سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(222) مولفۃ القلوب کی تحقیق ۔

  • 4003
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 10232

سوال

(222) مولفۃ القلوب کی تحقیق ۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن میں زکوٰۃ کے جو آٹھ مصارف بیان ہوئے ہیں، ان میں سے ایک مصرف مؤلفۃ القلوب ہے، اس مصرف میں کس قسم کے لوگ آتے ہیں؟ کیا یہ مصرف اب بھی باقی ہے، یا آنحضرتﷺ کے بعد ختم ہو چکا؟ نیز اس مصرف میں کفار بھی داخل ہیں یا نہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 تالیف قلب کی معنی ہیں، دل موہنا اس حکم کا مقصد عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے، کہ جو لوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں، اور مال دے کر ان کے جوش عادت کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہو، اور وہ مسلمانوں کے مددگار بن سکتے ہوں یا جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں، اور ان کی سابقہ عداوت یا کمزوریاں دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو کہ اگر ان کی مالی مدد نہ کی گئی، تو پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے، یا جو
لوگ خود تو پکے مسلمان ہوں، مگر ان کی قوم کو ان کے ذریعہ ہدایت پر لانا اور پختہ کرنا مقصود ہو یا غیر مسلموں میں ایسے لوگ ہوں جن کے بارے میں تجربہ ہو کہ یہ لوگ نہ تعلیم و تبلیغ سے متاثر ہوں گے، آنحضرتﷺ ان مذکورہ مقاصد کے لیے ہر وہ تدبیر کرتے ہیں، جس سے یہ لوگ متاثر ہو سکیں، یہ سب قسمیں عام طور پر مؤلفۃ القلوب میں داخل سمجھی جاتی ہیں، جن کو صدقات کا چوتھا مصرف سورۂ توبہ میں قرار دیا گیا ہے۔ (فقہ الزکوٰۃ ص ۵۹۵ ج ۲)
یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ نبیa کے زمانہ مبارک میں بہت سے لوگوں کو بطور تالیف قبل عطیے دیے گئے، لیکن اس امر میں اختلاف ہے کہ آپ کے بعد بھی یہ مد باقی رہی یا ختم ہو گئی؟ اس میں علماء کے تین مسلک ہیں۔
۱… پہلا مسلک یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب کہ اسلام کو مادی قوت بھی حاصل ہو گئی، اور کفار کے شر سے بچنے یا تو مسلمانوں کو اسلام پر پختہ کرنے کے لیے اس طرح کی تدبیروں کی ضرورت نہ رہی تو وہ علت اور مصلحت ختم ہو گئی، اس لیے ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا، لہٰذا اب مؤلفۃ القلوب کو کچھ نہیں دیتا ہے، یہ رائے حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اصحاب کی ہے، نیز حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ، عامر شعبی رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی طرف بھی یہی مقول منسوب ہے، (فتح القدیر للشوکانی رحمۃ اللہ علیہ ص ۷۳ ج ۲ ہدایہ ص ۱۸۲ ج الزکوٰۃ ص ۶۰۰ ج ۲)
ان حضرات کا استدلال اس واقعہ سے ہے کہ نبی ﷺ کی رحلت کے بعد عینیہ بن حصن اور اقرع بن حابس حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے ایک زمین آپ سے طلب کی۔ آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکھ دیا، انہوں نے چہاا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے اعیان صحابہ رضی اللہ عنہم بھی اس فرمان پر گواہیاں ثبت کر دیں، چنانچہ گواہیاں بھی ہو گئیں، مگر جب یہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گواہی
کے لیے گئے تو انہوں نے فرمان پڑھ کر اسے ان کی آنکھوں کے سامنے چاک کر دیا، اور ان سے کہا کہ بے شک نبی ﷺ تم لوگوں کی تالیف قلب کے لیے تمہیں دیا کرتے تھے، مگروہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے، اس پر وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس شکایت لے کر آئے، اور آپ کو طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمر رضی اللہ عنہ؟ لیکن نہ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی نے اس کا کوئی نوٹس لیا، اور نہ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس رائے سے اختلاف کیا۔ (فقہ الزکوٰۃ ص ۶۰۰ جلد نمبر۲ بدائع الصنائع ص ۴۵ ج ۲۔ فقہ السنہ ص ۳۸۹ جلد نمبر۱)
مذکورہ واقعہ سے حنفیہ اور بعض مالکیہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہو گئے، اور ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئی کہ اپنے بل بوتے پر کھڑے ہو سکیں، تو وہ سبب باقی نہ رہا جس کی وجہ سے ابتدائً مؤلفت القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا، اس لیے باجماع صحابہ یہ ہمیشہ کے لیے منسوخ ہو گیا (فقہ الزکوٰۃ ص ۶۰۰ ج ۲ ) رد المختار (ج۲ ص ۸۲) میں ہے کہ جس علت کی بنا پر اس حکم کا اجراء ہوا تھا، وہ علت جب زائل ہو گئی تو ا س پر مرتب ہونے والا حکم بھی ختم ہو گیا۔

احناف کے دلائل کا جائزہ

لیکن حقیقت یہ ہے کہ دلائل کے لحاظ سے یہ مسلک کمزور ہے، اور اجماع صحابہ اور نسخ کا دعوٰی غیر صحیح ہے۔ چنانچہ مشہور محقق شیخ یوسف القرضاوی اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
((والحق ان کلا الامرین غیر صحیح فالنسخ لم یقع والحاجة الی تالیف القلوب لم ینقطع اما دعویٰ النسخ بفعل عمر رضی اللّٰہ عنه فلیس فیه ادنیٰ دلیل فان عمر رضی اللّٰہ عنه انما حرم قوماً من الزکوٰة کانوا فی عہد رسول اللّٰہ ﷺ ورأی انه لم یعد ھناک حاجة لتألیفھم وقد اعز اللّٰہ الاسلام واغنی عنھم ولم یجاروز الفاروق الصواب فیما منع فان التالیف لیس وضعاً ثابتا دائما ولا کل من کان مرٔلفا فی عصر یَظَلل مؤلفا فی غیرہ من العصور)) (فقه الزکوٰة ص ۶۰۱ ج۲ )
’’امر واقعہ یہ ہے کہ احناف کی دونوں دلیلیں صحیح نہیں ہیں، نہ نسخ واقع ہوا ہے، اور نہ ہی تالیف قلب کی علت منقطع ہوئی ہے، فعل فاروق رضی اللہ عنہ سے نسخ کا دعویٰ، اس بنا پر صحیح نہیں ہے کہ اس میں مذکورہ دعویٰ کے لیے کوئی ادنیٰ دلیل بھی نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمان لوگوں کو اس وقت حصہ سے محروم کیا تھا، جو آنحضرتﷺ کے زمانہ مبارک سے وظیفہ جاری رکھنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی، اس بنا پر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا اس میں راہ حق سے سرمو انحراف نہیں کیا، کیونکہ تالیف قلوب کا حصہ دائمی نہیں ہے، اور نہ ہی یہ بات ہے کہ جو شخص ایک وقت تالیف قلب کا مستحق ہے، وہ ہر وقت ہی مستحق رہے۔‘‘
لہٰذا اگر اسلامی حکومت تالیف قلب کے لیے مال صرف کرنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہو تو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہے کہ ضرور ہی اس مد میں کچھ نہ کچھ صرف کرے، لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو تو اللہ نے اس کے لیے گنجائش رکھی ہے، اسے باقی رہنا چاہیے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع جس امر پر ہو اتھا، وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانہ میں جو حالات تھے، ان میں تالیف قلب کے لیے کسی کو کچھ دینے کی وہ حضرات ضرورت محسوس نہ کرتے تھے، اس لیے یہ نتیجہ نکالنے کی
کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ کے اجماع نے اس کو قیامت تک کے لیے ساقط کر دیا، جو قرآن میں بعض اہم مصالح دینی کے لیے رکھی گئی تھی۔

دوسرا مسلک:

یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب کا حصہ منسوخ نہیں ہوا، اب بھی باقی ہے، لیکن اس مد سے صرف فاسق مسلمانوں کی تالیف کی جا سکتی ہے کفار کی نہیں، یہ رائے حضرت امام شافی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دیگر ائمہ کی ہے۔ (فقہ السنۃ ص ۲۹۰ ج ۱، فقہ الزکوٰۃ ص ۵۹۷ ج ۲)
ان حضرات کا استدلال یہ ہے کہ تالیف قلب کے لیے کفار کو مال زکوٰۃ دینا آنحضرت ﷺ کے فعل سے ثابت نہیں ہے، جتنے واقعات حدیث میں ہم کو ملتے ہیں، ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے کفار کو تالیف قلب کے لیے جو کچھ مال دیا وہ مال غنیمت سے دیا کہ کہ مال زکوٰۃ سے (فقہ الزکوٰۃ ص ۵۹۷ ج ۲)
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں ان سب لوگوں کے نام بالفعل گنائے ہیں، جن کو نبیﷺ نے دلجوئی کے لیے مد صدقات سے حصہ دیا ہے، پھر بعد میں لکھتے ہیں:
((لم یثبت ان النبیﷺ اعطی احداً امن الکفار للایلاف شیئاً من الزکوٰة)) (تفسیر مظہری)
’’یعنی یہ بات کسی روایت سے ثابت نہیں کہ رسول اللہﷺ سے کسی کافر کو مال زکوٰۃ میں سے اس کی دلجوئی کے لیے حصہ دیا ہو۔‘‘
قاضی صاحب کی تائید امام زمحشری کی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مصارف
صدقات کا بیان یہاں ان کفار و منافقین کے جواب میں آیا ہے، جو رسول اللہﷺ پر تقسیم صدقات کے بارے میں اعتراض کرتے تھے، کہ ہم کو صدقات نہیں دئیے۔ اس آیت میں مصارف صدقات کی تفصیل بیان فرمانے سے مقصد یہ ہے کہ ان
کو بتلا دیا جائے کہ کافر کا کوئی حق مال صدقات میں نہیں ہے، اگر مؤلفۃ القلوب میں کافر بھی داخل ہوتے تو اس جواب کی ضرورت نہ تھی۔ (تفسیر کشاف ص ۵۵۸ جلد نمبر ۱)
صحیح مسلم اور ترمذی کی روایت میں جو مذکور ہے کہ آنحضرتﷺ نے صفوان بن امیہ کو کافر ہونے کے زمانہ میں کچھ عطیات دئیے تھے، تو اس کے متعلق امام نووی کے حوالہ سے تحریر فرمایا کہ یہ عطیات زکوٰۃ کے مال سے نہ تھے، بلکہ غزوۂ حنین کے مال غنیمت کا جو خمس بیت المال میں داخل ہوا اس میں سے دینے گئے تھے، اور یہ ظاہر ہے کہ بیت المال کی اس مد سے مسلم و غیر مسلم دونوں پر خرچ کرتا سب کے نزدیک جائز ہے، پھر فرمایا کہ امام بیہقی ابن سیدنا الناس۔ امام ابن کثیر وغیر ہم سب نے یہی قرار دیا ہے کہ یہ عطا مال زکوٰۃ سے نہ تھی، بلکہ خمس غنیمت سے تھی۔ (تفسیر مظہری)
۲ عام صدقات:
زکوٰۃ کے علاوہ عام صدقات کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، وہ مسلم غیر مسلم دونوں طرح کے لوگوں کو دیئے جا سکتے ہیں، آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے،((تَصَدَّقُوْا عَلٰی اَھْلِ الْاِیْمَانِ کُلِّھَا)) (مصنف ابن ابی شیبہ) یعنی ’’ہر مذہب والے پر صدقہ کرو۔‘‘ لیکن صدقہ زکوٰۃ کے بارے میں آنحضرتﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت یہ ہدایت فرمائی تھی کہ ((تُوْاخِذُ مِنْ اَغْنِیَائِ ئِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَاءِ ھِمْ)) (صحیح بخاری ص ۱۸۷ جلد نمبر۱) ’’مال زکوٰۃ صرف مسلمانوں کے اغنیاء سے ہی لیا جائے، اور انہی کے فقراء پر صرف کیا جائے۔‘‘ صحیح بخاری کی اس حدیث کی تشریح میں علامہ قسطلانی رقم طراز میں :
 ((والاضافة فی قوله فقرائھم تفید منع صرف الزکوٰة للکافر)) (ارشاد الساری شرح صحیح بخاری ص ۳ ج ۳) یعنی ’’حدیث میں لفظ فقراء کی جو اضافت مسلمانوں کی طرف کی گئی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ کافر کو زکوٰۃ دینی منع ہے۔‘‘ اور حافظ ابن حجر رضی اللہ علیہ اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ((ان الزکوٰة لا تدفع الی الکافر لعود الضمیر فی فقرأئھم الی المسلمین))(فتح الباری  ۱۰۳ ج ۴) ’’مال زکوٰۃ سے کافر کو ہر گز نہ دیا جائے، کیونکہ حدیث میں فقرائہم کی ضمیر مسلمانوں کی طرف عود کرتی ہے۔‘‘ مال زکوٰۃ سے کافر کی اعانت کے سلسلے میں بعض حضرات نے اس واقعہ اس استدلال کیا ہے ، جو حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اوران کی ماں کے درمیان پیش آیا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی قتیلہ بنت عبد العزیٰ کافرہ تھیں اور ہجرت کے بعد مکہ ہی میں رہ گئیں تھیں، حضرت اسماء انہی کے بطن سے پیدا ہوئی تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مدینہ اور مکہ کے درمیان آمد و رفت کا راستہ کھل گیا، تو وہ بیٹی سے ملنے کے لیے مدینہ آئیں، اور کچھ تحائف بھی لائیں، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی اپنی روایت میں ہے کہ میں نے جا کر رسول اللہﷺ سے پوچھا اپنی ماں سے مل لوں؟ اور کیا میں ان سے صلح رحمی بھی کر سکتی ہوں؟ حضورﷺ نے جواب دیا ان سے صلح رحمی کرو۔ (صحیح بخاری ص ۸۸۴ ج۲ مسلم ص ۳۲۴ ج۱) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اس واقعہ کی مزید تفصیل یہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے ماں سے ملنے کا انکا رکر دیا تھا، بعد میں جب اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اجازت مل گئی، تب وہ ان سے ملیں۔ (مسند احمد۔ ابن جریر) امام ابو داؤد نے اس حدیث پر یہ بات قائم کیا ہے،  باب الصدقۃ علی اھل الذمۃ  (ذمی کفار کو مال صدقات میں سے دینا) مگر اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کو زکوٰۃ کے مال میں سے دیا تھا، انہوں نے جو اپنی والدہ سے صلہ رحمی کی یا ان پر کچھ خرچ کیا تو وہ عام نوعیت کا صدقہ تھا۔ صدقہ ٔ زکوٰۃ نہ تھا، یہی بات علامہ محمود محمد خطاب السیکی نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے ارشاد فرمائی ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:  ((فاما دفع الزکوٰة والواجبة الیھا فلا یجوزہ نھا حق للمسلم لا تصرف لغیرہ المنھل العذب المورود)) (شرح سنن ابی داؤد ص ۳۱۶ ج ۹) ’’زکوٰۃ صرف مسلمانوں کا حق ہے، کسی غیر مسلم کو نہیں دی جا سکتی ۔‘‘

تیسرا مسلک:

یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب کا حصہ اب بھی باقی ہے، اگر اس کی ضرورت پیش آ جائے، تو پھر مسلم غیر مسلم دونوں طرح کے لوگوں کو دیا جا سکتا ہے، یہ مسلک بھی بہت سے ائمہ و فقہاء کا اختیار کردہ ہے، ہمارے نزدیک بھی اقرب الی الصواب یہی مسلک ہے، چنانچہ علامہ سید سابق مصری فرماتے ہیں:
((الظاھر جواز التالیف عند الحاجة الیه))(فقہ السنۃ ص ۳۹۰ ج۱)
’’عند الضرورت مؤلفۃ القلوب کا حصہ اب بھی باقی ہے۔ ‘‘
علامہ رشید رضاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((ھذا ھو الحق فی جملة)) (تفسیر المنار ص ۵۷۷ ج ۱۰)
’’حق بات یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب کا حصہ اب بھی موجود ہے۔‘‘
حضرت مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیفؔ و امت برکاتہم فرماتے ہیں:
((قد اختلف فی ھٰذا الھم ھل ھو باق ام نسخ فالاکثرون علی الاول والحنفیة الی الشانی والحق البقاء)) (التعلیقات السلفیہ شرح نسائی ص ۲۹۴ ج۱)
’’یعنی مؤلفۃ القلوب کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ حصہ اب بھی باقی ہے، یا منسوخ ہو گیا ہے، اکثر ائمہ دین کا خیال ہے کہ یہ حصہ اب بھی
باقی ہے، صرف علماء احناف کا خیال ہے کہ منسوخ ہو چکا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ حصہ ابھی بھی باقی ہے۔ منسوخ نہیں ہوا۔ ‘‘
رہی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے تو وہ اس حد تک تو صحیح معلوم ہوتی ہے، کہ جب تک حکومت کے پاس دوسری مدات آمدنی سے کافی مال موجود ہو تو اسے تالیف قلب کی مد پر زکوٰۃ کا مال صرف نہ کرنا چاہیے۔ لیکن جب زکوٰۃ کے مال سے اس کام میں مدد لینے کی ضرورت پیش آ جائے، تو پھر یہ تفریق کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ اسے فاسقوں پر صرف کیا جائے ،اور کافروں پر نہ کیا جائے، اس لیے کہ قرآن میں مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ رکھا گیا ہے، وہ ان کے ایمان کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ اس بنا پر ہے کہ اسلام کو اپنے مصالح کے لیے ان کی تالیف قلب مطلوب ہے، اور وہ اس قسم کے لوگ ہیں کہ ان کی تالیف قلب صرف مال ہی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے، یہ حاجت اور صفت جہاں بھی متحقق ہو وہاں امام المسلمین بشرط ضرورت زکوٰۃ کا مال صرف کرنے کا ازرائے قرآن مجاز ہے، علامہ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں:
((اقول، واذا کانت کلمة ’’المؤلفة قلوبھم‘‘ تشتمل الکافر والمسلم ففیھا دلیل علی جواز تالیف الکافر واعطائه من الزکوٰة)) (فقه الزکوٰة ص ۵۹۷ ج۲)
’’یعنی المؤلفۃقلوبہم کے الفاظ عام ہیں مسلمان اور کافر دونوں اس میں شامل ہیں، لہٰذا اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ زکوٰۃ کے مال سے کافر کی تالیف کی جا سکتی ہے۔‘‘
باقی رہی یہ بات کہ آنحضرتﷺ نے اگر اس مد سے کفار کو کچھ نہیں دیا، تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے پاس دوسری مدات کا مال موجود تھا، یہ بات نہیں تھی کہ آپ زکوٰۃ کے مال سے کفار کی تالیف قلب جائز نہیں سمجھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو آپ اس کی وضاحت فرما دیتے۔
حضرت علامہ وحید الزماں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، یعنی:
((ولا تدفع الی ذمیٍّ وحوبی الا للتالیف))  (کنز الحقائق ص ۴۶)
 ’’ذمی اور حربی کافر کو زکوٰۃ نہ دی جائے، ہاں تالیف قلب کے طور پر دی جا سکتی ہے۔‘‘
اب یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زیر بحث مصرف کے سلسلے میں مال صرف کرنے کا حق رب المال کو اپنے طورپر حاصل یہ یا یہ حق صرف امام المسلمین کا ہے کہ وہ اپنی صواب دید کے مطابق جہاں چاہے صرف کرے، سو اس میں علماء کے دو مسلک ہیں، ایک مسلک تو یہ ہے کہ یہ حق صرف امام المسلمین کا ہے، ہر شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے خیال کے مطابق جس کو چاہیے، تالیف قلب کے طور پر اپنی زکوٰۃ دے دے، جمہور امت کی یہی رائے ہے، علامہ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں:
((ان جواز التألیف وتقدیر الحاجة مرجعہ الی اولی الامر من المسلمین)) (فقه الزکوٰة ص ۶۰۸)
’’تالیف قلب اور اس کی ضرورت کا اندازہ لگانا یہ کام صرف مسلمانوں کے اولی الامر ہے (حکام) کا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ آنحضرتﷺ اور آپﷺ کے خلفاء میں اس کام کو سرانجام دیتے رہے ہیں، کیونکہ اس کا تعلق ہے بھی ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی سے بدیں وجہ یہ کام ہر شخص کے کرنے کا نہیں ہے، لیکن اگر کسی ملک کا نظام اسلامی نہ ہو یا زکوٰۃ اکٹھی کرنے کا اہتمام حکومت نہ کرے، تو پھر ایسے حالات میں وہاں کوئی دینی جماعت اگر اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے کر چلائے، تو بھی ٹھیک ہے، لیکن جہاں زکوٰۃ کے مال سے
کافر کی تالیف قبل کر سکتا ہے، یا نہیں اس سلسلے میں علامہ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں:
((الرأی عندی انه لا یجوز له ذالک الا اذا لم یجد مصرفا آخر)) (فقه الزکوٰة ص ۶۰۸ ج۲)
’’یعنی جب دوسرا کوئی مصرف موجود ہو تو پھر کافر کی تالیف قلب پر زکوٰۃ کو صرف کرنا جائز نہیں۔‘‘
ایسی صورت میں میری رائے یہ ہے کہ مثال کے طور پر بعض وہ مسلمان جو غیر مسلم ممالک میں رہتے ہیں، اور وہاں کوئی مسلمان آدمی زکوٰۃ کا مستحق نہ ملے، اور وہاں بعض غیر مسلموں کی تالیف قلب کر کے ان کے دل اسلام کی طرف اگر مائل کیے جا سکتے ہوں، تو ایسی صورت میں اگر کافر کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں، لیکن پھر بھی بہتر یہی ہے کہ ایسے مقامات میں زکوٰۃ کے فنڈ کو اسلام کی اشاعت پر خرچ کرنا چاہیے، شرح الازہار ص ۵۱۳ ج ۱ میں ہے:
((ان التالیف جائز للامام فقط لمصلحة۔ دینیة واما لغیرہ فلا یجوز))
’’دینی مصلحت کے لیے تالیف قلب کے لیے صرف امام المسلمین کا حق ہے، کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔‘‘
دوسرا مسلک یہ ہے کہ رب المال کے لیے بھی جائز ہے کہ تالیف قلب کے سلسلے میں از خود بھی زکوٰۃ کا مال صرف کر سکتا ہے، یہ رائے یہ فرقہ کے بعض لوگوں (؎۱) کی ہے۔ (فقہ الزکوٰۃ ص ۶۰۸ جلد نمبر ۲)
(؎۱) امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہی معلوم ہوتی ہے، دیکھئے السیل الجرار ص ۵۸ ج ۲ (ع، ح)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 336۔344

محدث فتویٰ

تبصرے