سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(06) روزہ کی حکمت

  • 4009
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1621

سوال

(06) روزہ کی حکمت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روزہ کی حکمت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روزہ کی حکمت

(از مولوی عبد الرحمن صاحب مدرس مدرسہ کوٹ رادھا کشن ضلع لاہور)

الحمد للہ! جملہ اہل اسلام کو ماہ رمضان مبارک ہو۔ خاکسار جیسا ہیچمدان ماہ رمضان کی فضیلت کو لکھے تو کیا لکھے جب کہ اس بابرکت ماہ میں ازروئے آیہ کریمہ ﴿شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ﴾ فرقان حمید جیسی کتاب مبین کا نزول ہو۔ گویا اس پاک مہینے میں خداوند عالم نے اپنے فضل و کرم سے اپنے بندوں پر اپنی برکات کبیرہ اور انعامات کثیرہ کے باب کو وا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مبارک مہینے میں اللہ تعالیٰ کی جس قدر برکتیں اس کے بندوں پر نازل ہوتی ہیں۔ اتنی کسی اور مہینے میں نازل نہیں ہوتیں۔ صوفیائے کرام نے ماہ رمضان کو تنویر القلب کے لیے مفید لکھا ہے کہ اس میں کثرت سے مکاشفات ہوتے ہیں، اور نماز تزکیہ نفس کرتی ہے۔

الحمدللہ ! اسلام نے ماہ رمضان کے اس عالمگیر فیض کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی ماہ میں آوازوں کا انضباط کیا۔ جب کہ روزہ تمام عملیات کے ثوابات سے زیادہ ثواب رکھتا ہے، اور بلحاظ اپنی نوعیت کے جملہ عبادات الٰہیہ سے بے نظیر ہے، سچ تو یہ ہے کہ روزہ تزکیہ نفس کے حق میں اکسیر اور عذاب دوزخ سے نجات دلانے کے لیے ڈھال کا حکم رکھتا ہے، چنانچہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے: ((اَلصَّیَامُ جُنَّةٌ))’’یعنی ماہ رمضان کے روزے انسان کے لیے عذاب دوزخ سے بچانے کے لیے تو ڈھال ہیں۔‘‘ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ انسان روزہ رکھنے سے تمام قسم کے گناہوں سے مخلصی پا لیتا ہے، اگر روزہ کے حقیقی معنوں پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت بخوبی ذہن نشین ہو جائے گی کہ روزہ انسان کو کس طرح تمام گناہوں سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔

روزہ کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں، اور صوم کے معنی عربی لغت میں رکنے، خاموش رہنے اور بلند ہونے کے ہیں۔ وجہ یہ کہ صایم کو حالت صوم میں اکل و شرب اور جماع وغیرہ سے رکنا پڑتا ہے، اور گلہ و غیبت، واہیات و خرافات سے اور دیگر ہر قسم کے لاحاصل امور سے اجتناب کرنا لازمی امر ہوتا ہے، ورنہ اس کا روزہ خدا کے ہاں کچھ حقیقت نہیں رکھتا بلندی کے معنی اس لیے کہ روزہ خدا کی بارگاہ میں میں تمام عبادتوں سے زیادہ بلند درجہ رکھتا ہے، پس ثابت ہوا کہ روزہ دار کو روزہ کی مذکورہ بالا پابندیاں واقعی ایک زاہد و پارسا بنا دیتی ہے، اور یہ روزہ ایک بڑا بھاری معجزہ ہے، چنانچہ قرآن مجید میں خود اللہ تعالیٰ نے روزہ کی علت غائی یوں بیان فرمائی:

﴿کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾

’’یعنی حکم یہ ہوا تم پر روزہ کا جیسے کہ حکم تھا تم سے پہلی قوموں پر، (پھر فرمایا) روزہ رکھنے کا امر اس لیے نازل ہوا کہ تم پرہیز گار بن جائو۔‘‘

اللہ اکبر خداوند کریم کا یہ کتنا احسان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو محض متقی بنانے کی خاطر روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ القصہ روزہ ہمارے لیے بے شمار فوائد رکھتا ہے، جن کی تفصیل کے لیے ایک دفتر کی ضرورت ہے، لہٰذا ہم نہایت اختصار سے اس کی خوبیاں و حکمتیں ذیل میں لکھ کر دشمنان اسلام کو دکھاتے ہیں کہ ہمارا اسلامی روزہ کتنی بڑی حکمت پر مبنی ہے۔

(۱)        انسانی فطرت اس بات کو چاہتی ہے کہ نفس ہمیشہ عقل کے ماتحت رہے، چونکہ روزہ بھی نفس کی کسی خواہش کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی، بلکہ اس کی ہر تمنا کو دبانا روزہ دار کا فرض اولین ہوتا ہے، لہٰذا نفس امارہ عقل کی ماتحتی میں بخوشی کام کرنے لگ جاتا ہے۔

(۲)        انسان احسان فراموش واقع ہوا ہے۔ ہم دن رات اللہ تعالیٰ کی نعمتیں کھاتے پیتے ہیں۔ لیکن شکر گزاری کا نام تک نہیں لیتے، اور یہ امر مسلمہ ہے کہ اگر کسی کی کوئی محبوب و مرغوب چیز کچھ عرصہ تک گم رہے تو اس کو اس کی قدر معلوم ہوتی ہے، یہی حال روزہ دار کا ہے، سارا دن کھانا پینا متروک ہونے کی وجہ سے اس کو شام کے وقت قدر معلوم ہوتی ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حقیقی شکر گذار رہتا ہے۔

(۳)       چونکہ انسان کو روزہ میں بھوکا پیاسا رہنا پڑتا ہے۔ اس لیے اس میں مساکین و فقراء کے ساتھ حقیقی مروت و ہمدردی کرنے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ جن امراء نے کبھی بھوک پیاس دیکھی ہی نہیں وہ غرباء کے احوال سے کب آشنا ہو سکتے ہیں بقول حافظ ع

  ؎          کجا وانند حال ما سبکساران ساحل ہا

(۴)       عشق و محبت کے اس تقاضے کو ایک عاشق بخوبی جانتا ہے کہ جب یاد معشوق اس کو بے قرار کر دیتی ہے، تو وہ کھانے پینے کو ترک دیتا ہے، دنیا کی دل کش سے دلکش چیزیں موجود ہوتی ہیں، مگر عاشق کا دل کسی کو بھی نہیں چاہتا۔ یہی حال روزہ میں روزہ دار کا ہے، حکم الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی محبت اور جبروت و عظمت حضرت انسان کو اکل و شرب کا صحیح تارک بنا دیتی ہے، کیا اس سے زیادہ کوئی اور عشق و محبت ہو سکتی ہے، جب کہ حضرت انسان محض اللہ تعالیٰ کے لیے ماہ رمضان کے آنے پر معاً ان نعمائے الٰہی کو ترک کر دیتا ہے جن کو کہ وہ اس سے پہلے دن رات کھانے پینے کا عادی تھا۔

(۵)       علم النفس کے ماہرین اس مسئلہ کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ قدرت نے انسان میں قوا اس ترتیب سے رکھے ہیں کہ ایک قوت کی مدد سے دوسری قوت تربیت پاتی ہے۔ اگر اس قدر اصول و قانون پر روزہ کی حقیقت کو دیکھا جائے تو روزہ میں سو بات کی ایک بات جو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب حالت روزہ میں حکم اللہ کے مطابق حلال چیزوں کو چھوڑ دینے کی طاقت ترقی پا لیتی ہے، پھر اس کی مدد سے حرام اشیاء کو ترک کرنے کی قوت خود بخود ہی تربیت پا جاتی ہے، کیونکہ یہ تو غیر ممکن ہے جو شخص خوف الٰہی سے حالت روزہ میں حلال اشیاء کو ترک کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہے، وہ حرام چیزوں اور دیگر ہر قسم کے امور ممنوعہ کو نہ چھوڑے۔

(۶)        چونکہ روح اور جسم میں ایک خاص تعلق ہے، اس لیے اطباء نے جہاں جسم کو سال میں ایک دفعہ مسہل دیا جانا ضروری خیال کیا ہے، وہاں طبیب حقیقی نے بھی روح کے لیے سال کے بعد ایک بار روزہ کا مسہل فرض کیا تاکہ مواد فاسدہ اور غلیظ خلطیں جمع ہو کر جسم و روح کو خراب نہ کر دیں۔

(۷)       مخالفین اسلام اکثر اوقات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان روزہ رکھ کر یوں ہی بھوکے پیاسے مرا کرتے ہیں۔ بھلااس میں کیا فائدہ ہے، سو عرض ہے کہ بھوکا و پیاسا رہنا حضرت انسان کے لیے زحمت نہیں۔ بلکہ رحمت ہے، حکماء سے جا کر پوچھ لیجئے گاکہ انسان کو کئی ایک بیماریاں ایسی لاحق ہوتی ہیں۔ جن کا علاج صرف بھوک پیاس ہی ہوتا ہے، اور بس۔

(۸)       جس طرح جسمانی صحت کے لیے اطباء نے بھوک پیاس کو مفید خیال کیا ہے، ایسا ہی زاہدوں اور عابدوں نے بھوک کو تزکیہ نفس و صفائی کے لیے اکثر ثابت کیا ہے، چنانچہ آنحضرت ﷺ کے ارشادات ہیں۔

(الف):  ((الجوع سیّد العمل)) ’’یعنی بھوک تمام عملوں کی سردار ہے۔‘‘

(ب):    ((الجوع مخ العبادة)) ’’یعنی بھوک تمام عبادتوں کا مغز ہے۔‘‘

(ج):     ((الجوع طعام الانبیاء)) ’’یعنی بھوک نبیوں کی خوراک ہے۔‘‘

(د):      ((طھر واقلوبکم بالجوع لتنظروا الی عظمة اللّٰہ تعالٰی)) ’’یعنی تم اپنے دلوں کو بھوک سے صاف کرو تاکہ تم اللہ تعالٰی کی عظمت و جبروت کو دیکھ سکو۔‘‘ (۱؎)

(؎۱) راقم مضمون نے ان روایات کو بغیر حوالہ ہی نقل کیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (محمد داؤد راز) ؔ

الغرض بھوک و پیاس تزکیۂ نفس کے لیے ایک کامل ذریعہ ہے، جس کا نبیوں کے علاوہ رشیوں اور میمنوں نے بھی اعتراف کیا ہے۔ (۱۲ جون ۶۵ئ) فتاویٰ ثنائیہ)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 89

محدث فتویٰ

تبصرے