السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محمودہ کے تین لڑکے اور لڑکی جن کی عمریں چھ سے بارہ سال تک ہیں، احمد کی زیر نگرانی ہیں، محمودہ کی کچھ جائیداد اور تھوڑا سے زیور تھا، جس کو محمودہ خود مرنے سے قبل ان بچوں کے نام تقسیم کر چکی ہے، جس کی آمدنی احمد ان بچوں کی نگرانی پر خرچ کرتا ہے، اور زیور ان بچوں کی شادی میں دے دیا جائے گا، احمد چاہتا ہے، کہ اس زیور کی زکوٰۃ دی جائے، کیونکہ ان بچوں کی آمدنی اتنی ہے کہ جس سے زکوٰۃ ادا ہو سکتی ہے، مگر زید کہتا ہے کہ احمد ان بچوں کا نگران اور ان کے مالوں کا محافظ ہے، علاوہ ازیں چھوٹے ہیں، جن پر کوئی چیز مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ فرض نہیں، اس لیے احمد کو ان زیوروں پر زکوٰۃ دینے کا حق نہیں، کیا زید کا کہنا ٹھیک ہے؟ جواب مدلل ہو۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو لوگ یتیم کو غیر مکلف ہونے کی وجہ سے مامور بالزکوٰۃ نہیں سمجھتے، ان کی دلیل راجح سمجھتا ہوں، زیور میں جن علماء کے نزدیک واجب نہیں،میں ان سے متفق ہوں، سوال میں زیور کے متعلق دریافت کیا گیا ہے۔ (اہل حدیث امر تسر ۴ نومبر ۱۹۳۶ء)
شرفیہ:… یتیم کے مال کی زکوٰۃ میں حدیث مرفوع صحیح نہیں، صحابہ میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، اور امام مالک رضی اللہ عنہ، امام شافعی رضی اللہ عنہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کو جامع ترمذی میں قائلین میں لکھا ہے اور سفیان ثوری عبد اللہ بن مبارک کو مانعین میں۔ (مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی) (فتاویٰ ثنائیہ ص ۴۴۰ جلد اول)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب