السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و شرع شریف اس مسئلہ میں کہ آج کل کے مروجہ ٹائم ٹیبل کے مطابق روزہ رکھنا اور چھوڑنا شریعت محمدیہ ﷺ میں جائز ہے یا کہ نہیں۔ اگر جائز ہے، اور اس کا انکار درست نہیں۔ تو اس کی کیا دلیل ہے، اگر چند منٹ کی تسلی کے لیے بعدمیں چھوڑا یا چھڑایا جائے۔ تو کیا روزہ مکروہ ہو جاتا ہے، نیز واضح فرمایا جائے کہ روزہ چھوڑنے کا وقت شریعت میں کون سا ہے، اور حضور اکرم ﷺ نے جو فرمایا ہے((لا یزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر))کا مطلب کیا ہے۔ اس حدیث شریف کی رو سے جلدی کرنا کہاں تک درست ہے۔ بَیّنُوَا تُوْجَرْوُا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وباللہ التوفیق۔ حدیث کا مطلب یہی ہے کہ جب غروب آفتاب کا یقین ہو جائے۔ تو فوراً روزہ کھول دے۔ ٹائم ٹیبل عموماً حساب سے بنائے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق روزہ کھولا جائے۔ تو کوئی حرج نہیں۔ اگر حساب کا ماہر غلط سمجھتا ہے تو اسے صحیح وقت شائع کرنا چاہیے۔ احتیاطاً اگر ایک دو منٹ تاخیر ہو جائے تو اسے خواہ مخواہ محل نزاع نہیں بنانا چاہیے۔
(اخبار الاعتصام لاہور جلد ۱۷ ش ۲۳۔ مطابق ۱۴ رمضان ۱۳۸۵ء) (شیخ الحدیث مولینا محمد اسمٰعیل سلفی گوجرانوالہ رحمہ اللہ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب