سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(163) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا ہے؟

  • 3946
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1169

سوال

(163) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فتویٰ ہے کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا ہے وہ جھوٹا ہے اور دلیل آیت:

﴿لا تُدرِکهُ الاَبصَار﴾

یعنی اس کو آنکھیں دیکھ نہیں پاتیں۔‘‘

پیش کی ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت انس رضی اللہ عنہم کا مسلک یہ ہے کہ ’’ راٰیْ محمد ربہ‘‘ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کودیکھا) اور دلیل اس کی آیت (قاب قوسین او ادنی) ’’ دو کمان قدر بلکہ اس سے نزدیک تر ہو گیا) پیش کی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس آیت سے مراد جبریل علیہ السلام لیتے ہیں۔

جو لوگ جو از رویت کے قائل ہیں وہ آیت ’’ لا تدرکه الابصار‘‘ کا معنی’’ ہو الاحاطۃ باشئی وہو قدر زائد علی الرویۃ‘‘ کے کرتے ہیں’’ شئے کا حاطہ جو رویت سے زائد چیز ہے) لیکن

’’لفجوا فی واصحاب عوف بامراد من غیرہ ‘‘ (فتح :جلد ۳،مصریصفحہ ۲۹۱)

آیت کی مراد سے زیادہ واقف ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی دلیل عدم جواز رویت کے لیے قوی ہے اور حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو کہ مرفوع ہے اس میں یہ لفظ:

’’فیقال له هل رأیت اللہ فیقول ما ینبغی لاحد ان یراللہ)) ( مشکوٰة: ص ۲۶)

’’اس کو کہا جائے گا کیا تو نے خدا کو دیکھا ہے پس کہے گا کسی کو لائق نہیں کہ خدا کو دیکھئے۔‘‘

بھی قول عائشہ رضی اللہ عنہا کی تقویت کرتی ہے۔ غرض یہ ہے کہ آپ ان تمام اولہ پر غور فرما کر اصلی حقیقت سے آگاہ فرمائیں؟(عبداللہ لائل پوری)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں صحابہ کا اختلاف مشہور ہے ایک طرف حضرت عائشہ، حصرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہ ہیں دوسری طرف عبداللہ بن عباس وغیرہ ہیں، لیکن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:’’ راہ بفوادہ‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو اپنے دل سے دیکھا ہے۔

دل کے دیکھنے سے بظاہر کشف مرا د ہے اس صور ت میں صحابہ میں اختلاف نہیں رہتا کیونکہ جو انکار کرتے ہیں وہ رویت بصری سے انکار کرتے ہیں اگر بالفرض اختلاف تسلیم کر لیا جائے تو اس کا فیصلہ مرفوع حدیث سے ہونا چاہئے۔

’’فلما اختلف الصحابة وجب الرجوع الی المرفوع‘‘ (فتح الباری: جزء ص ۴۸۶)

’’جب صحابہ کا اختلاف ہو گیا تو مرفوع کی طرف رجوع واجب ہوا اور مرفوع حدیث سے عدم رویت ہی ثابت ہوئی ہے۔‘‘

ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

‘‘میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے فرمایا:

’’نور عنی اواہ‘‘( مشکوٰة : باب رؤیة اللہ تعالیٰ)

’’ نور ہے میں کس طرح دیکھ سکتا ہوں۔‘‘

جو حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال میں ذکر کی ہے وہ بھی اس کو مؤید ہے پس ترجیح اسی کو ہے ، کہ دنیا میں خدا کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔( عبداللہ امرتسری روپڑانبالہ۸صفر۱۳۵۹ مطابق ۱۷ مارچ۱۹۴۷ء فتاویٰ روپڑی: جلد اول، صفحہ ۲۰۳،۲۰۴)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 360

محدث فتویٰ

تبصرے