السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(ا) ایک مولوی صاحب لوگوں سے ہزاروں روپیہ زکوٰۃ لے کر ایک کتاب تالیف و طبع کرکے مفت تقسیم کرتے ہیں، عام متمول لوگوں کو، اور کچھ تھوڑی سی غرباء کو بھی۔ کیا یہ امیر لوگ وہ کتاب مفت لے سکتے ہیں، اور کیا زکوٰۃ کا یہ مصرف صحیح ہے؟
(ب) نیز ایک مولوی صاحب نے لوگوں سے قربانی کے چمڑے وصول کرکے اس رقم سے لاؤڈ سپیکر خرید لیا، اور اپنے قبضہ میں کر لیا، لاؤڈ سپیکر کی قیمت سولہ روپیہ ہے، کیا قربانی کی کھالوں کا یہ مصرف صحیح اور موافق حدیث پاک ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(ا) زکوٰۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے اور حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ حج و عمرہ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ (ملاحظہ ہو تنظیم جلد نمبر ۴ ص ۳۶) صورت مسئولہ فی سبیل اللہ میں داخل نہیں، کیونکہ اگر وہ کتاب بطور وقت اغنیاء کو دی جاتی ہے، تو زکوٰۃ کا وقف کرنا ثابت نہیں، اور اگر بطور ملک اغنیاء کو دی جاتی ہے، تو غنی کو زکوٰۃ دینی جائز نہیں، بہرحال صورت مسئولہ ناجائز ہے۔
(ب) قربانی کی کھالوں کے متعلق حدیث میں ہے، کہ نبی اکرم ﷺ نے حج کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ قربانی کے چمڑے وغیرہ خیرات کر دے، لاؤڈ سپیکر وقف چیز ہے، جس سے امیر غریب سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس لیے یہ صورت بھی جائز نہیں، ہاں قربانی کی کھال بعینہٖ کسی امیر(غنی) کے دے دے تو جائز ہے، جیسے قربانی کا گوشت امیر کو دینا جائز ہے، فروخت کر کے پیسے نہ خود کھا سکتا ہے، نہ امیر کو دے سکتا ہے، سوال میں جو لکھا ہے کہ مولوی صاحب نے لاؤڈ سپیکر قبضہ میں کر لیا ہے، اس قبضہ سے مراد اگر تولیت ہے، اور لاؤ ڈسپیکر وقف ہے، تو اس کا جواب ہو چکا ہے، اور اگر ملکیت ہے تو پھر بھی جائئز نہیں کیونکہ کھالیں اس خاطر نہیں دی گئیں، ہاں اگر وہ غریب ہے، اور لوگوں نے کھالیں غریب سمجھ کر دی ہیں، اور لاؤڈ سپیکر خریدنے اور قبضہ میں رکھنے سے مطلب اس کا یہ ہے کہ کرایہ پر دے کر فائدہ اٹھائوں تو یہ جائز ہے، اگر غنی ہے تو اس کا جواب بھی ہو چکا کہ غنی کے لیے قیمت جائز نہیں، تفصیل کے لیے تنظیم کے وہ پرچے جن میں مسائل قربانی میں ملاحظہ ہوں۔(تنظیم اہل حدیث جلد ۱۶ شمارہ ۲۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب