السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا روزہ کی حالت میں حج کے لیے یا بیماری وغیر ہ کی وجہ سے ٹیکہ لگوانا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روزہ میں ٹیکہ کی بابت پاکستان بننے سے پہلے امرتسر میں دیو بندی اور بریلوی حضرات میں اشتہار بازی ہو چکی ہے۔
دیوبندی جواز کے قائل ہیں،ا ور بریلوی علماء عدم جواز کے بناء پر اختلاف یہ تھی کہ ٹیکہ کھانے پینے میں شامل ہے یا نہیں۔ دیوبندی علماء کا خیال تھا کہ ٹیکہ کی صورت میں دوا خون میں ملا دی جاتی ہے، معدہ میں نہیں جاتی۔ اور بریلوی کہتے تھے کہ کھانے پینے کے حکم میں ہے، کیونکہ دوا غیر طبعی طور پر معدہ میں چلی جاتی ہے، ہمارا رحجان بھی اسی طرف ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ کھانے پینے سے عرفی کھانا پینا تو مراد نہیں۔ چنانچہ حدیث میں بحالت روزہ وضو کے وقت ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا منع ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ خطرہ ہے، پانی ناک کے راستہ حلق میں اتر جائے۔ حالانکہ عرفاً یہ پینا نہیں اس سے معلوم ہوا کہ کسی طرح کوئی چیز معدہ میں چلی جائے۔ تواس سے روزہ کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔
ٹیکہ میں دوا کے لطیف اجزاء کے متعلق خطرہ ہے، کہ وہ مسامات کے راستہ معدہ میں آ جائیں، اور روزہ خطرہ میں پڑ جائے اس لیے ٹیکہ روزہ میں نہ لگوانا چاہیے احتیاط اسی میں ہے۔ (تنظیم اہل حدیث جلد ۱۷ شمارہ ۲۷) (فتاویٰ اہل حدیث جلد ۲ ص ۵۲۳) (عبد اللہ امر تسری روپڑی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب