السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حج میں زکوٰۃ کا مال دینا درست ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں ایک مصرف زکوٰۃ کا فی سبیل اللہ ہے، فی سبیل اللہ سے جہاد مراد ہے، بعض نے اس کو عام رکھا ہے، روضۃ الندیہ میں ہے: فی سبیل اللہ سے عام مراد ہے، اور صحیح بخاری میں ہے:
((ویذکر عن عابن عباس یعتق من زکوٰة ماله ویعطی فی الحج وقال الحسن ویعطی فی المجاهدین والذی لم یحج۔ ویذکر عن ابی الآس حملنا اللنبی ﷺ علی اهل الصدقة للحج انتہیٰ))
اور فتح الباری میں ہے:
((وعن احمد واسحق الھج من سبیل اللّٰہ اخرجه ابو عبیدہ باسناد صحیح انتہیٰ))
حاصل یہ کہ حدیث ابی الآس اور قول عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، امام حسن بصری، امام احمد اور امام اسحاق کے نزدیک حج فی سبیل اللہ میں داخل ہے، امام بخاری بھی جواز کے طرف مائل ہیں، کیونکہ اس کے معارض کوئی اثر نہیں لائے، اور حج پر اطلاق جہاد صحیح ہے، چنانچہ امام بخاری کتاب الحج میں لائے ہیں:
((وقال عمر شد والرجال فی الحج فانه ٗ احد الجہادین وعن عائشه رضی اللّٰہ عنھا ام المؤمنین انہا قالت یا رسول اللّٰہ نری الجہاد افضل العمل افلا تجاهد قال لا لکن افضل الجہاد حج مبرور)) (نیک محمد مدرس مدرسہ غزنویہ امر تسر) (الاعتصام جلد نمبر۳ شمارہ نمبر۶ ، ۷ ستمبر ۱۹۵۱ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب