قطعاً معین ہو ہی نہیں سکتا۔ شائد کسی کو جامع ترمذی کے قو ل والعمل علی ہذا الحدیث عند اہل المعلم سے دھوکہ ہو کہ یہ صحابہ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہے۔ تو جواب صرف یہ ہے کہ یہ صرف ایک صحابی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے پھر یہ بھی ثابت نہیں ہوا کہ ابن عباس کے اس قول پر دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی عمل کیا یا نہیں۔ ہاں تین تابعی عکرمہ رحمہ اللہ، قاسم رحمہ اللہ اور سالم رحمہ اللہ کا یہ مسلک ہے، اور ایک محدث اسحاق کا اور ایک وجہ شافعیہ کی بھی ہے، جس کی تفصیل حافظ صاحب نے فتح الباری میں تحریر کی ہے، اس ام رمیں علمائے کرام کے چھ اقوال یا مذاہب ہیں، پھر فیصلہ صحابہ چہ معنی۔ یوں کہیئے کہ ایک صحابی کا قول ہے، وہ بھی مجمل جس کی تشریح مشکل۔ نیل الاوطار میں صاف لکھا ہے کہ یہ مسئلہ اجتہادی ہے۔ صرف ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اجتہاد حجت نہیں ہو سکتا۔ پس قصہ ختم صحیح وہ جو اوپر لکھا جا چکا ہے۔

جواب ۵:… اس سوال سے اگر یہ غرض ہے کہ بارہ بجے دن کے دوسرے شہر سے خبر آئی کہ وہاں کل گذشتہ مغرب کو چاند دیکھا گیا تو اس کا جواب نمبر ۱ میں آ چکا ہے کہ بعد تحقیق و ثبوت متفق المطالع شہر سے خبر آنے پر بعد دوپہر بھی روزہ افطار کیا جائے، اور اگر یہ غرض ہے کہ بارہ بجے دن کے کسی نے اپنے شہر میں چاند دیکھا تو اس میں سلف کے دو قول ہیں کہ آیا وہ چاند شب آئندہ کا ہے، یا گذشتہ کا راجح قول اول (؎۱) ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔

المجیب ابو سعید محمد شرف الدین ناظم مدرسہ سعیدیہ عربیہ پل۔ بنگش دہلی۔’’نور توحید، لکھنو، ۱۰ و ۲۵ جولائی ۱۹۵۱ء

(؎۱) حضرت الاستاذ کے اس فاضلا فتویٰ پر بعض حضرات نے تعاقب فرمایا تھا۔ جس کا جواب اور مزید علمی تحقیقات خود حضرت استاذ موصوف کی قلم سے اخبار نور توحید لکھنو، ۱۰ نومبر ۵۱ء میں ملاحظہ فرمائیے۔ فقط۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 154-163

محدث فتویٰ

تبصرے