السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زکوٰۃ کے متعلق اللہ اور اس کے رسول نے کیا حکم دیا ہے، کس طرح ادا کرنی چاہیے، اکثر لوگ زکوٰۃ کو اور صدقۃ الفطر کو اپنے ہاتھ سے مصارف کو تقسیم کرتے ہیں، اور مصارف بھی جو خدا اور رسول نے نہیں بتائے، ان کو دیا جاتا ہے، جیسے ہمیشہ گھر گھر مانگنے والے کرتے ہیں، کوئی دیتے ہیں، دو آنے کسی کو چار آنے کسی کو روپیہ اس طرح کر کے تقسیم کرتے ہیں، تو ایسے لوگوں کی یہ زکوٰۃ و صدقہ عند اللہ مقبول ہوئے کہ نہیں، قرآن و حدیث سے بدلیل جواب ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زکوٰۃ، صدقہ الفطر امام یا اس کے نائب کے حوالہ کرنا چاہیے؟ (فتاویٰ ستاریہ جلد نمبر ۱ ص ۶۸)
تشریح:… سائل کا منشاء یہ ہے کہ جو لوگ زکوٰۃ، صدقہ وغیرہ از خود تقسیم کرتے ہیں، وہ عند اللہ مقبول ہے یا نہیں، قرآن اور حدیث سے بیان فرما دیں، لیکن مفتی علیہ الرحمۃ نے صرف اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، اور دلائل سے مستفتی کی تشفی نہیں کی، اس مسئلہ کی تفصیل ’’بعنوان مال زکوٰۃ از خود تقسیم کرنا افضل ہے، یا سردار اور رئیس اعظم امیر المؤمنین کی طرف ارسال کرنا ضروری ہے، سیدنذیر حسین علیہ الرحمۃ نے قرآن اور حدیث سے مسئلہ کی وضاحت فرمائی ہے۔ ارجع الیہ (الراقم علی محمد سعیدی جامعہ سعیدیہ خانیوال ۷۱۔۲۔۲۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب