سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(01) رمضان کا بیان

  • 4004
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2145

سوال

(01) رمضان کا بیان

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان کا بیان


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رمضان کا بیان:

رمضان کے مہینہ میں قرآن مجید اترا۔ (۱؎) اس مہینہ میں شب قدر ہے، جس کے اندر عبادت کرنا ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ (۲؎) اس مہینہ کے پورے دنوں روزے رکھنا فرض ہیں۔ (۳؎) اس مہینہ میں جنت کے دروازے کھل جاتے، اور دوزخ کے دروزے بند اور شیطان قید کر دیے جاتے ہیں (۴؎) رمضان کی پہلی رات کو دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں جو نہیں کھلتے اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جو بند نہیں ہوتے۔ (۵؎) رمضان میں نقل عبادت کا ثواف فرض کے برابر ہے۔ (۶؎) رمضان میں فرض عبادت کا ثواب ستر فرضوں کے برابر ہے۔ (۷؎) رمضان میں مومن کا رزق زیادہ ہوتا ہے۔ (۸؎) جو کوئی کسی روزہ دار کو ایک گھونٹ دودھ یا شربت یا چھوارے سے افطار کرائے اسے روزہ کا ثواب ملتا ہے گناہوں کی بخشش دوزخ سے بچت ہوتی ہے۔ (۹؎)

(؎۱) قرآن مجید (؎۲) قرآن مجید (؎۳) قرآن مجید بخاری مسلم (؎۴) بخاری مسلم(؎۵) ابن ماجہ۔ ترمذی۔ مسند احمد (؎۶) بیہقی مشکوٰۃ (؎۷) مشکوٰۃ بیہقی (؎۸) بیہقی مشکوٰۃ (؎۹) مشکوٰۃ بیہقی۔ مشکوٰۃ بیہقی

رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے۔ (۱؎) مکہ میں رمضان گزارنا ایک لاکھ رمضان کے برابر ہے۔ (۲؎) رمضان کی اخیر رات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخش دیتا ہے۔ (۳؎) جنت رمضان کے لیے سال بھر تک سجائی جاتی ہے۔ (۴؎) اول رات میں اللہ تعالیٰ بندوں کو رحمت کی نگاہ سے دیکھتا اور عذابوں سے نجات دیتا ہے۔ (۵؎) رمضان میں اللہ کا ذکر کرنے والا بخش دیا جاتا ہے اور دعا قبول ہوتی ہے۔ (۶؎) جو کوئی اپنے نوکروں چاکروں سے کام لے گا، اللہ اُسے بخش دے گا، اور وہ دوزخ سے نجات دے گا۔ (۷؎) اس مہینہ میں اس کا اول رحمت۔ درمیان بخشش۔ اخیر دوزخ سے آزادی ہے۔ (۸؎) جو کوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلائے اللہ اسے ایسے حوض سے پلائے گا جو کبھی پیاسا نہ ہو گا۔ (۹؎)رمضان کے پہلے دن سے ہوا چلتی ہے جو جنت کے پتوں سے گزر کو حوروں پر جاتی ہے تو حوریں کہتی ہیں اے اللہ! ہمارے ایسے شوہر بنا جن سے ہمیں ٹھنڈک ہو اور انہیں ہم سے ٹھنڈک ہو۔ (۱۰؎)

روزہ دار کا بیان:

جس شخص نے ایمان اور ثواب کے لیے روزہ رکھا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو گئے۔ (۱۱؎) ہر اچھے کام کا بدلہ دس گنے سے سات سو گنے تک ملتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ (۱۲؎) روزہ دار کو دو خوشیاں ہوتی ہیں، ایک افطار کے وقت ایک اللہ تعالیٰ کے دیدار کے وقت۔ (۱۳؎) روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کی نزدیک مشک سے بھی زیادہ اچھی ہے۔ (۱۴؎) روزہ گناہوں کے لیے ڈھال ہے۔ (۱۵؎) روزہ آدھا صبر ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ (۱۶؎) افطار کے وقت دعا جلد قبول ہوتی ہے۔(۱۷؎) بہشت کے آٹھ دروازوں میں سے ایک ریان ہے جو صرف روزہ داروں کے لیے ہے۔ (۱۸؎) روزہ دار کی بخشش کے لیے روزانہ ستر ہزار فرشتے دعا کرتے ہیں۔ (۱۹؎) روزہ دار جنت میں ریان دروازے سے داخل ہوں گے۔ (۲۰؎)

(؎۱) مسلم، حجاج (؎۲) ابن ماجہ (؎۳) مسند احمد (؎۴) ابن حبان (؎۵) بیہقی (؎۶) طبرانی (؎۷) بیہقی۔ مشکوٰۃ (؎۸) مشکوٰۃ بیہقی (؎۹) مشکوٰۃ بیہقی (؎۱۰) شعب الایمان بیہقی (؎۱۱) بخاری۔ مُسلم (؎۱۲) بخاری مسلم (؎۱۳) بخاری مسلم (؎۱۴) بخاری و مسلم (؎۱۵) بخاری و مسلم (؎۱۶) مشکوٰۃ (؎۱۷) بیہقی (؎۱۸) بخاری۔ مسلم (؎۱۹) ابن خزیمہ (؎۲۰) بخاری و مسلم

روزہ دار اور برزخ کے درمیان زمین و آسمان سے زیادہ دوری ہوتی ہے۔ (؎۲۱)  (؎۲۱) ترمذی

روزہ کا بیان:

روزہ ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ (۲؎) رمضان کے پورے مہینہ روزے رکھنا فرض ہیں۔ (۳؎) جو کوئی رمضان کا مہینہ پائے اس پر روزے فرض ہیں۔ (۴؎) صبح سے غروب آفتاب تک روزے کے ارادہ سے کھانے پینے اور اجماع سے بچنا روزہ ہے۔ (۵؎) فرض روزہ کے لیے رات سے ارادہ ضروری ہے۔ (۶؎) روزہ صرف دن کا ہے۔ (۷؎) استقبال کے روزے یا روزہ رکھنا حرام ہے۔ (۸؎) جو شخص پورے مہینہ کے روزے رکھتا ہو۔ یا ان دونوں میں رکھتا ہو اُسے رمضان سے پہلے روزے رکھنے کی اجازت ہے۔ (۹؎) رات کو کھانا پینا وغیرہ منع نہیں۔ (۱۰؎) جو کوئی بغیر عذر کے رمضان میں روزہ نہ رکھے۔ پھر تمام عمر روزے رکھے اور خیرات کرے تو بھی برابری نہیں۔ (۱۱؎)

رمضان کے چاند کا بیان:

رمضان کا چاند ہو جانے پر روزے رکھے۔ (۱۲؎) چاند دیکھ کر یہ دعا پڑھے:

((اَللّٰهُمَّ اَهِلَّهٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْاِسْلَامِ۔ رَبّيْ وَرَبُّكَ الله)) (۱۳؎)

’’اے اللہ اس چاند کو امن و امان اور سلامتی و اسلام کا چاند کر۔ میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘

یا یہ پڑھے:

((هِلَالُ خَیْرٍ وَرُشْدٍ هِلَالُ خَیْرٍ وَرُشْدٍ هِلَال خَیْرٍ وَرُشْدٍ اٰمَنْتُ بِالَّذِیْ خَلَقَكَ)) (۱۴؎)

’’خیریت اور ہدایت کا چاند ہو خیریت اور ہدایت کا چاند ہو خیریت اور ہدایت کا چاند ہو میں اُس ذات پر ایمان لایا جس نے تجھے پیدا کیا۔‘‘

یا یہ پڑھے:

((اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ ذَهَبَ بِشَهْرِ کَذَا وَجَاءَ بِشَهْرِ کَذَا)) (۱۵؎)

’’حمد ہے اُس ذات کو جو لے گیا، ایسا مہینہ اور لے آیا ایسا مہینہ‘‘

(؎۱)ترمذی(؎۲)قرآن مجید۔ بخاری (؎۳)قرآن۔ بخاری (؎۴) قرآن (؎۵) ترمذی (؎۶) ابو داؤد۔ ترمذی (؎۷) بخاری (؎۸) بخاری۔ مسلم (؎۹) بخاری۔ نسائی۔ ابن ماجہ (؎۱۰) بخاری (؎۱۱) مسند احمد۔ ترمذی (؎۱۲) ابن ماجہ۔ بخاری۔ مسلم۔ قرآن مجید (؎۱۳) ترمذی(؎۱۴) ابو داؤد (؎۱۵) ابو دائود

چاند نہ دکھائے تو شعبان کے تین دن پورے کر کے روزہ رکھے۔ (؎۱) شک کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ (؎۲) رمضان سے پہلے استقبال کا روزہ حرام ہے۔ (؎۳) چاند ہونے کے لیے ایک مسلمان کی گواہی ضروری ہے۔ (؎۴) ہر شہر کے لیے وہیں کا چاند معتبر ہے۔ (؎۵) مطلع بعید (بہت دور جگہ چاند ہونا) معتبر نہیں ہے۔ (؎۶) آدھے شعبان کے بعد کوئی روزہ نہ رکھے۔ (؎۷)

سحری کا بیان:

سحری کھانا برکت ہے۔ (؎۸) سحری نہ کھانا یہود و نصاریٰ کی مشابہت ہے۔ (؎۹) سحری میں تاخیر پسند ہے۔ اور سنت ہے۔ (؎۱۰) رسول اللہ ﷺ کی سحری اور صبح کے فرضوں میں اتنا فصل ہوتا تھا کہ پچاس آیتیں پڑھ لی جائیں۔ (؎۱۱) سحری کا وقت صبح صادق سے پہلے تک ہے۔ (؎۱۲) کھجور اچھی سحری ہے۔ (؎۱۳)

سہو کا بیان:

بھول کر کھانے پینے وغیرہ پر معافی ہے۔ (؎۱۴) بھول کر کھانا پینا خدا کی طرف سے دعوت ہے۔ (؎۱۵)

مریض اور مسافر کا بیان:

مریض کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ (؎۱۶) مسافر چاہے روزہ رکھے یا نہ رکھے۔ (؎۱۷) مسافر کو سفر میں روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔ (؎۱۸) مسافر سفر شروع کرنے کے بعد افطار کر سکتا ہے۔ (؎۱۹) مسافر کو حالت سفر میں افطار کی اجازت ہے۔ (؎۲۰) مریض اور مسافر روزہ نہ رکھیں تو رمضان کے بعد قضا کا روزہ رکھیں۔ (؎۲۱)

روزہ ٹوٹنے کا بیان:

قصداً کھانے پینے اور جماع کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ (؎۲۲) قصداً قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ (؎۲۳) کسی چیز کے بدن میں پہنچنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ (؎۲۴)

(؎۱)بخاری۔ مسلم۔ ابن ماجہ۔ نسائی (؎۲) ابن ماجہ۔ ابن خزیمہ۔ ابو داؤد۔ ترمذی۔ دارمی (؎۳) ابن ماجہ۔ ابن خزیمہ(؎۴) ابن ماجہ۔ ابن خزیمہ۔ ابو داؤد۔ ترمذی۔ دارمی (؎۵) نسائی۔ ترمذی (؎۶) ترمذی (؎۷) ابو داؤد۔ ترمذی۔ ابن ماجہ۔ نسائی۔ دارمی(؎۸)بخاری، مسلم۔ ابن ماجہ (؎۹) مسلم (؎۱۰) بخاری (؎۱۱)بخاری۔ ابن ماجہ۔ نسائی (؎۱۲) قرآن مجید (؎۱۳) ابو داؤد (؎۱۴) (؎۱۵) بخاری (؎۱۶) فرقان حمید (؎۱۷) قرآن۔ بخاری۔ ابن ماجہ (؎۱۸) ابن ماجہ۔ مسلم (؎۱۹)بخاری (؎۲۰) ابن ماجہ۔ بخاری (؎۲۱) قرآن۔ بخاری (؎۲۲) بخاری۔ مسلم (؎۲۳) ابو داؤد۔ دارمی۔ ابن ماجہ۔ ترمذی (؎۲۴) بخاری۔ طبرانی

ممنوع باتوں کا بیان:

جو شخص روزے میں جھوٹ بولے اس کا روزہ مقبول نہیں۔ (؎۱) بے نمازی کا روزہ مقبول نہیں۔ (؎۲)روزہ میں گالی گلوچ غصہ کرنا لڑنا جھگڑنا منع ہے۔ (؎۳) جھوٹ چوری لہو لعب سے روزہ جاتا رہتا ہے۔ (؎۴)

قضاء کا بیان:

ایک روزہ کے بدلے ایک روزہ رمضان کے بعد رکھے۔ (؎۵) مریض اور مسافر قضا کے روزے رمضان کے بعد رکھے۔ (؎۶) قضاء کے روزے لگاتار رکھنا ضروری نہیں۔ (؎۷) قضا کے روزے دوسرے رمضان سے پہلے رکھ لے۔ (؎۸) حیض و نفاس والی اور دودھ پلانے والی عورتیں رمضان کے بعد روزہ رکھیں۔ (؎۹) جس نے خود قے کی ہو وہ قضا کا روزہ رکھے۔ اور جس نے روزہ میں عمداً کھایا۔ پیا قضا کا روزہ رکھے۔ (؎۱۰) کسی نے بادل وغیرہ میں غروب سمجھ کر افطار کر لیا۔ پھر معلوم ہوا دن ہے، معلوم نہیں اس پر قضا ہے یا نہیں۔ (؎۱۱)

فائدہ: بعض کے نزدیک قضا نہیں ہے۔ (؎۱۲)

اکثر کے نزدیک قضا ہے۔ (؎۱۳)

کفارہ کا بیان:

جس کسی نے روزہ میں جان بوجھ کر جماع کیا وہ کفارہ دے۔ (؎۱۴) ایک لونڈی یا غلام آزاد کرے۔ (؎۱۵) (یہ نہ ہو سکے تو) دو مہینہ تک بلاناغہ روزے رکھے۔ (؎۱۶) (یہ بھی نہ ہو سکے تو) ساٹھ مسکینوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے۔ (؎۱۷) ایک روزہ قضا کا بھی رکھے۔ (؎۱۸) مجبور محتاج کو معافی ہے۔ (؎۱۹) مگر قضا کا روزہ رکھے اور استغفار کرے۔ (؎۲۰) اگر ایک محتاج کو کھانا کھلانے کے بدلے ایک مد اناج دے دے تو بھی جائز ہے۔ (؎۲۱)

(؎۱)بخاری (؎۲) بخاری۔ مسلم وغیرہ (؎۳) بخاری۔ مسلم (؎۴) ابن ماجہ۔ طبرانی (؎۵) قرآن(؎۶) قرآن۔ بخاری (؎۷) بخاری۔ مسلم (؎۸) ابن ماجہ۔ بخاری۔ مسلم (؎۹) بخاری۔ ابن ماجہ۔ ا بو دائود (؎۱۰) ترمذی۔ موطا مالک (؎۱۱) ابو دائود۔ ترمذی (؎۱۲) عون المعبود (؎۱۳) بیہقی۔ تلخیص الجیر (؎۱۴) بخاری۔ مسلم (؎۱۵) بخاری۔ مسلم (؎۱۶) بخاری۔ مسلم (؎۱۷) بخاری۔ مسلم (؎۱۸) بخاری۔ مسلم۔ ابن ماجہ (؎۱۹) بخاری۔ مسلم (؎۲۰) ابن ماجہ (؎۲۱)عون المعبود

فائدہ: روزہ میں جان بوجھ کو کھانے پینے والے پر کسی حدیث سے کفارہ ثابت نہیں۔ (؎۱)

عورتوں کے مسئلوں کا بیان:

حیض اور نفاس والی عورتیں روزہ نہ رکھیں۔ (؎۲) حیض و نفاس والی عورتیں فارغ ہو کر نہانے کے بعد روزہ رکھیں۔ (؎۳) حاملہ اور دودھ پلانے والی اگر چاہے تو روزہ نہ رکھے۔ (؎۴) حاملہ اور دودھ پلانے والی رمضان کے بعد روزہ رکھے۔ (؎۵) حاملہ اور دودھ پلانے والی اگر چاہے تو روزہ کے بدلے فدیہ دے دے۔ (؎۶) حاملہ اور دودھ پلانے والی کا فدیہ ہر روزہ کے بدلے ایک محتاج کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے۔ (؎۷) قضا کے روزے لگاتار رکھنا ضروری نہیں۔ (؎۸) قضا کے روزے دوسرے رمضان سے پہلے تک رکھ لے۔ (؎۹) فدیہ میں اگر ایک محتاج کو کھانا کھلانے کی جگہ ایک مد غلہ دے دے تو بھی جائز ہے۔ (؎۱۰)

فدیہ کا بیان:

جس میں روزہ رکھنے کی قدرت نہیں اس کا فدیہ ہر روزے کے بدلے ایک محتاج کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہے۔ (؎۱۱) یا ایک مد اناج دے۔ (؎۱۲)

روزہ نہ توڑنے والی چیزوں کا بیان:

مسواک کرنے اور سرمہ لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ (؎۱۳)سرمہ لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا (؎۱۴) مسواک روزہ دار کی اچھی حلال ہے۔ (؎۱۵) بوسہ سے روزے میں کوئی خرابی نہیں ہوتی۔ (؎۱۶) بوس و کنار کی اُسے اجازت ہے جسے اپنی خواہش نفس پرقدرت ہو۔ (؎۱۷) خود بخود قے آنے سے کچھ نقصان نہیں۔ (؎۱۸)

متفرق مسئلوں کا بیان:ـ

دکھاوے کا روزہ شرک ہے۔ (؎۱۹) بلاعذر روزہ نہ رکھنے والا کافر ہے۔ (؎۲۰)

(؎۱) تلحیض الجیر (؎۲) بخاری (؎۳) بخاری۔ ابن ماجہ (؎۴) ابن ماجہ۔ ابو داؤد (؎۵) ابو داؤد (؎۶) ابو داؤد (؎۷) بخاری(؎۸) بخاری۔ مسلم (؎۹) بخاری۔ مسلم (؎۱۰) عون المعبود (؎۱۱) قرآن۔ دارقطنی۔ حاکم (؎۱۲) تلخیص الجیر۔ عون المعبود (؎۱۳) ابن ماجہ (؎۱۴) بیہقی۔ ابن ماجہ۔ ترمذی (؎۱۵) دارقطنی۔ ابن ماجہ (؎۱۶) ابن ماجہ (؎۱۷) ابن ماجہ (؎۱۸) ابن ماجہ (؎۱۹) بیہقی (؎۲۰)ترمذی

جس پر نہانا فرض ہو وہ صبح کو نہا لے۔ (؎۱) جس نے بغیر عذر شرعی کے روزہ نہ رکھا تو تمام عمر کے روزے برابری نہیں کر سکتے۔ (؎۲) غروب کے بعد سے صبح صادق تک کھانے پینے وغیرہ کی اجازت ہے۔ (؎۳) روزہ صرف دن کا ہے۔ (؎۴) شدت تکلیف میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ (؎۵) افطار کے بعد مغرب کی نماز پڑھے۔ (؎۶) مردے کے بدلے کے روزے اُس کا ولی رکھے۔ (؎۷) یا کفارہ دے دے۔ (؎۸) خواب (احتلام) سے روزہ میں کوئی نقصان نہیں۔ (؎۹) پیاس کی وجہ سے سر پر پانی ڈالنے میں کوئی نقصان نہیں۔ (؎۱۰) جب کوئی روزہ دار سے لڑے جھگڑے تو روزہ دار کہہ دے: ’’میرا روزہ ہے۔‘‘ (؎۱۱)

افطار کا بیان:

افطار میں جلدی سے بھلائی ہے۔ (؎۱۲) افطار میں جلدی کرنے والا رسول اللہ ﷺ کو پسند ہے۔ (؎۱۳) افطار میں جلدی کرنے والا خدا کا سب سے زیادہ محبوب ہے۔ (؎۱۴) جب تک افطار میں جلدی ہو گی لوگوں میں بھلائی رہے گی۔ (؎۱۵) جب تک افطار میں جلدی ہو گی دین میں غلبہ رہے گا۔ یہود و نصاریٰ افطار میں دیر کرتے ہیں۔ (؎۱۶) غروب کے بعد افطار میں دیر نہ کرے۔ (؎۱۷) جب مشرق کی طرف سے سیاہی ظاہر ہو اور سورج ڈوب جائے تو افطار کرے۔ (؎۱۸) ستو سے افطار کرنا سنت ہے۔ (؎۱۹) روزہ تر کھجور سے افطار کرے، تر نہ ہوں تو خشک سے، خشک بھی نہ ہوں تو پانی سے۔ (؎۲۰) یہ دعا پڑھ کر روزہ افطار کرے۔

((اَللّٰهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ۔ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔)) (؎۲۱)

’’اے اللہ! میں نے تیرے ہی لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی دئیے ہوئے رزق سے افطار کیا۔ میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو مہربان رحم والا ہے۔‘‘

(؎۱)ابن ماجہ۔ بخاری و مسلم (؎۲) مسند احمد۔ ترمذی۔ ابو داؤد۔ ابن ماجہ۔ بخاری۔ دارمی(؎۳) قرآن (؎۴) قرآن (؎۵) ترمذی (؎۶) ابو داؤد (؎۷) ترمذی(؎۸)ترمذی (؎۹) ترمذی۔ دارقطنی۔ مسند احمد (؎۱۰)موطامالک۔ ابو داؤد (؎۱۱) بخاری (؎۱۲) ابن ماجہ۔ بخاری۔ مسلم(؎؎۱۳) ترمذی (؎۱۴) ترمذی (؎۱۵) بخاری۔ مسلم (؎۱۶) ابو داؤد۔ ابن ماجہ (؎۱۷) بخاری مسلم (؎۱۸) بخاری (؎۱۹) بخاری (؎۲۰) مسندا حمد۔ ترمذی۔ ابو داؤد۔ا بن ماجہ۔ دارمی (؎۲۱) ابو داؤد مرسلاً

افطار کے بعد یہ دعا پڑھے:

«ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الاْاجْرُ اِنْ شَاءَ اللّٰهُ تَعَالٰی»

’’پیاس گئی رگوں نے تری پائی اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ثواب کا حق دار ہو گیا۔‘‘ (؎۱)

اس کے بعد یہ دعا پڑھے:

((اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْئَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِيْ وَسِعَتْ شَیْئٍ اَنْ تَغْفِرْلِيْ ذُنُوْبِيْ)) (؎۲)

خدائے تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اپنی حلال آمدنی سے کسی کو روزہ افطار کرانے میں گناہوں سے معافی ہے۔ (؎۳) افطار کے بعد مغرب کی نماز پڑھے۔ (؎۴)

تراویح کا بیان:

تراویح دو دو رکعت یا چار چار رکعت پڑھے۔ (؎۵) رسول اللہ ﷺ نے آٹھ رکعت پڑھی ہیں۔ (؎۶) رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں اور رمضان کے سوا گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں۔ (؎۷) رسول اللہ ﷺ نے تیسویں کو اول شب پچیسویں کو نصب شب، ستائیسویں کو آخرت شب تک پڑھیں پھر کبھی نہیں پڑھیں اور فرمایا مرد کی افضل گھر میں ہے۔ (؎۸)حضرت عمر نے مسجد میں الگ الگ لوگوں کو پڑھتے دیکھ کر جماعت کی تمنا کی تھی۔ (؎۹) دوسری شب میں جماعت سے پڑھتے دیکھ کر فرمایا: اول رات میں پڑھنے والوں سے آخیر رات میں پڑھنے والے افضل ہیں۔ (؎۱۰) حضرت عمر نے گیارہ رکعت پڑھنے کے لیے فرمایا تھا۔ (؎۱۱) بمقابلہ مسجد کے گھر میں پڑھنا اور بمقابلہ اول رات کے اخیر رات میں پڑھنا افضل ہے۔ (؎۱۲)

(؎۱)ابو داؤد (؎۲) ابن ماجہ (؎۳) ابن خزیمہ (؎۴) ترمذی۔ ابو داؤد (؎۵) بخاری (؎۶) بخاری (؎۷) بخاری (؎۸) ابو داؤد۔ ترمذی۔ مسلم۔ نسائی۔ ابن ماجہ (؎۹) بخاری (؎۱۰) بخاری (؎۱۱) مؤطا مالک (؎۱۲) بخاری۔ مسلم

وتر کا بیان:

وتر ایک، تین، پانچ، سات، نو ثابت ہیں۔ (؎۱) وتر ترایح کے بعد پڑھے۔ (؎۲) (ابن حبان۔ ابو داؤد۔ مسلم۔ ابن ماجہ۔ نسائی۔ حاکم)۔ وتر کا وقت صبح کی سنتوں سے پہلے تک ہے۔ (؎۳) وتر رمضان میں اور علاوہ رمضان کے جماعت سے پڑھ سکتے ہیں۔ (؎۴) وتر رمضان کے سوا جماعت سے نہ پڑھنے کی کوئی حدیث نہیں۔ (؎۵)

فائدہ: وتر جہر سے پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔ (؎۶)

فائدہ: وتر کا بیان مفصل صلوٰۃ الرسول میں بڑھا دیا گیا۔ (؎۷)

اعتکاف کا بیان:

اعتکاف مسجد میں کرے۔ (؎۸) رمضان کے آخری دس دن رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف کیا۔ (؎۹) مسجد کے کسی گوشہ میں پردہ لگا کر بیٹھے۔ (؎۱۰) ضروریات کے لیے مسجد سے باہر یا گھر جا سکتا ہے۔ (؎۱۱) اکیسویں رارت کو مغرب کے وقت سے مسجد میں آ جائے۔ (؎۱۲) عورتیں اعتکاف کر سکتی ہیں۔ (؎۱۳) اعتکاف میں عورت سے مباشرت وغیرہ نہیں کرنی چاہیے۔ (؎۱۴) بیمار پرسی اور دفن میت کے لیے نہیں جا سکتا۔ (؎۱۵)

اعتکاف کی قضاء بھی جائز ہے۔ (؎۱۶) رسول اللہ ﷺ آخری دس دن میں اعتکاف کیا کرتے ایک سال اعتکاف نہیں کیا تو شوال کے پہلے دس دن اعتکاف کیا۔ (؎۱۷) رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری سال بیس دن اعتکاف کیا۔ (؎۱۸) اعتکاف کی جگہ بستر پلنگ وغیرہ بچھانا درست ہے۔ (؎۱۹) رمضان کے دس دن اعتکاف کا ثواب دو حج اور دو عمروں کے برابر ہے۔ (؎۲۰) اعتکاف میں ضرورتاً بولنا، بات کرنا، تیل لگانا، کنگھی کرنا۔ نہانا جائز ہے۔ (؎۲۱) رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات تک آخیر دس دن میں اعتکاف کیا۔ (؎۲۲)

(؎۱)بخاری۔ مسلم۔ نسائی (؎۲) بخاری (؎۳) بخاری۔ مسلم (؎۴) سبل السلام (؎۵) درایہ (؎۶) ترمذی۔ ابو داؤد (؎۷) ابن ماجہ۔ احمد۔ حاکم۔ دارقطنی۔ طحاوی (؎۸) ابو داؤد (؎۹) ابو داؤد (؎۱۰)ابن ماجہ (؎۱۱) بخاری۔ مسلم (؎۱۲)ابو داؤد (؎۱۳) بخاری۔ مسلم (؎۱۴) بخاری۔ مسلم (؎۱۵) ابو داؤد (؎۱۶) بخاری (؎۱۷) بخاری (؎۱۸) بخاری (؎۱۹) ابن ماجہ (؎۲۰) بیہقی (؎۲۱) بخاری (؎۲۲) بخاری۔ مسلم

شب قدر کا بیان:

شب قدر میں قرآن مجید نازل ہوا۔ (؎۱) شب قدر آخری دس میں ہے۔ (؎۲) شب قدر اکیس۔ تئیس۔ پچیس۔ ستائیس۔ انتیس میں سے کسی ایک رات میں ہے۔ (؎۳) شب قدر کی صبح کو جب سورج نکلتا ہے تو شعاع نہیں ہوتی۔ (؎۴) عشرہ آخر کی راتوں میں رسول اللہ ﷺ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو جگاتے۔ (؎۵) شب قدر ہر رمضان میں ہوتی ہے۔ (؎۶) شب قدر کی عبادت ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ (؎۷)

عید کے چاند کا بیان:

چاند دیکھ کر عید کرے۔ (؎۸) اگر چاند نہ دکھائی دے تو رمضان کے تیس دن پورے کر کے عید کرے۔ (؎۹) عید کے چاند کے لیے دو آدمیوں کی گواہی ضروری ہے۔ (؎۱۰) مقامی رؤیت معتبر ہے۔ (؎۱۱) بہت دور جگہ چاند نظر آ جانے کا اعتبار نہیں۔ (؎۱۲) اگر دوپہر کے بعد عید کے چاند کی خبر باہر سے آ جائے تو افطار کر لیں۔ اور دوسرے دن عید کریں۔ (؎۱۳)

فطرے کا بیان:

روزوں میں بات چیت وغیرہ سے جو نقصان آتا ہے اس کا فدیہ فطرہ ہے۔ (؎۱۴) صدقہ فطر ہر بچے۔ عورت۔ لونڈی۔ غلام پر فرض ہے۔ (؎۱۵) صدقہ فطر دینے کے بعد نماز عید کو جائے۔ (؎۱۶) عید کی نماز کے بعد صدقہ دینے سے صدقہ فطر ادا نہیں ہوتا۔ (؎۱۷) صدقہ فطر ایک صاع ہے۔ (؎۱۸) گیہوںآدھا صاع بھی درست ہے۔ (؎۱۹) (نسائی۔ درایہ۔ دارقطنی۔ ابو داؤد۔ طبرانی) (؎۲۰) صدقہ فطر گیہوں ایک صاع افضل ہے۔ (؎۲۱)

(؎۱)قرآن مجید (؎۲) بخاری۔ مسلم (؎۳) مسند احمد۔ بخاری (؎۴) مسلم (؎۵) بخاری۔ مسلم (؎۶) ابو داؤد (؎۷) فرقان مجید (؎۸) بخاری۔ مسلم۔ ابن ماجہ (؎۹) بخاری۔ مسلم (؎۱۰) ترمذی (؎۱۱)ترمذی (؎۱۲) ابن ماجہ۔ ابو دائود۔ نسائی(؎۱۳) ابو داؤد (؎۱۴) بخاری (؎۱۵) بخاری (؎۱۶) بخاری۔ مسلم۔ ابو داؤد (؎۱۷) بخاری۔ مسلم (؎۱۸) بخاری۔ مسلم۔ ابو داؤد۔ نسائی (؎۱۹) حاکم (؎۲۰) احمد۔ ترمذی (؎۲۱) بیہقی سبل السلام

صدقہ فطر چھوارا جو گیہوں آٹا ستو وغیرہ کھانے کی چیزیں دے سکتے ہیں۔ (؎) صدقہ فطر محتاجوں کو دینا چاہیے۔ (؎)

فائدہ: صدقہ فطر یا صاع سے ناپ کر دے۔

صدقہ فطر ایک محتاج کو اتنا دینا چاہیے کہ بے پروا ہو جائے۔ (؎) صدقہ فطر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مدینہ کے مد سے دیا جاتا تھا۔ (؎) صدقہ فطر دو مد شامی گیہوں فعل صحابہ ہے۔ (؎)

مد اور صاع کا بیان:

چار مد برابر ہیں ایک صاع کے ایک مد چوتھائی صاع ہے۔ (؎) ایک صاع برابر ہے پانچ رطل اور تہائی رطل کے۔ (؎) رسول اللہ ﷺ کا صاع پانچ رطل اور تہائی رطل تھا۔ (؎) ایک مد برابر ہے ایک طل اور دو ثلث بغدادی کے۔ (؎)

فائدہ: ایک رطل برابر ہے گیارہ اوقیہ کے۔ ایک اوقیہ برابر ہے ایک استار اور دو تہائی استار کے ایک استار برابر ہے، ساڑھے چار مثقال کے۔ ایک مثقال برابر ہے۔ ایک درہم اور تین سبع درہم کے ایک درہم برابر ہے۔ چھ وائق کے۔ ایک وانق برابر ہے آٹھ حبہ اور دو خمس حبہ کے۔ پس ایک رطل برابر ہے نوے مشقال کے نموے مثقال برابر ہیں ایک سو اٹھائیس درہم اور چار سبع درہم کے۔

عید کی نماز کا بیان:

عید کی نماز کے لیے طاق کھجوریں کھا کر جانا سنت ہے۔ (؎) راسرتہ میں تکبیر کہتا ہوا جائے۔ اور واپس آئے۔ (؎) تکبیر یہ ہے:

«اَللّٰهُمَّ اَکْبَرُ اَللّٰهُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ اَللّٰهُ اَکْبَرُ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ» (؎۱۲)

(؎۱)بخاری۔ مسلم۔ ابو داؤد۔ ترمذی (؎۲) ابو داؤد (؎۳) علوم الحدیث۔ حاکم۔ درایہ (؎۴) حاکم تلخیص الجیر ابن حبان (؎۵) مسند احمد۔ ترمذی (؎۶) ابو داؤد۔ نواوی (؎۷) عون المعبود۔ درایہ (؎۸)دارقطنی (؎۹) فتح الباری۔ تحفۃ الاحوذی۔ عون المعبود (؎۰ٍ۱) بخاری (؎۱۱) بخاری۔ دارقطنی (؎۱۲) حاکم۔ دارقطنی۔ بیہقی۔ ابن ابی شیبہ

’’اللہ بڑا ہے۔ اللہ بڑا ہے، بندگی کے لائق اللہ کے سوا کوئی نہیں اور اللہ بڑا ہے، اللہ بڑا ہے۔ اللہ ہی کے لیے تعریفیں ہیں۔‘‘

یا یہ تکبیر پڑھے:

((اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَللّٰهُ اَکْبَرُ اَللّٰهُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا)) (؎۱)

’’میں اللہ کی بڑائی کرتا ہوں۔ اللہ بڑا ہے۔ اللہ بڑا ہے۔ اللہ بڑا ہے۔‘‘

عید کی نماز جنگل میں پڑھے۔ (؎۲) سوائے نماز عید کے اور کچھ نہ پڑھے۔ (؎۳) نماز کا وقت ایک ایک نزیہ کے برابر سورج بلند ہونے سے ہے۔ (؎۴) عید کی نماز دو رکعت ہے۔ (؎۵) دونوں رکعتیں جہر سے پڑھے۔ (؎۶)  پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے سات اور دوسری میں پانچ تکبیریں زائد کہے۔ (؎۷) عید کی نماز اشراق کے وقت پڑھ لے۔ (؎۲۱)

فائدہ: ہر تکبیر میں رفع الیدین کرنا یا رفع الیدین کرنا ہاتھ باندھنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ (؎۸) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کا فعل صحیح سنت سے ثابت ہے جیسا کہ کتب حدیث میں مذکور ہے۔ (سعیدی)

عورتیں بھی نماز میں شریک ہوں۔ (؎۹) نماز کے بعد امام خطبہ دے۔ (؎۱۰) دوسرا خطبہ عورتوں کے پاس جا کر دے۔ (؎۱۱) خطبہ کے لیے منبر نہ ہو۔ (؎۱۲) عید گاہ پیدل جانا افضل ہے۔(؎۱۳) عذر کی وجہ سے مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔(؎۱۴) جسے ایک رکعت مل جائے وہ ایک اور پڑھ لے۔ (؎۱۵) جسے نماز نہ ملے وہ اکیلا دو رکعت پڑھ لے۔(؎۱۶) اگر کئی آدمی ہوں تو دوسری جماعت کر لیں۔ (؎۱۷) واپسی میں راستہ بدل دے۔ (؎۱۸) عید اور جمع اکٹھے ہوں تو جمعہ کی نماز کی رخصت ہے ظہر پڑھ لے۔ (؎۱۹) رسول اللہ ﷺ عید سے واپس آ کر دو رکعت پڑھتے تھے۔ (؎۲۰)

(؎۱) فتح الباری۔ سبل السلام (؎۲) بخاری (؎۳) مسلم (؎۲۱) مشکوٰۃ (؎۴) بخاری (؎۵) مسلم (؎۶) بخاری۔ مسلم (؎۷) مشکوٰۃ (؎۸) ترمذی۔ ابن ماجہ۔ دارمی۔ ابو داؤد۔ ابن خزیمہ۔ عون المعبود (؎۹) بخاری۔ مسلم (؎۱۰) بخاری۔ مسلم (؎۱۱) نسائی (؎۱۲) مسلم (؎۱۳) بخاری (؎۱۴) ابو داؤد (؎۱۵) بخاری۔ مسلم (؎۱۶) بخاری (؎۱۷) بخاری (؎۱۸) بخاری۔ ترمذی۔ دارمی (؎۱۹) ابو داؤد۔ نسائی(؎۲۰) ابن ماجہ

امام کے آگے سترہ ہونا چاہیے۔ (؎۱)

نذرکے روزوں کا بیان:

نذر کا روزہ رکھنا ضروری ہے۔ (؎۲) نذر کے روزوں کی قضا ضروری ہے۔ (؎۳) مردے پر اگر روزے نذر کے ہوں نووی روزے رکھے۔ (؎۴)

منع کیے ہوئے روزوں کا بیان:

عید الفطر عید الاضحی کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ (؎۵) ایام تشریق ذوالحجہ کی گیارہ بارہ تیرہ تاریخ کو روزہ رکھنا حرام ہے۔ (؎۶) عرفہ کے دن (نویں ذوالحجہ) روزہ رکھنا حاجی کو منع ہے۔ (؎۷) استقبال رمضان کے روزے حرام ہیں۔ (؎۸) رمضان سے پہلے شک کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ (؎۹) خاص جمعہ کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ (؎۱۰) صرف سنیچر کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔ (مسند احمد، ابو داؤد۔دارمی۔ ترمذی۔ ابن ماجہ)۔ ہمیشہ روزہ رکھنا منع ہے۔ (؎۱۱) وصال یعنی ایک روزے کو افطار کیے بغیر دوسرا رکھنا سخت منع ہے۔ (؎۱۲) کسی مہینہ کی پہلی پندرہ بیس کو مقرر کر کے روزہ رکھنا ٹھیک نہیں۔ (؎۱۳)

مسنون روزوں کا بیان:

رسول اللہ ﷺ شعبان میں روزے بہت رکھتے تھے۔ (؎۱۴) شعبان کے روزے رکھنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ (؎۱۵) عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھنا ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے۔ (؎۱۶) ان روزوں کا عید کے دوسرے دن سے رکھنا یا لگاتار رکھنا ضروری نہیں۔ (؎۱۷) رمضان کے بعد تمام روزون سے افضل عاشورہ (دس محرم) کا روزہ ہے۔ (؎۱۸) رسول اللہ ﷺ نے اگلے سال نو محرم کو بھی روزہ رکھنے کا قصد ظاہر فرمایا تھا

 (؎۱) بخاری (؎۲) بخاری۔ مسلم (؎۳) بخاری (؎۴) بخاری۔ مسلم (؎۵)مسلم (؎۶) مسلم (؎۷) بخاری۔ مسلم (؎۸) بخاری۔ مسلم (؎۹) بخاری۔ مسلم (؎۱۰) بخاری۔ مسلم (؎۱۱) مسلم (؎۱۲) بخاری۔ مسلم (؎۱۳) بخاری۔ مسلم (؎۱۴) بخاری۔ مسلم (؎۱۵) بخاری۔ مسلم (؎۱۶) مسلم۔ طبرانی (؎۱۷) ترمذی (؎۱۸) بخاری۔ مسلم

اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ (؎۱) عاشورہ (دس محرم) کا روزہ سنت ہے۔ (؎۲) بہتر یہ ہے کہ نو اور دس محرم کو روزہ رکھے۔ (؎۳) نو اور دس یا دس اور گیارہ کو روزہ رکھنا بہتر ہے صرف دن کو نہ رکھے۔ (؎۴) ذوالحجہ کے پہلے نو دن تک روزہ رکھنا سنت ہے۔ (؎۵) رسول اللہ ﷺ ہر مہینہ میں کچھ دن روزے رکھتے تھے۔ (؎۶) ہر مہینہ تین روزہ رکھنا سنت ہے۔ اور بہت ثواب ہے۔ (؎۷) ہر بدھ اور جمعرات کا روزہ ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔ (؎۸) پیر کے دن روزہ رکھنا سنت ہے۔ (؎۹) پیر اور جمعرت کا روزہ سنت ہے۔ (؎۱۰) رسول اللہ ﷺ نے پیر اور جمعرات کو روزہ کا حکم دیا ہے۔ (؎۱۱) جمعہ جمعرات یا جمہ سنیچر کو روزہ رکھنا جائز ہے۔ (؎۱۲) ایک مہینہ میں سنیچر اتوار پیر دوسرے مہینے میں منگل، بدھ، جمعرات کو روزہ رکھنا سنت ہے۔ (؎۱۳) ابیض (تیرہ۔ چودہ۔ پندرہ) ہر مہینہ کی روزے رکھنا بہت ثوا ب ہے۔ (؎۱۴) ہمیشہ روزے رکھنا منع ہے۔ دو دن روزے رکھنا ایک دن ناغہ کرنا جائز ہے۔ ایک دن روزہ رکھنا ایک دن نہ رکھنا صوم دائود علیہ السلام ہے اور افضل ہے۔ (؎۱۵)

نفل روزوں کا بیان:

نفل روزہ کے لیے رات کو ارادہ کرنا ضروری نہیں۔ (؎۱۶) نفل روزہ رکھ کر افطار کرنا دینا درست ہے۔ (؎۱۷) (ابو داؤد۔ مسند احمد۔ ترمذی۔ دارمی) چاہے تو نفل روزہ کی قضاء رکھ لے۔ (؎۱۸) چاہے تو قضا نہ رکھے۔ (؎۱۹) عورت نفل روزہ شوہر کی موجودگی میں شوہر کی اجازت کے بغیر نہ رکھے۔ (؎۲۰) کسی مہینہ کی صرف پہلی پندرہ بیس مقرر کر کے روزہ رکھنا منع ہے دو دو دن ساتھ رکھے۔ (؎۲۱) رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے سوا اور کسی مہینے کے روزے پورے مہینہ تک نہیں رکھے۔ (؎۲۲)

(؎۱) مسلم (؎۲)بخاری (؎۳) مسلم(؎۴)مرقاۃ (؎۵) نسائی (؎۶)مسلم (؎۷)مسلم (؎۸)ا بو داؤد (؎۹) مسلم (۱۰؎) ترمذی۔ نسائی (؎۱۱) ابو داؤد۔ نسائی (؎۱۲) بخاری۔ مسلم (؎۱۳) ترمذی (؎۱۴) مسلم۔ نسائی۔ ترمذی(؎۱۵) مسلم (؎۱۶) مسلم(؎۱۷)مسلم (؎۱۸) ترمذی۔ ابو داؤد (؎۱۹) مشکوٰۃ (۲۰؎) مسلم (؎۲۱) بخاری۔ مسلم (؎۲۲)بخاری۔ مسلم

نفل روزہ زمین کے برابر سونا مل جانے سے بہتر ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 31-46

محدث فتویٰ

تبصرے