سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(162) اولیاء الرحمان اور اولیاء الشیطان میں فرق

  • 3945
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2019

سوال

(162) اولیاء الرحمان اور اولیاء الشیطان میں فرق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

احقر کو چند ایک شبہات نے ورطۂ اضطراب میں ڈال رکھا ہے،یہ جب میرے دماغ میں انتہائی صورت میں مستحکم ہوتے ہیں تومیرا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے مبادا میں کہیں ہلاک ہو جاؤں، آپ میری پوری تشفی فرمائیں۔ ہمارے علاقہ میں ایک آدمی موسوم مہر شاہ گذارا ہے جس کی کرامات بین طور پر آج بھی ظاہر ہیں جن کا شیطانی اولیاء سے ظہور پذیر ہونا ناممکن ہے اور یہ شخص شریعت کا سخت دشمن تھا ، شراب نوشی کا عادی افیون کا رسیا، غرضیکہ کل منشیات اس کا معمول تھا، نماز ، روزہ ادا کرنا تو کجا بلکہ اس کی مخالفت کرتا تھا، کتوں کے ساتھ اکٹھا بیٹھ کر کھانا کھایا کرتا تھا، اس کے بغیر کھاتا ہی نہ تھا۔خواہ کتنے روز فاقہ کشی کرنی پڑے۔ اب میں اس کی کرامات سلسلہ وار بیان کرتا ہوں۔

کرامت نمبر ۱:

پیر مہر شاہ ایک گاؤں سے گذر رہا تھا، دو عورتوں نے اسے آگھیرا اور بہت منت سماجت کی کہ ہمارے گھر اولاد نہیں ہمیں اولاد دو پیر صاحب نے اردگرد دیکھا تو ایک کاغذ نظر پڑا اس کو اٹھا کر ویسے ہی ایک کوئلہ سے لکھنے لگا، اور دو تعویذ تیار کیے اور دونوں تعویذ اکٹھا کرتے وقت پھٹ گئے اور ایک ایک کر کے دونوں عورتوں کو بانٹ دئیے اور کہا جاؤ تمہارے گھر سال کے اندر ایک ایک لڑکا پیدا ہو گا مگر ایک ایک آنکھ سے اندھے ہوں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ دونوں لڑکے موجود ہیں جو اس وقت جوان ہیں پیر کی زندہ کرامت دنیا دیکھ رہی ہے اور اس نے کہا تھا تعویذ پھٹنے کی وجہ سے کانے ہوں گے، فافہم

کرامت نمبر ۲:

پیر صاحب مذکور ایک آدمی کے ہاں وارد ہوئے اور اس کو کہنے لگے، مجھے دودھ پلاؤ اس نے نہایت عاجزی سے عرض کی پیر جی میری بھینس بھی حاملہ ہے جب جنے گی تو پلاؤں گا پیر صاحب خاموش ہو کر چلے گئے ،چند دنوں کے بعد پھر پیر صاحب تشریف لائے تو اس کی بھینس سوئی ہوئی تھی اس نے پیر صاحب کو سیراب کر کے دودھ پلایا، تو پیر صاحب نے دعا دی کہ جاؤ تمہارے گھر بھینس ہمیشہ مادہ ہی جنا کریں گی اور بہت بڑھیں گی، چنانچہ آپ اس کے پاس چالیس بھینس ہیں اور مادہ ہی جنتی ہیں اس کے بعد کسی بھینس نے آج تک ایک نر بھی نہیں جنا۔ فافہم

کرامت نمبر ۳:

ایک مرید پیر صاحب کے پاس آیا ور کہا فلاں گھر میری منگنی (نسبت) ہوئی ہے اور وہ مجھے اب رشتہ نہیں دیتے پیر صاحب ان کے گھر گئے۔ انہوں نے نہ مانا پیر صاحب نے بددعا دی کہ تمہاری لڑکی کو بے صبری کر دے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب وہ زندہ ہے زنا کرنے سے سیراب ہی نہیں ہوتی جب دیکھو بازاروں میں پھرتی نظر آتی ہے۔ فافہم!

کرامت نمبر ۴:

ایک گاؤں میں پیر صاحب گئے وہاں مچھر بہت کاٹتے تھے لوگوں نے شکایت کی پیر صاحب نے کہا مکانوں کے اندر سویا کرو، مچھر نہیں کاٹیں گے، چنانچہ اب تک ایسے ہی ہوتا ہے جب لوگ اندر سوتے ہیں تو مچھر نہیں کاٹتے جب باہر سوتے ہیں مچھر ویسے ہی کاٹتے ہیں۔

اسی طرح اور بہت سے واقعات خوارق، عادت ہیں جن کو میں چھوڑتا ہوں یہ چند بطور مشتے از خرارے پیس کر دئیے ہیں خدا کے دشمنوں سے ایسی کرامتوں کا ظہور پذیر ہونا کیا حکمت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلیات جو مقرر شدہ ہیں غلط ہیں؟ مفصل لکھین اس میں کیا حکمت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ خدا کے فضل سے قرآن وحدیث سے واقف ہیں پھر ایسے تو ہمات میں کس طرح پڑ گئے قرآن مجید میں اولیاء اللہ کی علامت یہ نہیں بتلائی کہ ان سے خرق عادات صادر ہوں، بلکہ ان کی علامت ایمان ،تقویٰ اور پرہیزگاری بتلائی ہے ارشاد ہوتا ہے:

﴿اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَاهُمْ یَحْزَنُوْنَo الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ﴾ (۱۱،۱۲)

’’اولیاء اللہ کو کسی قسم کا خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کھائیں گے اولیاء اللہ وہ ہیں جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے تھے۔‘‘

آیت کریمہ نے اس مسئلہ بالکل صاف کر دیا کہ ولایت کا معیار ایمان اور تقویٰ ہے نہ کہ خرق عادات اگر کرق عادت سے ولایت حاصل ہو سکتی ہے تو پھ ردجال سب سے فوق المرتبہ ولی ہے کیونکہ آسمان وزمین اس کے تابع ہوں گے ، زمین کو سبزہ اگانے کا حکم دے گا وہ سبزہ اگائے گی، آسمان کو حکم دے گا وہ بارش برسائے گا، زمین کے خزانے اس کے پیچھے اس طرح چلیں گے جیسے شہد کی مکھیاں ایک طرف کو اکٹھی ہو کر جاتی ہیں جن پر چاہے گا قحط سالی کر دے گا جن پر چاہے گا خوش حالی کر دے گا، جنت دوزخ اس کے ساتھ ہو گا باوجود اس کے وہ اشد کافر ہے اور خدا کاد شمن ہے عیسیٰ اس کو اپنے ہاتھ سے قتل کریں گے۔

جو خرق عادات آپ نے ذکر کی ہیں، دجال کے مقابلہ میں وہ کسی گنتی میں نہیں، ایک آدھ کرق عادت کسی سے ہو جائے یا کوئی پیش گوئی درست نکل آئے تو دجال سے بہت کم ہے، جب وہ خدا کا دشمن ہے تو دوسرا شرع کے خلاف چلنے والا محض خرق عادات سے کس طرح ولی ہو سکتا ہے؟

مشکوٰۃ وغیرہ میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ،جن شیاطین زمین سے آسمان تک ایک دوسرے پر کھڑے ہو جاتے ہیں جب آسمان میں خدا کوئی فیصلہ کرتا ہے جو اہل زمین سے متعلق ہوتا ہے جیسے کسی کی موت وحیات کسی کی ہدایت ضلالت یا امیری غریبی یا اسی قسم کا کوئی اور فیصلہ تو فرشتے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا فیصلہ کیا اس موقعہ پر جن شیاطین کوئی بات سن لیتے ہیں اور زمین میں کاہنوں کے کانوں میں ڈال دیتے ہیں ، اس کے ساتھ بہت سے جھوٹ ملا دیتے ہیں آسمانی بات تو من وعن صحیح ہو جاتی ہے اس کے ساتھ جھوٹ بھی سچ سمجھے جاتے ہیں حالانکہ شریعت کی رو سے کاہن کافر ہیں اس س یصاف معلوم ہوا کہ خرق عادت پر ولایت کا مدار نہیں، ہاں ایمان اور پرہیزگاری کے بعد اگر کسی کے ہاتھ سے ایسا معاملہ ظاہر ہو جائے تو یہ اس کی کرامت ہے ،اگر شریعت کا پابند نہیں اور پھر اس کے ہاتھ پر دجال کی طرح خرق عادت ظاہر ہو جائے، یا کاہنوں کی طرح اس کی پیش گوئی پوری ہو جائے یا خبر صحیح ہو جائے تو یہ کرامت نہیں بلکہ اس کو استدراج کہتے ہیں، یعنی آہستہ آہستہ پکڑنا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر خدائی انعام پورا ہو رہا ہے اور درحقیقت وہ بوجہ سرکشی کے دوزخ کے قریب ہو رہے ہیں چنانچہ قرآن مجید میں ہے:

﴿سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ (۹؍۱۲)

’’ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسے طریق سے پکڑتے ہیں کہ ان کو خبر نہیں ہوتی۔‘‘

اس کے علاوہ اکثر اس قسم کے قصے جھوٹے اور مصنوعی ہوتے ہیں، ان کی اصلیت کچھ نہیں ہوتی، ڈاڑھی منڈے فقیر شرع کے مخالف ایسے قصے جوڑ جوڑ کر لوگون کو گمراہ کرتے ہیں، عوام کا لانعام سن سن کر فریفتہ ہو جاتے ہیں‘ آپ خود ہی اندازہ کر سکتے ہیں کہ گدھی کے ساتھ بدفعلی کا قصہ کیسا افتراء ہے ایسا فعل کر کے بھی پیر بنا رہے، اور اس کی دعا بھی تیربہدف ہو ، ایسے قصہ کی عامی سے عامی بھی تصدیق نہیں کر سکتا، آپ کے لیے یہ خطرہ کا باعث کس طرح بن گیا۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا خاص اس موضوع پر ایک رسالہ ہے اس کا نام ہے’’ الفرقان بین الاولیاء الرحمن واولیاء الشیطان‘‘ اس کا اُردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے وہ منگا کر ضرور مطالعہ کریں۔( عبداللہ امرتسری فتاویٰ اہلحدیث روپڑی: جلد اول، صفحہ ۱۹۸)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 360

محدث فتویٰ

تبصرے