السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جس عورت کا بچہ ابھی ایک ماہ کا ہے۔ وہ روزہ رکھ سکتی ہے۔ اور پھر اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے یا نہیں؟ اگر وہ روزہ نہیں رکھ سکتی۔ تو وہ قضائی کب دے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مُرضعہ… بچے کو دودھ پلانے والی عورت کے بارے میں حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے روزے ’’وضع‘‘ کر دئیے ہیں۔ ((اِنَّ اللّٰہَ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرَ شَطْرَ الصَّلٰوةِ وَعَنِ الْحَامِلِ اَوِ الْمُرْضِعِ الصَّوْمَ)) (الترمذی)
جس کا متباور معنی یہ ہے کہ حاملہ اور مرضعہ روزے نہ رکھیں۔ رہی یہ بات کہ اس کی صورت کیا ہو؟ تو اس بارہ میں متعدد مذاہب امام ترمذی نے ذکر فرمائے ہیں۔ امام اسحاق بن راہویہ کا مسلک یہ بیان کیا ہے، کہ وہ روزہ افطار کریں۔ اور روزانہ ایک شخص کو کھانا دے دیا کرے۔ اس صورت میں قضا کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر وہ قضائی دینا چاہیں۔ تو پھر کھانا کھلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ((وقال بعضھم یفطر ان ویطعمان ولا قضاء علیہما وان شائتا فاقضتا ولا اطعام علیہما وبه یقول اسحاق اھ))
شاہ ولی اللہ صاحب نے اس قول کو مناسب تر قرار دیا ہے، این قول تبطبیق اولا مناسب می نماید: مصفی شرح فارسی مؤطا ص۲۵۱ ج ۱)
دراصل یہ عورت کے حالات پر منحصر ہے، بعض عورتوں کو سال کے ہر حصے میں بوجہ حمل یا ارضاع روزہ رکھنا مشکل ہوتا ہے، ایسی عورتوں کو رمضان ہی میں فدیہ دے دینا چاہیے۔ پس کافی ہے، لیکن کوئی عورت اگر سمجھے کہ وہ رمضان کے بعد سال کے کسی حصہ میں روزے رکھ سکے گی۔ تو قضاء دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فدیہ کی ضرورت نہیں۔(الاعتصام لاہور جلد ۲۶ شمارہ ۱۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب