السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسئلہ رویت ھلال، ادلہ شرعیہ کی روشنی میں
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آج کل ’’وحدت عید‘‘ کا جو خیال، جدید ذہن کے بہت سے لوگوں میں ابھر رہا ہے، افسوس! بہت سے مسلمان ملک بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ چنانچہ رابطۂ عالم اسلامی (مکہ مکرمہ) کے بھی ایک اجلاس میں ایک مضمون کی قرار داد پاس ہوئی تھی، کہ چاند کی رؤیت کی تعیین آلات رصد کے ذریعے کر کے پورے عالم اسلام میں ایک ہی دن روزے رکھنے اور عید منانے کا فیصلہ کیا جائے، اس قرار داد پرنجد کے ایک عالم نے جو اس اجلاس میں بطور رکن شریک تھے۔ فاضلانہ نقد کیا، اس مسئلے کی شرعی حیثیت کی وضاحت فرمائی،ا ور تبیان الاولہ فی اثبات الاہلہ کے نام سے اس کو شائع کر دیا ہے۔
اسی کتابچے کا ترجمہ، ہمارے فاضل و محترم دوست مولانا محمد رفیق صاحب نے کیا ہے، جس پر ہم ان کے ممنون ہیں۔ (الاعتصام)آج حسب وعدہ ہم جناب شیخ کے نقد کا اردہ ترجمہ ہدئیہ قارئین کر رہے ہیں۔ (محدث)
سب تعریف اللہ کے لیے ہے، جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور فرمایا۔ اور اس کی منازل متعین کیں۔ تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب جان سکو، میںیقین و بصیرت سے شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا نہ کوئی معبود ہے، نہ اس کا کوئی شریک، اور میں شہادت دیتا ہوں محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ﷺ ہیں۔ جو انبیاء میں افضل ترین ہیں، اور جن پر بہترین کتاب نازل ہوئی۔ ((صلی اللّیہ علیه وسلم واٰله واصحابه ومن تابعھم باحسان الی یوم الدین وسلم تسلیما کثیرا)) (عربی خطبہ ٔ کتاب کا ترجمہ)
شعبان ۱۳۹۱ء کا واقعہ ہے کہ رابطہ عالم اسلامی کی مجلس تاسیسی نے اپنے تیرھویں اجلاس میں کہ مکہ مکرمہ میں ہوا چند قرار دادیں پاس کیں۔ ایک قرار داد میں کہا گیا کہ تمام اسلامی ممالک میں رویت ہلال کا ایک ایسا نظام بنایا جائے۔ کہ اگر مغرب یا ایران میں چاند نظر آ جائے تو دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہو کہ اسی رویت کی بنا پر روزے رکھیں۔ اور افطار کریں۔ قرار داد میں یہ بھی طے پایا کہ رابطہ کا سکرٹریٹ تمام سربراہان ممالک اسلامیہ سے رابطہ قائم کرے، اور ان سے اس پر عمل درآمد کے لیے کہے کیونکہ یہ ایک شرعی تقاضا ہے، اس کے اختتامی جلسہ میں بھی شریک تھا۔ جب یہ قرار داد پیش ہوئی میں نے اس سے اختلاف کیا۔ اور کہا کہ یہ نظریہ نہ تو احادیث صحیحہ کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، نہ محققین علماء (حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ) کے مسالک ہی اس کے موافق ہیں۔ پھر جدید علم ہیئت اور جغرافیہ سے بھی یہ نظریہ متصادم ہے، اگرچہ مجلس کے بعض اراکین کے اس نظریہ کی ہمنوائی میں بعض علماء کے اقوال ملتے ہیں، مگر دلائی عقلی و نقلی ان کی تائید نہیں کرتے۔ اس کی عدم صحت بدیہی ہے جیسا کہ ابھی اس کی وضاحت آپ کے سامنے آ جائے گی، انشاء اللہ
انہیں وجوہ کی بنا پر میرا خیال ہے کہ اس موضوع پر ایک رسالہ تحریر کروں جس میں حق کا بیان ہو جائے اور معلوم ہو جائے کہ اہل معرفت اس بارے میں متفق ہیں کہ مطالع میں اختلاف ہوتا ہے، اس لیے ہر علاقہ کے لیے اسی علاقہ والوں کی رویت معتبر ہو گی۔ علاوہ ازیں موجودہ اسلامی مملکتوں کی حالت اس وقت یہ ہے کہ وہ دین و مذہب سے دور ہیں، اور ان کا کتاب و سنت رسول اللہ ﷺ سے نہ صرف کوئی تعلق نہیں، بلکہ ان کا کردار و عمل ان کے خلاف ہے۔ جسے ہر کوئی جانتا ہے، (ایسی حکومتوں کو دینی امور میں مداخلت کی دعوت دینا عجیب بات ہے) رسالے کا نام ’’بتیان الاولہ فی اثبات الاہلہ‘‘ رکھا ہے، اب اصل مسئلہ اولۂٌ شرعیہ کی روشنی میں بیان کیا جاتا ہے۔
واللّٰہ الموفق والھادی الی سواء السبیل
حدیث اول: ((حدّثنا یحیی، ویحییٰ بن ایوب وقتیبة وابن حجر قال یحیی بن یحییٰ اخبرنا حدثنا اسمٰعیل وھو ابن جعفر عن محدم وھو ابن حرملة عن کریب ان ام الفضل بنت الحارث بعثة الی معاویة بالشام قال فقد مت الشام فقضیت حاجتہا واستھل علی رمضان وانا بالشام فرأیت الھلال لیلة الجمعة ثم قدمت المدینة فی اخر الشھر فسئالنی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما ثم ذکر الھلال فقال متی رأیتم الھلال فقلت رأیناہ لیلة الجمعة فقال انت رأیته فقلت نعم راہ الناس وصاموا او صام مساویة فقال لکنا رأیناہ لیلة السبت فلا نزال نصوم حتی نکمل ثلاثین او نراہ فقلت اولا تکتفی برؤیتة معاویة وصیامه فقال لا ھکذا امرنا رسول اللّٰہ ﷺ))
’’کریب رحمۃ اللہ کہتے ہیں مجھے ام الفضل بنت الحارث نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا میں وہاں گیا اور کام پورا کیا، اور وہیں رمضان کا چاند نظر آ گیا۔ میں نے جمعہ کی رات چاند دیکھا، جب مہینہ کے آخر میں مدینہ آیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے مجھے سے پوچھا تم نے کب چاند دیکھا تھا۔ میں نے کہا جمعہ کی رات کو، انہوں نے کہا تم نے خود یکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں! اور بہت سے لوگوں نے دیکھا۔ اور اس کے مطابق روزے رکھے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ہم ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، ہم تیس دن تک روزے رکھتے رہیں گے۔ مگر یہ کہ ہم خود پہلے دیکھ لیں۔ میں نے کہا آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کی رویت کا اعتبار نہیں کرتے؟ ابن عباس نے کہا: نہیں ! ہمیں رسول اللہ ﷺ کا یہی حکم ہے۔‘‘
یہ حدیث اس بارے میں صریح ہے کہ ہر شہر کے لے وہیں رؤیت کا اعتبار ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کریب کی خبر اس لیے رد نہیں کی کہ وہ خبر واحد ہے، کیونکہ اگر یہ وجہ ہوتی تو ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ کی طرف لکھ کر اس کی تصدیق کرا سکتے تھے۔ یا معاویہ رضی اللہ عنہ خود اہل مدینہ کو چاند دیکھنے کی اطلاع لکھ کر بھیج دیتے کہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ہے اور تم اس دن کی قضا کرو۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ یہی سمجھتے تھے کہ ہر شہر کی رؤیت انہیں کے لیے معتبر ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں عمل رہا۔ کیونکہ نہ تو انہوں نے مختلف علاقوں سے رویت ہلال کی اطلاع حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اور نہ دسرے ہی علاقے کے لوگوں نے از خود انہیں اطلاع دی… جب کہ اُس دور کے مسلمان کو دین سے شدید لگائو تھا۔ اور نیکی کے حریص تھے۔ امام نوری رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے، باب ہے اس بیان میں کہ ہر علاقہ کے لیے ان ہی کی رؤیت ہے، اور وہ جب چاند دیکھ لیں تو ان سے دور والوں کے لیے ثابت نہیں ہو جاتا۔ امام ا بو داؤد نے ’’السنن‘‘ میں یہ باب دیا ہے۔ ’’جب ایک شہر میں دوسرے شہروں سے ایک رات پہلے چاند نظر آجائے (تو اس کا حکم)ترمذی رحمۃ اللہ نے جامع میں یوں لکھا ’’باب ہے، اس میں کہ ہر شہر کے لیے ان کی اپنی رویت ہے۔‘‘ پھر حدیث کریب کے درج کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں۔‘‘ اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر شہر والوں کی رویت صرف انہیں کے لیے ہو گی۔‘‘ امام ترمذی نے اس بارے میں کوئی اختلاف بھی ذکر نہیں کیا۔ (جیسا کہ اختلافی مسئلے میں وہ مختلف آرا نقل کرتے ہیں)۔ امام نسائی باب باندھتے ہیں۔‘‘ روایت میں اہل آفاق کے اختلاف کا بیان‘‘مذکورہ ابواب کے تحت ان بزرگوں نے یہی حدیث کریب درج کی ہے، جو دلیل ہے، اس بات پر کہ ان کے ہاں ہر شہر کی رویت اسی علاقہ کے لوگوں کے لیے ہے، جیسا کہ ان کے قائم کردہ ابواب دلالت کرتے ہیں، اور کریب کے اس سوال کا کہ آپ رؤیت ہلال کے ثبو ت میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت اور ان کے روزہ رکھنے کو کافی کیوں نہیں سمجھتے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جو یہ جواب دیا کہ اہل مدینہ اہل شام کی رؤیت سے افطار نہ کریں، اس لیے کہ حدیث میں ہے۔ ’’چاند دیکھنے سے پہلے روزہ نہ رکھو اور چاند دیکھنے سے پہلے افطار نہ کرو۔‘‘
دوسری حدیث: صحیح بخاری میں ہے:
((عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنه قال قال رسول اللہ ﷺ لا تصوموا حتی تروا الھلال ولا تفطر واحتی تروہ فاذغم علیکم قاقدرا اله وقال الشھر تع وعشرون لیلة فلا رتصوموا حتی تردہ فان غم علیکم فاکملوا العدة ثلاثین))
’’یعنی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزہ نہ رکھو۔ جب تک چاند دیکھ نہ لو۔ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے، پس دیکھ کر روزہ رکھو۔ اگر کسی وجہ سے نظر نہ آئے تو تیس کی گنتی پوری کرو۔‘‘
ان روایت کے مختلف الفاظ وارد ہیں۔
((فاقدروا له ثلاثین، اذا رأیتم الھلال تصوموا او اذا رایتموہ فافطردا فان غم علیکم فاقدر واله، فان غم علیکم فاقرو اله، فان غم علیکم تصوموا ثلاثین یوما، فان غمی علیکم فاکملوا العدة، فان غمی علیکم الشھر فعدوا الثلاثین۔ فان اغمی فعدوا ثلاثین فان غمی علیکم فاکملوا عدة شعبان ثلاثین))
ان تمام الفاظ احادیث کا ماحصل یہی ہے کہ روزہ تب رکھا جا سکتا ہے، جب کہ شعبان کے پورے تیس دن ہو جائیں۔ یا پہلے نظر آ جائے۔ دیکھ کر روزہ رکھو۔ دیکھ کر افطار کرو۔
ایک واضح مثال:… اگرچہ اس کی مخاطب تمام امت ہے، لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ روزہ دار افطار کا ایک سب متعین ہے، یعنی چاند کا نظر آ جانا۔ جن لوگوں نے چاند دیکھ لیا، ان کے لیے سبب کے متحقق ہو جانے کی بنا پر روزہ اور افطار لازم ہو گیا۔ اور جن علاقوں میں چاند نہیں دیکھا جا سکا تو ان پر روزہ اور افطار لازم نہ ہو گا… کہ ان کے لے سبب متحقق نہیں ہو سکا۔ نماز کے اوقات اس کی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو زوال سورج کے بعد نماز ظہر کی اقامت کا حکم دیا تو جب مدینہ میں زوال ہو جائے گا۔ مدینہ والوں کے لیے نماز ظہر کا وقت ہو گیا۔ لیکن مدینہ سے مغرب والوں کے لے ابھی نماز ظہر کا وقت نہیں ہوا۔ جب تک کہ ان کے ہاں زوال نہ ہو۔ اسی بنا پر اہل مشرق فجر، ظہر، عصر، مغرب یہ تمام نمازیں اہل مغرب سے پہلے ادا کرتے ہیں کہ سبب نماز ان کے ہاں پہلے متحقق ہو جاتا ہے، اس طرح رسول پاک ﷺ کے اس فرمان کو سمجھا جائے۔ ’’دیکھ کر روزہ رکھو اور دیکھ کر افطار کرو۔‘‘
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مثلاً مکہ اور مدینہ میں چاند نظر آ گیا۔ مگر اس وقت کسی علاقہ میں دن ہو گا اس وقت ان کو روزہ رکھنے کا حکم کس طرح دے سکو گے؟ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اختلاف مطالع کا اعتبار ضروری ہے، جیسا کہ کئی علماء نے اس پر اجماع کا دعویٰ بھی نقل کیا ہے،
تیسری حدیث: المصنف میں امام ابن ابی شیبہ نے یہ باب (عنوان) قائم کیا ہے۔‘‘اس بات کا بیان کہ ایک مقام پر لوگ چاند دیکھ لیں۔ لیکن دوسری جگہ نظر نہ آئے۔‘‘اس کے ذیل میں یہ حدیث دی ہے۔
((حدثنا ابن ادریس عن عبد اللہ بن سعید قال ذکروا بالمدینة رؤیة الھلال وقالوا ان اھل استارہ قدرأ وہ فقال القاسم وسالم ما لنا ولا ھل استارہ))
’’عبد اللہ بن سعید فرماتے ہیں۔ مدینہ میں چاند دیکھنے کی بات چیت لوگوں میں ہوئی۔ اور کہا کہ اہل ’’استارہ‘‘ نے چاند دیکھ لیا ہے،تو قاسم اور سالم نے فرمایا: ہمارا ’’اہل استارہ‘‘ سے کیا تعلق اور واسطہ؟‘‘
ائمہ و محققین احناف رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال: اس بارے میں احناف کے ائمہ کبار اور علمائے محققین کے اقوال بھی ملاحظہ فرمائیں۔
صاحب تجرید لکھتے ہیں: مطالع کے اختلاف کی وجہ سے چاند کے احکام میں اختلاف ہو جاتا ہے۔‘‘
مفتی ابو لسعود شرح مراقی الفلاح میں کہتے ہیں۔‘‘صاحب تجرید کا نظریہ زیادہ قرین صحت ہے۔ اس لیے کہ سورج کی شعاعوں سے چاند کا جدا ہونا مختلف اقطار عالم کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے، یہ بات علم افلاک و لہیئات سے بھی ثابت ہے، مطلع کے اختلاف کے لیے کم سے کم ایک ماہ کی ممانعت سفر ہے، جیسا کہ الجواہر میں ہے، (انتہی ملخصأ)
تاتارخانیہ میں ہے۔ اگر ایک شہر والے چاند دیکھ لیں تو کیا وہ کل بلاد کو لازم ہو گا؟ اس بارے میں مشائخ کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں۔ لازم نہیں بلکہ ہر شہر والوں کے لے ان کی اپنی ہی رویت معتبر ہے۔
زیلعی شرح الکنز میں لکھتے ہیں۔ ’’اکثر مشائخ کا خیال ہے کہ اختلاف مطالع کا کوئی اعتبار نہیں مگر زیادہ صحیح یہ ہے کہ اعتبار ہے اس لیے کہ ہر قوم اسی کی مخاطب ہے، جو ان کے ہاں ہے، اور سورج کی شعاعوں سے چاند کا جدا ہونا مختلف اقطار کے اعتبار سے مختلف ہو جاتا ہے، اور اختلاف مطالع کے اعتبار پر وہ حدیث کریب دلیل ہے جو صحیح مسلم میں ہے، (یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے، ملاحظہ فرمائی جائے۔
مختاراتِ نوازں‘‘ میں ہے۔ ایک شہر والوں نے چاند دیکھ کر انتیس روزے رکھے، اور دوسرے شہر والوں نے چاند دیکھ کر تیس روزے رکھے، اور دونوں کا مطلع ایک ہے تو اول الذکر ایک دن کے روزہ کی قضا دیں۔ اور اگر مطالع کا اختلاف ہے تو پھر قضا نہیں ہے۔‘‘
ابن عابدین فرماتے ہیں۔ ’’معلوم ہونا چاہیے کہ مطالع کے مختلف ہونے میں باین معنی کوئی نزاع نہیں کہ دو شہروں کے درمیان اتنا بعد ہو کہ ایک بلدۃ میں ایک رات چاند طلوع ہو، اور دوسرے میں نہ ہو۔ اس طرح سورج کے مطلع میں بھی اختلاف ہوتاہے، چاند کا سورج کی شعاعوں سے دور ہونا مختلف علاقوں کے اعتبار سے مختلف ہے۔ مشرق میں سورج کے زوال سے یہ لازم نہیں کہ مغرب میں بھی زوال ہو چکا ہے یہی حسا ب اس کے طلوع اور غروب کا ہے۔ بلکہ یوں ہی سورج ایک درجہ حرکت میں آئے گا۔ (نظر بظاہر) تو یہ کسی قوم کے لیے صبح صادق کا وقت ہو گا۔ اور کسی کے لیے طلوع شمس کا کہیں غروب ہو گا۔ اور کہیں آدھی رات۔ جیسا کہ زیلعی میں ہے، اور اختلاف مطالع کے اعتبار کے لیے ایک ماہ یا زیادہ کی مسافت ضروری ہے (القہستان عن الجواہر) البتہ اعتبار مطالع میں اس لحاظ سے اختلاف کیا کہ مطالع کا اعتبار کیا جائے، اور ہر قوم پر انہیں کے مطلع کے احکام نافظ ہوں، اور کسی کے لیے دوسروں کے مطلع کے مطابق عمل کرنا لازم ہو یا ان دونوں کے اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کیا جائے۔ بلکہ جہاں پہلے رویت ہو جائے، اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہو، حتی کہ مغرب میں جمعہ کی رات چاند نظر آ جائے، اور مشرق میں ہفتہ کی رات کو تو مشرق والوں پر مغرب والوں کی رویت کے مطابق عمل کرنا واجب ہو۔ بعض لوگ پہلے نظریے کے قائل ہیں۔ اور اسی پر امام زیلعی رحمۃ اللہ علیہ اور صاحب الفیض نے اعتماد کیا ہے، شوافع کے ہاں بھی یہی صحیح ہے، اس لیے کہ ہر قوم اسی کی مخاطب ہے، جو ان کے ہاں ہے، جس طرح کہ اوقات نماز کا معاملہ ہے، لارت میں اسی کی تاکید ہے، اور اسی اعتبار سے وہ کہتے ہیں کہ عشاء اور وتر اس پر واجب نہیں جس سے ان کے اوقات مفقود ہو جائیں۔ زیلعی شارح الکنز نے کہا کہ اختلاف مطالع کا عدم اعتبار قریب قریب کے شہروں میں ہے، دور والوں میں نہیں۔ تجرید القدوری میں اسی طرح ہے۔ اور برمانی نے بھی یہی کہا ہے۔
مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کے مؤلف رقم طراز ہیں۔ میرے خیال میں زیلعی کا قول تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ورن کہیں عید ستائیسویں دن ہو گی کہیں اٹھائیسویں۔ اور کہیں اکتیس اور بتیس کو۔ بلاد قسطنطیہ کا چاند کبھی کبھی ہمارے چاند سے دو دن پہلے ہو جاتا ہے، ہم نے اپنے چاند کے اعتبار سے روزہ رکھا۔ اوربعد میں بلاد قسطنطینہ کی اطلاع آ جائے تو عید پہلے کرنی پڑے گی، یا ادھر کا کوئی آدمی عید سے پہلے ہمارے پاس آ جائے تو اس کی عید متاخر ہو جائے گی۔
نیز مرعاۃ الفاتیح میں ہے محققین حنفیہ، مالکیہ اور عام شافعیہ کا خیال ہے کہ اگر دو شہروں میں اتنی مسافت ہے کہ ان کا مطلع مختلف نہیں ہے، جیسا کہ بغداد اور بصرہ تو ایک شہر میں رویت کی وجہ سے دوسرے شہر والوں پر روزے لازم ہو جائیں گے، اور اگر ان کے مابین اتنی دوری ہے جیسا کہ عراق اور حجاز میں ہے، تو ہر شہر والوں کی رؤیت ان کے اپنے لیے ہے۔
علامہ عبد الرحمان مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ جامع ترمذی میں لکھتے ہیں۔ جن بلاد میں اختلاف مطالع نہیں ہے۔ وہاں ایک کی رؤیت دوسرے شہر والوں کے لے لازم ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت یہی ہے۔ صاحب بدائع لکھتے ہیں۔ یہ اس وقت ہے جب کہ مسافت اتنی ہو کہ مطلع مختلف نہ ہو اور اگر زیادہ بعد ہو تو ایک بلدہ والوں کے احکام دوسرے بلدہ والوں پر لاگو نہیں ہوں گے۔ اس لیے کہ بہت دوری کی وجہ سے مطالع مختلف ہو جاتے ہیں جیسا کہ سورج کا مغرب مختلف ہوتا ہے۔ تو ہر ایک اس کے اپنے مغرب کا اعتبار کیا جاتا ہے۔‘‘ انتہیٰ۔
شیخ مرتضیٰ (زبیدی) شرح الاحیاء میں کہتے ہیں۔‘‘،طالع کا اختلاف ثابت ہے، شرقی بلاد میں رات پہلے آتی ہے، اور غربی میں بعد کو، اگر دونوں کا مطلع ایک ہے تو ہر ایک کی رؤیت دوسرے کی رویت کو مستلزم ہے، اور اگر مطلع مختلف ہے تو مشرق کی رؤیت سے مغرب کی رؤیت لازم ہے، مگر مغرب کی رؤیت سے مشرق کی رؤیت لازم نہیں۔ حدیث کریب کا مطلب بھی یہی ہے۔‘‘
ابن عابدین نے اپنے رسالہ ’’تنبیہ الغافل والوسنان علی احکام ہلال رمضان‘‘ میں یہ تصریح فرمائی ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ چاند کے مطالع میں مختلف اقطارد بلاد کے لحاظ سے اختلاف ہوتا ہے، پس کہیں چاند نظر آ جاتا ہے کہیں نہیں، جس طرح سورج کے مطالع مختلف ہیں۔ کسی شہر میں سورج طلوع ہوتا ہے (یعنی صبح ہوتی ہے) تو دوسرے کسی شہر میں ابھی رات ہوتی ہے، یہ باتیں کتب ہیئت میں محقق اور روزمرہ کا مشاہدہ ہیں۔
محقق ابن حجر (مکی) کے فتاویٰ میں ہے۔ ’’سبکی اور آسنوری نے تصریح کی ہے کہ مطالع جب مختلف ہوں تو مشرقی بلد میں رؤیت ہلال سے مغربی بلد کی رؤیت لازم ہے، اس کا برعکس نہیں کہ مغرب کی رؤیت سے مشرق میں رؤیت لازم ہو۔ کیونکہ مشرق میں رات پہلے آتی ہے، … اور اگر مطلع ایک ہی ہے تو ہر ایک کی رؤیت سے دوسروں کی رؤیت لازم ہے، اسی لیے علماء کی ایک جماعت کا فتویٰ ہے، کہ اگر دو بھائی زوال کے وقت فوت ہو جائیں۔ ایک مشرق میں ہے، اور دوسرا مغرب میں۔ مغربی مشرقی کا وارث ہو گا اس لیے مشرقی کی موت پہلے واقع ہوئی ہے عام اوقات میں جب یہ بات محقق ہے تو چاند کے بارے میں بھی ایسا ہی سمجھ لیجئے۔ نیز ایسا ہو سکتا ہے کہ مشرق میں چاند سورج کے نہایت قریب ہو اور سورج کی شعاعوں کی وجہ سے نظر نہ آ سکے۔ مغرب میں سورج دیر سے غروب ہو گا۔ تو اس اثناء میں چاند بھی سورج سے دور ہو چکا ہو گا۔ اس لیے وہاں نظر آئے گا (آگے لگھتے ہیں) چاند کا سورج کی شعاعوں سے دور ہونا مختلف علاقوں کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے، مشرق میں سورج کا زوال ہو تو مغرب میں لازم نہیں ہے، اسی طرح صوع اور غروب کا معاملہ ہے، سورج جوں ہی ایک درجہ حرکت کرے گا۔ (نظر بظاہر) تو یہ کسی قوم کے لیے صبح صادق بنائے گا۔ اور کئی دوسروں کے لیے دن جا چکا ہو گا۔ اور کہیں غروب ہو گا اور کسی جگہ آدھی رات کا وقت۔‘‘
مروی ہے کہ ابو موسیٰ ضرری الفقیہ مؤلت المختصر اسکندریہ آئے تو ان سے یہ مسئلہ دریافت کیا گیا کہ اگر ایک شخص منارۂ اسنکندریہ پر چڑھ جائے، اور وہ شہر والوں سے بعد تک سورج کو دیکھتا رہے تو کیا وہ افطار کر سکتا ہیْ ابو موسیٰ نے جواب دیا۔‘‘ نہیں البتہ شہر والے افطار کر سکتے ہیں کہ ان کے ہاں غروب ہو چکا ہے۔‘‘
شیخ نجیب المطیعی اپنے رسالہ ’’ارشاد واہل الملۃ الی اثبات الا ہلۃ میں لکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ مطالع کے مختلف ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ یہ مشاہد اور ثابت شدہ بات ہے، دیگر امور کی طرح اس بارے میں بھی شرح عقل کے مطابق ہے، دیکھئے شریعت نے کئی احکام کی بنا، اختلاف مطالع پر رکھی ہے، نماز اور حج کے اوقات کو ہی لے لیجئے۔ حج میں اہل مکہ کے مطلع کا اعتبار کیا گیا ہے، مواریث میں تقدیم و تاخر کا اعتبار بھی اسی طور پر کیا گیا ہے کہ پہلے کوموت کس کو آئی ہے، یہ تمام مسائل متفق علیہ ہیں اختلاف مطالع کے تسلیم کے بعد البتہ اس میں اختلاف ہوا کہ رمضان و شوال کے چاند میں اس کا اعتبار کیا جائے یا نہ؟ واقع اور نفس الامر کو دیکھا جائے تو تم پائو گے۔ اختلاف مطالع اور ضروری اور بدیہی ہے۔ اور اس اختلاف کی وجہ سے اوقات کا اختلاف متحقق ہوتا ہے۔ بعض ایسے علاقے ہیں۔ جہاں سورج دو یاہ یا تین ماہ ظاہر ہوتا ہے، اور قطنی جہت میں ایسے بھی ہیں جہاں چھ ماہ سورج ظاہر ہوتا ہے چھ ماہ نہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ جب اہل مصر نے ان کے غروب کے وقت رمضان کا چاند دیکھ لیا تو انہیں اہل مصر کی رؤیت کی وجہ سے روزہ رکھنے کا مکلف قرار دیا جائے۔ اسی طرح ہمارے اور امریکہ کے اوقات میں بھی بہت اختلاف ہے، کیا ہم انہیں اہل مصر کی رؤیت کی وجہ سے غروب کے فوراً بعد روزہ رکھنے کا مکلف قرار دے سکتے ہیں؟ نہیں اس لیے نہیں کہ یہ وقت ان کے ہاں صبح کے طلوع کا ہو گا یا سورج نکلنے کا … خلاصہ یہ ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کرنا عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے۔‘‘
یہ تمام تصریحات محققین ائمہ حنفیہ کی ہیں جن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ان سب کے نزدیک اختلاف مطالع کا اعتبار ضروری ہے۔ یعنی ایک علاقے کی رؤیت دوسرے شہر کے لیے کافی نہیں۔ مگر یہ کہ یہ دونوں کا مطلع ایک ہو۔ اگر چاند مغرب میں نظر آ جائے جیسے ’’اندلس‘‘ والے دیکھ لیں تو ان کی رویت سے مشرق میں رؤیت لازم نہیں جیسے مکہ وغیرہ ہیں اس لیے کہ سورج ان کے سامنے سے گزرا تھا۔ تو چاند اس کی شعاعوں میں چھپا ہوا تھا۔ ان کے ہاں رؤیت ممکن ہی نہیں تھی۔ لیکن مغرب میں کچھ اور آگے بڑھنے سے چاند اسی شعاعوں سے متصل ہو جائے گا۔ اور رؤیت ممکن ہو جائے گی۔ اور پھر اس سے بھی آگے کے لیے چاند اور بھی نمایاں ہوتا چلا جائے گا۔ اس کا الٹ نہیں ہوتا۔ پس مکہ مکرمہ میں چاند دیکھ لیا جائے تو مغرب میں ضرور دیکھا جائے گا اگر کوئی مانع حائل نہ ہو۔
ہلال ظاہر ہونے والی چیز کو کہتے ہیں۔ اور چاند کے دیکھنے کے وقت اونچی آوازیں اٹھنا بھی اس کا معنی ہے۔ اسھل الصبی کا مطلب ہے، بچہ نے اونچی آواز کی۔ اھلال بالحج اونچی آواز سے تلبیہ کہنا۔ چاند دیکھ کر اونچی آواز سے لا اله الا اللّٰہ کہنا۔ کبھی کبھی ہلال شہر (ماہ کے معنی میں اور شہر (ماہ) ہلال کے معنی میں بھی عربی میں مستعمل ہے۔ اہل الھلال۔ استھل۔ اھللناہ۔ استھلناہ اس کے استعمالات ہیں۔ یہ اکثر اہل لغت کا بیان کردہ مفہوم ہے۔
شمر کہتا ہے، استھل الھلال منبی للفاعل چاند کے معنی ہیں اور مبنی للمفعول ماہ کے معنی ہیں جیسا کہ ایک شاعر کہتا ہے۔ ؎
شھر مستھل بعد شھر وحول بعدہ حول جدید
استھل تبین کے معنی میں بھی آتا ہے، اس کا استعمال اصل میں اھللنا عن لیلة کذا درست ہے۔ انتہیٰ
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ’’ہلال۔ ظہور اور رفع الصوت کے معنی میں ہے، اس لیے جب تک اہل زمین کے لیے اس کا ظہور نہ ہو تب تک اس کے آسمان پر طلوع ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔ باطناً نہ ظاہراً۔ انسانوں کے فعل (اسے دیکھنا اور عادۃً کہنا کہ یہ چاند ہے) سے اس کو ہلال نام دیا گیا ہے، جب تک انسان نہ دیکھ لیں ہلال نہیں بنے گا۔ ایک یا دو آدمی دیکھتے ہیں مگر یہ کسی کو بتاتے نہیں تو بھی ہلال نہیں ہوا۔ اس لیے کوئی حکم شرعی نافذ نہیں ہو گا۔ جب تک وہ اس کی خبر نہ دیں۔ تو ان کا خبر دینا ہی ہلال ہے، جس سے رفع صوت کا مفہوم پایا گیا۔‘‘ اس سے واضح ہو گیا کہ ہلال میں ظہور اور نمایاں ہونے کے معنی ہے، ظاہر اور نمایاں ہونے سے قبل ہلال نہی۔ پس اہل مشرق اہل مغرب کی رویت سے نہ روزے رکھیںنہ افطار کریں۔ اس لیے کہ مشرق میں ہلال ہے ہی نہیں کہ ان کے سامنے ظاہر نہیں ہوا۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ التمہید میں لکھتے ہیں۔‘‘علماء کا اجماع ہے کہ بہت دور کے شہروں میں ایک دوسرے کی رؤیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ خراسان اور اندلس میں دوری ہے، اس لیے کہ ہر علاقہ کا ایک مخصوص حکم ہے جو اسی سے مخصوص ہے، ہاں جو شہر قریب قریب ہیں ان کے لیے ایک ہی رؤیت کافی ہو گی۔‘‘
نیز انہوں نے کہا: ’’چاند کی خبر بطور حکم ہو یا دو عادل گواہوں کے دیکھنے کی ہو یا کسی بھاری جماعت کے دیکھنے کی بہر صورت قریب ہلاوی کے لیے معتبر ہے۔ بہت دور کے لیے نہیں۔ ابن عرفہ نے اسی کو پسند کیا ہے۔
٭ ابن النباء کہتے ہیں۔’’میرے والدنے ابو محمد بن بکر الفاسی رحمہ اللہ سے متعلق بتلایا کہ ان سے یہ سوال کیا گیا۔ اسکندریہ کی رؤیت سے ہم روزے رکھیں۔ انہوں نے جواب دیا۔ ’’نہیں۔‘‘ قریب کی رؤیت کی وجہ سے تو روزے ہو سکتے ہیں دور کی رؤیت سے نہیں۔ محمد بن سابق کا قول ہے، اہل قیروان مکہ اور مدینہ اور ان جیسے دیگر شہروں کی رؤیت سے روزے نہ رکھیں یہ مسئلہ اجماعی ہے، نیز ابن النباء کہتے ہیں: ’’غسانی اور حربی ابن عباس کی مذکورہ حدیث میں یہ الفاظ زیادہ ذکر کرتے ہیں کہ اہل نجد نے رسول اللہ ﷺ کو خبر دی کہ ان کی رؤیت اہل مدینہ سے ایک دن پہلے ہے، آپ نے فرمایا ہر شہر والوں کے لیے انہیں کی رؤیت ہے۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب بن عبد الرزاق ’’خلاصۃ العذب الزلال فی مباحث رؤیتہ الہلال‘‘ میں یہ تصریح کرتے ہیں کہ ابن رشد نے ’’ہدایہ‘‘ میں کہا: علماء کا اجماع ہے کہ ایک دوسرے سے بہت دوری پر واقع علاقوں میں اس کی رعایت نہ کی جائے۔
٭ ابن جزی ’’القوانین‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’امام شافعی کے نزدیک ایک شہر والوں کی رؤیت سے دوسرے شہروں میں حکم نافظ ہو جائے گا۔ ابن جاجشون اس کے خلاف ہیں۔ البتہ دور درازمسافت پر واقع اطراف اس کا اعتبار نہ ہو گا۔ جیسا کہ اندلس اور حجاز ہیں۔
ابن البناء کہتے ہیں۔ ’’محمد بن نسیم نے کتاب المواقیت میں کہا ہے کہ اس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف نہیں کہ بعد مسافت کا اعتبار کیا جائے… جو شخص علی الاطلاق رویت کا حکم سب کے لیے ثابت کر دیتا ہے، مسافت قریب اور مسافت بعیدہ کا فرق کیے بغیر وہ بری تعلیم دے رہا ہے، اور اس کا یہ فیصلہ چاند کے وجود سے متعلق حکمت الٰہی سے ناواقفیت کا نتیجہ بھی ہے، اور انسانوں کے لیے اللہ کے احکام کے مخالف بھی۔
٭ ہدایۃ المجتہد میں ابن رشد کہتے ہیں کیا کسی شہر والوں پر واجب ہے کہ دوسرے شہر والوں کی رؤیت کو اپنا لیں۔ یا ہر شہر میں الگ الگ رؤیت کا حکم ہے۔ اس میں اختلاف ہے ابن القاسم اور مصری امام مالک سے روایت کرتے ہیں کہ جب کسی شہر والوں کو معلوم ہو جائے کہ فلاں شہر میں چاند دیکھا گیا تھا۔ تو یہ ایک دن کا روزہ قضا کریں۔ا مام شافعی اور امام امد نے بھی یہ کہا ہے، مدینہ والے امام مالک سے روایت کرتے ہیں کہ چاند دیکھنے کی خبر سے دوسروں پر رؤیت کا حکم لازم نہیں ہوتا مگر یہ کہ ’’امام‘‘ لوگوں کو اس پر آمادہ کر رہا ہو۔ ابن ماجشون اور مغیرہ اصحاب مالک میں یہی مذہب رکھتے ہیں، اور مالکیوں کا اس پر اجماع ہے، کہ بہت دوری پر واقع علاقوں میں ایک دوسرے کی رعایت نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ اندلس اور حجاز میں اتنہی۔
٭ امام قرطبی رحمہ اللہ تفسیر میں لکھتے ہیں… کسی شخص نے خبر دی کہ فلاں شہر میں چاند نظر آ گیا تو یا تو وہ شہر قریب ہو گا یا دور اگر قریب ہے تو حکم ایک ہی ہے، اور اگر دور ہے تو ہر شہر کے لے ان کی اپنی رؤیت کا اعتبار ہے۔‘‘
٭ عکرمہ رحمہ اللہ۔ سالم رحمہ اللہ۔ قاسم رحمہ اللہ سے بھی یوں ہی مروی ہے، ابن عباس رضی للہ عنہ نے بھی ایسا ہی کہا ہے، اسحق کا مسلک بھی یہی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح کے باب ((لا ھل کل بلدرؤیتھم))میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مقولہ ((ھکذا امرنا رسول اللہ ﷺ)) کی وضاحت کرتے ہوئے قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’ہمارے علماء نے کہا ہے، کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر تصریح کر دی ہے کہ یہ مرفوع حدیث ہے، اور یہ دلیل ہے۔ اس بات پر کہ شام اور حجاز جتنے دور کے علاقوں میں ہر شہر والے اپنی اپنی رؤیت پر عمل کریں۔ مگر یہ کہ مسلمانوں کا امام اعظم لوگوں کو دوسرے علاقہ کی رؤیت ماننے پر آماد کرے تو اس کی مخالفت جائز نہیں۔‘‘
٭ ابن العربی نے کہا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کی تفسیر میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں اس نے رد کیا کہ یہ خبر واحد تھی۔ بعض کہتے ہیں اس لے رد کیا کہ دونوں علاقوں میں اختلاف مطالع کا تھا۔ اور یہی صحیح ہے اس لیے کہ کریب رضی اللہ عنہ نے گواہی روایت نہیں کی، بلکہ شہادت پر مبنی فیصلے کی خبر دی ہے اور بلا اختلاف ایک فرد کی خبر بھی مقبول ہے، اس کی ایک نظیر یہ بھی ہے کہ ’’اغمات‘‘ میں جمعہ کی رات چاند نظر آ جائے، اور اشبیلیہ میں ہفتہ کی رات تو ہر ایک کی رؤیت ان کے اپنے لیے ہو گی۔ اس لیے کہ سہیل ستارہ اغمات میں منکشف ہوتا ہے، اشبیلیہ میں نہیں۔ معلوم ہوتا ہے، کہ دونوں کا مطلع مختلف ہے۔
٭ خلاصۃ العذب الزلال میں ہے۔ قرآنی نے ’’الفردوق‘‘ میں کہا چاند کی رؤیت میں اختلاف اس لیے ہو جاتا ہے کہ مشرقی بلاد میں چاند شعاعوں میں ہوتا ہے، جوں جوں سورج مغرب میں جائے گا۔ چاند شعاعوں سے نکل جائے گا۔ اور اہل مغرب اسے دیکھ لیں گے۔ اہل مشرق اسے پھر دوسری رات دیکھ سکیں گے۔ یہ ایک بدیہی بات ہے، رؤیت چاند میں اختلاف کا یہ ایک سبب ہے، اور بھی اسبات ہوتے ہیں جیسا کہ علم ہیئت میں مذکور ہے۔ (انتہیٰ)
نیز کہا صحیح یہ ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے جو لوگ اعتبار نہیں کرتے۔ وہ برا کرتے ہیں۔
٭ قرانی ’’الفردق‘‘، میں مزید لکھتے ہیں: ’’یہ بات متفق علیہ ہے کہ آفاق کے اختلاف سے نماز کے اوقات میں اختلاف وقوع پذیر ہوتا ہے، ہر قوم کے لیے ان کی اپنی فجر اور ان کے زوال کا اعتبار ہے۔ اسی طرح چاند کے بارہ میں بھی ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ مشرقی بلاد میں جب چاند شعاعوں میں ہوتا ہے، اور سورج چاند کے ساتھ مغربی جہت میں حرکت پذیر ہوتا ہے، تو اس وقت سورج کے افق مغرب تک پہنچتے ہیں چاند شعاع سے نکل آتا ہے، پس اسے اہل مغرب دیکھ لیتے ہیں، اور اہل مشرق نہیں دیکھ پاتے۔ یہ بھی اعتبار اختلاف مطالع کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی اسباب ہیں،جو علم ہیئت میں مذکور ہیں جن کا ذکر یہاں غیر ضروری ہے، یہاں میں نے وہی سبب بیان کیا ہے۔ جو قریب الفہم ہے۔ جب یہ بات ہے کہ چاند آفاق کے مختلف ہونے کے ساتھ طلوع و غروب میں مختلف ہو جاتا ہے۔ تو ہر علاقہ کے لیے اس کی اپنی رؤیت معتبر ہو گی، جس طرح ہر قوم کی اپنی فجر اور دیگر اوقات نماز میں۔ یہی بات اور صواب ہے، اور ایک جگہ کی رؤیت سے تمام اقالیم میں روزوں کو ضروری قرار دینا قواعد اور اولہ کی رو سے صحیح نہیں ہے۔
ابن ماجشون نے کہا: ’’شہادت کی بنا پر حکم اس شہر والوں کے لیے ہو گا۔ جس میں شہادت ہو گی مگر یہ کہ سلطان اسلام کے ہاں شہادت متحقق ہو اور وہ تمام لوگوں پر حکم لازم کر دے۔ تو سب پر حکم ثابت ہو جائے گا۔ کیونکہ اس کے حق میں تمام بلاد ایک بلاد کے حکم میں ہیں۔ کہ اس کا حکم کل بلا دمیں نافذ ہے (بحوالہ عون المعبود شرح السنن لابی داؤد) یہ مالکی ائمہ محققین کے اقوال ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر شہر کے لیے وہیں کی رؤیت کا اعتبار ہے۔ جب کہ دونوں میں دوری ہو۔ جیسا کہ کریب مولی ابن عباس کی حدیث دلالت کرتی ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان بھی کہ ’’ہم روزے چاند کو دیکھ کر ہی رکھیں گے، یا پھر تیس دن کی گنتی پوری کریں گے۔ اسی طرح ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے، اس میں صراحت ہے کہ اہل مدینہ اہل شام کی رؤیت پر عمل نہیں کرتے کہ ان کے درمیان دوری مسافت ہے، رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے: ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو، دیکھ کر افطار کرو۔‘‘ اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہ روزہ رکھو حتی کہ دیکھو لو۔ اور نہ افطار کرو۔ یہاں تک کہ دیکھ لو۔‘‘ یہ بھی صریح ہے کہ روزہ دار اور افطار تب واجب ہوں گے۔ جب کہ ان کا سبب چاند کو دیکھنا ثابت ہو جائے۔ نماز کے اوقات اس کی نظیر ہیں۔ صبح کی نماز صبح صادق کے وقت ہو گی۔ ظہر، زوال سورج کے بعد، عصر جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوجائے۔ مغرب جب سورج غروب ہو جائے۔ عشاء جب سرخی شفق سے غائب ہو جائے، کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب مدینہ یا مکہ میں نماز کا وقت ہو جائے تو تمام بلاد میں یہ حکم ثابت ہو جائے گا؟ کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں کہتا۔ چاند کا حکم بھی اسی طرح ہے۔ ہر شہر والوں کے لیے ان کی رؤیت ہے، بالخصوص جب کہ دو شہروں میں اتنی دوری ہو کہ ایک میں رؤیت ہو جائے تو دوسرے شہر والوں کے لیے چاند دیکھنا ممکن نہ ہو۔ یہ ایک واضح بات ہے، جسے ائمہ علماء نے ثابت کیا ہے۔ جیسا کہ مذکور ہوا۔
امام نووی رحمہ اللہ شرح المذہب میں لکھتے ہیں، جب ایک شہر میں رمضان کا چاند دیکھ لیا جائے، اور دوسرے کسی شہر میں نظر نہ آئے، تو دونوں اگر قریب قریب ہیں، تو ایک شہر کے حکم میں ہوں گے۔ بلا اختلاف دوسرے شہر والوںپر روزہ واجب نہیں ہو گا۔ مصنف مہذب (ابو اسحق شیرازی) بھی شیخ ابو حامد الہندینجی اور دوسرے علماء کا یہی فیصلہ ہے، البدری، الرافعی اور اکثریت نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے، سے بھی یہی نظریہ درست ہے۔ اس لیے کہ اگر شہر دور دور ہیں۔ تو ہر ایک کی رؤیت ان کے اپنے لیے ہی ہے، کیونکہ مختلف بلاد میں طوالع اور غوارب مختلف ہوتے ہیں۔ ہر قوم اپنے مطلع اور مغرب کے احکام کی مخاطب ہے، دیکھئے فر کا طلوع ایک بلد میں پہلے ہوتا ہے، اور کسی جگہ بعد میں تو وہاں کے ساکنین کے لیے ہر بلد کا طلوع و غروب ہی معتبر ہوتا ہے، اسی طرح چاند کا معاملہ ہے۔ انتہیٰ
ابن المنذر نے یہ نظریہ (عدم العمل برویة بلد آخر) عکرمہ رضی اللہ عنہ، قاسم، سالم، اسحق بن راہویہ سے بیان کیا ہے، اور امام ترمذی نے اہل العلم کا یہی فیصلہ بتایا ہے، اور دوسرا کوئی مسلک بیان نہیں کیا۔
اہل عراق، امام صیدلانی اور شوافع کہتے ہیں دوری یہ ہے کہ مطالع مختلف ہوں، جس طرح حجاز، عراق اور خراسان میں ہے اور قریب ہونا یہ ہے کہ مطلع مختلف نہ ہو جس طرح بغداد، کوفہ، رے اور قزوین میں۔ امام نووی رحمہ اللہ نے الروضۃ، المنہاج اور شرح المہذب میں اسے صحیح کہا ہے، اور (ملی نہایۃ المحتاج شرح المنہاج میں کہتے ہیں، جب ایک شہر میں چاند دیکھ لیا جائے تو اس کے قریبی شہر میں حکم نافظ نہ ہو گا۔ جیسا کہ حجاز اور عراق والوں میں دوری ہے صحیح تر بات یہی ہے، اور دوسرا خیال یہ ہے کہ بعید میں بھی حکم نافظ ہو گا۔ اور بعید کا معیار ان کے نزدیک مسافت قصر ہے، مصنف (نووی رحمہ اللہ علیہ) نے شرح مسلم میں اسی کو صحیح کہا ہے اس لیے کہ شرح کے بہت سے احکام اس سے متعلق ہیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعید کا معیار مطالع کا مختلف ہونا ہے۔ انتہیٰ
میں کہتا ہوں اور یہی زیادہ صحیح ہے، (واللہ اعلم) کیونکہ چاند کے مسائل کا مسافت قصر سے کوئی تعلق نہیں۔ نیز اس لے بھی کہ کریب کی روایت میں ہے کہ میںنے شام میں چاند دیکھا۔ پھر میں مدینہ آیا۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا تم نے چاند کب دیکھا ہے، میں نے کہا جمعہ کی رات کو۔ انہوں نے کہا ہم نے ہفتہ کی رات کو چاند دیکھا ہے، ہم اس کے مطابق روزے رکھ کر گنتی پوری کریں گے۔‘‘ میں نے کہا کیا آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت اور ان کے روزہ رکھنے پر اکتفا نہ کریں گے، فرمایا: ’’نہیں‘‘ کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کا یہی حکم ہے۔
نیز اختلاف مطالع کی وجہ سے مناظر کائنات میں اختلاف رونما ہوتا ہے، اس لیے بھی اس کا اعتبار کرنا بہتر ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ مطالع کا اعتبار میں مجمین نے فیصلہ جات اور علم الحساب پر اعتماد کرنا پڑے گا۔ حالانکہ ان کے اقوال کا شرعیات میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصول اور امور عامہ میں ان کے عدم اعتبار سے یہ لازم نہیں کہ توابع اور امور خاصہ میں بھی ان کا اعتبار کیا جائے۔ اگر ان کے فیصلہ میں اتفاق مشکوک ہے، تو ان کے اختلاف کی صورت میں جو حکم ہے، وہی ہو گا۔ اس لیے کہ اصل عدم وجوب ہے، اور اس لیے کہ حکم کا وجوب رؤیت کی وجہ سے تھا۔ اور بلد رؤیت کے ساتھ دوسرے شہر کا قرب ثابت نہیں ہو سکا۔ ہاں اگر اتفاق ہو جائے کہ فلاں اور فلاں شہر ایک مطلع میں ہیں تو ایک میں رؤیت سے دوسرے میں رویت کا فیصلہ کرنا لازمی ہو گا۔ تاج تبریزی نے کہا ہے کہ اختلاف مطالع چوبیس فرسخ (۷۲ میل) سے کم میں ممکن نہیں ہے، والد رحمہ اللہ نے یہی فتویٰ دیا ہے۔
سبکی رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح فرمایا کہ اختلاف مطالع کی صورت میں مشرقی شہر میں چاند نظر آ جائے تو مغربی شہر میں چاند ضرور نظر آئے گا۔ اس کا الٹ ضروری نہیں ہے، سبکی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر طویل بحث کی ہے، اسنوی اور دیگر علماء بھی اس کے مؤید ہیں۔ مگر یہ اصول وہاں ہے جہاں بلاد کی جہت اور عرض میں اتحاد ہو، اسی وجہ سے دو شخص جو ایک دوسرے کے وارث ہیں۔ ایک مشرق میں رہتا ہے دوسرا مغرب میں۔ اور اپنی اپنی جگہ وہ زوال کے وقت مر جاتے ہیں۔ تو مغربی مشرقی کا وارث ہو گا، اس لیے کہ اس کے شہر کا زوال بعد میں ہوا ہے۔ انتہیٰ
شیخ علی بن عبد الکلانی السبکی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’العلم المنشور فی اثبات الشہور‘‘ میں یہ تصریح کرتے ہیں: ’’ایک شہر میں چاند دیکھ کر تمام بلاد دنیا میں لازم قرار دینا بہت کمزور بات ہے، اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے خلفائے راشدین سے یہ منقول نہیں کہ چاند دیکھ کر دوسرے علاقوں میں چاند کی اطلاع دیتے تھے۔ اگر یہ حکم لازم ہوتا تو وہ ضرور ایسا کرتے کہ وہ دین سے خوب اعتناء رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں، کہ بعض بلاد میں چاند ایسے وقت میں نظر آتا ہے کہ دوسرے بلاد میں دیکھنا ممکن ہی نہیں ہوتا جیسا کہ ہمیں یہ قطعی علم ہے کہ سورج بعض جگہ سے غروب ہو جاتا ہے، یہی حال طلوع، زوال اور فجر اور غیاب شفق کا ہے، جب سورج (نظر بظاہر) حرکت میں آتا ہے، تو ہر جگہ کے لوگوں کے لیے فجر بنتی ہے، کہیں زوال ہوتا ہے اور کہیں غروب تو ہر قوم کے لیے احکام نماز میں ان کا اپنا غروب، طلوع اور زوال معتبر ہے۔ اس پر چاند کو قیاس کر لیجئے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کو ان کے اپنے حالات کے مطابق مکلف بنایا ہے۔
حضرت عکرمہ رحمہ اللہ،سالم رحمہ اللہ، اسحاق رحمہ اللہ اور ابن المبارک رحمہ اللہ سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ہر شہر والوں کے لیے ان کی اپنی رؤیت کا اعتبار ہو گا۔ شیخ نے مزید کہا امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے: ((باب لکل بلد رؤیتھم)) لیکن میں نے صحیح بخاری کے مختلف طبع کے نسخے اور مخطوے ملاحظہ کیے ہیں، مگر مجھے یہ باب نہیں مل سکا۔ قرطبنی نے بھی اس تبویب بخاری کا ذکر کیا ہے، جیسا کہ ہم مالکیوں کے اقوال کے ذیل میں بیان کرائے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ شیخ سبکی رحمہ اللہ اور قرطبی رحمہ اللہ کے پاس صحیح بخاری کے نسخوں میں یہ باب موجود ہو یا پھر شیخ سبکی نے قرطبی کی تقلید کی ہو۔ ہاں! تو ایک جگہ چاند دیکھ کر تمام بلاد میں حکم لگانا اس بات کو لازم بناتا ہے، کہ زمین مسطح ہے، جیسا کہ رافعی نے شرح ابو جز میں کہا (ص۲۷۱ جز سادس) اور یہ نظریہ ہیئت ے ماہرین کے متفقہ فیصلے کے مطابق باطل ہے، وہ کہتے ہیں کہ زمین کروی ہے، اور جس چیز کی بنا باطل ہو، وہ خود بھی باطل ہے،
شوافع میں ہمارے پیش کردہ مؤقف کے قائلین میں امام الحرمین، غزالی اور امام بغوی رحمہ اللہ کا نام بھی آتا ہے، رافعی نے اپنی شرح صغیر میں اور المحرر میں اسے ہی صحیح قرار دیا ہے، رافعی نے حاشیہ اقناع میں بھی لکھا ہے، (جو شافعی مسائل فرعیہ میں ہے) چاند کی رؤیت نہ دیکھنے والوں کے حق میں بھی ثابت ہو جائے گی۔ جب کہ مطلع ایک ہو، یعنی غروب سورج و کواکب اور ان کا طلوع دونوں شہروں میں ایک وقت میں ہو۔لیکن اگر کسی شہر میں طلوع اور غروب پہلے ہوتا ہے، دوسرے میں بعد کو چاند نہ دیکھنے والوں پر حکم واجب نہیں۔ اس امر کا مرجع طول بلد اور عرض بلد ہے، مسافت قریب ہو یا بعید۔
ہاں بلد شرقی میں اگر رویت حاصل ہوئی ہے، تو بلاد غربیہ میں ضرور ہونی چاہیے۔ اس کا برعکس نہیں، مثلاً مکہ مشرفہ اور مصر کو لیجئے اگر مکہ میں چاند نظر آ گیا۔ تو مصر میں لازماً نظر آئے گا۔ مگر مصر میں نظر آنے سے لازم نہیں کہ مکہ میں بھی نظر آ جائے۔ انتہیٰ۔ امام نووی رحمہ اللہ قصہ کریب والی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لوگ ایک شہر میں چاند دیکھ لیں، تو اس کا حکم دور والوں کے لیے ثابت نہیں ہو گا۔ ہمارے بعض اصحاب کہتے ہیں ایک جگہ کی رؤیت کا حکم تمام زمین والوں کو حاوی ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کریب کی خبر پر عمل اس لیے نہیں کیا تھا کہ شہادت ایک آدمی کے قول سے ثابت نہیں ہوتی لیکن ظاہر حدیث سے یہ واضح ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس بات کو اس لیے رد نہیں کیا۔ بلکہ اس بنا پر کہ دور والوں کے لے رؤیت کا حکم ثابت نہیں ہوتا ہے۔
شوافع کے اقوال اس بارے میں بکثرت ملتے ہیں۔ ان کا استقصاء کر کے ہم طوالت نہیں کرنا چاہتے بہر حال اختلاف مطالع ی صورت میں اقوال ائمہ حنفیہ، مالکیہ اور شافعیہ سے ثابت ہو گیا کہ ایک شہر کی رؤیت سے دوسرے شہر کے لیے رؤیت کا حکم لازم نہیں ہوگا۔ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ مطالع کے مختلف ہونے پر اتفاق نقل کر چکے ہیں۔ ان حالات میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ایک بلد میں رؤیت ہونے سے دنیا کے تمام مسلمانوں پر روزہ اور افطار لازم کر دیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی تصریحات بھی اسی امر پر دال ہیں کہ ایک شہر کی رؤیت وہیں کے باشندوں کے لیے ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا عمل بھی اسی پر ہے۔ ان میں سے کسی سے بھی یہ منقول نہیں کہ انہوں نے چاند دیکھ کر دوسرے علاقوں میں لکھا ہو کہ ہم نے چاند دیکھ لیا ہے لہٰذا تم ایک دن کی قضا کرو… اگر کبھی ایسا ہوتا تو اس مسئلہ کی عمومیت اور اہمیت کا تقاضا تھا کہ ضرور یہ نقل ہو کرہم تک پہنچتا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ دوسرے مسائل اوقات کی طرح، اس میں بھی ہر علاقہ کے لوگ اپنی ہی رؤیت کا اعتبار کرتے تھے۔
اب علمائے حنابلہ کے اقوال بھی ملاحظہ فرمائیں۔
الانصاف میں ہے: ’’ایک شہر والے چاند دیکھ لیں تو تمام لوگوں پر روزہ لازم ہو جائے گا۔ مطلع ایک ہو یا مختلف۔‘‘
یہ اصل مذہب ہے، لیکن یہ مسلک مفردات سے ہے، (شیخ الاسلام) ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مختار یہ ہے کہ ’’جس شہر میں چاند نظر آ ئے وہاں کے باشندوں پر جس طرح روزہ لازم ہو گا۔ ان پر بھی ہو گا … جو اس مطلع کے قرب میں رہتے ہیں۔‘‘ نیز وہ کہتے ہیں۔ مطالع کے اعتبار اختلاف میں اہل معرفت کا اتفاق ہے، اگر مطلع ایک ہو، پھر تو روزہ لازم ہے، بصورت دیگر نہیں۔‘‘
(کتاب الرعایۃ الکبریٰ میں ہے، جس نے نہیں دیکھا اس پر بھی وہ حکم لازم ہو جائے گا۔ جو دیکھنے والے پر ہے، تاہم یہ اسی کے لیے ہے، جو قریبی مطلع میں ہے، یا دونوں کا مطلع ایک ہی ہو، مگر مسافتِ قصر سے کم مسافت ہیں۔ مطلع مختلف ہے، اور اگر مسافت قصر سے زیادہ ہو تو یہ حکم نہیں۔ انتہیٰ۔ ملخصاً
صاحب ’’الانصاف‘‘ نے صراحت کی ہے کہ یہ مذہب کہ ’’رؤیت کا اعتبار ہر ایک کے لیے ہو چاہیے مطلع ایک ہو یا مختلف۔‘‘ مفردات سے ہے، یعنی جمہور کے مسلک کے خلاف ہے، ناظم ’’المفردات‘‘ نے اس شعر میں اسی طرح اشارہ فرمایا ہے۔ ؎
اذا رأی الھلال اھل بلد
صام جمیع الناس فی الجود
شاعر کا مطلب یہ ہے کہ ایک شہر میں رؤیت ہو جانے سے تمام مسلمانوں پر روزہ اور افطار لازم کرنا صرف امام احمد کا ہی مذہب ہے، لیکن درحقیقت بات ایسے نہیں کیونکہ امام احمد رحمہ اللہ کے ساتھ فقہائے مالکیہ حنفیہ کی ایک جماعت اور بعض شوافع کا بھی یہی نظریہ ہے، مگر حق وہی مسلک ہے، جو ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ ہر علاقے کے لیے اسی علاقے والوں کی رؤیت کا اعتبار ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ اختلاف مطالع میں اہل معرفت کا اتفاق ہے، اگر مطلع ایک ہو تو روزہ رکھنا لازم ہو گا ورنہ نہیں۔ شافعیہ کا صحیح ترین قول یہی ہے، اور ایک قول میں امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔
نیز فرمایا: مشرق و مغرب کے اختلاف سے چاند کی رؤیت مختلف ہو جاتی ہے، مشرق میں اگر چاند نظر آ جائے تو مغرب میں ضرور دیکھا جائے گا۔ لیکن مغرب میں دیکھنے سے مشرق میں دیکھا جانا ضروی نہیں کیونکہ مغرب میں سورج کا غروب دیر سے ہوتا ہے، اس اثناء میں چاند سورج سے کچھ اور دور ہو کہ مزید روشن ہو چکا ہو گا۔ تو مغرب میں رؤیت اور بھی واضح ہو گی۔ مغرب میں چاند کے نظر آنے سے مشرق کے لیے ایسا نہیں ہو سکتا الٹا چاند اور بھی مشرقی علاقہ سے دور چلا جائے گا۔ یوں سمجھئے کہ مشرق میں سورج کے غروب کے وقت چاند سورج کے قریب تھا۔ جب مغرب میں چاند نظر آئے تو مشرق والوں سے چاند بھی غروب کر چکا ہے۔ رؤیت کیسے ممکن ہو گی۔ چاند سورج اور دوسرے سیارگان فلکی کے بارے میں یہ بات مشاہدہ کی ہے۔ دیکھئے مغرب میں مغرب کا وقت ہو تو مشرق میں بھی ضرور ہو گا۔ اس کے برعکس نہیں ایسے ہی مغرب میں طلوع ہو جائے تو مشرق میں ضرور چاند ہو گا۔ اس کے الٹ نہیں ہو سکتا۔ پس چاند کا طلوع اور رؤیت مغرب میں پہلے ہوتے ہیں۔ چاند کے سوا افضائے سماوی میں دوسرا کوئی سیارہ نہیں جس کا طلوع مغرب سے ہوتا ہو، اور اس بنا پر کہ اس کا سبب ظہور، سورج سے دوری ہوتی ہے تو جتنا اس کا غروب متاثر ہو گا۔ یہ اتنا ہی سورج سے دور ہوتا چلا جائے گا۔‘‘
نیز فرمایا… اس کی دلیل ہمارا یہ یقینی علم ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین بعض شہروں میں پہلے چاند دیکھ لیتے کچھ دوسرے شہروں میں بعد کو دیکھتے یہ ایک عام قدرتی معمول ہے،جس میں تبدیلی نہیں ہوتی،سارے ماہ کے دوران ان کے پاس ایک دوسرے کی خبریں بھی پہنچ جاتی ہوں گی۔ اگر بعد میں دیکھنے والوں پر قضا روزہ واجب ہوتا تو تمام بلدان اسلام میں رؤیت ہلال کے بارہ میں اسلاف معلومات حاصل کرنے کے لیے پوری قدرت اور وسائل استعمال کرتے جیسا کہ ایک شہر میں چاند کے بارہ میں کہا جاتا ہے، اور پھر اکثر مہینہ ہائے رمضان میں قضا کسی نہ کسی جگہ ضرور ثابت ہوتی۔ اگر ایسا ہو چکا ہوتو تو نقل در نقل کے ذریعہ یہ باتیں ہم تک ضرور پہنچ جاتیں۔ مگر ایسی کوئی چیز ہم تک نہیں پہنچی تو معلوم ہوا کہ اس کی کوئی اصل نہیں۔ ابن عباس رضٰی اللہ عنہ کی مذکورۃ الصدر حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
یہ ہیں تمام مذاہب کے اہل علم اکابر کے اقوال جن سے پتہ چلتا ہے کہ کسی شہر والوں کے چاند دیکھ لینے سے دور دراز کے بلاد میں عمل کرنا لازم نہیں ہوتا۔ جبکہ مطالع میں اختلاف ہو۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس بارے میں ایک دوسرے کی طرف خط و کتاب نہیں کرتے تھے، اور نہ ہی دوسرے شہروں میں چاند دیکھنے کے پیچھے پڑتے تھے۔ علماء مذکورہ کا استدلال حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث اور حدیث ((صومو الرویته وافطر ولرویت)) سے ہے کہ ہر ایک علاقہ والوں کے لیے ان کا اپنا دیکھنا معتبر ہے۔ اس بارہ میں ہم نے علماء کے اقوال جو نقل کیئے، انہیں پر اکتفا کرتے ہیں۔ طالبین حق کے لیے یہ بس ہے اور اس میں کفایت ہے، ((واللہ الموفق الرمادی الی سواء السبیل))
یہ ہے کہ سورج کے غروب کے وقت چاند اگر کسی بلد میں آٹھ درجے اونچا ہے، یعنی اتنا اونچا ہے کہ سورج کے غروب ہونے کے بعد بتیس منٹ تک رہے گا۔ تو ایسا چاند مشرق میں پانچ سو ساٹھ میل تک ضرور موجود ہے، اگر کوئی رکاوٹ بادل، غبار یا اسی قسم کی کوئی اور کثیف چیزیں درمیان میں حائل نہ ہوں تو اس بلد سے مشرق میں مذکورہ مسافت تک یہ چاند ضرور افق پر دیکھا جا سکے گا۔ بعض علم ہیئت والوں کا کہنا ہے کہ چاند ہر ستر میل پر ایک درجہ بڑھتا ہے، اور کم ہوتا ہے، یعنی جس شہر کی رؤیت میں چاند آٹھ درجہ پر تھا۔ اس بلد سے ستر میل مشرق میں جو شہر ہے، وہ سات درجے پر واقع ہو گا۔ اور اس بلد سے جو بلد سفر میل مغرب میں ہے، وہاں چاند نو درجے پر ہو گا۔
جب ایک شہر میں چاند نظر آ جائے تو اس شہر سے مغرب میں جو شہر موجود ہیں، سب میں چاند ضرور ہو گا۔ یہ علم ہیئت کے مسلمات سے ہے، اور اگر کسی غربی شہر میں چاند دیکھ لیا جائے تو اس شہر سے مشرق میں پانچ سو ساٹھ میل تک چاند کا اعتبار کیا جائے، لیکن مغربی بلاد میں مطلقاً اعتبار ہو گا کسی مسافت معینہ کی قید لگائے بغیر۔ واللہ اعلم۔ انتہیٰ۔ (مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح)
شیخ محمد بن عبد الوہاب بن عبد الرزاق اپنی کتاب خلاصۃ العذب الزلال میں لکھتے ہیں۔ یہ بدیہی بات ہے کہ سورج اور چاند کا اجتماع آن واحد میں واقع ہوتا ہے، اطراف عالم اور بلاد مختلفہ کے اختلاف سے اس میں تعدد نہیں ہے، اس لیے کہ یہ اجتماع فلک پر ہے، اور یہ کوئی امور نسبیہ سے نہیں کہ جن کا تعلق اطوال بلاد کے اختلاف سے ہو۔
مثلاً فرض کیجئے مراکش کی نسبت سے سورج اور چاند کا اجتماع بارہ بجے دن ہے، تو یہی لحظہ دنیا کے دوسرے شہروں میں ان کے اجتماع کا وقت ہو گا۔ حالانکہ اس وقت الجزائر میں بارہ بج کر چوالیس منٹ ہوتا ہے، تیونس میں ایک بج کر تیرہ منٹ قاہرہ میں دو بج کر سینتیس منٹ، مکہ اور مدینہ میں تین بج کر باہر منٹ،بمبئی (انڈیا) میں پانچ بج کر تیئس منٹ۔ ٹوکیو (جاپان) میں رات کے نو بج کر اکیاون منٹ۔ ہاوای میں دو بج کر بارہ منٹ رات، نیویارک میں سات بج کر پینتیس منٹ صبح کا وقت ہوگا۔
سو وقت اجتماع ایک ہے، لیکن ہماری نسبت سے زوال ہے۔ مکہ اور مدینہ میں عصر کا وقت بمبئی میں مغرب کا وقت۔ ٹوکیو میں آدھ رات کے قریب، ہاوای میں فجر کا وقت اور نیویارک میں سورج کے طلوع کا وقت ہے… بعینہٖ یہی بات خسوف قمر کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے، اس لیے کہ چاند کی بدئ، توسط اور مکمل روشن ہونا یہ طول بلد کے اختلاف سے رونما ہوتا ہے انتہیٰ۔
اس قسم کی تفصیل سے مطالع ہلال کا مختلف ہونا واضح ہو جاتا ہے، مثلاً مغرب میں جب چاند دیکھ لیا گیا۔ تو مشرق میں دوسری رات ممکن ہو گا۔ اس لیے کہ چاند مغرب میں شعاعوںسے معمولی پیچھے ہٹا ہے، اور نظر آگیا ہے، مگر مشرق میں جب تھا شعاعوں میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کو دیکھنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے کہ ان بلاد میں طویل مسافت ہے، اور طول البلد وعرض البلد میں بھی اختلاف ہے، علامہ احمد بن محمد السلاوی النظوانی کہتے ہیں، سورج اور چاند فلک بروج کے ایک درجہ میں اجتماع واحد شئی ہے، نواحی اور شہروں کے اعتبار سے اس میں تعدد نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی یہ امور غیبیہ سے ہے، کہ طول کے اختلاف سے اس میں اختلاف ہو جائے، جیسا کہ طلوع غروب اور زوال کا معاملہ ہے، بنا بریں اگر ہم فرض کرتے ہیں کہ ان کا اجتماع ’’برج حمل‘‘ کے پہلے درجے میں تھا، جب کہ قوس لیل اور قوس نہار مساوی ہوتے ہیں، یعنی ہر ایک بارہ گھنٹے کے ہوتے ہیں، اور یہ اجتماع ’’فاس کے نصف میل کے خط میں واقع ہو، اور یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ اجتماع کے وقت سے اقل مدت جس کے بعد رؤیت چاند ممکن ہو جاتی ہے اٹھارہ گھنٹے ہے، تو فاس میں رؤیت کا وقت جب آئے گا۔ یعنی غروب سورج کے وقت تو اہل فاس کی نسبت سے اٹھارہ گھنٹے گزر چکے ہیں۔ اس لیے انہیں چاند نظر آ جائے گا۔ مگر اسی دن مکہ والوں پر جب غروب سورج ہوا تھا۔ اجتماع کے وقت سے اس وقت تک چونکہ اٹھارہ گھنٹے نہیں گزرے ہیں، اس لیے ان کی نسبت سے چاند کی رؤیت ممکن نہیں ہے، ان کو چاند اگلے دن نظر آئے گا۔ کیونکہ کہ اجتماع کے وقت سے پندرہ گھنٹے ہی پورے ہوئے ہیں۔ اس لیے کہ مکہ والوں کا سورج تین گھنٹہ پہلے غروب ہو چکا ہے۔ یاد رہے کمر اور اس میں تین گھنٹہ کا فرق ہے، کیونکہ دونوں میں ۲۵ درجہ کی مسافت طول ہے جو کہ تین گھنٹہ کی بنتی ہے۔ ا۔ھ۔
شیخ طنطاوی جوہری رحمہ اللہ اپنے رسالے میں لکھتے ہیں۔ ’’جتنا بلاد مغربی جہت میں دور ہوتے جائیں گے اسی قدر چاند اور نمایاں ہوتا جائے گا۔ اور رؤیت ہلال کی ابتداء میں جس خط طول پر واقع ہوئی اس سے مشرق میں واقع شہروں میں اگلی مدت چاند نظر آئے گا۔ کریب کی حدیث کو دیکھیں کہ شام میں انہوں نے چاند جمعہ کی رات کو دیکھا مگر اہل مدینہ نے ہفتہ کی رات کو دمشق کو دیکھیں خط طول مشرق جرنیشن (۲۵) پر واقع ہے، اور مدینہ خط طول مشرقی (۴۰) پر…‘‘ اس کے بعد شیخ مرصد حلوان کے مدیر عام کا یہ قول نقل کیا ہے، جب مکہ مکرمہ میں چاند دیکھنا ممکن ہو تو دمشق (شام) میں اور مصر میں دیکھنا ممکن، ہوتا ہے، جب مطلع صاف ہو۔ لیکن ان تمام بلاد میں دیکھنا یقینی نہیں ہو گا۔ جو خط طول پر واقع ہیں مگر اس صورت میں کہ خط عرض میں اختلاف ہو۔
شیخ طنطاوی جوہری مزید لکھتے ہیں۔ ’’ہر وہ شہر جس میں سچ مچ چاند کی رؤیت ہو جائے تو اس کے مغب میں واقع تمام شہروں میں قطعاً چاند دیکھا جائے گا۔ اور وہ چاند زیادہ واضح اور زیادہ روشن ہو گا۔ نظر آ جائے یا کسی مانع کی وجہ سے نہ دیکھا جا سکے۔ لیکن بلد غربی میں چاند کی رؤیت سے بلد مشرقی میں رؤیت لازمی نہیں۔ غربی بلد سے مراد کم طول والا اور مشرقی بلد سے مراد زیادہ طول والا ہے۔ مثلاًاہل کویت اگر چاند دیکھ لیتے ہیں جن کا طول بلد ۴۰ ہے تو ضروری نہیں کہ اہل مسقط بھی دیکھ سکیں کیونکہ ان کا طول ۵۸ ہے اور یہ کویت سے مشرق میں ہے، اسی طرح اہل ’’شارقہ‘‘ جس کا طول ۵۴ درجہ ہے اور ’’قطیف‘‘ والے جس کا طول پچاس درجہ ہے، بھی نہیں دیکھ سکیں گے۔
مگر ’’اہل بغداد‘‘ جس کا طول ۴۴ درجہ ہے، اور ’’نجف‘‘ والے جس کا طول ۴۴ درجہ ہے، اور ’’کربلا‘‘ جس کا طول ۴۴ درجہ ہے، اور ’’سماوہ‘‘ والے جس کا طول ۴۵ درجہ ہے، دیکھ لیں گے۔ اسی اصول پر قیاس کرتے جائیے۔
باقی رہی یہ بات کہ اگر دو بلد طول و عرض میں برابر ہیں جس طرح ’’بروسیا‘‘ والے ایشیائے کوچک ہیں اور ’’سکدارا اور رابزان‘‘ یہ تمام طول (۳۹) درجہ پر ہیں، اور ان کا عرض چالیس کے قریب قریب ہے، ہم فیصلہ کریں گے ان تمام میں ایک ہی وقت چاند ظہور کرے گا۔ اور اگر طول میں مساوی ہیں، مگر عرض میں اختلاف ہے جیسا کہ عجم میں ’’تبریز‘‘ شہر ہے، جس کا طول ۲/۱۔۴۶ ہے اور بصرہ جس کا طول ۴۷ ہے، مگر پہلے کا عرض ۳۸ ہے، اور دوسرے کا ۳۰۔ تو اس میں یہ غوروفکر کرنا ہو گا۔ احتمال ہے کہ چاند نظر آجائے کیونکہ دونوں ایک طول پر ہیں، اور یہ بھی احتمال ہے کہ نہ دیکھا جا سکے، کیونکہ عرض میں اختلاف ہے… اگرچہ اختلاف عرض کا اثر بہت کم ہوتا ہے، مگر کچھ نہ کچھ ہوتا ضرور ہے۔
موجود ہ سیاسی حالات میں تمام ملکوں میں رؤیت کے احکام کی وحدت کے خوف ناک نتائج!:
جو لوگ ہمارے اس دور میں عالم اسلامی کے سیاسی رحجانات پر نظر رکھتے ہیں کہ مسلمان متفرق حکومتوں کی شکل میں بٹ چکے ہیں، اور تعلیمات اسلام سے کوسوں دور ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ دینی جذبہ کم ہو گیا ہے، نظریات اور اہداف (نصب العینون) میں دنیاوی اور سیاسی اغراض کی حکمرانی ہے، اور ترقی یافتہ حکومتوں کی طرف میلانات ہیں، وہ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ ایک بلد کی رؤیت دوسرے بلاد اسلامیہ کے لیے نافذ کرنا اگر درست بھی ہو پھر بھی یہ عملاً ممکن نہ ہو سکے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر ایک ملک میں چاند نظر آ جائے تو اگر دوسرا ملک پہلے کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات رکھتا ہے تو وہاں کے مفتی سے (سیاسی یک جہتی کی بنا پر) اول الذکر کی رؤیت پر عمل کرنے کا فتویٰ حاصل کر لیا جائے گا۔ اور دونوں حکومتوں کے تعلقات درست نہیں، اور ایک میں چاند نظر آ جائے تو ہو سکتا ہے حکومتی مفتی بڑی آسانی کے ساتھ فتویٰ صادر فرما دیں کہ ہر ملک کے لیے ان کی اپنی رویت کا اعتبار ہو گا۔ ان حالات میں اسلام کیا ہوا؟ اس کے احکام کیا ہوئے؟ (معاذ اللہ، سیاست اور سیاسی کارندوں کے ہاتھ کا کھلونا، حق کا اعتبار کیے بغیر جس طرح چاہیں مروڑتے رہیں گے۔
میں کہنا چاہتا ہے کہ عالم اسلام میں اس وقت مختلف ریاستوں اور مختلف قومیتوں میں جن کے اہداف مختلف ہیں تقسیم ہو چکا ہے، کوئی اہل مغرب (اینگلو امریکن بلاک) کی طرف میلان رکھتا ہے، اور کوئی مشرق (روسی بلاک) کی طرف جھکا ہوا ہے، اور درستی اور صداقت بھی اسی اصول سے ہے، پھر اس حد پر بھی نہیں ٹھہرے بلکہ شرعی احکام کو اپنے سیاسی اتجاہات اور دنیاوی اغرافض کے ماتحت منانے پر تلے ہوئے ہیں، وہ روزہ رکھیںگے۔ اگر کسی دوست ملک میں چاند نظر آ گیا۔ اور افطار بھی کریںگے، اور اگر مخالف میلانات والے ملک میں چاند نظر آیا تو نہ روزہ نہ افطار۔
خلاصہ المرام ایں کہ:
بالفرض اگر مسئلہ حق اسی کو مان لیا جائے کہ ایک بلد میں رؤیت تمام بلاد اسلامیہ کے لیے رؤیت کا حکم رکھتی ہے، تو بھی اس کا عمل نفاذ کسی صورت ممکن نہیں ہے، رابطہ عالم اسلامی اور دوسری اسلامی تنظیمیں کتنی ہی قرار دادیں کیوں نہ پاس کرتی رہیں، فاللّٰہ المستعان
تاہم بحمد اللہ تعالیٰ حق نہایت واضح اور درخشاں ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر علاقہ کے لیے اسی علاقہ میں چاند دیکنے کا اعتبار کیا جانا چاہیے، جیسا کہ ہم نے اس کی پوری پوری توضیح کی ہے۔ اس بارہ میں ہم نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ اور مسالک علمائے اجلہ پر اعتماد کیا ہے۔ ((واللّٰہ اعلم وصلی اللہ علی محمد وعلٰی اٰله وصحبه وسلم تسلیماً کثیراً الی یوم الدین))
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب