سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

عورتوں کا قبرستان جانا

  • 403
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1001

سوال

سوال: السلام علیکم کیا عورتیں قبرستان جا سکتی ہیں؟ مجھے کسی نے "شیخ زبیر علی زئی صاحب" کی کتاب دکھائی ہے جس کا نام (غالبا) "نماز نبویﷺ" تھا جس میں لکھا تھا کہ "عورتیں کبھی کبھار قبرستان میں جا سکتی ہیں"۔اور کہا کہ آپ لوگ عورتوں کو قبرستان جانے سے روکتے ہیں جبکہ

جواب: اس بارے اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض اس کا جائز سمجھتے ہیں جبکہ بعض اس کا شدت سے رد کرتے ہیں جیسا کہ شیخ بن باز رحمہ اللہ کا ایک فتوی ہے۔
سوال : ميرى خالہ كے والد ( ميرے نانا ) فوت ہو چكے ہيں، ميرى خالہ نے ايك بار قبر كى زيارت كى اور دوبارہ پھر زيارت كرنا چاہتى ہيں، ميں نے حديث سنى ہے جس كا معنى ہے كہ عورت كے ليے قبروں كى زيارت كرنى حرام ہے.
كيا يہ حديث صحيح ہے، اور اگر صحيح ہے تو اسے گناہ ہوا ہے جس سے كفارہ واجب ہوتا ہو ؟
الحمد للہ :
مذكورہ حديث كى بنا پر صحيح تو يہى ہے كہ عورتوں كے ليے قبروں كى زيارت كرنا جائز نہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے قبروں كى زيارت كرنے والى عورتوں پر لعنت كى، لھذا عورتوں پر واجب ہے كہ وہ قبروں كى زيارت كرنا چھوڑ ديں، اور جس عورت نے جہالت اور لاعلمى ميں قبر كى زيارت كى لى تو اس پر كوئى حرج نہيں، اب اسے چاہيے كہ وہ آئندہ ايسا نہ كرے، اور اگر اس نے ايسا كيا تو اسے توبہ و استغفار كرنا ہو گى، اور توبہ پہلےگناہ ختم كرديتى ہے.
لھذا قبروں كى زيارت مردوں كے ساتھ خاص ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" قبروں كى زيارت كيا كرو، كيونكہ يہ تمہيں آخرت ياد دلاتى ہے"
شروع اسلام ميں مردوں اور عورتوں كے ليے قبروں كى زيارت كرنا ممنوع تھى، كيونكہ مسلمان ابھى نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور وہ جاہليت ميں فوت شدگان كى عبادت كيا كرتے تھے، اور ان كے ساتھ متعلق تھے تو شر كے سد ذريعہ اور شركيہ مادہ كو ختم كرنے كے ليے قبروں كى زيارت كرنا ممنوع قرار دے ديا گيا، اور جب اسلام نے استقرار حاصل كر ليا اور مسلمانوں نے شريعت اسلاميہ كو سمجھ ليا تو اللہ تعالى نے ان كے ليے قبروں كى زيارت مشروع كردى، كيونكہ زيارت كرنے ميں عبرت و نصيحت اور موت اور آخرت كى ياد آتى ہے، اور فوت شدگان كے ليے دعائے استغفار اور ان كے ليے رحم كى دعا كى جاتى ہے.
پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے عورتوں كو زيارت كرنے سے منع كر ديا، علماء كرام كا صحيح قول يہى ہے، كيونكہ مرد فتنے ميں پڑجاتے ہيں، اور ہو سكتا ہے وہ خود بھى فتنے ميں پڑ جائيں، اور اس ليے انہيں زيارت سے منع كيا گيا ہے كہ ان ميں صبر و تحمل بہت كم ہوتا ہے، اور وہ بہت زيادہ جزع فزع كرتى ہيں، تو اللہ تعالى نے ان پر رحمت اور احسان كرتے ہوئے ان پر قبروں كى زيارت حرام كردى.
اور پھر اس ميں مردوں كے ليے بھى احسان ہے، كيونكہ قبر كے پاس سب كا جمع ہونے سے ہو سكتا ہے فتنہ كا باعث بنے، تو يہ اللہ تعالى كى رحمت ہے كہ انہيں قبروں كى زيارت سے منع كر ديا گيا.
ليكن نماز جنازہ ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، لھذا عورتيں نماز جنازہ ادا كر سكتى ہيں، صرف انہيں قبروں كى زيارت كرنے سے منع كيا گيا، لھذا ممانعت پر دلالت كرنے والى احاديث كى بنا پر علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق عورت كے ليے قبر كى زيارت كرنا جائز نہيں، اور اس پركوئى كفارہ نہيں بلكہ وہ صرف توبہ كرے.
مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ ( 9 / 28 ).
بعض دوسرے اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ جن احادیث میں قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے تو ان میں مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی کثرت سے زیارت کرنے والی عورتیں مراد ہیں اور اگر کبھی کبھار کر لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
میرے خیال میں اگر کسی عورت کا عقیدہ مضبوط ہے، اور اس سے قبر پر بدعات و خرافات یا نوحہ و بین کی امید نہیں اور اس کا مقصود بھی صرف تذکیر آخرت ہے تو پھر کسی مخصوص کیس میں کسی ایسی خاتون کو کبھی کبھار قبرستان جانے کی اجازت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ہر عورت کو ایسی اجازت دینا، خاص طور پر جن عورتوں سے قبروں پر بدعات و خرافات کی امید ہو، مناسب امر نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ