السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع تین ایک شخص محمد حسین نامی کے متعلق جو کہ حضرت بابا فرید الدین چشتی پاک پٹنی کی اولاد سے ہے وہ اہل اسلام کے عقیدہ کے خلاف تناسخ کا قائل ہے اور اپنی دورخ بیانی کو اس نے بابا فرید الدین گنج شکر کی طرف منسوب کر رکھا ہے اس نے اپنے رسالہ سیف فریدی مطبوعہ دبیر ہندواقع امرتسری شہر ص ۶۱ پر یہ اشعار بابا فرید الدین کے نام شائع کئے ہیں جو کہ اس کے دعوائے باطلہ تناسخ پر دلالت کرتے ہیں علماء وفضلاء کے۔۔۔لیے ان شعار کو نقل کیا جاتا ہے تاکہ اس کے باطل عقیدے سے معلوم ہو لیکن۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پس بینوا توجرو! از جواب این مسئلہ تناسخ کہ بابا فرید صاحب بحسب تحریر محمد حسین پاک پٹنی بعد از وفات دو مرتبہ اندرین جہاں فانی بذریعہ والدین دیگر تولید یافتہ اند مرتبہ اول پیدا شد ندکا بنام شیخ ابراہیم کہ سجادہ نشین پاک پٹن بود موسوم گردید ند، ومرتبہ دوم بعد شش صد سال درخانہ تاج محمود چشتی پاک پٹنی ظہور تولید یافتنہ د محمد حسین نام نہاد ندو این محمد حسین مانند مرزا غلام احمد قادنای در کتاب اسرار عترت فریدی خویش بکذب نویسی از قادیانی سبقت بردہ است این سائل را مسرور وممتاز فرمانید وجوابش بروایات کتب معتبرہ تحریر نمانید بندہ سائل سید حسن شاہ بخاری النقوی ساکن موضوع پانہ مہار ڈاک خانہ بصیر پور تحصیل دیپال پور ضلع ساہیوال معروضہ ۲۹ ماہ ربیع الثانی ۱۳۲۰ھ واقف مقائق معقول ومتقول کاشف وقائق فروع واصول مظہر حسنات مصدر برکات برہان المتکلمین شمس العلماء قمر الفقہاء زبدۃ الاوائل والا واخر عالی جناب مولی القاب مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب بابحاہ والمعالی وابقاکم اللہ تعالیٰ علی مفارق المسلمین الی یوم الدین این خاکسار راجی الی رحمہ اللہ سید حسن علی شاہ بخاری نقوی بخدمت اقدس آنجناب پس از تبلیغ اسلام ہدیہ سنت جناب حضرت خیر الانام علیہ السلام واشتیاق زیارت التماس پزیر میشود کہ مولوی رشید احمد گنگوہی ودیگر علماء فقط برنفس مسئلہ مذکورہ اکتفا فرمودہ جواب تناسخ تحریر نمودہ اندر عبارت فاضل گنگوہی این است
الجوب تعدد تو لد کہ مبنی بر تناسخ است نزد اہل سنت والجماعت باطل است ونسبت آن بحضرت شیخ یعنی بابا فرید گنج پاک پٹنی رحمہ اللہ محض افترا است ومدعی این نسبت واین مذہب محض جاہلی است تصدیق دعواش نار داست واقوالش محض خطاء ازا نجاکہ مسئلہ تناسخ درجملہ کتب کلام مزین است وکذب این بیان باشارات آیات واحادیث میں وبندہ بوجہ معزوری چشماں از نقل روایات مجبور لہٰذا بر نفس مسئلہ اکتفا کردہ شد۔ واللہ تعالیٰ اعلم بندہ رشید احمد گنگوہی عفی عنہ ۔(رشید احمد)
’’اس مسئل کا تناسخ کا جوبا دیا جائے خدا آپ کو جزائے خیر دے کہ بابا فرید صاحب محمد حسین پاک پٹنی کی تحریر کے مطابق وفات کے بعد دو مرتبہ اس جہاں فانی میں بذریعہ دوسرے والدین کے پیدا ہو چکے ہیں پہلی مرتبہ جب وہ پیدا ہوئے تو شیخ ابراہیم سجادہ نشین پاک پٹن کے نام سے موسوم ہوئے اور دوسری مرتبہ چھ سو سال کے بعد تاج محمود چشتی پاک پٹنی کے گھر پیدا ہوئے۔ اور اب ان کا نام محمد حسین رکھا گیا ہے اور اس محمد حسین نے مرزا غلام احمد قادنای کی طرح اپنی کتاب اسرار عترت فریدی میں اس قدر جھوٹ بولے ہیں کہ غلام احمد قادیانی سے بھی سبقت لے گیا ہے اب آپ اس سائل کو مسرور وممتاز فرائیں اور رویات معتبرہ سے اس کا جواب تحریر کریں بندہ سائل سید حسن شاہ بخاری نقوی ساکن موضع پانہ مہار ڈاک خانہ بصیر پور تحصیل بصیر پور ضلع ساہیوال معروضہ ۲۹ ماہ ربیع الثانی ۱۳۲۰ھ معقولات ومنقولات کے حقائق سے واقف اصول وفروع کی باریکیوں کو کھولنے والے نیکوں کے منبع برکات کے مصدر متکلمین کے راہنما علماء کے سورج فقہائے کے چاند اولین وآخرین کے خلاصہ عالی جناب بلند القاب سید محمد نذیر حسین صاحب خدا تعالیٰ ان کی بلند اقبال زندگی کو مسلمان کے لیے قیامت تک باقی رکھے ان کے جاہ ومرتبہ کے سایہ کو ان کے سروں پر قائم رکھے یہ خساکسار اللہ تعالی کی رحمت کا امیدوار سید حسن علی شاہ بخاری تقوٰ آنجناب کی خدمت میں یہ ہدیہ سنت خیر الانام علیہ التمیۃ والسلام یعنی سلام اور اسٹیاق زیارت کے بعد ملتمس ہے کہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور دیگر علماء نے فقط نفس مسئلہ پر اکتفا کر کے تناسخ کا جواب ارسال فرمایا ہے فاضل گنگوہی کی عبارت یہ ہے الجواب کئی بار دینا میں پیدا ہونا جس پر کہ تناسخ کی بنیاد ہے اہل سنت والجماعت کے نزدیک باطل ہے اور حضرت شیخ یعنی بابا فرید گنج پاک پٹنی کی طرف اس کو منسوب کرنا سراسر بہتان ہے اور اس نسبت اور س مذہب کا محض محسن جاہل ہے۔ اس کے دعویٰ کی تصدیق کرنا ناجائز ہے اس کے اقوال بالکل غلط ہیں کیونکہ تناسخ کیونکہ تناسخ کے مسئلہ کو علم کلام کی تمام کتابوں میں بیان کیا گیا ہے اوراس بیان کا جھوٹ ہونا آیات واحادیث سے صاف ظاہر ہے اور بندہ آنکھوں مجبور کی وجہ سے روایات نقل کرنے سے معذور ہے لہٰذا نفس مسئلہ پر اکتفا کیا گیا ہے واللہ اعلم بندہ رشید احمد گنگوہی ۔‘‘
جواب:ہوا لملہم للصوب منکرین قیامت وبعث وحشر دو قسم کے ہیں ایک تو وہ جن کا عقیدہ وقول یہ ہے کہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہونا نہیں ہے، نہ قالب اول میں اور نہ قالب آخر میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ان کے اس عقیدہ وقول کو بیان فرتا ہے:
﴿اِِنْ هِیَ اِِلَّا مَوْتَتُنَا الْاُوْلٰی وَمَا نَحْنُ بِمُنشَرِیْنَ﴾
’’یعنی بس ہماری پہلی موت ہے جو ہم مرے بس پھر ہم زندہ ہو کر اٹھنے والے نہیں ہیں۔‘‘
اور دوسرے مقام پر فرمایا ہے:
﴿هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ﴾
’’یعنی ہماری پس دنیا ہی کی زندگی ہے پھر ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔‘‘
اور دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو تناسخ کے قائل ہیں جن کا عقیدہ ومقولہ ہے کہ ہم اسی دنیا میں زندہ ہوتے ہیں پھر مرتے ہیں کبھی قالب اول میں مرکر زندہ ہوتے ہیں اور کبھی قالب آخر میں اس دنیا کی زندگی کے سوائے اور کوئی زندگی ہماری نہیں ہے اللہ تعالیٰ سورہ جاثیہ میں ان کے عقیدہ ومقولہ کو بیان فرماتا ہے:
﴿وَقَالُوْا مَا هِیَ اِِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا اِِلَّا الدَّہْرُ ۔۔۔۔۔۔﴾
’’ہماری یہ صرف دنیا ہی کی زندگی ہے ہم مرتے ہیں اور زندہ ہوتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے۔‘‘
اور سورہ مومنوں میں فرماتے ہیں:
﴿هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ﴾
’’یعنی ہماری پس دنیا ہی کی زندگی ہے پھر ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔‘‘
چونکہ یہ دونوں قسم کے منکرین قیامت کا انکار حیات اخروی میں ہم عقیدہ ومتفق اللسان ہیں اس لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دو قسم کے لوگون کا ایک طریقہ پر جواب دیا ہے :
﴿قُلْ اللّٰہُ یُحْیِیکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾
’’یعنی کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہی تم کو زندہ کرتا ہے پھر تم کو مارے گا پھر تم کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس میں کچھ شک نہیں ہے۔ لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔‘‘
اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ دنیا کی زندگی کے بعد مرنا ہے پھر مرنے کے بعد قیامت کے دن سب کو زندہ ہو کر جمع ہونا ہے، پس اس سے قیامت ہی کے دن اٹھنا ہے، بنا علیہ اس آیت نے دونوں قسم کے منکرین کی صاف تردید کر دی ہے سورہ طٰہٰ میں فرماتا ہے:
﴿مِنْہَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْرٰی﴾
’’یعنی ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور اسی میں تم کو پھر لوٹائیں گے۔اور اسی سے پھر دوسری بار تم کو نکالیں گے۔‘‘
اس آیت نے بھی دونوں قسم کے عقیدہ ومقولہ کو صاف باطل کر دیا، اور تناسخ کو بھی صاف اڑا دیا۔ سورہ البقرۃ میں فرماتا ہے:
﴿کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ﴾
’’یعنی کیونکر تم اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم مردے تھے، سو اس نے تم کو زندہ کیا پھر تم کو مارے گا پھر جلائے گا پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
سورہ یٰس میں فرماتے ہیں:
﴿وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَه قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَهِیَ رَمِیْمٌ o قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِیْ اَنشَاَهَا اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّهُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ﴾
’’اس کافر نے ہماری لیے مثال بیان کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا آپ کہہ دیں کہ ان کو وہ اللہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور وہ پیدائش کے تمام طریقے جانتا ہے۔‘‘
قرآن مجید میں اس مضمون کی بہت سی آیات ہیں جن سے تناسخ کا بطلان آفتاب کی طرح روشن ہے ۔
تناسخ کا بطلان ان احادیث سے بھی ثابت ہے جن سے صدقات اور خیرات وحج وصیام وغیرہ کا ثواب میت کو پہنچنا ثابت ہے ، کیونکہ اگر ایسا ہوتا کہ بقلب قوالب لوگ زندہ ہی رہا کرتے تو ان پر نہ میت کا اطلاق ہوتا اور نہ ثواب پہنتا، نیز ان احادیث سے بھی تناسخ کا بطلان صاف ظاہر ہوتا ہے جن سے عذاب قبر ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر لوگ قالب بدل بدل کر دنیا میں زندہ رہا کرتے تو عذاب قبر کس پر ہوتا ، دنیز قیامت کے دن صور کی آواز سے تمام لوگ اپنے مرقد سے یعنی قبروں سے نکل کر میدانِ محشر میں جمع ہوں گے۔
قال اللہ تعالیٰ:
﴿وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَاِِذَاهُمْ مِنَ الْاَجْدَاثِ اِِلٰی رَبِّہِمْ یَنسِلُوْنَ o قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَاهٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ﴾
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا:نر سنگا پھونکا جائے گا تو وہ تمام اپنی قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف سرکنے گے اور کہیں گے ہائے افسوس ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا یہ وہ دن ہے جس کا رحمن نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ فرمایا تھا۔‘‘
پس قائلین تناسخ کے عقیدہ کے مطابق تمام لوگ دنیا ہی میں بقلب قوالب زندہ رہا کرتے تو قیامت کے قبروں سے اٹھے گا کون تناسخ کے بطلان پر یہ چند دلیلیں قرآن وحدیث سے مختصراً نقل کی گئی ہیں علاوہ ان کے قرآن وحدیث میں بہت سی دلیلیں موجود ہیں:
’’ولکن فی هذا القدر عبر الاولی الالباب‘‘
ہاں میں نے بمقابلہ قرآن وحدیث کے دلائل عقلیہ سے اعراض کیا۔ واللہ اعلم بالصواب حررہ عبدالوہاب عفی عنہ ، سید نذیر حسین
ہو الموفق: تناسخ کا بطلان قرآن مجید کی اس آیت سے نہایت صریح اور صاف طور پر ثابت ہے سورہ مومنون میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿حَتّٰی اِِذَا جَاءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِی o لَعَلِّی اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا اِِنَّہَا کَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَّرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ﴾
یعنی یہاں تک کہ جب ان میں س یکسی کو موت آئے تو کہتا ہے اے میرے رب مجھے دنیا میں پھر لوٹا دو اور پھیر دو شائد کہ میں اچھا عمل کروں، اس چیز میں جو چھوڑ آیا ہوں ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے کہ اس کا وہ کہنے والا ہے اور ان کے آگے ایک پردہ ہے جو ان کو پھر دنیا میں لوٹ آنے سے مانع ہے اس دن تک جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے یعنی قیامت تک۔‘‘
’’اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس دن وہ قبریں سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے گویا کہ وہ اپنے ۔۔۔کی فطر ڈو رہے ہوں گے۔‘‘
مولانا شاہ عبدالقادر صاحب اس آیت کے فائدہ میں لکھتے ہیں معلوم ہوا یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ آدمی مر کر پھر آتا ہے سب غلط ہے، قیامت کو اٹھیں گے اس سے پہلے ہرگز نہیں انتہی کتبہ محمد عبدالرحمن عفی اللہ عنہ ، فتاویٰ نذیریہ جلد اول ،ص ۲۴،۲۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب