سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(55) اگر رمضان شریف ۲۹ دن کا ہو اور ایک پہلا روزہ ہم نے بوجہ..الخ

  • 4058
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1119

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر رمضان شریف ۲۹ دن کا ہو اور ایک پہلا روزہ ہم نے بوجہ چاند نہ دکھائی دینے کے کھا یا۔ اور ہمارے ۲۸ ہی ہوئے تو کیا ہم ۲۸ روزے کر کے عید کر یں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں عید کر کے ایک روزہ قضا کرنا ہو گا۔ کیونکہ مہینہ ۲۸ روز کا نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم۔ (۲۸ شوال ۴۳ھ)

تشریح:

… بابت رؤیت ہلال اور اختلاف مطالع۔ از مولانا محمد یحییٰ الاعظمی عالم فاضل پروفیسر عربی کا لج رائے ورگ۔

علم ہیئت کے اصول پر زیر نظر مسئلے کو مختصر ذکر کروں گا۔ ضمناً اختلاف رؤیت، رویت ہلال قبل الزوال و بعد زوال، تشکلات قمریہ، کسوف و خسوف وغیرہ بھی مذکور ہوں گے۔ بطور مقدمہ اولاً یہ سمجھ لیجئے کہ سورج ایک آگ کا گولہ ہے، اور اس کی روشنی ذاتی ہے، کسی دوسرے ستارہ سے مستفاد نہیں۔ اور ہر حال میں پورا پورا روشن رہتا ہے، اور اپنے ارد گرد ضیا پاشی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورج کا طلوع و غروب ہمارے اعتبار سے ہے ورنہ ذاتی طور پر اُسے طلوع و غروب لاحق نہیں، بخلاف چاند کے کہ اس کی روشنی ذاتی نہیں ہے، بلکہ یہ تو محض ایک صاف شفاف جسم اور نیلگوں رنگ کا گولہ ہے، اور سورج کی روشنی اس پر پڑنے کی وجہ سے چمک اٹھتا ہے، سورج اوپر اور چاند نیچے ہے۔ سورج کی روشنی سے ہمیشہ چاند کا وہ نصف حصہ ہو سورج کی طرف ہوتا ہے، روشن رہتا ہے، اور پچھلا نصف حصہ ہمیشہ تاریک اور بے نور رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ چاند سورج کی نزدیکی اور اس سے دوری کی بنا پر گھٹتا بڑھتا دکھائی دیتا ہے، ثانیاً یہ کہ سورج فلک الافلاک کی حرکت سے ۲۴ گھنٹے میں ایک چکر پورا کر لیتا ہے، لیکن اپنی ذاتی حرکت سے تقریباً ۳۶۵۔۴/۱ روز میں ایک دور پورا کرتا ہے، (اسی کو ہم شمسی سال کہتے ہیں) بناء ً علیہ اوسطاً ۵۹ دقیقہ ۸ ثانیہ ۲۰ ثالثہ روزانہ مغرب سے مغرب کی جانب علی توالی البروج حرکت کرتا ہے، اور چاند اپنی ذاتی حرکت سے بعد منہائی مائل وغیرہ ۲۷۔۳/۱ یوم میں ۲۷ (عند اہل ہند) یا ۲۸ (عند اہل مغرب و فارس) منزلیں طے کر کے اپنا ایک دور پورا کر لیتا ہے۔ اور اوسطاً (۱۳) درجہ (۱۰) دقیقہ (۲۵) ثانیہ ثالثہ روزانہ مغرب سے مشرق کی جانب حرکت کرتا ہے۔ اب اگر سورج کی روزانہ حرکت چاند کی حرکت سے تفریق کر دی جائے۔

    درجہ     دقیقہ       ثانیہ               ثالثہ

حرکت چاند روزانہ            ۰۳        ۱۰         ۳۵                    ۲

حرکت سورج روزانہ   ۰    ۵۹        ۸                      ۲۰

باقی                       ۱۲      ۱۱          ۲۶                    ۴۲

تو باقی ماندہ مقدار حرکت چاند روزانہ سے چاند کے فصل اور دوری کی مقدار ہو گی بنا بریں اجتماع حقیقی سے ۱۴ یوم ۱۸ گھنٹے ۲۲ منٹ بعد (۱۸۰) درجہ سورج سے دور اور ۲۹ یوم ۱۲ گھنٹے ۴۴ منٹ بعد پھر اجتماع حقیقی ہو جائے گا۔ اور زمانہ عحاق کی مدت اوسطاً ۴۷ گھنٹے ۱۶ منٹ ہے، ثالثاً یہ کہ رؤیت ہلال کا حساب نہایت ہی دقیق ہے، کیونکہ اس کا دارو مدار قوس الرویہ کی تحدید پر ہے، اور یہ سخت دشوار ہے اس لیے کہ جرم قمر کا اوج و حضیض کی وجہ سے مرکز عالم سے قریب ہوتے رہنا۔ اور پھر دور ہوتے رہنا، اس کی حرکت کا بطوء اور سرعت میں مختلف ہوتے رہنا، اور اس کا خط استواء سے عرض میں کم و بیش ہوتے رہنا۔ خود شہروں کے عرض کا کم و بیش ہونا سورج سے مختلف دوری پر بھی بے موقع ہلال بنتے رہنا وغیرہ وغیرہ امور قوس الرویہ کی تحدید میں دشواری پیدا کرتے ہیں۔ اور اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ مختلف حالات میں ایک ایک شہر کے لیے سینکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں کروڑوں قوس الرویہ کا امکان ہے۔ بنا بریں متقدمین علماء فن نے قوس الرویۃ القمر کی بحث ہی کو حذف کر دیا ہے۔ ہاں متاخرین نے اس پر بحث کی ہے۔

((والمتأخرون ذکروا فیه کلاما مختلفاً اکثرہ لا طائل تحته لعدم انضباط واما الامر الاوسط الذی یعمل به اصحاب وھو انه اذا کان البعدین النیرین فی الاقلیم الرایع اثنی عشرة درجة دور الفلك فانه یری)) (نہایة الادراك ص۲۳۴)

اور متاخرین علمائے فن نے قوس الرویۃ کے بارے میں مختلف باتیں لکھی ہیں۔ جن میں اکثر ضابطہ کے تحت نہ آ سکنے کی وجہ سے بے فائدہ ہیں۔ البتہ اوسط قوس الرؤیتہ جس پر زائچہ بنانے والوں کا عمل ہے، یہ ہے کہ جب اقلیم رابع میں چاند اور سورج میں ۱۲ درجہ کی دوری ہو جائے تو ہلال نظر آ جائے گا۔ بنا بریں ہم نے بھی اوسط قوس الرویۃ ۱۲ درجے کو اختیار کیا ہے ورنہ مختلف صورتوں میں اس سے بھی کم و بیش قوس الرویۃ ہوا کرتی ہے، اور یہ قوس اختلاف مطالع کی مقدار ہے۔

رابعاً یہ کہ بوقت طلوع الشمس و نصف النہار و غروبب شمس و نصف الیل اور ان کے مابین غرض ۲۴ گھنٹے یومیہ کا ہر منٹ ہر سیکنڈ اس کا متحمل ہے کہ اس وقت چاند قوس الرویۃ پر پہنچ کر ہلال بن جائے، اور یہ صرف احتمال ہی نہیں ہے۔ بلکہ ایسا ہی نفس الامر میں واقع ہوا کرتا ہے۔ اور چاند کے سورج سے ہٹ کر قوس الرؤیۃ پر پہنچ کر ہلال بن جانے کے لمحات مختلف مہینے، سال، صدی میں مختلف ہوا کرتے ہیں جس کو اہل تقویم چاند اور سورج کی رفتار منضبط کے ماتحت حساب لگا کر ہر ماہ ایک متعین شہر کے لے اس لمحہ کی تعین کر دیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے عمدہ تقویم وہ ہے جو نائیکل المنک کے نام سے سال بسال رصد گاہ لندن سے شائع ہوا کرتی ہے، نیز یہ تقویم سیاروں کی حرکات یومیہ اور دیگر معلومات کا خزانہ ہے۔

اچھا اب آپ رؤیت ہلال کے وقت سے چاند کی کیفیت ملاحظہ فرمائیے کس قدر باریک اور سورج کے قریب ہوتا ہے۔ پھر دوسرے دن شام کو دیکھئے تو آپ کو قدرے بڑا اور مشرق کی جانب دور نظر آئے گا۔ پھر تیسرے دن اور بڑا اور زیادہ جانب مشرق دوری پر معلوم ہوگا۔ بات یہ ہے کہ چاند سورج سے جتنا دور ہوتا جاتا ہے، اتنا ہی اس کا روشن حصہ ہماری طرف رخ کرتا جاتا ہے، اسی طرح دیکھتے رہیئے یہاں تک کہ چودہویں شب اور کبھی تیرہویں شب اور پندرہویں شب کو چاند اور سورج کے مقابل جانب مشرق ۱۸۰ درجہ یعنی نصف دور فل کی دوری پر ہوتا ہے، اگر سورج مغربی افق میں اپنا سر چھپا رہا ہے تو چاند افق شرقی سے اپنی نورانی شعاعیں ہم پر پھینک رہا ہے۔ گویا آمنے سامنے برابر کی جوڑ ہے۔ اسی استقبال کی حالت میں ہم چاند کو بدر یا ماہ کامل اور اس تاریخ کو پور نماشی کہتے ہیں۔ اس وقت چاند کا نصف روشن حصہ پورے کا پورا ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ اسی استقبال کے زمانہ میں اگر چاند، زمین اور سورج ایک خط مستقیم پر واقع ہو جائیں تو چاند گرہن ہو جائے گا، اس کے بعد پھر وہ یوماً فیوماً سورج کے قریب ہونے لگتا ہے، اور ہم کو گھٹتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس میں بھی وہی بات ہے، مگر برعکس کیونکہ چاند کے سورج سے قریب ہوتے رہنے سے اس کا روشن حصہ ہمارے سامنے سے رخ پھیرتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اٹھائیسویں یا انتیسویں شب کو سورج سے ۱۲ درجہ قریب پہنچ کر دو شب، اور کبھی ایک شب یا تین شب کے لیے ہماری نظروں سے یکسر غائب ہو جاتا ہے، اس اجتماع کو ہم محاق یا اوس کہتے ہیں۔ اس حالت میں چاند کا نصف روشن حصہ سورج کی طرف ہوتا ہے، اور نصف پچھلا تاریک حصہ ہمارے سامنے واضح ہو کہ اسی اجتماع میں اگر چاند اور سورج میں عرضاً بھی اتنا قریب ہو جائے کہ ہماری نگاہ خط مستقیم چاندسے گزرتی ہوئی سورج پر پڑ جائے تو سورج گرہن ہو جائے گا۔ یاد رکھئے اسی زمانہ عحاق میں جس کی مدت اوسطاً ۲۴ گھنٹے ۱۲ منٹ ہے، ایک خاص لمحہ ایسا گزرتا ہے، جس میں چاند اور سورج کا ایک خط طولی پر دوسرے لفظوں میں ایک خط نصف النہار پر اقع ہو جانا ضروری ہے، اور وہ ساعت ہے جب کہ ابتدائے عحاق سے ۲۳ گھنٹے ۳۸ منٹ گزر جائیں۔ بس اب یہیں سے رؤیت ہلال کا حساب شروع کیجئے۔

فرض کیجئے کہ جب افق شہر اعظم گڑھ سے جو ۸۳ درجہ ۱۳ دقیقہ طول البلد پر واقع ہے، ۶ بجے آفتاب غروب ہوا۔ اور ۶ بج کر ۲۴ منٹ سے چند سیکنڈ پہلے چاند و سورج میں اجتماع حقیقی ہو گیا۔ اور ایک خط طولی پر دونوں واقع ہو گئے پھر رات بھر اور دن بھر حرکت کرتے رہے، یہاں تک کہ ۳۳ گھنٹے ۳۸ منٹ بعد یعنی ۶ بجے سے چند سیکنڈ پہلے چاند سورج سے ۱۲ درجے دوری پر مشرق میں پہنچ کر قوس الرویہ کے لباس سے آراستہ ہو گیا۔ بس یہی وہ اولین ساعت ہے کہ چاند ہلال بن کر فلک اول پر تاباں ہو جاتا ہے، اور دنیا بھر کے انسانوں کی نگاہیں اس کے دیکھنے کی متمنی ہوتی ہیں۔ اگر ابر گرد و غبار، کہر اور دیگر اسباب رویت سے مانع ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم کو یہ ننھا منا سا ہلال چمکتا ہوا نہ دکھائی دے۔

خیال فرمائیے یہ تو اعظم گڑھ کا مطلع قمر ہے اب اعظم گڑھ کے مغرب کراچی اور مکہ معظمہ، قاہرہ، تیونس اور جزائر کنار یا (جزائر خالدات) میں بسنے والے انسان سب کے سب بشر رفع موانع اپنے اپنے مطلع سے بلاشبہ ہلال دیکھیں گے۔ فرق یہ ہے کہ ہم اعظم گڑھ میں غروب کے وقت اگر ۶ بجے ہلال دیکھتے ہیں تو کراچی میں ۷ بچ کر ۵۲ منٹ اور جزائر کنار یا (مغربی افریقہ) میں ۱۲ بج کر ۴۵ منٹ پر (اعظم گڑھ میں نصف شب گزر چکی ہے) بوقت غروب آفتاب ہلال نظر آئے گا۔ لیکن نسبۃً مغربی شہر والے اپنے مشرق والوں سے ہلال بڑا اور سورج سے دور دیکھیں گے۔ اب چونکہ ہلال فلک پر موجود ہے، اس لیے مذکورہ بالا شہروں کے باشندے اگر اپنی نگاہ کی تیزی سے دن ہی دن میں چاند دیکھ لیں تو کچھ عجب نہیں، مگر یہ ان کے لیے سخت دشوار ہے۔

اچھا اب ذرا اور آگے بڑھو تو آپ کو نیویارک (امریکہ) میں چار بج کر ۲۹ منٹ اور واشنگٹن (امریکہ) میں ۷ بج کر ۳۳ منٹ پر (اعظم گڑہ میں طلوع شمس ہو چکا ہے) بوقت غروب آفتاب ہلال نظر آئے گا۔ مگر ان کا ہلال جزائر کناریا والوں سے بڑا اور سورج سے اور بھی دوری پر ہو گا۔ یہ لوگ اگر دن کو ہلال دیکھ لیں تو بعید نہیں مگر پھر بھی دشوار ہے۔

اب یہاں سے یہ مسئلہ بھی حل کر لیجئے کہ رویت ہلال قبل نصف النہار اور بعد نصف النہار بھی ممکن ہے، کیونکہ ان اوقات ہلال فلک پر موجود ہے، اور اس کا آنے والی شب کا ہلال ہونا بھی ظاہر ہے۔

اچھا امریکہ سے گزرتے ہوئے اب ذرا اور آگے بڑھئے تو ٹوکیو (جاپان) میں ۲ بج کر ۱۴ منٹ (اعظم گڑھ میں دوپہر کا وقت ہے) اور آگے بڑھئے تو ہانگ کانگ (چین) میں ۳ بج کر ۵۷ منٹ اور آگے بڑھئے تو شہر برما میں ۵ بج کر ۵ منٹ پر (اعظم گڑہ میں غروب کو ۵۵ منٹ باقی ہیں) غروب آفتاب ہو گا۔ اس وقت وہاں ہلال نظر آئے گا۔ اور ان لوگوں کا ہلال علی الترتیب کافی بڑا اور سورج سے کافی فاصلہ پر ہوگا۔ یہی وہ لوگ ہیںجو دن میں بہت آسانی سے ہلال دیکھ سکتے ہیں۔ خصوصاً برما کے باشندے کیونکہ ان کا ہلال سب سے بڑا اور سورج سے کافی (تقریباً ۲۳۔۴/۳ درجہ) دوری پر ہو گا۔ لیکن اس ہلال کا بھی آنے والی شب کا ہلال ہونا ظاہر ہے، مگر غروب کے وقت جب اہل برما ہلال دیکھتے ہیں تو کوئی کہتا ہے، یہ توکل کا ہے، اور کوئی خیال کرتا ہے، یہ تو پرسوں کا ہے، قربان جائیے نبی امی ﷺ پر وہ فرماتے ہیں۔ نہیں نہیں تم کو دھوکہ ہو رہا ہے۔ یہ تو آج ہی کا ہلال ہے۔

((عن ابی البختری قال خرجنا للعمرة فلما نزلنا ببطن نخلة قال فرأینا الھلال فقال بعض القوم ھو ابن ثلٰث وقال بعض القوم ھو ابن لیلتین قال فلقینا ابن عباس فقلنا انا راینا الھلال فقال بعض القوم ھو ابن ثلٰث وقال بع القوم ھو ابن لیلتین فقال ای لیلة رأیتموہ قال قلنا لیلة کذا و کذا فقال انه رسول اللّٰہ مدد للرویة فھو للیلة رأیتموہ)) (مسلم ص ۳۴۸ ج ۱)

’’ابو البختری رحمہ اللہ (تابعی) سے مروی ہے کہا ہم لوگ عمرہ کے لیے چلے۔ جب مقام بسطن نخلہ میں پہنچے تو ہلال دیکھا۔ بعض لوگوں نے کہا۔ یہ تو پرسوں کا ہلال ہے، اور بعض نے کہا کل کا ہے، پھر ہم ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملے اور واقعہ بیان کیا، انہوں نے فرمایا اچھا یہ تو بتائو تم لوگوں نے کس رات ہلال دیکھا ہے، ہم لوگوں نے عرض کیا۔ فلاں رات (یعنی ۳۰ کو) ہم نے ہلال دیکھا۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے رؤیت ہلال کی مدت مقرر فرمائی۔ (ہلال کے چھوٹے بڑے ہونے کا اعتبار نہیں فرمایا) لہٰذا یہ ہلال جس رات تم لوگوں نے دیکھا اسی کا مانا جائے گا۔‘‘

حاصل کلام یہ کہ جب افق اعظم گڑھ پر وقت مقررہ میںہلال کا وجود ہو چکا تو اب اس کے آگے مغرب میں جہاں تک بھی چلے جائیے کوئی ملک شہر اور بستی ایسی نہ ہو گی جس کے افق پر ہلال کا وجود نہ ہو، یہ اور بات ہے کہ عارضی موانع سے وہاں کے باشندے نہ دیکھ سکیں۔ اسی کو اختلاف رویت کہتے ہیں، اب اگر ہلال کا صحیح ثبوت مل جائے تو حکم شرع نافذ کیا جائے گا۔ ورنہ نہیں اس میں کسی کا اختلاف ہے، یہاں سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اہل مشرق کی رؤیت سارے کے سارے مغرب والوں کے حق میں ہلال کا قطعی ثبوت بہم پہنچاتی ہے، اس لیے اگر مشرق سے ثبوت ہلال کی صحیح سند مل جائے تو بلا شبہ شرعی احکام نافذ ہوں گے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ہلال کا چھوٹا بڑا ہونا کوئی چیز نہیں ۲۹ کا ہو یا ۳۰ کا۔

اب ہم اختلاف مطالع کی بحث سمجھانا چاہتے ہیں۔ بس پھر وہیں سے حساب شروع کیجئے جبکہ افق اعظم گڑھ پر ۶ بجنے سے چند سینکڈ پہلے چاند سورج سے ۱۳ درجے دور قوس الرویۃ پر پہنچ کر ہلالی شکل میں نمودار ہوا۔ اب ذرا اعظم گڑھ سے مشرق کو چلئے۔ مگر ۱۲ درجے سے زیادہ نہیں جیسے پٹنہ۔ بھاگلپور، ڈھاکہ۔ سلہٹ منی پور (آسام) جب اعظم گڑھ میں ظہور ہلال ہوا تو وہ ہلال ان سب شہروں کے باشندوں کے افق کے اوپر ہے، علی الترتیب ان لوگوں کا ہلال ان کے افق سے قریب اور قریب تر ہونے کی وجہ سے ان کو نہ دکھائی دے گا۔ منی پور ان سب شہروں میں سب سے دور اور اعظم گڑھ سے۔ ۱ درجہ ۴۵ دقیقے فاصلہ پر ہے۔ ان کا ہلال تو بس افق سے اتنا قریب ہو گا کہ صرف ۵ منٹ باقی رہ کر افق سے غروب ہو جائے گا۔ اب ان شہروں کے باشندوں کو اگر ہلال کا صحیح ثبوت بہم پہنچ جائے تو احکام شرعی عائد ہوں گے۔ اور یہ حکم ہماری تقریبی ۱۲ درجہ فوس الرویہ کی بنا پر اعظم گڑھ سے ۱۲ درجہ مشرق تک عائد ہو گا۔ اور بس۔

اچھا اب ۱۲ درجہ مشرق سے بڑھ کر تیرہویں درجہ پر کھڑئے ہو جائیے۔ اب چونکہ اعظم گڑھ میں ہلال افق سے ۱۲ درجہ بلدن ہے، اور آپ اعظم گڑھ سے ۱۲ درجہ مشرق کو ہٹ کر تیرہویں درجہ پر قدم رکھ چکے ہیں، اس لیے چاند تو قوس الرویہ پر پہنچنے کے ساتھ ہی آپ کے افق سے نیچے ہو گا۔ مثال میں شہر برما ہو ۹۷ درجہ طول البلد پر اور اعظم گڑھ سے ۱۳ درجہ ۴۷ دقیقہ مشرق کو ہے لے لیجئے جب افق اعظم گڑھ سے ظہور ہلال ہوا تو برما کے افق سے ایک درجہ ۴۷ دقیقے نیچے پہنچ چکا ہے، اب باشندگان برما کے لیے رؤیت ہلال کسی بھی آنے اور رصد سے ممکن نہیں بس یہی اختلاف مطالع ہے، اعظم گڑھ کے مطلع پر ہلال ہے، اور اہل برما کا مطلع ہلال سے خالی ہے، اب جتنا بھی مشرق (ہانگ کانگ، ٹوکیو، واشنگٹن) میں چلے جائیے، رؤیت ہلال کسی کے لیے ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے مطالع ہلال سے خالی ہیں۔

یہاں سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ اہل مغرب کی رویت کا تمام مشرق والوں کے حق میں ہلال ثابت کر دینا ضروری نہیں ہے، بلکہ صرف ۱۲ درجہ مشرق (ہماری تقریبی قوس الرویۃ) تک یہ حکم قطعی طور سے لگایا جا سکتا ہے، اور اس کے بعد نہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اختلاف مطالع کی تحقیق کے لیے اوسطاً ۱۲ درجہ (ہماری تقریبی قوس الرویۃ) کا فصل ضروری ہے جس کا ۸۳۳ میل ہوتا ہے۔

حکم:

فقہائے حنفیہ، مالکیہ حنابلہ کے نزدیک راجح اور مفتی بہ قول یہ ہے کہ شرعی احکام میں اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں کیا جاے گا۔ بلکہ جس مقام پر سب سے اول ہلال دیکھا گیا ہے، (جیسے اعظم گڑھ ہماری مثال ہیں) وہاں سے مشرق کے باشندوں کے حق میں چاہیے۔ وہ کتنی ہی دور کیوں نہیں ہلال کا حکم ثابت ہو گا۔ (جیسے ہانگ کانگ، ٹوکیوں، واشنگٹن) البتہ ضروری ہے کہ ان مشرق والوں کو مغرب والوں کی رویت کا ثبوت یقینی اور شرعی طور پر مل جائے۔

در مختار میں ہے:

((فیلزم اھل المشرق برویة اھل المغرب اذا ثبت عندھم رویة اولئك بطریق موجب))

’’مغرب والوں کی رویت سے مشرق والوں پر احکام شروع لازم ہو جاتے ہیں، شرط یہ ہے کہ مغرب والوں کی رؤیت کا ثبوت مشرق والوں کو باقاعدہ مل جائے۔‘‘

اب یہاں سے ایک اور غلطی صحیح کر لیجئے۔ صاحب در المختار نے اختلاف مطالع کی ایک مثال اس طرح بیان کی ہے۔

((حتی لورؤی فی الشرق لیلة الجمعة وفی المغرب لیلة السبب وجب اھل المغرب العمل بما راہ اھل المشرق))

’’اگر مشرق میں جمعہ کی رات کو ہلال دیکھا گیا، اور مغرب میں شنبہ کی رات کو تو مغرب والوں پر مشرق والوں کی رویت کے مطابق عمل کرنا لازم ہو گا۔‘‘

ہم یہ تو کہنے کی جرأت نہیں کریں گے کہ یہ شارح کی غلطی ہے، خصوصاً جب کہ تین سامنے موجود ہے، مگر یہ تو کہنے میں باک نہیں کہ ناسخ کا سہو قلم ہے عبارت یوں ہونی چاہیے۔

((حتی لورؤی فی المغرب لیلة الجمعة وفی المشرق لیلة النسبت وجب ولی اھل المشرق العمل بما راہ اھل المغرب))

’’اگر مغرب میں جمعہ کی رات کو ہلال دیکھا گیا، اور مشرق میں شنبہ کی رات کو تو مشرق والوں پر مغرب والوں کی روایت کے مطابق عمل کرنا لازم ہو گا۔‘‘

فقہائے شافعیہ کے نزدیک راجح اور معتمد قول یہ ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے گا۔ جن کے مطالع پر ہلال ہے خود ان کی رویت یا شرعی ثبوت کے بعد ان پر احکام شرع کا نفاذ ہو گا۔ اور جن کے مطالع ہلال سے خالی ہیں ان کے حق میں ہلال کا وجود معتبر نہ ہو گا۔ چاہے صحیح ثبوت ہی کیوں نہ مل جائے، بلکہ مطلع کا اعتبار کیا جائے گا۔ اور مطلع ہلال سے خالی ہے، علمائے اہل حدیث کا عمل بھی اس پر ہے۔ واللہ اعلم۔ (اہل حدیث دہلی یکم فروری ۱۹۵۲ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

 

جلد 06 ص 145-154

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ