السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کا اثر ہو گیا تھا چنانچہ بخاری شریف مصری باب السحر جلد ۴ صفحہ ۱۵ مسلم شریف باب السحر ۲ صف ۲۲۱ اور نیل الاوطار مصری باب جاء فی حدالساحر جلد ۷ ص۱۴۷ ،میں مفصل احادیث مسطور ہیں۔
بکر کہا ہے کہ اپنا مطلب سیدھا کرنے کے لے یہ بھی گھڑ لیا گیا ہے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی یہودن نے سحر کیا تھا اور آپ نعوذ باللہ مسحور ہو گئے تھے۔ العیاذ باللہ پیغمبر علیہ السلام پر سحر کا عمل ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسحور ہو جائیں یہ کس طرح ممکن ہے؟
(۱)۔ زیر اور بکر میں کون حق پر ہے؟
(۲)۔ کیا اس کو انکارِ حدیث کہہ سکتے ہیں جب کہ بکر کو حدیث بھی دکھائی گئی ہو اور وہ تسلیم نہ کرے۔
(۳)۔ اس کے ساتھ اقتداء بالصلوٰۃ کا کیا حکم ہے۔
(۴)۔اس کے اس رسالہ کے پڑھنے کے متعلق کیا حکم ہے جس میں اس نے اسی موضوع پر بحث کی ہو چنانچہ خط کشیدہ عبارت اس کے رسالہ مذکورہ کی ہے۔
(۵)۔ ﴿اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا﴾(بنی اسرائیل)
اس کا کیا جواب ہے؟ بینوا بالدلیل توجروا عند اللہ الجلیل۔ ( المستفتی: قاضی محمد نواز ساکن واجل ضلع ڈیرہ غایزخاں( پنجاب)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو لوگ بخاری کی حدیث سے انکار کرتے ہیں ان کی بڑی دلیل یہ آیت ہے:
﴿اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا﴾(بنی اسرائیل)
’’یعنی کفار کہتے ہیں تم نہیں اتباع کرتے مگر ایک جادو کیے گئے کی۔‘‘
آیت وحدیث میں کوئی تعارض نہیں، کفار کی مراد مسحور سے دیوانہ ہے، جس کی عقل ٹھکانے نہ ہو اور حدیث بخاری میں حافظہ پر اثر مراد ہے چنانچہ حدیث میں تصریح ہے:
«حتی انه لیخیل الیه انه فعل الشئی وما فعله»
’’یعنی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوتا کہ میں نے فلاں کام کر لیا ہے اور درحقیقت کیا نہ ہوتا۔‘‘
ان الفاظ سے دو باتیں ثابت ہوئیں ایک یہ جادو کا اثر حافظہ پر تھا عقل پر نہ تھا کیونکہ کام کرنے نہ کرنے کے متعلق یاد نہ رہنا یہ حافظہ کا کام ہے اور حافظہ اور عقل دو قوتیں الگ الگ ہیں دیکھئے بچپن میں حافظہ قوی ہوتا ہے اور عقل کم اور معمر ہو کر عقل بڑھ جاتی ہے اور حافظہ میں فرق آجاتا ہے۔ پس حافظہ پر اثر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ عقل پر بھی اثر ہو۔
دوسری بات ان الفاظ سے یہ معلوم ہوئی کہ حافظہ پر اثر سے بھی یہ مراد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ قرآن مجید بھول گیا ہو اس طرح کا کوئی اور نقصان ہو گیا ہو بلکہ یہ صرف اس حد تک تھا کہ جزوی فعل میں کبھی بھول چوک ہو جاتی اور جزوی فعل میں بھول چوک معمولی بات ہے۔ مثلاً نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی دفعہ رکعتیں بھول گئے اور فرمایا’’ انسیٰ کما تنسون‘‘ یعنی جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔‘‘
بتلائیے ! یہ بھولنا کوئی دین میں نقصان دہ تھا پس اگر جادو کے اثر سے عام بولنے کی نسبت کسی قدر زیادہ بھول چوک ہو جاتی ہو تو یہ بھی دین کے منافی نہیں‘ بلکہ بعض روایات میں اس جزوی فعل کی تعیین بھی آئی ہے۔ فتح الباری میں ہے۔
((قد قال بعض الناس ان المراد بالحدیث انه کان صلی اللہ علیه وسلم یخیل انه وطئی زوجاته ولم یکن وطئن وهذا کثیراً یا یقع یخیله فی الانسان فی المنام فلا یبعدان یخیل الیه فی الیقظة قلت وهذا قل ورد صریحاً فی روایة ابن عیینة فی الباب الذی یلی هذا ولفظه حتی کان یری انه یاتی النسآء ولا یاتیہن وفی روایة الحمیدی انه یاتی اهله ولا یاتیہم ۔)) ( فتح الباری باب الجزء ۲۴ ،ص۴۳۵)
’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں مراد یہ ہے کہ آپ کو اپنی بیویوں کے پاس جانے کا خیال آتا مگر آئے نہ ہوتے اور ایسا خیال خواب میں بہت آتا ہے پس بیداری میں بھی کوئی بعید نہیں میں( صاحب فتح الباری) کہتا ہوں کہ جو کچھ بعض نے حدیث کی مراد بیان کی ہے یہ بعض روایتوں میں صریحاً آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیویوں کے پاس آنے کا خیال آتا مگر آئے نہ ہوتے۔‘‘
اور فتح الباری کے اسی صفحہ میں ہے!
(( وفی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما عند ابن سعد مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم واخذ عن النساء والطعام والشراب فہبط علیه ملکان)) ( الحدیث)
’’ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور عورتوں اور کھانے پینے سے روکے گئے پس آپ پر دو فرشتے اترے( جنہوں نے جادو کرنے والے کا نام اور جن اشیاء میں جادو کیا اور جہاں ان کو دفن کیا سب بتلا دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اشیاء کو نکلوایا خدا نے شفاد ے دی۔)
اور فتح الباری میں اس سے چند سطر پہلے ایک روایت کے یہ الفاظ ذکر کئے ہیں:
’’حتی کاد ینکربصرہ‘‘
’’یعنی جادو کے اثر سے قریب تھا کہ آپ کی بصارت میں فرق آجائے۔‘‘
ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ جادو کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن پر ایسا ہی ہوا تھا جیس یظاہری امراض سے بدن میں کمزوری آجاتی ہے اور اعضاء ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور اشیاء وغیرہ بند ہو جاتی ہیں۔
رہا عقل اور سمجھ کا معاملہ اور وحی تبلیغ کا سلسلہ اس میں کوئی فرق نہیں آیا اسی لیے فرشتے اترے اور انہوں نے سب کچھ بتا دیا یہاں تک کہ خدا نے شفا دے دی، اگر وحی میں فرق پڑ جاتا تو فرشتے کس طرح اترتے ؟ پس واقعہ نبوت کے منافی نہیں بلکہ یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی مزید تائید ہے۔
فتح الباری میں ہے:
((وقع فی مرسل عبدالرحمن بن کعب عند ابن سعد فقالت اخت لبید بن الاعصم ان یکون نبیا فسیخبر والا فسیذهله هذ السحر حتی یذهب عقله )) ( فتح الباری: جزء ۲۴، ص ۴۳۵)
’’عبدالرحمن بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں لبید بن اعصم( یہودی جس نے جادو کیا تھ ااس) کی بہن نے کہا اگر یہ نبی ہو گا تو اس کو خدا کی طرف سے اطلاع مل جائے گی ( کہ فلاں نے جادو کیا اور فلاں شئے میں کیا اور فلاں جگہ دفن کیا) اور اگر نبی نہ ہوا تو یہ جادو اس کی عقل کو نقصان پہنچائے گا، یہاں تک کہ اس کی عقل کو لے جائے گا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چونکہ وحی ائی اور فرشتے آئے، اور سب حال کھول کر بتلا دیا کہ فلاں شخص نے جادو کیا اور فلاں فلاں شئے میں کیا اور فلاں کنوئیں میں دفن کیا۔ چنانچہ بخاری وغیرہ میں اس کی تفصیل ہے تو لبید بن اعصم کی بہن کے قول کے مطابق یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہوا اور یہ بالکل ایسا ہے جیسے جنگ خیبر کے موقعہ پر آپ کو زہر دینے والی یہودیہ عورت نے بھی یہی کلمے کہے تھے اگر یہ نبی ہو گا تو اس کو زہر نقصان نہیں دے گا یعنی اس سے ہلاک نہیں ہو گا ورنہ بدنی تکلیف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہوئی اور ہمیشہ رہی یہاں تک کہ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سے وفات پائی مگر چونکہ یہ وفات آپ کی خلاف معمول معجزانہ تک میں تھی کیونکہ عادت کے مطابق تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی وقت ہلاک ہو جانا چاہیے تھا جب کہ زہر دیا گیا نہ کہ کوئی سالوں کے بعد جب کہ نبوت کا مقصد پورا ہو چکا ، نیز اسی گوشت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی جس میں زہر ملایا گیا تھا پس جیسے یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے ایسے ہی جادو کا واقعہ ہے۔‘‘
ناظرین خیال فرمائیں کہ جادو کرنے والے دشمن تو اس واقعہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل بناتے ہیں اور آپ کے نام لیوا کلمہ گو مسلمان اس کو نبوت کے منافی سمجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ انا للہ سچ ہے۔
من از بیگا نکاں ہرگز نہ نالم
کہ بامن ہرچہ کردآں آشنا کرد
ایسے لوگوں سے بالکل قطع تعلق چاہیے اور امامت وغیرہ سے ہٹا دینا چاہیے مومن کی یہ شان نہیں کہ صحیح احادیث کا انکار کرے۔( عبداللہ امرتسری روپڑی فتاویٰ روپڑی:جلد اول، صفحہ ۱۸۴،۱۸۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب