السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فنڈ زکوٰۃ وغیرہ اپنے گاؤں میں خود جمع کر کے انجمن اہل حدیث قائم کی جائے اور باہمی مشورے سے سالانہ آمدنی کا اندازہ کر کے اس جمع شدہ رقم بیت المال کو حسب ذیل مصارف پر خرچ کیا جائے تو زکوٰۃ ادا ہو سکتی ہے؟ جواب قرآن شریف اور حدیث مبارک سے ہو؟
(۱) ماتحت تنظیم توحید و سنت کی اشاعت بذریعہ تقریر و تحریر خصوصاً گمراہ فرقوں کی روک تھام جو اپنے نظام کے ماتحت مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
(۲) خرید کتب وغیرہ ، سامان انجمن، جن کتابوں سے اشاعت اسلام و تدریس طلبہ مقصود ہو۔
(۳) امداد طلبہ مقامی بذریعہ کتب، پارچہ جات و ضروریات خوراک وغیرہ جو طلبا علم دینیات حاصل کر رہے ہوں۔
(۴) ایسی انجمن کسی ایسے مدرسہ عربیہ کو جو قرآن و حدیث کی خدمت کر رہا ہو، امداد دیں۔
(۵) اسی صورت پر کسی ایسی انجمن اہل حدیث کی امداد جو جماعت کی تنظیم کی کوشش کر رہی ہو۔
نوٹ:… دوسرا طریق تمام سائلوں کو خود زکوٰۃ تقسیم کرنا جن کی حالت کا کچھ علم نہیں ہوتا ہے، ان میں کون سا طریق بہتر اور کار ثواب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں جو مصارف مذکور ہیں، ان میں سے فی سبیل اللہ بھی ہے، اس کی تفسیر میں اختلاف ہے، جہاد کے داخل ہونے پر تو سب متفق ہیں، حج فی سبیل اللہ میں داخل ہے، اس کی بابت ابو داؤد باب العمرہ میں صریح حدیث موجود ہے، اور نیل الاوطار کتاب الزکوٰۃ باب الصرف فی سبیل اللہ میں بعض اور رواتیں بھی ذکر کی ہیں، جن میں تصریح موجود ہے، کہ حج فی سبیل اللہ میں داخل ہے، اور بعض روایتوں میں عمرہ کی بابت بھی تصریح ہے، اگر عمرہ کی تصریح نہ ہوتی تو بھی عمرہ حج کے احکام میں تھا، لیکن روایتوںمیں تصریح آنے سے اور پختگی ہو گئی، بعض کہتے ہیں فی سبیل اللہ کا لفظ عام ہے، کوئی کار خیر ہو اس میں خرچ کر سکتے ہیں، تفسیر فتح البیان جلد نمبر ۴ ص ۴۲۴ میں ہے:
((وقیل ان اللفظ عام فلا یجوز قصرہ علیٰ نوع خاص ویدخل فیه جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتیٰ وبنا الجسور والحصون وعمارة المساجد وغیر ذلک والاوّل اولیٰ لا جماع الجمہور علیه))
’’یعنی کہا گیا ہے، کہ فی سبیل اللہ لفظ عام ہے، اس کو ایک قسم پر بند کرنا جائز نہیں، اور اس میں تمام کار خیر داخل ہیں، جیسے مردوں کو کفن دینا، پل بنانا، قلعے اور مسجدیں تعمیر کرنا وغیرہ اور پہلی صورت جہاد (مع حج) مراد ہونا، بہتر ہے، کیوں کہ اس پر جمہور کا اجماع ہے۔‘‘
تفصیر خازن جلد نمبر ۲ صفحہ ۲۵۴ میں ہے:
((وقال بعضھم ان اللفظ عام فلا یجوز قصرہ علیٰ الغزاة فقط ولٰھذا اجاز بعض الفقہاء صرف سھم سبیل اللّٰہ الیٰ جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتیٰ وبناء الجسور والحصون وعمارة المساجد وغیر ذلک قال لان قولہ وفی سبیل اللّٰہ عام فی الکل فلا یختص بصنف دون غیرہ والقول الاول ھو الصحیح الاجماع الجمہور علیه))
’’یعنی بعض نے کہا کہ لفظ عام ہے، پس اس کو صرف غازیوں پر بند کرنا جائز نہیں، اس لیے بعض فقہاء نے سبیل اللہ کا حصہ ہر کار خیر میں صرف کرنا جائز قرار دیا ہے، مثلاً مردوں کو کفن دینا، پل بنانا، قلعے اور مسجدیں تعمیر کرنا،وغیرہ، انہوں نے (یعنی فقہاء نے) کہا ہے کہ فی سبیل اللہ کا لفظ عام ہے، ایک قسم کے ساتھ بند نہیں ہو گا، اور پہلا قول صحیح ہے، کیونکہ اس پر جمہور کا اجماع ہے۔‘‘
تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ ۴۰۱۴ میں ہے:
((واعلم ان ظاھر اللفظ فی قوله وفی سبیل اللّٰہ لا یوجب القصر علیٰ کل الغزاة فلھذا المعنی نقل القفال فی تفسیرہ عن بعض الفقہا ان ھو اجاز واصرف الصدقات الیٰ جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتیٰ وبنا الحصون وعبارة المساجد لان قوله وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عامٌ))
’’یعنی اس بات کو جان لے کہ لفظ فی سبیل اللہ کا ظاہر عام ہے، غازیوں پر بند کرنے کو واجب نہیںکرتا، اسی وجہ سے قفال نے اپنی تفسیر میں بعض فقہاء سے نقل کیا ہے، کہ انہوں نے تمام امور خیر میں صدقات کا صرف کرنا جائز رکھا ہے، جیسے مردوں کو کفنانا، قلعے اور مسجدیں تعمیر کرنا۔‘‘
ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ لفظ فی سبیل اللہ عام ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض فقہاء اس طرف گئے ہیں، اگر اس پر کوئی عمل کرے، تو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا، مگر چونکہ زکوٰۃ فرضی صدقہ ہے، اس کو ایسی طرز پر ادا نہ کرنا چاہیے، جس میں تردد رہے، دیکھئے نماز میں جب شک ہو جاتا ہے، ایک رکعت پڑھی یا دو، تو حکم ہے کہ ایک رکعت پڑھے، تاکہ شک سے نکل جائے، پس زکوٰۃ بھی قرآن میں نماز کے ساتھ ذکر ہوئی ہے، اس لیے اس میں بھی احتیاط چاہیے! پس بہتر یہ ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد جہاد لیا جائے، یا حج عمرہ کیونکہ جہاد تو بالاتفاق مراد ہے، اور حج و عمرہ حدیث نے داخل کر دیا، باقی کے داخل کرنے میں شبہ ہے، لفظ اگرچہ عام ہے، مگر جیسا عام ہے، ویسا رکھا جائے، تو پھر فقراء و مساکین وغیرہ کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، حالانکہ اس آیت میں فقراء و مساکین وغیرہ کا الگ ذکر کیا ہے، اس لیے ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد خاص ہے، اور خاص بغیر دلیل کے مراد نہیں ہو سکتا، اور دلیل یا تو آیت ہے، یا اتفاق مفسرین ہے، جیسا جہاد کے مراد ہونے پر اتفاق ہے، یا حدیث اور تفسیر صحابہ رضی اللہ عنہم ہے، جیسے حج عمرہ مرد ہونے پر ہے، باقی کی بابت کوئی دلیل نہیں ہے، اور جہاد جیسا تلوار سے ہوتا ہے، ویسا ہی زبان سے بھی ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے:
((فمن جاهد ھم بیدہ فھو مؤمن ومن جاهد ھم بلسانه فھو مومن ومن جاھدھم بقلبه فھو مومن ولیس رواء ذلک حیة خردل من الایمان رواہ مسلم)) (مشکوٰة ص ۲۹)
’’یعنی جو ہاتھ سے ان کے ساتھ جہاد کرے، وہ مؤمن ہے، اور جو زبان سے ان کے ساتھ جہاد کرے، وہ مومن ہے، جو دل سے ان کے ساتھ جہاد کرے، وہ مومن ہے، اور اس کے ورے رائی برابر بھی ایمان نہیں۔‘‘
پس اس مناظرے اور اشاعت اسلام پر خرچ کرنا داخل ہو گیا، لیکن اس میں تھوڑی سی تفصیل ہے، وہ یہ کہ ایسی شے پر صرف نہ کرے، جو وقف ہو، جیسے مدرسہ کی عمارت، خرید کتب وغیرہ، چونکہ اس سے پھر وہی صورت پیدا ہو جائے گی، جس میں اختلاف ہے، جیسے مسجدوں اور قلعوںکا تعمیر کرنا، حالانکہ قلعے دشمن سے جنگ کرنے کے لیے اور اس سے حفاظت کے لیے بنائے جاتے ہیں، اور مسجدیں نماز و تعلیم کے لیے ہوتی ہیں، خاص کر قرآن و حدیث کا پڑھنا، پڑھانا مسجدوں ہی کے لائق ہے، اور قرآن و حدیث کاپڑھنا پڑھانا عین اشاعت اسلام ہے، مگر پھر بھی جمہور مفسرین اس کے خلاف ہیں، اس لیے زکوٰۃ کا مال مدارس کی بنا پر اور خرید کتب وغیرہ پر صرف ہونے پر ذرا شبہ ہے، اس میں احتیاط چاہیے، ہاں زکوٰۃ کی مد سے طلبہ کی امداد کی جائے، وہ اس سے کتب خریدیں یا کسی اور ضرورت میں خرچ کریں، تو بہت اچھا ہے، اسی طرح مدرسین کی تنخواہیں اور مناظرین اور مبلغین کا کرایہ اور دیگر اخراجات زکوٰۃ سے ادا ہو سکتے ہیں، لیکن اگر غنی ہو تو اس کو بچنا بہتر ہے، کیونکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اس طرف گئے ہیں، کہ جنگ میں زکوٰۃ وہی شخص لے سکتا ہے، جس کے پاس خرچ نہ ہو، پس جب جنگ میں غنی کی بابت اختلاف ہوا،تو تعلیم و تعلم کا معاملہ تو اس سے بہت نازک ہے، کیونکہ فی سبیل اللہ سے اصل مراد تو جنگ ہے، اور حدیث کی تصریح نے حج عمرہ کو بھی اس میں داخل کر دیا ہے، اور تعلم و تعلیم مناظرہ وغیرہ کی بابت تصریح نہیں آئی، صرف ایک قسم جہاد ہونے کی وجہ سے داخل کیاگیا ہے، اس لیے اس میں احتیاط برتنا چاہیے، اور غنی کو پرہیز رکھنا چاہیے۔ اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے:
﴿لِلْفُقَرَاءِ الّذِیْنَ اُحْصَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْباً فِی الْاَرْضِ الایة﴾
اس آیت سے پہلے صدقات کا ذکر ہے، پھر فرمایا ہے، یہ صدقات ان فقیروں کے لیے ہیں، جو اللہ کے راستے میں بند ہیں، زمین میں سفر نہیں کر سکتے، یعنی سودار گری وغیرہ نہیں کر سکتے (کیوں کہ سفر کرنے میں دین کا کام بند ہوتا ہے۔)
یہاں تو سوال کے پانچ نمبروں کا جواب ہوا۔ خیر نوٹ کا جواب یہ ہے کہ جو کام جماعت کی صورت میں ہو، وہ بالاتفاق بہت ہے، بلکہ اس کی بہت فضیلت ہے، اور جماعتی صورت میں کام ہونا یہ کسی مستحق سائل کو دینے سے مانع نہیں، بیت المال میں سب زکوٰۃ جمع کی جائے، اور اسی سے آئے گئے سائل کو بھی دے دیں، یہ بہت اچھی صورت ہے، مگر سائل مستحق ہو، اس کے غنی ہونے کا علم نہ ہو، آثار سے معلوم ہوا کہ وہ نیک ہے، کیونکہ زکوٰۃ مسلمان فقراء کی ضرورت کے لیے ہے، نہ بدمعاشوں کی بدمعاشی کے لیے، ایسوں کو کھلانے پلانے سے ان کی بدمعاشی بڑھتی ہے، حدیث میں ہے:
((تُوْخَذْ مِنْ اَغْنِیَائِ ھِمْ وَتُرَّدْ عَلیٰ فُقَراءِ ھِمْ))
’’یعنی مسلمانوں کے غنیوں سے لے کر ان کے فقیروں کو دی جائے۔‘‘
نیز زکوٰۃ ایک فرض ہے، جو خود بخود ادا کرنی پڑتی ہے، اس کے لیے یہ شرط نہیں کہ کوئی سوال کرے، تو دی جائے، اور جو شئے خود بخود دی جاتی ہے، اس میں نیک تلاش کرنا ضروری ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:
((لَا یَاْکُلْ طَعَامَکَ اِلَّا تَقِیٌ)) (مشکوٰۃ ص ۴۲۶ باب الحب فی اللّٰہ)
’’یعنی تیرا کھانا سوائے متقی کے اور نہ کھائے۔‘‘
مشکوٰۃ باب الانفاق صفحہ ۱۶۵ میں ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص نے چور اور رنڈی (کنجری) پر اور غنی پر صدقہ کیا، بعد میں اس کو پتہ لگا تو افسوس کیا، خواب میں اس کو دکھائی دیا کہ تیرا صدقہ خالی نہیں گیا، شاید چو ر چوری سے، رنڈی (کنجری) زنا سے باز آجائے، اور غنی عبرت پکڑے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ زکوٰۃ بدمعاش کا حق نہیں، ورنہ صدقہ کرنے والے کو اپنے صدقہ کے ضائع ہونے کا افسوس نہ ہوتا، اور خواب میں تسلی کی ضرورت نہ پڑتی۔
بعض لوگ دروازے دروازے لقمہ لقمہ مانگے والوں کو زکوٰۃ دیتے ہیں، وہ بڑی غلطی کرتے ہیں، کیوں کہ ایسے سائل اکثر بے دین ہوتے ہیں، نیز ایک غلطی اور کرتے ہیں، وہ یہ کہ سال بھر زکوٰۃ گھر میں بند رکھتے ہیں،او رتھوڑی تھوڑی آئے گئے کو دیتے ہیں، خدانخواستہ اگر درمیان سال میں موت آ گئی، تو زکوٰۃ اپنی زندگی میں ادا نہ ہوئی، اور یہ فرض ذمہ رہ گیا، اگر بیت المال میں دے دی جائے، تو ا سکی طرف سے ادا ہو گئی، پھر خواہ آہستہ آہستہ ہی خرچ ہو، بہرصورت بیت المال والی صورت بہت عمدہ ہے، جس میں بہت فوائد ہیں، اور شبہ سے خالی ہے۔
تنبیہ:… بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مال میں صرف زکوٰۃ اللہ کا حق ہے، اور نہیں، حالانکہ قرآن و حدیث سے اور بھی حق ثابت ہے، مشکوٰۃ میں ہے:
((عن فاطمة بنت قیس قالت قال رسول اللّٰہ ﷺ ان فی المال لحقا سوی الزکوٰة ثم تلا لَیْسَ البِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ الایة)) (رواہ الترمذی وابن ماجة والدارمی۔ مشکوٰة فضل الصدقة فصل ۲ ص ۱۶۱)
’’یعنی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے، پھر آیت لَیْسَ البِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ (الایة) پڑھی‘‘
اس آیت میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی مسکینوں محتاجوں کو دینے کا ذکر ہے، پس معلوم ہوا کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ تھوڑی ادا نہ کرنی چاہیے، کیونکہ اس آیت و حدیث میں زکوٰۃ کے علاوہ جس حق کا ذکر ہے، یہ وہی ہے جو موقع بموقع آ پڑتا ہے، جیسے کوئی سائل آ گیا، یا کسی مسافر کودینا پڑ گیا، یا کسی پر ناگہانی مصیبت پڑگئی، تو اس کی امداد ضروری ہو گئی یا کسی بھوکے کو کھانا کھلانا پڑا۔ غرض اس قسم کی مدات کے لیے شریعت نے زکوٰۃ کے سوا مال میں حق رکھا ہے، کیونکہ معلوم نہیں کہ ایسی صورت کب آ پڑے، اگر زکوٰۃ پاس رکھ کر سال میں تھوڑی تھوڑی دینی جائز ہوتی تو پھر زکوٰۃ کے سوا مال میںحق رکھنے کی ضرورت نہ تھی، اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ فوراً دے دینی چاہیے، پاس نہیں رکھنی چاہیے، ہاں بیت المال میں زکوٰۃ کا جمع رہنا اس حدیث کے خلاف نہیں، کیوںکہ بیت المال تو کسی خاص جگہ میں ہوتا ہے، اور ایسی صورتیں عموماً ہر جگہ پیش آتی رہتی ہے، جن کے لیے بیت المال میں جمع ہونا کفایت نہیں کرتا، پس ضرور ہوا کہ زکوٰۃ کے سوا بھی مال میںحق ہو، تاکہ ان ضرورتوں کو متکفل ہو۔
اس کی مثال ایسی ہے، جیسے آج کل کی حکومتوں نے کہیں معاملہ لگا رکھا ہے، کہیں ٹیکس لیتی ہے، کہیں چنگی کا قانون جاری ہے، کہیں اسٹامپ فروشی اور سکہ فروشی ہے، اس قسم کی خاص عام بہت سے مدات ہیں، جن سے حکومت پیسہ وصول کرتی ہے، لیکن اسلامی احکام کی بناء پر محض ہمدردی ہے، اور موجودہ زمانہ میں عموماً ہر سلطنت میں پیٹ پر دری زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی جگہ طلائی یا نقرائی کوئی دفینہ مل جائے تو اس کی حق دار سرکار بن جاتی ہے، اور اسلامی قانون کے مطابق اس کا پانچواں حصہ بیت المال میں جاتا ہے، جو یتیموں اور مسکینوں کے کام آتا ہے، اور باقی چار حصے پانے والے کو دئیے جاتے ہیں۔
اسی طرح کا خون ہو جائے، یا کوئی اور نقصان پہنچ جائے، تو اس کا مالی جانی فائدہ سرکار کو ہے، قاتل پر مقدمہ چلایا جاتا ہے، جیل میں جائے، یا جرمانہ ہو، ہر صورت میں سرکار کا گھر بھرتا ہے، برخلاف اسلامی روایات کے ان میں اولیاء مقتول کا اختیار ہے، خواہ معاف کر دیں، یا دیت (مالی معاوضہ) لیں یا قتل کریں، اسلامی حکام نسب اسی قسم کے ہیں، یہی وجہ ہے کہ خلیفہ یا امیر المؤمنین اپنی ذاتی ضرورتوں میں عام مسلمانوں کی طرح سادہ رہتا ہے، اور دیگر حکومتیں اپنی من مانی کاروائی کرتی ہے۔
(عبد اللہ امر تسری روپڑی، دارالعلوم جامعہ اہل حدیث لاہور) (تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۱۳ شمارہ نمبر ۲۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب