السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ نے لکھا ہے کہ روزہ کی نیت جو آج کل رائج ہے، وہ بدعت ہے، ((بِصُوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ)) جو نیت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے وہ تحریر فرما دیں۔ (فضل الدین۔ محمد یعقوب چیچہ وطنی)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ دل کی نیت کے ساتھ زبان کا اقرار بھی ضروری ہے، جہاں جہاں آیا ہے۔ وہیں اقرار کرنا چاہیے۔ ((بِصُوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ)) یہ لفظ حدیث اور کلام سلف میں نہیں آئے، اور افطار کے وقت یہ لفظ آئے ہیں۔
((اَللّٰھُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ))
روزہ رکھنے کے وقت صرف سحری کھا لینی۔ روزہ کی نیت کے لیے کافی ہے، زبان سے کچھ کہنا اس کی ضرورت نہیں اس طرح بعض اور احکام ہیں۔ مثلاً قربانی کرنے کے وقت ((بِِسْمِ اللّٰہِ اَکْبَرُ، عَنِّیْ وَعَنْ فَلَان))کہہ دے تو یہ ثابت ہے جس کی طرف سے قربانی کرنی ہو۔ اس کا نام لے دے۔ ایسے ہی حج کسی کی طرف سے کرنا ہو تو کہہ سکتا ہے۔ ((لَبَّیْكَ عَنْ فَلَانٍ))
خلاصہ:… یہ کہ شریعت کے دائرے کے اندر رہنا چاہیے۔
جس طرح رسول اللہ ﷺ نے جو ارشاد فرمایا اس میں خیر ہے۔
(۱۵ رمضان ۱۳۸۳ھ) (فتاویٰ اہل حدیث جلد نمبر ۲ صفحۃ نمبر ۵۵۳) (عبد اللہ امر تسری روپڑی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب