السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علمائے کرام مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات کتاب و سنت کی روشنی میں عنائت فرمائیں:
(۱) تبلیغ کا کام کسی جگہ کے مسلمان اگر جماعت بنا کر اور اس کا ایک امیر مشوروں سے انتخاب کر کے انجام دیں تو شرعاً کیسا ہے؟
(۲) فطرہ قربانی زکوٰۃ وغیرہ اموال کے حساب و کتاب کا مطالبہ عوام کی طرف سے جائز ہے یا نہیں، جو سردار حساب و کتاب کے رکھنے یا اس کے سمجھانے اور پیش کرنے سے انکارکرے، تو اس کو معزول کر کے دوسرا امیر منتخب کرنے کا عوام کو حق ہے یا نہیں؟
(۳) کیا اب تک خراسانی سلسلہ موجود ہے، اگر اس نام پر کوئی مسلمانوں سے کوئی رقم مانگے تو مسلمان اس کے ساتھ کیا سلوک کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) تبلیغ ایک نیک کام ہے، تمام انبیاء کی سنت ہے، عام مسلمانوںپر فرض کفایہ ہے، یہ کام انفراداً بھی کیا جا سکتا ہے، اور جماعت بنا کر بھی، جوکام جماعت کے ساتھ کیا جائے، شرعاً اس کا امیر مشورے سے منتخب کرنا ضروری ہے۔
(۲) بیت المال کا حساب و کتاب خلافت راشدہ میںرکھا جاتا تھا، جب تک آمد و خرچ کا حساب نہ رکھا جائے، انتظام اور عمدگی کے ساتھ کوئی کام انجام نہیں پا سکتا، جو شخص حساب رکھنے اور سمجھانے سے انکار کرے، اس کا معاملہ مشتبہ ہے، اور مشتبہ آدمی قوم کا سردار نہیں رہ سکتا۔
(۳) خراسان کا قیام سکھوں اور انگریزوں کے ظلم کو مٹانے کے لیے تھا، پنجاب میں نہ انگریزوں کی طاقت ہے، اور نہ سکھوں کی، جس علاقہ کو خراسان کا نام دیا جاتا ہے، وہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہے، اور یہ دونوں مسلمانوں کے ملک ہیں، اس زمانے میں اس نام سے کوئی کچھ مانگے تو مسلمان اس کو کچھ نہ دیں۔
(حررہ محمد اسرائیل نائب صدر المدرس مدرسہ اسلامیہ عبد اللہ پور سنتھال گڑھ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب